میرا پہلا تجربہ

 میرا پہلا تجربہ



یہ ایک ایسی کہانی ہے جو حقیقت پہ مبنی ہےشاید کسی کو یقین نہ آئے۔ یہ کہانی ایسے ماحول سے جڑی ہے جہاں حضرت لوط کی قوم بہ سر جہکا لیتی فرق اتنا ہے وہ سر عام کرتے تہے اور یہاں چھپ کے۔

یہ تب کی بات ہے جب میں صرف پانچویں میں پڑہتا تہا۔ اس وقت مجہے سیکس کے بارے میں کافی کچھ پتا تھا اب آپ حیران ہونگے کہ صرف دس سالا بچے کو سیکس کا کیسے پتہ۔ تو جناب ماحول سب سکھا دیتا ہے۔

میری پیدائش سندھ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں ہوئی ہے، بہت خوبصورت گائوں ہے ہر طرف ہریالی ساتھ میں بہتی نہر۔ گرمیوں میں زمین کا ٹہنڈا پانی اور سردیوں میں اسی زمین کے گرم پانی سے نہا کر مزا آجاتا ہے۔ لوگ بہت ہی سلجہے ہوئے اور بااخلاق پڑہے لکہے۔ پردے کے لحاظ سے سخت کٹر۔ شاید یہی وجہ تہی کہ لوگ مخالف سمت چل رہے تہے۔ اس وقت لونڈیبازی کو کنوارےلڑکے ایسے کرتے تہے جیسے کوئی اسکول کی اسائنمینٹ کرنی ہو۔ جس میں پرائمری سے لیکر کالج تک کےلڑکے ملوث تہے۔ ایسا بہی نہیں تہا کہ یہ کام سرعام ہو۔ بڑوں کو اگر اس بات کی بھنک بہی پڑتی تہی تو شامت آجاتی تہی۔ لیکن شاید انکو بہی پتہ تہا کہ اگر آگ لونڈوں پہ نہی بجھے گی تو خمیانہ لڑکیاں بھگتیں گی اسی لئے وہ بہی کوئی سخت سزا نہیں دیتے تہے۔ جس وجہ سے لڑکیاں 95% بچ جاتی تہیں۔

اب مجہے اتنی چہوٹی عمر میں کیسے سیکس سے آچھنائی ہوئی، اس میں میرے کزن انوالو تہے، جو ہر وقت کسی گانڈو کی تلاش میں ہوتے تہے، ویسے ہمارے گائوں میں ایک سے ذیادہ گانڈو تہے لیکن میں ایک کو ہی جانتہ تھا۔ یہ کام اکثر ہماری بیٹھک میں ہوا کرتا تھا۔ یہ بیٹہک مہمان خانہ تہا جو گہر سے تہوڑا دور تہا۔ اس میں دو کمرے اور باتھروم تہا جو سہن میں تہا۔ میرے کزن اکثر اس گانڈو کو گہیر کر لاتے تہے اور دو تین ملکر بجاتے تہے۔ کبہی پیسے دیتے تہے کبہی مفتے میں ہی بچارا مارا جاتا تہا۔ مجہے جہاں سے یاد ہے میں نے پہلی مرتبہ چدائی فورتھ میں دیکہی تہی۔ جب میں اسکول سے واپس آرہا تھا تو بیٹہک سے کچھ آوازیں آرہی تہیں میں نے سوچا دیکھکر آتا ہوں کون ہے وہاں۔ بیٹہک کے کمرے کی ایک کھڑکی باہر سہن کی طرف کہلتی تہی جس میں ہلکے ہلکے سوراخ تہے۔ میں نے جیسے ہی ان سوراخوں سے اندر دیکہا تو وہ ہی گانڈو جس کا نام عارف تہا اس پہ میرا کزن غصہ کر رہا تہا اور بار بار کہ رہ تہا کہ اپنی شلوار اتارو۔

میرے کزن کا نام زبیر تہا۔

زبیر۔ عارف شلوار اتارو اور مجہے چودنے دو۔

عارف۔ نہیں تم نے اس دن بہی مجے پیسے نہیں دیے تہے۔ ابہی پیسے ہاتھ پہ رکھو تو چودنے دونگا نہیں تو میں جا رہا ہوں۔

زبیر۔ بہن کے لوڑے پہلے کیا تیرے پیسے کہا گیا ہوں، کل دے دوں گا اب تنگ نہ کر اور چودنے دے

عارف۔ قسم اٹہائو کہ دوگے نہیں تو میں تمہارے ابو کو تمھاری شکایت کروں گا۔

زبیر۔ یار قسم سے دیدونگا۔

عارف۔ چلو ٹھیک ہے یاد رکہنا بات کو۔

اب عارف نے اپنی شلوار اتاری

عارف کی عمر اس ٹائم بارہ سال ہوگی دبلہ پتلہ سانولا کلر تھورا لمبہ سا۔ گانڈ مرواکر اس کی ہپس  موٹی ہوگئیں تہی۔ آپ بولیں گے بارہ سال کا کیسے ہوگا تو جناب بارہ سال کا ہی تہا۔ کیوں کہ وہ مجہہ سے دو سال ہی بڑا تہا۔

زبیر گورا سا لڑکہ تہا پندرہ سال کا ہوگا، ہیلتہی باڈی تہی۔ اس نے بہی فورن اپنی شلوار اتاری اور کمیس کو اوپر کاندہوں پہ کردیا۔ اس کا لن کوئی پانچ انچ ہوگا اور سلم لن تہا بلکل سیدہا۔

زبیر۔ عارف میرا لن چوسو

عارف۔ یار جلدی چودو کوئی آ نہ جائے۔

زبیر۔ یار چوس کہ گہیلا تو کرو نہ

عارف نے جلدی سے ہاتھ سے پہلے زبیر کے لن کی مذی کو صاف کیا اوراپنے موں میں ڈالنے لگ گیا۔ عارف نے پہلے زبیر کے لن کے ٹوپے کو چاٹہ پھر لن اندر تک لے گیا۔ اب عارف آہستہ آہستہ لن کو اندر باہر کر رہا تہا جس سے ہلکی سی آوازیں نکل رہی تہیں جو شاید عارف کی تہوک کی بن رہی تہی۔ عارف نے کچھ دیر زبیر کا لن چوسا اور ڈوگی اسٹائیل میں زمین پر بیٹھ گیا۔ زبیر نے اپنا لن عارف کی گانڈ پہ فٹ کیا اور زور سے گہسا مارا جس سے عارف کی چیخ نکل گئی۔

عارف ۔ یار آرام سے ڈالو مجہے درد ہورہا ہے

زبیر۔ ہاں ہاں کرتا ہوں آہستہ بہن کے لوڑے۔

اب کی بار اس نے لن نکال کر عارف کی گانڈ پہ تہوک ڈالا۔ اس کی گانڈ کا سوراخ اتنا ٹایئٹ تو نہیں تہا لیکن دکہنےمیں اچہا لگ رہا تہا۔ اب زبیر نے اپنا لن گانڈ پہ فٹ کر کے ہلکا سا پچھ کیا تو لن آدہا اس کی گانڈ چلا گیا جس سے عارف سییییییی کی آواز نکالی۔ اب زبیر نے آہستہ آہستہ گہسے مارنہ شروع کیے۔ قفیب دس منٹ تک زبیر نے اسی رفتار سے گہسے مارے اور اچانک ہی اس کی رفتار تیز ہوگئی۔ اب عارف کی بہی آوازیں شروع ہوگیئں

عارف۔ زبیر آہستہ اووووون ہممممممم یار

زبیر اب پوری طاقت سےسے گہسے مار رہا تہا اپنا پورا لن جڑ تک ڈال رہا تہا۔

زبیر۔ ہمممممم گانڈو میں چہوٹ رہا ہوں یہ کہ کر اپنی رفتار اور تیز کردی کچھ گہسوں کہ بعد ہی زبیر نے تین چار جھٹکے لیے اور اور عارف کی پیٹھ پر لیٹ گیا۔ عارف نے اس کو ہٹایا اپنی کمیس اوپر کرکے کپڑے سے گانڈ صاف کرنے لگ گیا۔

یہ سب دیکہہ کر مجہے عجیب سا ڈر لگنا شروع ہوگیا۔ اور میں فورن ہی وہاں سے بہاگ گیا۔


میں جلدی سے گہر ایا اور کمرے میں چلا گیامیرے ذہن میں بہت سارے سوالات تہے۔

آخر وہ لوگ کیا کر رہے تھےاور زبیر اپنی للی کیوں اس میں ڈال رہا تھا۔ زبیر کی للی کا سوچ کر مجہے عجیب محسوس ہو رہا تہا مین نہ فیل کیا کہ میری للی میں تہوری سی حرکت ہورہی ہے میں نے شلوار تھوڑی نیچے کی اور اپنی للی کو دیکھنے لگ گیا۔

میری للی اس ٹائم دو ڈھائی انچ کی تہی۔ میں نے دیکھا کہ للی ہلکے سے جھٹکے لے رہی ہےاور جیسے کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہو۔ مجہے عجیب سا محسوس ہو رہا تہا۔ میں سوچ رہا تہا آخر وہ لوگ کیا کر رہے تھے۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ ۔مجھے آواز آئی علی جاکر نہالو اور آکر کھانا کھائو۔ میں اچانک ہی چونکہ اور جلدی سے بولا جی امی جا رہا ہوں۔

میرا نام علی صفدر ہے اور گھر میں مجھے سب علی بلاتے ہیں۔ گھر میں میں پانچویں نمبر پے ہوں۔ تھوڑا سا معصوم لیکن شارپ سا لڑکا ہوں۔ ہمیشہ سیکھنے کی جستجو ہوتی ہے۔ اس لیے جو چیز بھی نئی دیکھتا فورن پوچھتا یہ کیا ہے۔ لیکن اس بارے میں کس سے پوچھتا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی، میں جلدی سے اتھا اور نہانے چلا گیا۔ باتھروم میں جاکر کپڑے اتارے اور اپنی للی کو دیکھنے لگ گیا۔ اب یہ بیٹھی ہوئی تہی میں نے للی کو  ہاتھ سے تہوڑا مسلا اور. پانی کی موٹر چلادی۔ جب زمین کا ٹھنڈا پانی ڈائریکٹ میرے سر پر پڑا تو مزا آگیا۔ میں نہا کر کمرے میں آیا تو امی نے کھانا لگا دیا تھا۔ میں کھانا کھاکر سو گیا۔

شام کو اٹھا اور جلدی سے اسکول کا ہومورک پورا ۔ کیا اور باہر کھیلنے چلا گیا۔ شام کے پانچ ہو رہے تھے۔ ہمارا گرمیوں کا یہی روٹین تہا شام چار بجے اٹھنا اپنا اسکول کا کا کام پورا کرنا اور کھیلنے چلے جانا۔ لیکن مغرب سے پہلے ھر حال میں گھر واپس آنا ہوتا تھا۔

میں باہر گیا تو میرا کزن سھیل جو مجھ سے ایک سال بڑا تہا لیکن تہا میرا قریبی دوست۔ میں نے سوچا سھیل سے پوچھتا ہوں اس بارے میں۔ سھیل نے مجھے آتا  دیکھ کر جلدی آئو یار گیم کھیلنے چلیں۔ میں نے بولا یار آج موڈ نہیں چلو کہیتوں کا رائونڈ مارکر آتے ہیں پہلے تو وہ غصے میں دیکہا پھر بولا چلو ٹھیک ہے چلتے ہیں۔ میں نے اسکا ہاتھ پکڑا اورجھولتا ہوا واک پہ نکل گئے۔ ہمارا یہی اسٹائل ہوتا تہا گھومنے کا۔ گھروں سے تھوڑا دور نکل آئے تو میں نے سھیل سے پوچھا یار زبیر بھائی آج عارف کو اپنی للی چسوا رہے تھے اور عارف کے پیچھے بھی ڈال رہے تھے۔ سہیل نے یہ سن کر جلدی سے بولا سچی!!!! بڑا حرامی ہے زبیر اکیلا مال کھال رہا ہے۔ میں نے بولا سہیل وہ کیا کر رہے تھے۔

سہیل۔ یار وہ اسکو چود رہا تہا

میں نے فورن بولا اچھا ایسے چودتے ہیں۔ میرے لیے لفظ چودنا نیا نہیں تھا کیوں کہ بڑے لڑکے اکثر ہی ایک دوسرے کو یہی گالی دیتے تھے کہ میں تجھے چود دونگا۔ تیری گانڈ میں لن ڈالوں۔ یہ جملے میرے لیے نئے نہیں تہے۔

سہیل۔ ہاں یار ایسے ہی چودتے ہیں۔ وہ گانڈو عارف ہی تو سب کو دیتا ہے پیسے لیکر۔

مینے بولا تمھیں کیسے پتہ

سہیل۔ یار میں بہی کبھی کبھار  ہوتا ہوں بیٹھک میں۔

تو تم نے بھی چودہ ہے عارف کو؟۔

سہیل۔ نہیں یار حرامی مجہے نہیں کرنے دیتے۔

اور ویسے بھی ان کے لن بہت بڑے ہوتے ہیں اور میرا چھوٹا ہے۔ بس ایک بار عارف نے میرا لن چوسا ہے۔

میں نے بولا تو تمھیں مزا آیا؟

سہیل۔ ہاں یار تھوڑا سا مزا آیا تھا۔

اب ہم کہیتوں میں کافی دور پیڑون کے سائے میں بیٹھ گئے۔

میں نے بولا یار مجھے بھی چودنا ہے۔

سہیل۔ نہیں یار  کسی کو پتہ چلا تو مار پڑے گی۔

یار زبیر بہائی جو کر رہا تہا اسکو مار نہیں پڑی۔

سہیل۔ چلو کچھ کرتے ہیں۔ یار تمہاری للی کتنی بڑی ہے؟ دکھائو تو مجھے۔

میں تھوڑا سا کنفیوز ہوا لیکن میں نے شلوار نیچے کردی اسکو اپنی للی دکھانے لگ گیا۔ اس نے تھوڑا سا دیکھا اور پھر میری للی پہ ھاتھ پھیرنے لگ گیا۔ مجھے عجیب محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے اپنی شلوار اوپر کی اور اسکو بولا چلو یار چلتے ہیں۔ وہ تھوڑا سا شرماتے ہوئے بولا ہمیں پتہ نہیں کب موقع ملے گا۔ میں بولا یار ہم بہی بڑے ہوکر عارف کو چودیں گے۔ تو وہ ہنس پڑا اور ہم واپس آگئے۔ اب مجھے ہروقت عارف کی چدائی یاد آتی تھی اور میں سوچتا تھا کب میں اسکو چودوں گا۔ اسی  طرح دن گذرتے گئے۔ مین اور سہیل اکثر چدائی پہ باتیں کرتے تھے وہ مجھے کچھ نہ کچھ بتاتا رہتا تہا اور میرا لن بھی ھاتھ میں لیتا تھا جس سے مجہے کافی مزا اتا تھا۔ کبھی کبھی میں بھی سہیل کے لن کو پکڑلیتا تھا اور اسکے لن اور اپنے لن کا سائز چیک کرتا تھا۔ ہمارا لن تقریبن برابر ہی تھا۔

ایک دن ہم کچھ کزنس اپنی  بیٹہک میں لڈو گیم کہیل رہے تہے، یہ گرمیوں کہ دن تہے دن کے 3 بج رہے تہے، ہمارے ہاں گرمیوں میں لوگ دن کو سوجاتے ہیں اور پہر شام کو چار بجے کہ بعد ہی اٹہتے تہے، کیوں کے گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے وہاں  اس ٹائم تو کام کچہ بہی نہیں ہوتا تھا اس لئے سب اپنے گھروں میں ہوتے تھے۔ ہم چار لڑکے تھے جو چوری چھپے گیم کھیلنے آگئے تھے جو پہلے سے ہم نے طئہ کیا ہوا تہا۔ گیم کے دوران عامر میرا کزن جس کی عمر :16 سال تہی ہم سب سے بڑا تہا بولا یار زبیر عارف ہوتا تو مزا آجاتا۔ زبیر بھائی نے اسکو آنکھ ماری جو میں نے دیکھلی۔ زبیر بولا گیم پورا کرکے علی اور سہیل تم دونون گھر جاکر سوجائو اگر ابا کو پتہ چل گیا کہ تم دونوں اس ٹائم باہر ہو تو مار پڑے گی۔

 

 

 

قسط نمبر 3

میرا پہلا تجربہ

یہ سن کر میں نے بولا عامر بھائی میں نہیں جائوں گا

عامر۔ ارے یار تم جائو اگر تمہارے ابا نے دیکھ لیا تو تمہاری پٹائی ہو جائے گی۔ ہم بھی جارہے ہیں بس۔

میں بولا نہیں تم لوگ ادھر ہی ہو گے مجھے پتہ ہے۔

زبیر۔ ارے نہیں بہائی ہم جائیں گے گھر اپنے۔ بس تم چلو تو ہم بھی پیچھے سے آرہے ہیں۔

میں بولا۔ مجہے پتہ ہے تم لوگ کیا کرنے والے ہو اس دن کی طرح عارف کو چودو گے تم لوگ۔ میں نے دیکھلیا تھا اس دن تم کو جب عارف کو چود رہے تھے۔

یہ بات سن کر عامر اور زبیر چونک گئے۔

میں نے بولا اگر مجہے نہیں بٹھایا ادھر تو میں ابا کو سب بتادوں گا۔

زبیر یہ سن کر سکتے میں آگیا اور بولنے لگا دیکھو علی تم میرے بھائی نہیں ہو پلیز یہ بات ابا کو نہیں بتانا۔ دیکھو ابہی تم چھوٹے ہو ان باتوں کو چھوڑو۔

میں نے بولا نہیں میں کچھ نہیں جانتا بس میں ادھر ہی بیٹھا ہوں۔ اورمیں بھی دیکھوں گا کہ کیسے چود رہے ہو۔

انہوں نے مجھے کافی سمجھایا لیکن میں نہیں مانا۔ اس پہ سہیل نے عامر کو بولا عامر بھائی بیٹھنے  دو نہ اسکو بھی۔ میں بھی تو دیکھتا ہوں آپ لوگوں کو جب آپ عارف کی گانڈ میں لن ڈالتے ہیں اور چوپا بھی لگواتے ہیں۔

عارف بھائی کچھ سوچ رہے تھے پھر بولا ٹھیک ہے لیکن دور سے ہی دیکھنا۔ بس۔

اس پہ میں خوش ہوگیا اور بولا ہاں ہاں میں دور سے ہی دیکھوں گا۔

اس کے بعد زبیر گیا اور عارف کو لیکر آگیا۔

عارف ۔ یار علی کیا کر رہا ہے ادھر اسکو بہیجو گھر۔

عامر۔ او خیر ہے یار اس کو بہی سکھانا ہے کیسے چودتے ہیں۔ ابہی نہیں کریگا تو لن کیسے بڑا ہوگا اس کا۔

اس پہ عارف ہنس پڑا اور میرے پاس آکر میرے لن کو ٹٹوں کے ساتھ ہی پکڑلیا۔ میں گھبراکر اس اپنا لن چھڑوانے لگ گیا۔

عارف۔ ارے یار دیکھنے تو دے کتنا بڑا ہے تمہارا لن۔ میں نے بولا نہیں چھوڑ مجہے

اس پہ سب ہنس پڑے اور عارف نے مجھے چھوڑ دیا۔

عامر بھائی نے عارف کو بولا کپڑے اتار اپنے جس پہ عارف نے سارے کپڑے اتار دیے۔ وہ بلکل ننگا میرے سامنے کھڑا تھا۔ سلم باڈی جس پہ ایک بال بہی نہیں تہا ہلکی چونچیان بلیک کلر کی

اسکا لن تو بیٹھا ہوا تہا لیکن میرے لن سےکافی بڑا تہا۔ لن کہ اوپر ہلکے بال تہے عارف اپنے لن کو زور زور سے اوپر نیچے کر رہا تہا جس سے اس کا کھڑا ہو رہا تھا۔ فورا ہی اسکا لن کھڑا ہو گیا مجھے بہت تعجب ہوا کہ اسکا لن تو قریب 5، انچ کا تہا وہ مجہے دیکھ کر ہنس رہا تہا۔

اس کے بعد عامر اور زبیر نے بہی اپنی شلواریں اتاردیں لیکن کمیس رہنے دی۔

عامر بھائی کا لن تو عارف سے بھی بڑا تہا۔ بلکل گورا رنگ قریب 6 انچ بڑا اور 3 انچ موٹا عامر نے فورا اپنا لن عارف کے مونہ کے پاس لے آیا۔ عارف نے پہلے تو لن کو غور سے دیکھا تھوڑا مسکرایا اور اپنی زبان نکال کر لن کے ٹوپے پہ پھرانے لگا۔ اب عارف نے اپنی زبان ٹوپے سے لیکر لن کی جڑ تک لے گیا اور ساتھ ساتھ لن کو کس بھی کر رہا تہا۔ وہ ایسے لن کو چاٹ رہا تھا جیسے بچے قلفے چاٹتے پیں۔ لن اچھے طریقے سے چاٹنے کے بعد عارف نے لن کا ٹوپہ اپنے میں لے لیا۔ اب عارف لن کا ٹوپا تیزی سے موں مے چلا رہا تہا جس سے عامر بھائی کی آوازیں نکل رہی تہی آہ آہ آہ  ہہہہہم ہمّمممم ہا اوچ آہہہہہہ گانڈو پورا لن اندر  کر بھڑوا۔ اب عارف نے لن کا آدہا حصہ موں میں ڈال کر اندر باہر کر رہا تہا۔ زبیر بہائی سائیڈ سے یہ سب دیکھ رہے تھے اور اپنا لن مسل رہے تہے۔ کچھ دیر چوپے کے بعد عامر نے عارف کو ڈوگی بنایا اور اسکی گانڈ کو دیکھکر اپنا لن اس پہ فٹ کیا۔ عارف نہ بولا یار گھیلا تو کرلے اس نے بہت سارا تہوک اپنے ھاتھ پہ ڈالا اور گانڈ پہ لگادیا۔ عامر نے لن کا ٹوپا گانڈ کے سوراخ پہ رکھا اور لن کو پکڑ کر آگے دھکا دیا۔ جس سےلن کا ٹوپا اندر چلا گیا۔

عارف۔ امممممممم آہستہ کر یار

عامر نے اب گھسے مارنہ شروع کیے۔

یہاں سے زبیر نے اپنا لن عارف کے موں میں ڈال دیا اور گھسے لگانا شروع ہوگیا۔ ایک تو پیچھے سے عامر گھسے ماررہا تھا اور آگے سے زبیر جس کی وجہ سے عارف کی عجیب آوازیں نکل رہی تہیں ۔ گانڈ سے پچک پچک کی آواز آرہی تہی اور موں سے ہمممم ہممممم گررررررر اممممم ہممم کی آواز آرہی تھی۔ ماحول کی کیفیت ہی بدل گئی تہی۔ سہیل میرا دودست شلوار نیچے کر کہ اپنی للی مسل رہا تھا اور غور سے یہ چدائی دیکھ رہا تھا۔

کچھ دیر کہ بعد عامر نے زور سے آواز نکالی آآآآہہہہہہہہہ۔ اور گھسے مارنا بند کردیے۔ اب زبیر بھی رک گیا عامر اٹھا اور ایک کپڑا لاکر عارف کو دیا جس سے اس نے اپنی گانڈ صاف کی عامر کا لن اب سکڑ گیا تہا اور وہ جاکر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اب زبیر نے پیچھے آکر گھسے مارنا شروع کر دیے۔ عارف نے مجھے دیکھا اور میری طرف مڑا اور میری شلوار جس میں الاسٹک تہی کہینچ دی۔ میری للی میں ہلکی ہلکی جان آرہی تہی لیکن دل بہت گھبرا رہا تھا۔ میری ٹانگیں کانپ رہی تہیں۔ عارف نے جھٹ سے میری للی اپنے موں میں ڈالدی۔ اور اپنا موں میرے پیٹ سے ملادیہ۔ وہ اندر ہی اندر میرے لن پہ زبان پھیل رہا تھا۔ مجھے بہت مزا آرہا تھا۔ زبیر بھی اب چھوٹ گیا تھا اور پیچھے ھٹ گیا جب عارف نے اپنا موں نکالا تو میری للی فل اریکشن میں تھی۔ میں نے کبھی اپنی للی فل کھڑی نہیں دیکھی تھی۔ یہ دیکت کر مجھے بہت مزا آیا کہ میری بھی للی کھڑی ہوتی ہے۔


یہ سلسلہ اب چل پڑا ہر کچھ دن بعد ہم لوگ ایسا ہی شو کرتے میں اپنا لن چسواتا اور دوسرے عارف کو چودتے۔ یون وقت گزرتا گیا اور ایک سال بیت گیا میں پانچویں میں پہچ گیا۔ اب مجھے سیکس کے بارے میں معلوم تھا لیکن کیا نہیں تھا۔ اب میرا بہ دل کرتا تھا کہ سیکس کروں۔ ایک دن ہم بیٹھک میں تھے زبیر اور عامر اپنی کاروائی کرنے والے تھے کہ میں بولا

آج میں چودوں گا اسکو

ایک بار تو سب نے مجھے دیکھا اور پھر ہنس پڑے۔

جس سے میں تھوڑا شرما گیا۔ لیکن دوسرے پل ہی زبیر نے بولا ٹھیک ہے آجائو آج تم بہ مزا لو۔

پہلے تو عارف نے اپنے سارے کپڑے اتارے اور مجہے بولا تم بہ اتاردو لیکن میں نے صرف شلوار اتاری۔

عارف نے میرا لن چوسا جو اب تقریبن ساڈھے تین انچ ھوگا فل ٹائیٹ ہونے کے باوجود لن بہت نرم تھا۔ اگر میں لن کو گول گھما لیتا تو بھی درد نہیں ہوتا تھا۔ عارف زمین پر لیٹ گیا اور اپنی ٹانگیں اوپر کرلیں۔ اب اسکی گانڈ میرے بلکل سامنے تھی میں نے سیدھا لن اسکی گانڈ پہ سیٹ کرکے زور سے گھسا مارا۔۔۔۔۔

لیکن لن اندر جانے کے بجائے اسکی گانڈ پہ مڑگیا۔ زبیر بھائی یہ سب دیکھ رہے تھے۔ میں تھوڑا سا شرماتے ہوئے زبیر بھائی کو دیکھا اور پھر لن سیٹ کر کے ایک گھسا مارا لیکن دوبارہ میرا لن مڑگیا۔

اب میں پریشان ہوگیا

زبیر نہ بھی یہ دیکھا اور مجھے اوپر اٹھنے کا بولا اور اپنے ہاتھ پہ تھوک رکھا اور عارف کی گانڈ پہ ملدیا تھوڑی بہت انگلیاں بہی اسکی گانڈ میں ڈالدیں جس سے عارف کی گانڈ کھل گئی۔ زبیر نے مجھے بولا اب ڈالو لن۔

میں نیچے جھکا اور اپنا لن ھاتھ میں پکڑ کر عارف کی گانڈ پہ سیٹ کیا اوپر سے زبیر عارف کی دونوں ٹانگوں کو عارف کی چیسٹ پہ دبا دیا جس سے عارف کی گانڈ کچھ اور کھل گئی زبیر عارف کے موں کی طرف آکراپنا لن عارف کے موں میں ڈال دیا۔ جس کو عارف خوشی سے چوس رہا تھا۔ اب میں نے بھی اپنے لن کا ٹوپا گانڈ میں گھسانے میں کامیاب ہوگیا۔

میں نے اپنا لن ھاتھ سے پکڑا ہوا تھا اور آھستہ سے اندر ڈال رہا تھا اب میں نے اپنا آدھا لن ڈال دیا تھا۔ اب مجھے پورا لن ڈالنا تھا۔ میں نے پوری طاقت سے دھکا لگایا تو میرا پورا لن عارف کی گانڈ میں چلا گیا اور میں بلکل عارف کی چوتڑون سے مل گیا۔ اب میں تھوڑا تھوڑا گھسے مارنا اسٹارٹ کیا قریب 3منٹ مینے گھسے مارے ہونگین کہ اچانک عارف نے اپنی گانڈ ٹائیٹ کردی جس سے میرا لن عارف کی گانڈ میں پھنس گیا۔ اب میں گھسے نہیں لگا پا رہا تھا۔

زبیر بھائی اس نے گانڈ میں میرا لن پھنسا لیا ہے

زبیر ہنسا اور عارف کو بول بھڑوے گانڈ کو ڈھیلا کر۔ عارف نے شاید میرے ساتھ مذاق کیا تھا۔ اب عارف نے گانڈ ڈھیلی کردی اور میں نیں گھسے لگانا شروع کردے۔ اب میں پورے جوش سے عارف کو چود رہا تھا۔ میں دس منٹ سے عارف کو چود رہا تھا اور تھک گیا تھا

زبیر بھائی میں چھوٹ کیوں نہیں رہا اتنی دیر ہوگئی ہے۔

زبیر۔ یار تم ابھی بالغ نہیں ہو۔ جب ہوگئے تو چھوٹو گے

اب میری ہمتھ ٹوٹ گئی اور میں نے لن نکال لیا۔

میں نے دیکھا کہ میرا لن لال ہوگیا تھا اور مجھے درد بہ ہو رہا تھا۔ میں نے لن صاف کیا اور اپنی شلوار اوپر کردی۔

دوستوں یہ میری پہلی چدائی تھی جو میں نے آپ سے شیئر کی۔ حالانکہ اس میں میری منی تو نہیں نکلی لیکن میں بہت تھک گیا تھا۔

اگلی کہانی میری ہوگی

 

Post a Comment

0 Comments