دیہاتی لڑکی ۔ آخری قسط

 

دیہاتی لڑکی

آخری قسط

تحریر: ماہر جی



سونیا کے لرزنے اور اس طرح اپنے بازو سے چہرہ چھپا لینا مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ زینت چارپائی کی طرف آتے ہوئے بولی ۔۔ میں نے کہا پتا نہیں بھابھی کو کیا ہوا ہے جو بچوں کی طرح چلا رہی ہے ۔۔۔۔ میں مسکراتے ہوئے سونیا پر لیٹنے کے ساتھ اپنے جھٹکے شروع کرتے ہوئے بولا ۔۔۔اس پیارے موسم میں میرا موڈ بن گیا تھا آپ کی صحت کا خیال کرکے میں سونیا کے پاس آ گیا تھا سونیارز رہی تھی اور اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا ۔۔۔ زینت بولی نہیں اچھا کیا اور سونیا نے بھی آپ کی بات مسن کر اچھا کیا آپ کے اتنے احسان ہیں ہم لوگوں پر اور کیسے اتاریں گے ۔۔۔زینت آگے بڑھتے ہوئے بولی اس کی قمیض تو اتار لیتے گلے میں پھنسائی ہوئی ہے زینت اپنے لبوں پر مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھی اور سونیا کی قمیض اتارتے ہوئے بولی لائٹ جلا۔لیتے ۔۔اندھیرے میں اپنے اور میرے لئے بھی ٹینشن بنا لی ۔۔۔ سونیا رو رہی تھی زینت اس کے گال پر تھپکی دے کر بولی یہ کیا ہو گیا صاحب آپ پر مہربان ہو گئے اور تم بچوں کی طرح آنسو بہانے لگی ہو ۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے زینت کو چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔۔اور اپنے جھٹکوں کو پہلے سے بھی تیز کر دیا ۔۔۔ سونیا کی رونے کے ساتھ آآآآ اونہہہہہہہہ آئی اووومھھھھھ کی آوازیں شروع ہو گئیں وہ اپنے آنسو صاف کر رہی تھی اور زینت سے چہرہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی زینت مجھے دیکھتے ہوئے بولی میں اپنے بستر پر لیٹی ہوں کوئی کام ہو تو بتا دینا میں نے اسے کمرے کا دروازہ بند کرنے کا بول دیا اور سونیا کی آنکھیں چومتے ہوئے گھوٹ گھوٹ کر جھٹکے مارنے لگا ایک دم سے حالات بدل جانے پر سونیا کنفیوز ہو گئی تھی لیکن وہ پورے ببلو کو کس۔کیفیت میں برداشت کر رہی تھی مجھے معلوم نہیں تھا سونیا 18 سال سے کچھ زیادہ کی تھی اس کا قد 5 فٹ تک بوبز 32 اور جسم نارمل تھا رنگت گندمی تھی اور نین دلکش تھے زینت اپنے اوپر ایک رنگدار چادر ڈال کر ہماری طرف منہ کر کے لیٹ گئی تھی ۔۔۔ میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا ہوا تھا اور اپنے جسم کا پورا وزن سونیا پر ڈال کر اپنے پچھلے دھڑ کو کمر کی حرکت سے چلا رہا تھا ببلو بغیر کسی آواز کے اپنی منزل مقصود تک جا رہا تھا سونیا نے اپنے ہاتھ میری سائیڈوں پر رکھ دئیے اور اپنے لبوں کو دانتوں تلے دبا کر اپنے پیٹ کو وقفے وقفے سے بل دے رہی تھی سونیا کی ببلی نے ببلو کے ظالمانہ حملے کو برداشت کر لیا تھا۔۔۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ سونیا اپنی ٹائمنگ پوری کر رہی ہے سو میں اس کے بوبز پر جھک کر ان کو پوری لذت سے اپنے منہ میں بھرنے لگا سونیا نے سسکیوں میں وششش وشششش کی آواز نکالی اور جسم اکڑا کر پھر ڈھیلا چھوڑ گئی اس کے ہاتھ میری سائیڈوں سے نیچے بستر پر گر گئے میں نے ببلو کو اندر پورا بھر کر اسے روک دیا اور سونیا کے بوبز چوسنے لگا اس نے ہلکی آواز میں بولا بسسسس زینت مسکرائی اور بولی صاحب اتنی جلدی بس نہیں کرتے ۔۔۔ یہ ہمارے مرد تھک جاتے ہیں ۔۔۔۔میں نے ببلو کو پانی سے تر ببلی میں آہستہ سے ہلانا شروع کر دیا تھا سونیا کی سسکیاں نکل رہی تھی ۔۔۔ سونیا نے ایک نظر زینت کو دیکھ کر مجھے رحم طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی اب بس کرو ۔۔۔۔۔ زینت نے جھٹ سے بولا سونی کیا ہوا کیوں منع کر رہی ہو صاحب کو ۔۔۔۔۔ تم نے پورا مزہ لے لیا اسے سکون سے پورا ہونے دو۔۔ سونی اپنا چہرہ لفٹ سائیڈ پر پھیر کر کچی دیوار کو دیکھنے لگی ۔۔ زینت نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے تیز ہونے کو کہا اور بولی ۔۔۔ میری بھابھی کیسی ہے؟؟۔ میں نے کہا آپ کو اس کی شادی والے دن بولا تھا ناں کہ بہت پیاری بھابھی ڈھونڈ لی ہے ۔۔۔۔ مجھے اچھی لگی تو میں پیار کر رہا اس کو ورنہ شہر میں لڑکیوں کی کمی تو نہیں ہے ناں ۔۔۔ بھابھی بہت اچھی ہے میری اور پیاری بھی ۔۔۔۔ میں نے سونی کی ٹانگوں کو اپنے بازوؤں کے سہارے اوپر اٹھا لیا اس کے ہپس بستر سے تھوڑے اٹھ گئے تھے اور میں نے ایک دم سے جھٹکے تیز کر کے اس کے ہپس پر تالی بجانی شروع کر دی آئی آئی آئی کی آوازیں کے ساتھ سونیا کے چہرے پر درد کی لکیریں ابھرنے لگی اور اس کے آنسو گرنے کے ساتھ آوازوں میں بھی تبدیلی آ گئی وائی وائی وائی وائی ۔۔۔ اونہہہہ ۔۔۔۔ زینت نے تکیہ پر اپنی کہنی ٹکا کر اپنا چہرہ اوپر اٹھا لیا تھا اور مزے بھری آوازوں میں وہ بھی وششششش وشششششش کرنے لگی سونیا بند آنکھوں کے ساتھ چہرے پر رنگ بدل رہی تھی اور آواز اس کے گلے میں اٹکی ہوئی تھی زینت اٹھ کے ہماری چارپائی کے پاس آ گئی اور مجھے روک کر بولی یار اس طرح کھڑے ہو کر کرو اس سے درد بھی نہیں ہوتا اور مزہ بھی زیادہ ۔۔۔۔ میں نے پوچھا کیسے بولی جو ایک بار مجھے اپنے گھر میں بیڈ کے ساتھ کیا تھا ۔۔۔ میں نے ہاں ہاں کے ساتھ سونیا کو اس کے بازو پر تھپکی دی اور رکتے ہوئے ببلو باہر نکالنے لگا اششش اششش کرتی سونی نے اپنا سر اوپر اٹھا لیا اور جیسے ہی ببلو باہر آکر جھولنے لگا سونی نے پہلی بار دیکھ کر نہ صرف اپنی آنکھیں پوری کھول لیں تھی بلکہ اس کا منہ بھی کھلا رہ گیا اور مجھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے زینت کے کہنے پر چارپائی سے نیچے اتر آئی زینت مسکراتے ہوئے اس کی پوزیشن ٹھیک کر رہی تھی سونی گھوڑی بن گئی تھی میں افففف کہتا اس کے ہپس پر ہاتھ پھیر کر پیچھے آ گیا اور اور ادھر ادھر دیکھتے ھوئے سامنے پڑی پیڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زینت کو اٹھا لائے کا بولا سونی کے پاؤں پیڑھی پر ٹک جانے کے بعد اس کی ہپس میرے برابر آ گئے اور اب مجھے اپنی ٹانگیں ٹیڑھی نہیں کرنی پڑ رہی تھی سونی نے ایک بار پھر پیچھے مڑ کر میرے فل تنے ببلو کو دیکھا اور اس کے ہپس کانپنے لگے میں نے ببلو کو ببلی کے ہونٹوں پر رکھ کر آگے بڑھانے لگا سونی اپنے ہپس۔کو نیچے گرانے لگی تھی جیسے اس پر بہت وزن رکھ دیا گیا ہو میں نے شدت جذبات میں اس کے ہپس پر تھپڑ مارا اور بولا ان کو صحیح رکھو۔۔۔ زینت اپنے منہ پر ہاتھ رکھےہنسی دباتی چارپائی پر سونی کے آگے بیٹھ گئی وہ سونی کا چہرہ پکڑ کر اسے چومنے لگی تھی اور آنکھ کے اشارے سے مجھے تیز ہونے کا بولا ۔۔۔ میں نے سونی کی کمر کو پکڑ کر ببلو کو ببلی کی تہہ میں پہنچا دیا سونی زور آئی آئی کرنے لگی زینت اسے چومتے ہوئے بس تھوڑا صبر کا کہہ رہی تھی میں اپنے جھٹکے میں آگے آنے پر سونی کو تھوڑا پیچھے کھیچ کر پورا مزہ لے رہا تھا میرے جسم میں سختی آنے لگی تھی اور زینت نے میری بند ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے سونی کے بوبز دبانے شروع کر دئیے تھے سونی وشششش وشششش کے ساتھ اپنے ہپس کو پیچھے اکڑانے لگی میں اسے اپنی طرف کھینچ کر رک گیا اور منہ میں آئے پانی کو کنٹرول کرنے لگا آآآآآآآں ں ں ں ںھھاں کی آواز کے ساتھ سونی نے اپنے ہپس کو بل دیا اور جسم کو ڈھیلا چھوڑنے لگی میں اپنے ہاتھوں سے اس کے ہپس سہلا رہا تھا اور تھوڑی دیر میں سونی چارپائی پر لمبی ہوتی گئی اور ببلو ۔۔۔۔ پچ ۔۔۔ کی ہلکا آواز سے باہر آ کر دھڑکن کے ساتھ اپنا سر خم تسلیم کرنے لگا اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دباتی مسکراتے چہرے کے ساتھ زینت مجھے دیکھ کر سونی کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کر رہی تھی میں نے ایک کپڑا اٹھا ببلو کو صاف کر دیا اور چارپائی پر بیٹھنے لگا زینت بولی صاحب میری بھابھی کیسی لگی ؟ میں نے سونی کے گال کو چومتے ہوئے کہا بہت میٹھی ۔۔۔۔ تیرے سے بھی زیادہ ۔۔۔زینت بولی اب میرا پیار تو نہ مارو ناں ۔۔۔۔میں نے کہا نہیں سچ ہے سونیا بہت پیاری ہے ۔۔۔اور تیرا حق نہیں ماروں گا ۔۔ تم ٹھیک ہو جاؤ۔۔۔ بولی میں ٹھیک ہو جاؤں گی تو سونی اور میں اکٹھے آئیں گی آپ کے گھر ۔۔۔ پارک لے جاؤ گے ۔۔۔ ہاں اس بڑے پارک چلیں گے ۔۔۔ زینت بولی سچی ۔۔۔ میری پیار میں یا سونی کے ؟؟ میں نے کہا سونیا کے۔۔۔ تم تو پہلے جا چکی ہو وہاں ۔۔۔ زینت نے پوچھا ٹائم کتنا ہے میں نے اس چارپائی پر پڑے موبائل کی طرف دیکھا زینت موبائل اٹھا لائی 1:45 بج گئے تھے سونی اپنے کپڑے ڈھونڈ رہی تھی زینت نے مجھ سے پوچھا کدھر سونا ہے میں نے سونی کو باہوں میں بھر کر لیٹتے ہوئے کہا ادھر ۔۔۔ زینت نے سونی کے ہپس پر تھپکی دی اور بولی مزے مزے ۔۔۔ صاحب فدا ہو گئے میری بھابھی پر۔۔۔۔سونیا میری باہوں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی میں ادھر سوتی ہوں زینت نے ہمارے اوپر بڑی چادر ڈال دی اور سونیا کا سر تکیے پر رکھتے ہوئے بولی چپ سے سو جاؤ ۔۔۔۔ سونیا نے التجا بھرے لہجے میں کہا اچھا کپڑے تو دے دو ۔۔۔ زینت بولی ۔۔وہ میں نے باہر پھینک دئیے بارش میں صبح اٹھ کر کوئی اور سوٹ پہن لینا ۔۔۔ سونیا بولی زینت کیا کرتی ہو۔۔۔ دے دو ناں۔۔۔۔۔۔ زینت نے اپنے اوپر چادر تان لی اور ساکت ہو گئی ۔۔۔ میں نے سونیا کے ہپس پر ہاتھ رکھا اور اپنا جسم اس سے ملاتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیں سونیا ساکت پڑی تھی اور کچھ دیر شاید اسے لگا کہ مجھے نیند آ گئی ہے اس نے ایک طرف سے چادر ہٹا کر اپنا سر تھوڑا اٹھا لیا تھا میں نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور اندازہ لگایا کہ وہ ببلو کو دیکھ رہی ہے ۔۔۔ پھر وہ اپنی کہنیوں پر تھوڑی اٹھ گئی تھی اور شاید کمرے میں اپنے کمرے ڈھونڈنے کی۔کوشش کر رہی تھی زینت سو چکی تھی ۔۔۔ سونیا چارپائی کے نیچے دیکھنے کے بعد واپس لیٹ گئی وہ میرے سے دو تین انچ کے فاصلے پر لیٹی کمرے کی چھت کو تکے جا رہی تھی میں نے ایک آنکھ کو معمولی سا کھول کر جائزہ لیا اور پھر گہری نیند میں لی جانے والے انداز میں سانسیں لینے لگا تھوڑی دیر بعد سونیا نے میری طرف کروٹ لے کو میرے اوپر بازو رکھ دیا اور اپنے بوبز میرے سینے سے لگا کر ۔ شاید میرے چہرے کو دیکھ رہی تھی میں نے اسی نیند جیسی کیفیت میں اس کے ہپس کے ایک پلے کو اپنے ہاتھ میں بھرا اور تھوڑا اپنی طرف کھینچ لیا اس نے اپنی ایک ٹانگ میری ٹانگوں کے بیج رکھ کر انکھیں بند کر لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نشے سے چور آنکھیں ابھی گزری رات کے خواب دیکھ رہی تھی میں آدھا بیدار ہو چکا تھا زینت سونیا سے باتیں کر رہی تھی گرج کی تیز آواز سے میرا جسم بھی ایک سیکنڈ کو کانپ گیا ۔۔۔ سونیا میری طرف پیٹھ کر کے کپڑے میں لپٹی ہوئی تھی ۔۔۔ زینت اپنی چارپائی پر بیٹھی تھی ۔۔۔ بولی بارش آج بھی رکتی نظر نہیں آتی ۔۔۔ سونیا سے بولی اٹھ کر بکسے میں دیکھو شاپر میں نیا سوٹ پڑا ہو گا نیلے رنگ کا۔۔۔۔صاحب نے مجھے دیا تھا ۔۔۔۔ بس وہ تم پہن لو ۔۔۔اور نہا کر اچھی طرح تیار ہو جاؤ۔۔۔ زینت نے ایک چادر سونیا کی طرف پھینک دی جسے لپیٹ کر سونیا بکسے پر جھکی ہوئی تھی میں نے مسکرا کر زینت کی طرف دیکھا اس نے آنکھ ماری اور سونیا سے بولی ملا سوٹ ۔۔۔۔ اس نے ایک شاپر زینت کو دیکھایا ۔۔۔ زینت نے کہا ہاں یہی ہے اس میں لاسٹک ڈال لو کوئی ۔۔۔۔ سونیا کمرے سے باہر چلی گئی اور میں نے زینت کو اپنے پاس بلا لیا وہ میرے ساتھ سوتے ہوئے کہنے لگی میری طبیعت خراب نہ ہو جائے آج تو ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں جا سکتے ۔۔۔ میں نے کہا نہیں بس ایسے پیار کرنا چاہا رہا تھا ۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے بولی رات بھی تو پیار سے کام شروع ہوا ۔۔۔۔ بولی آج بھی بہت مشکل ہے کہ نعمت آ سکے ۔۔۔ پھر بھی اسے کال کر لینا اور آج رات بھی آپ ادھر رہنا ۔۔۔۔ میں نے پوچھا کیا کھلاؤ گی ۔۔۔ ہنستے ہوئے بولی دیسی مرغی وہ بھی کچی ۔۔۔۔ ہم باتیں کرتے رہے اور سونیا کمرے میں آ گئی ۔۔۔۔ اس نے ہمیں دیکھ کر سر جھکا لیا اس سوٹ میں وہ ماڈرن اور پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔ اس نے اپنے بال خشک کرتے ہوئے پوچھا زینت چائے بنا لوں ۔۔۔ زینت بولی پہلے صاحب کو دودھ گرم کر دو اور ایک پراٹھا بنا دو پھر چائے بنا لینا ۔۔۔ سونیا نے پہلی بار مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور پوچھا آپ چائے نہیں پیتے ۔۔۔زینت بولی ابھی آپ کو معلوم نہیں ھوا کہ کہ یہ خالص دودھ کا پلا ہے سونیا نے مسکرا کے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا میں نے چادر لپیٹی اور ایک کھڑی چارپائی پر پھیلے اپنے سوٹ کو ہاتھ لگایا وہ ابھی تک گیلا تھا میں نے پینٹ شرٹ اٹھائی اور ۔۔۔۔۔۔ نلکے والی کوٹھڑی میں چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ناشتہ ابھی شروع ہی کیا تھا کہ پھر سے زوردار بارشِ شروع ہو ۔۔۔ زینت بولی میں نے کہا ناں بارش آج بھی نہیں رکتی ۔۔۔ناشتے کے بعد میں نے نعمت کا نمبر ڈائل کر لیا بولے صاحب بہت بارش ہے یہاں گلیاں پانی سے بھری ہوئی ہیں ۔۔۔ میں نے جہاں کی صورتحال بتائی نعمت بولا میں بھی جہاں سے کم سے کم دودن تو نہیں نکل سکتا اور آپ بھی گزارا کرو جہاں آپ کی۔گاڑی ٹھہری ہے وہ تو پورا ہفتہ نہیں نکلے گئی میں نے نعمت سے کچھ باتیں کر کے کال بند کر دی جس کے فوراً بعد شاکرہ کی کال آ گئی پوچھا کہاں ہو ۔۔۔۔ میں نے پوری تفصیل بتا دی کہ گاڑی وہاں زمینوں میں کھڑی ہے اور میں نعمت کے پاس ہوں بولی پھر کیا کرو گے ۔۔ میں نے کہا کہ بیل گاڑی منگوا کے نکلتا ہوں اور گاڑی کسی ٹریکٹر سے کھنچوا کر مین روڈ پر لے جاتا ۔۔۔ بولی اگر اتنی تکلیف اور ٹینشن لینے کے بجائے نعمت کے پاس رک جاؤ تو کیا مصیبت پڑ جائے گی تم گر جاؤ ۔۔چوٹ آ جائے تو پھر ۔۔۔۔ میں نے کہا چلو دیکھتا ہوں ۔۔۔ میں نے کال منقطع کر دی ۔۔۔ زینت بولی خیر تو۔ہے ٹریکٹر بیل گاڑی ادھر رہو پورا ہفتہ ۔۔۔۔ میں نے کہا آپ بیمار ہو اور سونیا پتا نہیں کیسی مہمان نوازی کرتی ہے ۔۔۔۔ سونیا نے مسکرا کر اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔ زینت بولی اب تک کوئی کمی دی آپ کو سونی نے ۔۔۔۔ نہیں اب تک تو نہیں دی ۔۔۔ لیکن وہ خود بولے گی تو رہ جاؤں گا ۔۔۔۔ زینت بولی سونی ابھی منا لے گی آپ کو وہ مسکراتی ہوئی خاموش بیٹھی تھی۔۔۔۔ کل سے ہونے والی مسلسل بارش کی وجہ سے گرمی کے اس موسم میں اب تھوڑی سردی محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔ میں نے پانی مانگا تو سونیا فٹ سے گلاس بھر کے آ گئی تھی میں نے پانی پی کر سونی کو اپنے بستر پر کھینچ لیا تھا ۔۔۔ اور اس کو اپنے ساتھ لٹا کر اس کو کسنگ اور اس سے باتیں کرنے لگا زینت اپنی چارپائی پر لیٹ گئی تھی بولی صاحب میری بھابھی سے تعاون کر لیا کریں میرا ںھائی غریب ہے اور اس کے پاس پیسوں کی کمی ہوتی ہے ۔۔۔ میں نے اپنا بٹوہ اٹھا کر پانچ ہزار کا نوٹ سونیا کی طرف بڑھا دیا ۔۔۔ وہ بولی نہیں نہیں آپ رکھیں یہ ایسے مذاق کر رہی ہے میں نے اصرار کیا تو بولی نہیں بس آل نے پہلے بھی بہت دئیے ہیں ۔۔۔ میں نے کہا جو پہلے دئیے اس کا بدلہ رات مل گیا اور اس کا آج رات دے دینا ۔۔۔ اس نے مسکرا کر اپنے چہرے کو ہاتھوں میں چھپا لیا ۔۔۔ میں نے نوٹ اس کے بریزر میں ڈالتے ہوئے کہا آپ لڑکیوں کا یہ۔جیب پورے پورے بندے کو کھا جاتا ہے ۔۔۔۔ میں نے کہا کہ جب بھی پیسوں کی ضرورت ہو آپ زینت کو بتا دیا کرو میں کوئی طریقہ بنا لوں گا ۔۔۔۔ زینت اپنی چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی اور ہم اس سے کچھ فاصلے پر پیار اور باتیں کرتے باہر ہونے والی بارش کا نظارہ کر رہے تھے ۔۔۔۔ سونی کھانا بنانے کے لئے اٹھ گئی اور میں موبائل پر مختلف لوگوں سے بات کرتا رہا شام کے فوراً بعد زینت نے کھانے کا پوچھا تو میں نے کہا آپ کھا لو سونیا اور میں دیر سے کھائیں گے ۔۔۔۔۔ سونیا نے زینت کے آگے سے برتن اٹھائے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ خاموشی سے بیٹھنے لگی ۔۔۔ میں نے اسے اپنے پاس بلایا تو زینت بولی میری چارپائی بھی اپنے قریب کر لو ۔۔۔ رات گیارہ بجے کے قریب اپنے اوپر لیٹی سونیا کے اندر میں پانی چھوڑ رہا تھا ۔۔۔۔ زینت اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔ سونی کو میرے جتنا موٹا کرکے یہاں سے جانا ہے ۔۔۔۔ ہم نہانے اور کھانا کھانے کے بعد سو گئے ۔۔۔۔۔۔ اگلے روز بارش رک چکی تھی اور چار بجے سورج نے آنکھ نکال لی تھی ۔۔۔ میں نے نعمت خو کال کر کے پوچھا بس آج نہیں نکل سکتا صبح جیسے بھی ہو گا آ۔جاؤ گا ۔۔۔۔ زینت ساتھ والی چھوٹی کوٹھڑی میں کچھ سامان دیکھ رہی تھی سونی میرے پاس آ کر خاموش بیٹھ گئی ۔۔۔ پھر بولی آپ آج۔نہیں جاؤ بس ۔۔۔۔۔۔ صبح چلے جانا ۔۔۔ میں نے اسے باہوں میں بھر لیا ۔۔۔۔۔ اگلی صبح ۔۔۔ مجھے سونیا نے چادر دے دی کہ یہ لپیٹ کر باتھ روم جاؤ ۔۔میں کپڑے استری کر کے ادھر دیتی ہوں آپ کو ۔۔۔۔ زینت نے مسکرا کر۔مجھے آنکھ مار دی ۔۔۔ ۔۔۔ ٹریکٹر نے دو گھنٹے کی ٹینشن کے بعد مجھے گاڑی سمیت مین روڈ پر پہنچا دیا نعمت اسی ٹریکٹر پر بیٹھ کر واپس گھر چلا گیا تھا اور میں نے صاف ستھرے دھلے ہوئے روڈ پر گاڑی کی سپیڈ بڑھا کر فل آواز میں عیسیٰ خیلوی کا گانا چلا دیا ۔۔۔ کوئی ڈھولے کوں سمجھاوے تے اج دی رات ٹک پوے۔ بارشوں کا یہ سلسلہ اسی رات سے دوبارہ شروع ہو گیا تھا اور میں تقریباً گھر تک محدود ہو گیا تھا سائقہ کا زرلٹ آ چکا تھا اور سائقہ کے ساتھ مہوش بھی اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی تھی سائقہ کی امی روزانہ ہی کال کرتی تھی اور وہ لوگ سائقہ کے ساتھ مہوش کے داخلے کے بھی خواہاں تھے میرے ایک دوست کی وائف اسی کالج کی پرنسپل تھی جن سے میں نے پہلے ہی بات کر لی تھی اور داخلہ لینے میں کوئی دشواری نہیں تھی ساتھ میں نے اس کالج سے تقریباً دو فرلانگ دور ایک پرائیویٹ گرلز ہاسٹل تھا اور شہر میں گرلز کے لئے مختص یہ واحد ہاسٹل تھا بارش کا سلسلہ رکنے کے بعد میں نے پہلی فرصت میں اس گرلز ہاسٹل کا رخ کیا اور ایک روم بک کرا لیا ۔۔ اس ہاسٹل میں ہر روم چار بیڈ پر مشتمل تھا میں دو بیڈ بھی بک کرا سکتا تھا لیکن میں نے یہ روم مکمل بک کتا لیا تھا ۔۔۔ سائقہ کو شادی سے واپس گئے ایک مہینے سے زیادہ ہو چکا تھا اور وہ داخلے سے زیادہ مجھ سے ملنے کو بےقرار تھی اور سچی بات کہ میں اس سے کہیں زیادہ بےچین تھا لیکن ملاقات کے مواقع دستیاب نہیں تھے اور مجھے اس کے ساتھ خوشی بھی تھی کہ سائقہ اب میرے قریب آ رہی تھی اور ملنے کے فل ٹائم مواقع موجود تھے کالج کے داخلے شروع ہو گئے تھے اور میں سائقہ کی امی کو ان کی مکمل تیاری کے ساتھ اگلے روز آنے کا۔کہہ دیا وہ اگلے روز شام سے قبل میرے گھر میں آ گئے تھے سائقہ کی امی کے ساتھ سائقہ مہوش اور مہوش۔کی امی بھی آ گئی تھی شام کے بعد شاکرہ کھانا تیار کرنے لگی اور میں ان چاروں کو گرلز ہاسٹل لے کر چلا گیا میں ہاسٹل سے باہر گاڑی میں ہی بیٹھا رہا جبکہ یہ چاروں ہاسٹل میں چلے گئے ان کے میرے گھر آنے کے بعد سے ابتک سائقہ سے میری زیادہ تر باتیں آنکھوں ہی آنکھوں میں ہو رہی تھیں ۔۔ واپسی پر سائقہ کی امی نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہی کہا بھائی یہاں کا نظام تو بہت بہتر ہے پیچھے بیٹھی مہوش کی امی بھی بہت مطمئن تھی اور ان دونوں کی میری ساتھ ہونے والی گفتگو سے پیچھے بیٹھی سائقہ اور مہوش بہت خوش تھی ۔۔۔ مہوش کی امی اب بات یہ ہے کہ ان کا دل بھی جہاں لگ جائے اور پڑھائی پر توجہ دیں ۔۔ سائقہ بولی میرا تو پہلے سے دل لگا ہوا اور مہوش کا دل بھی لگ جائے گا ۔۔۔۔ میں سائقہ کی میٹھی گفتگو کو انجوائے کرتا مسکرا کر گاڑی اس رش میں آگے بڑھا رہا تھا ہم گھر پہنچ گئے تھے کھانے کے بعد شاکرہ نے ان دونوں کی کلاس لی کہ شہر میں کیسے رہنا اور اپنے والدین کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے پڑھائی کیسے کرنی ہے سائقہ مہوش سے بہت زیادہ شریف اور سادہ بن کر شاکرہ سے گفتگو کر رہی تھی اور اس کے اس بھرپور انداز پر میرا کسی بھی وقت قہقہہ بلند ہو سکتا تھا سو میں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔ شاکرہ ان چاروں کو سلا کر میرے پاس آ گئی تھی ناول اٹھا کر میرے ساتھ بیڈ پر۔بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔سائقہ بہت پیاری اور ذہین بچی ہے ۔۔۔۔ اس کی عمر کم ہے ورنہ میں شاہد (شاکرہ کا بھائی )سے اس کی شادی کر لیتی ۔۔۔ اور شاہد کی تو اب منگنی بھی ہو چکی۔۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔پھررر۔۔۔۔ مسکرا کے بولی کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔ میں مسکرا کر نیم کھلی آنکھوں سے بولا شاکرہ ۔۔۔۔۔ ناول کو رکھ دو۔۔۔۔ اس نے ناول کو بیڈ کے ساتھ ٹیبل پر رکھتے ہوئے ہنستے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ آج گرمی تو اتنا زیادہ نہیں تھی ۔۔۔۔۔ اور شاکرہ میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر میری آنکھوں کو چومتے ہوئے ان کو پورا کھولنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبحِ میں ان کو کالج لے گیا یہ چاروں کالج میں چلیں گئیں اور میں نے دوست کو کال کر کے بتا دیا جس نے اوکے کر کے کال منقطع کر دی میں گاڑی میں بیٹھ کر میوزک انجوائے کرنے لگا کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ مسکراتی آنکھوں کے ساتھ کالج سے باہر آ گئی تھی واپسی پر سائقہ کی امی نے پرنسپل کی طرف سے ملنے والی عزت افزائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پرنسپل کہہ رہی تھی کہ میرے ہسبنڈ نے پہلی بار کسی دوست کی بچیوں کی سفارش کی ہے تو میں ان بچیوں کی خود نگرانی کرونگی ۔۔۔۔۔ کالج اور ہاسٹل میں میرا رابطہ نمبر سربراہ کے طور پر لکھا دیا گیا تھا ۔۔ہم گھر آگئے تھے اور کھانا کھانے کے بعد یہ اپنے گھر جانے کی تیاری پکڑنے لگ گئیں تھی آج منگل تھا اور آنے والے منڈے سے کلاسز سٹارٹ ہو رہی تھی اور شاکرہ نے ان کو بولا تھا کہ ہم اتوار کے روز اپ کو خود لینے آ جائیں گے ۔۔۔ وہ بہت خوش ہو کر چلی گئی تھی ۔۔۔۔ شام کے بعد سائقہ نے محبت بھری ایک لمبی تحریر ہے میرا شکریہ ادا کیا تھا ۔۔۔۔ مانوں ۔۔۔ اس زینت کے بھائی کی شادی کے دنوں میں اس چھوٹی کوٹھڑی میں ہونے والی ہماری ملاقات کے بعد میں محبت میں اندھی خود کو سسی محسوس کرنے لگی تھی ۔۔۔ جو ریت کے ٹیلوں میں رل کر مر گئی تھی ۔۔۔ جب تم نے جاتے وقت گاڑی کو سپیڈ سے اس بستی کی گلی سے نکالا تھا تو میں گرد کے ان بادلوں میں گر کر دفن ہونا چاہ رہی تھی میرے سینے میں عشق کی جو آگ بھڑک اٹھی تھی میں اس میں رفتہ رفتہ سلگ کر جلنے اور اس کے دھویں سے بستی میں تماشا نہیں بننا چاہتی تھی ۔۔۔ تمھاری وہ بات کہ آپ مجھے اپنے پاس لے جائیں گے بالکل ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی شہر کا۔مرد اپنی حوس پوری کرنے کے لئے گاؤں کی ایک سادہ بھولی لڑکی پر اپنا جال پھینک کر شکار کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن آج۔۔۔۔۔۔۔۔بس آئی لو یو ۔۔۔مانوں ں ں ں آئی لو یو۔۔۔ کاش میرے ان الفاظ لکھنے کے وقت بھی آپ میرے سامنے بیٹھے ہوتے ۔۔۔۔ تو میں تمھیں بتا دیتی کہ عشق کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔ میں تھینکس نہیں بولنا چاہتی ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے مسیج پڑھنے کے بعد موبائل کو اپنے سینے کر رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔۔۔بہت دیر بعد شاکرہ نے میری ران پر اپنی کہنی ٹکاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ نیند آ رہی ہے ؟؟؟؟؟ میں نے آنکھیں کھول کر انگڑائی لی اور اپنے آنکھوں کے کنارے انگلیوں سے صاف کرتے ہوئے کہا بولو شاکرہ ۔۔۔۔ بولی دوسری گلی میں کسی یتیم بچی کی شادی ہے اگر چلتے ہو تو کچھ دیں آئیں ؟؟؟ میں نے کہا ہاں چلتے ہیں ۔۔۔۔۔اتوار کے روز صبح ناشتے کے دوران شاکرہ بولی اگر آپ فری ہیں تو سائقہ لوگوں کو لینے چلے جاتے ہیں اور واپسی ان کو ہاسٹل چھوڑ کر مجھے امی کے گھر پہنچا دینا میں نے کہا نہیں تم صبح جانا امی کے گھر۔۔۔۔۔۔۔ میں مسکرا کر ٹی وی کی طرف دیکھنے لگا اور شاکرہ مسکراتے ہوئے برتن اٹھانے لگی ۔۔۔۔۔ ہم دس بجے سائقہ کی بستی کی طرف نکل پڑے تھے شاکرہ ریموٹ اٹھا کر گانے بدل رہی تھی ہم سائقہ کے گھر پہنچ گئے تھے مہوش اور اس کی امی بھی وہیں آئیں ہوئی تھی۔۔۔ ہم ان سے ملنے کے بعد کچھ دیر کے لئے زینت کی امی کے گھر چلے گئے اور پھر سائقہ ہمیں بلانے آ گئی تھی اور ساتھ زینب کی امی کو بلا لیا کہ خالہ آ جائیں کھانا تیار ہے ۔۔۔ دیسی خالص فوڈ ایٹم کے ساتھ لسی ۔۔۔شاکرہ کو بہت مزہ آ رہا تھا بولی جی کرتا ایک گھر بستی میں بھی لے لیں ۔۔۔ سائقہ کی امی بولی اس جگہ دیوار بنا کر آدھا گھر میں آپ لوگوں کو دے دیتی ہوں ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے ہنستے ہوئے سائقہ کی امی کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا تھا ۔۔۔ سائقہ اور مہوش نے دل لگی سے ہماری خوب خاطر مدارت کی تھی ۔۔۔ ہم واپسی کے لئے تیار ہو چکے تھے شاکرہ بولی اپنی شہزادیوں سے مل لیں ہم یہ واپس نہیں کریں گے آپ کو ۔۔۔ مہوش کی امی بولی ہم نے واپس لینے کیلئے کب دی ہیں آپ کو ۔۔۔۔۔۔ سائقہ اپنی امی کو دیکھتے ھوئے بولی ۔۔میری امی تو یہ بات نہیں بول رہی ۔۔۔۔ سائقہ کی امی نے کیوں بولوں میں تو ایسے واپس لوں گی ان لوگوں سے ۔۔۔ سائقہ بولی میں خود ہی واپس نہیں آؤں گئی ۔۔۔۔ سائقہ کی امی نے اسے گلے لگا کر چوما اور اپنی بھیگی آنکھیں صاف کرتے ہوئے سائقہ کو دھکا دیتے ہوئے ۔۔ مسکرا کر کہا دفاع ہو جاؤ۔۔۔۔۔پگلی کہیں کی ۔۔۔۔ میں نے اپنے چہرے کو دوسری طرف کر کے اپنی آنکھوں کے کنارے صاف کر لئے۔۔۔ ان کا سارا سامان شاکرہ گاڑی کی ڈگی میں رکھ رہی تھی اور کچھ سامان واپس کر دیا کہ اس کو رہنے دو سائقہ نے برقعہ پہننے کے بعد اپنے ہاتھ میں ایک شاپر اٹھا لیا ۔۔۔ شاکرہ نے شہد کی ان دو بوتلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ کس لئے ۔۔۔ سائقہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی یہ استاد ۔۔۔۔ او میڈیم کے لئے تحفہ لے کے جا رہی ہوں ۔۔۔ شاکرہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھی اور سائقہ کی امی اور باقی لوگوں سے ملنے لگی ۔۔۔۔ گلی سے نکل کر کچے پر آتے ہی پچھلی سیٹ پر بیٹھی سائقہ نے پیچھے ہاتھ لہرا کر کہا بائے بائے میری بستی ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے مسکرا کے پیچھے دیکھا اور بولی بائے بائے تو ایسے بول رہی ہو جیسے یہاں سے دلہن بن کے جا رہی ہو ۔۔۔۔ مین روڈ پر آتے ہی سائقہ نےشاکرہ سے بولا ۔۔۔ باجی ماموں سے لونگ لاچی والا گانا تو لگوا دو ۔۔۔۔ شاکرنے ریموٹ اٹھا کر میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ہے آپ کے پاس ؟؟؟ میں نے اپنا سر اثبات میں ہلا کر پیچھے دیکھتے ہوئے آگے جاتے ٹرکوں کو۔کراس کرنے لگا ۔۔۔ سائقہ شاکرہ سے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی ڈرائیونگ پر بھی پوری توجہ دے رہی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ نے گانا ڈھونڈ لیا تھا اور ساتھ والیم بھی فل کر دیا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔ شہر کےایک چوراہے پر میں نے گاڑی کی سپیڈ تھوڑی کم کی اور لفٹ سائیڈ پر ہاسٹل کی طرف مڑنا چاہا تو شاکرہ نے سیدھا جانے کا کہا اس رش سے نکلنے کے بعد شاکرہ بولی مارکیٹ چلتے ہیں ۔۔۔اور پھر پیچھے ہاتھ لہراتے ہوئے بولی ان کا ہاسٹل کے لئے کچھ ضروری سامان لے لیتے ہیں ۔۔۔ میں نے ایک مارکیٹ کے پاس گاڑی روک لی ۔۔ میں نے شاکرہ سے کہا آپ جاؤ ان کے ساتھ میں گاڑی میں بیٹھا ہوں ۔۔۔۔۔ وہ تینوں گاڑی سے اتر گئیں تھی اور چند قدم جانے کے بعد سائقہ کا پاؤں کیلے کے چھلکے سے پھسل گیا تھا لیکن اس نے خود کو گرنے سے بچا لیا تھا ۔۔۔۔ لیکن یہ رک چکے تھے اور سائقہ نے اپنے ہپس کے اوپر ہاتھ رکھ کے اپنا سر جھکا لیا تھا وہ قدم نہیں اٹھا رہی تھی شاکرہ اسے کندھے سے پکڑ کر کچھ پوچھ رہی تھی اور میں مسکرا رہا تھا ۔۔۔ پھر وہ دونوں سائقہ کو پکڑے واپس گاڑی کی طرف آنے لگے تھے اور وہ بہانے سے آہستہ قدم رکھ کر لنگرا کر چل رہی تھی وہ جب قریب آئے تو میں شیشہ نیچے اتارتے ہوئے پریشانی کی اداکاری کرتے ہوئے پوچھا ۔۔کیا ھوا۔۔۔ شاکرہ بولی پھسل گئی تھی اور اسے چلنے میں دشواری ہو رہی یہ ادھر بیٹھی ہے اور ہم ابھی آتے ہیں میں نے اوکے کہہ خر پچھلی کھڑکی کھول دی ۔۔۔۔ سائقہ محتاط انداز میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی شاکرہ لوگ جیسے ہی گاڑی سے دور ہوئے اس نے کھڑکی بند کی اور پچھلی سیٹ پر الٹی لیٹتے ہوئی چلانے
لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ وائی وائی وائی ۔۔۔۔ یہاں
بہت درد ہو رہا ۔۔۔۔ وہ ہپس کی سائیڈ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں نے ہونہہہہ کرتے ہوئے سیٹ پر سے اپنا ہاتھ اس کی ببلی کی طرف لے جا کر کہا زیادہ درد ادھر ہے ناں ۔۔۔۔۔ سائقہ اثبات میں سر ہلا کر قہقہے لگانے لگی ۔۔۔میں نے اس کے ہپس پر زور سے مکا مارا اور بولا اٹھ جا بہن کی لوڑی۔۔۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر لگاتے ہوئے بولی مانوں ں ں آئی لو یو۔۔۔۔ ۔۔ میں نے مارکیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے اسے اٹھنے کو کہا اور موبائل کا بٹن دکھا کر اسے آن کرنے لگا اور پھر اسے سائقہ کو تھماتے ہوئے بولا ۔۔۔ اسی بٹن سے اسے آف کر دو اس نے موبائل کا بٹن دبا کر اسے آف کر دیا میں نے اسے اپنے پرس میں رکھنے کو کہا اور بولا ہاسٹل میں جب ایزی ہو جاؤ ۔۔۔ تو آن کر لینا ۔۔۔۔۔۔ یہ سامسنگ کا J7۔۔۔ میں نے اسے کہا کہ صرف ہاسٹل کے روم میں اس کو آن کرنا ہے اور کالج جاتے وقت روم میں ہی رکھ کے جانا ہے ۔۔۔ اس نے اوکے کہہ دیا اور کچھ پیسے دیکر اسے بتایا کہ صبح میں آپ کو کالج چھوڑنے آ جاؤں گا ۔۔۔۔اور ایک بزرگ سے ملا دوں گا آئندہ وہ چنگ چی پر آپ کو کالج اور ہاسٹل لاتے گا ۔۔۔یہ بزرگ دوماہ پہلے میرے پاس امداد کے لئے آیا تھا جسے میں نے چنگ چی خرید دی تھی کہ اسے چلا کر اپنی ضروریات پوری کرے اور جب تھک جائے تو چنگ چی مجھے واپس کر دے ۔۔۔آج سے کچھ روز قبل میں نے اسے بتا دیا تھا کہ کالج اور ہاسٹل کی ڈیوٹی لگائی ھے آپ کی جسے اس نے خوشی سے یہ کہتے ہوئے قبول کر لیا کہ چلو آپ کی خدمت کا کوئی موقع تو مل رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہوش کے بارے میں میں نے سائقہ سے پوچھا توبولی ۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔ سیٹ ہو جائیگی ۔۔۔۔ شاکرہ اور میں ان کو ہاسٹل میں پہنچانے کے بعد نکل پڑے تھے شاکرہ نے موبائل سے نظر اٹھا کر آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے بولی۔۔۔۔ کہاں جا رہے ؟؟؟ میں نے کہا پارک ۔۔۔۔ اس وقت شام کے آٹھ بج چکے تھے ۔۔۔ شاکرہ نے مسکرا کر دیکھا اور بولی خیریت ۔۔؟؟؟ کوئی لالچ تو نہیں ؟؟ میں نے کہا لالچ کے بغیر کون اتنا اہتمام کرتا ۔۔۔۔ شاکرہ نے مسکراتے ہوئے دوسری طرف دیکھتے ہوئے اپنے لبوکو گولائی میں کھولتے ہوئے اوووووووو ۔۔۔۔۔ کہہ دیا رات بارہ بجے ہم گھر آ کر ضروری کام سے فراغت کی بعد سو گئے ۔۔۔ صبح چھ بجے موبائل نے الارم بجا دیا اور میں تیار ہو کر ہاسٹل کی طرف نکل پڑا کالج کے گیٹ کے ساتھ بزرگ چنگ چی والا پہنچا ہوا تھا میں نے سائقہ اور مہوش کو بتا دیا کہ یہ آپ لو ہاسٹل اور کالج وقت پر پہنچا دے پہنچا دے گا میں گھر آ کر شاکرہ سے بولا کہ تیار ہو جاؤ امی کی گھر جانا ہے تو ۔۔۔۔۔۔ بولی امی کہیں جا رہی ہے فون پر رابطہ ہوا ہے ۔۔۔ میں جمعہ کے دن جاؤں گی اور تین دن وہاں رہوں گی ۔۔۔ چار دن پہلے بتا رہی ہوں وہ اپنا سر جھٹک کر پیار سے دیکھتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔۔۔ سائقہ کی امی کو میں ڈیلی کال کر کے اس کی حوصلہ افزائی اتوار کے صبح میں نے لاہور کسی تقریب میں شرکت کرنی تھی اور جمعہ کی شام کو پہلی بار سائقہ سے کال پر تفصیلی بات ہوئی تھی وہ ہر لحاظ سے مطمئن تھیں لیکن وہ خود ملنے کو تڑپ رہی تھی ۔۔۔ میں نے اسے سمجھایا کہ نیا سسٹم ہے جلد مل لیں گے میں نے اسے اپنا پروگرام بتاتے ہوئے کہا کہ آپ ہاسٹل سے ضروری سامان کے ساتھ کالج آنا میں آپ کو چھٹی کے بعد گھر پہنچا کر لاہور نکل جاؤں گا۔۔۔۔۔ سائقہ بولی آپ ابھی نکل جاؤ ہم بس پر چلی جائیں گی ۔۔۔۔ اس کا اصرار تھا کہ میں لاہور نہ جاؤں اور رات اس کے ساتھ گزار کر اتوار کے روز ان کو واپس لے کر آ جاؤں
۔۔۔۔ (جاری ہے)


میں نے سائقہ کے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس نے کہا کہ شام کو یہاں سے نکلیں گے اور آپ رات ادھر ہی گزارو گے ۔۔۔ میں نے کہا شام کو کیوں نکلنا بولی میں گاڑی چلاؤں گی ۔۔۔ میں نے کہا کہ تمھیں گاڑی چلانے سے نہیں روک رہا دن کو بھی چلا سکتی ہو اور میں سنڈے کی لاہور سے نکل کر بہت صبح آپ کے پاس آ جاؤں گا اور آپ کو وقت پر کالج پہنچا دوں گا ۔۔۔ اس نے کال بند کر دی اور میں بہت دیر تک سر جھکائے بیٹھا سوچتا رہا میرا لاہور جانا بہت ضروری تھا سو میں نے سائقہ کو کال ملا دی کال کو آخری لمحے میں اٹینڈ کر لیا گیا تھا ۔۔۔ اور مہوش نے ہیلو کہا ۔۔ میں نے پوچھا سائقہ سے بات کراؤ ۔۔۔ بولی رو رہی ہے ۔۔۔ میں نے مہوش سے کہا کہ موبائل اس کے کان سے لگا دو۔۔۔ اس نے اوکے کہہ دیا سائقہ کے الجھے سانسوں کو محسوس کرتے ہوئے میں نے کہا ۔۔۔ سائقہ بات سنو ۔۔۔۔ لیکن اس نے گہری اکھڑی سانس لے لی میں نے ایک دم بولا ۔۔سقی ۔۔۔۔۔۔ تو وہ ہنسنے لگی تھی ۔۔۔۔ اور ساتھ کال منقطع ہو گئی اور اگلے لمحے اس نے کال کر لی ۔۔۔ میں نے کال پک کر کے گہرا سانس لے لیا ۔۔۔ بولو مانوں ۔۔۔۔ میں نے کہا کیا ہوگیا تمہیں ۔۔۔۔ بولی پتا نہیں کیا ہو رہا ۔۔۔دو مہینے ہو گئے ۔۔۔ بسسسس۔ ۔۔ میں نے کہا سقی کبھی آپ کی بات کو رد کیا ؟؟؟ نہیں مجھے اس لئے افسوس ہوا ۔۔۔ میں نے کہا میری مجبوری نہیں سمجھو گی بولی بس ٹھیک ہے جس ٹائم بولو گے ہم تیار ہونگی ۔۔۔ میں نے تھینکس بولا اور کہا چھٹی کے بعد نکل جائیں گے آپ سکون سے گاڑی چلا لینا اور میں شام سے پہلے واپس آ کر لاہور چلا جاؤں گا بولی ۔۔۔ٹھیک ہے پر گاڑی میں نہیں چلاؤں گی ۔۔۔ میں نے کہا مطب ناراضگی قائم ہے بولی نہیں ناراضگی بھی ختم ہو گئی سقی کی ۔۔۔ میں نے کہا تو گاڑی کیوں نہیں چلاؤ گی بولی دن کو اچھا نہیں لگے گا ۔۔۔ میں نے کہا کیوں اچھا نہیں لگے گا ۔۔۔ بولی مجھے ایسے گاڑی چلانا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ ویسے اچھا لگتا ۔۔ میں نے کہا ۔۔مطلب ؟؟؟۔ بولی تکیہ نہیں ہو گا بس ۔۔۔۔ میں بات سمجھ چکا تھا ۔۔ میں نے اسے کہا اوکے چھٹی کے بعد ہاسٹل آ جانا میں کال کر لوں گا شام سے کچھ پہلے اور بستی جا کر رات گزارنے کا ضدِ نہیں کرو گی ۔۔۔۔۔ وہ بہت دیر ہنستی رہی پھر بولی اوکے نہیں کرونگی ۔ آپ چلے جانا ۔۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کال بند کر دو بولی آپ کر دو ۔۔۔ میں نے کہا اوکے مہوش کو دے دو ۔۔۔ بولی ہاں یہ آسان کام ہے ۔۔۔ مہوش سے پوچھا پڑھائی کیسی چل رہی بولی پڑھائی کو چھوڑو۔۔ یہ بتاؤ اس پر جادو کونسا کیا ۔۔۔ میں نے کہا کالا جادو۔۔۔ بولی یہ تو کالے جادو سے بھی کچھ بڑا لگ رہا ۔۔ ساتھ سائقہ کی آواز گونجی ۔۔۔۔ یہ اتنا بڑا ہے ۔۔۔۔ سائقہ کے ابھرتے قہقہے کے ساتھ کال منقطع ہو گئی ۔۔۔۔۔ شام سے کچھ قبل سائقہ مہوش کو پیچھے بٹھاتے ہوئے بولی ۔۔ بس تھوڑی دیر ادھر بیٹھوں پھر آگے آ جانا وہ مسکراتے ہو پیچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے مجھے سلام کیا میں نے اس کی طرف ہات بڑھا لیا مہوش نے ہنس کر اپنا سر جھکایا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھا لیا میں نے اس کے ہاتھ کو چوم کر مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ کو آرام سے اس کے گھٹنے پر رکھ دیا سائقہ بولی آرام سے ایسے رکھ رہے ہو جیسے کانچ کی گڑیا ٹوٹنے لگی ہو ۔۔۔ لالچی مانوں ۔۔۔ میں نے گاڑی مسکراتے ہوئے آگے بڑھا دی ۔۔۔ گاڑی نے جیسے ہی شہر کے آخری چوک سے مین روڈ پر ٹرن لیا سائقہ نے برقعہ اتار کر پیچھلی سیٹ پر پھینک دیا شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے میں نے گاڑی کی لائٹس جلا لیں مہوش نے نقاب اتار لیا تھا لیکن برقعہ پہنے ہوئے تھی ۔۔۔ میرے موبائل پر سائقہ کی امی نے مس کال دی تھی ۔۔ میں نے کال ملا کر موبائل سائقہ کی طرف بڑھا دیا سائقہ نے ہیلو کہا اور اپنی امی کی بات سننے لگی ۔۔۔ پھر بولی امی ماموں کا کوئی ضروری کام تھا یہ ابھی ہاسٹل کے باہر پہنچے ھیں بس مہوش سامان اٹھا کر آ رہی ہے تو تھوڑی دیر میں نکلتے ہیں ۔۔۔ پھر والے خاموشی سے امی کی بات سننے کے بعد بولی امی گھر آنا ہے ناں بس پہنچ جائیں گے ۔۔ آپ مہوش کی امی کو بتا دو ۔۔۔اور پھر کال بند۔کر کے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے مہوش کو بولا برقعہ تو اتار دو یارررر۔۔۔ اور آگے آ جاؤ۔۔۔ میں ابھی آپ کو کمال دکھاتی ہوں ۔۔۔ مہوش بولی کمال کس چیز کا سرکس لگی ہے کیا ۔۔۔ سائقہ اپنے ہاتھوں کو اسٹیرنگ کی طرح گھماتے ہوئے بولی ہاں میں ابھی جہاز پر بیٹھ کر گاڑی چلاؤں گی ۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے سائقہ کو دیکھا اور گاڑی کی سپیڈ کم کرنے لگا مہوش سائقہ کی سیٹ سے سر ٹکا کر ہنس رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے گاڑی سائیڈ پر روک دی اور اندر جلتی لائٹ کو آف کر دیا سائقہ نے اٹھ کر میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرا اور مجھے کسنگ کرنے لگی میں نے بھی اس کے گالوں کا مزہ لیا اور اس کے ہپس کو پکڑتے ہوئے بولا جلدی کرو لیٹ ہو جائیں گے مہوش اپنا سر جھکائے مسکرا رہی تھی ۔۔ سائقہ میری گود میں بیٹھتے ہوئے مہوش کو سر پر تھپڑ مار کے بولی ۔۔۔۔ آگے آ جاؤں سائقہ نے اپنے ریشمی ہپس سے میری گود کو بھر لیا تھا ۔۔۔ مہوش فرنٹ سیٹ پر آ گئی تھی اور سر جھکائے ترچھی نظروں سے سائقہ کے ہپس کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ سائقہ گیئر لیور پر ہاتھ رکھ کر مہوش سے کہنے لگی ۔۔۔ کالا جادو دیکھو گی ؟؟؟؟ مہوش نے مسکراتے ہوئے اپنے چہرہ لفٹ سائیڈ پر پھیرتے ہوئے کہا ۔۔۔ تم دیکھو ۔۔ مجھے معاف رکھو۔۔۔۔ سائقہ نے محتاط انداز میں آگے پیچھے دیکھتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی وہ آج مہارت سے گیئر بدل کر گاڑی کو نارمل پوزیشن پر لے آئی میں اس کے نگرانی کرتے اس سے سپید بڑھانے کو بول رہا تھا اور آج وہ پہلی بار سے قدرے بہتر سپیڈ میں چلانے لگی تھی گاڑی کا اسٹیرنگ سائقہ کے ہاتھوں میں بہت پیارا لگنے لگتا تھا روڈ پر اتنا رش نہیں تھا اور میں اس کی سپیڈ 50 پلس کر چکا تھا اور اپنے ہاتھوں اور پیروں کو ایزی کر لیا تھا تاکہ میں کسی بھی صورت میں گاڑی کا فوری کنٹرول سنھبال سکوں روڈ پر آگے جانے والی چنگ چی اور دیگر گاڑیوں کے کراس کے وقت میں اپنے ہاتھ اسٹیرنگ پر جما لیتا تھا لیکن سائقہ مہارت سے کنٹرول کرتی جا رہی تھی ہم مہوش کی بستی جانے والے روڈ پر پہنچ گئے تھے مہوش پیچھلی سیٹ پر چلی گئی تھی اور برقعہ پہننے کے ساتھ اپنا سامان سنبھالنے لگی تھی اس کچے رستے پر جمپ لگنے سے سائقہ گاڑی کنٹرول کرنے میں تھوڑی ڈسٹرب ہو رہی تھی میں نے کنٹرول سنھبال لیا وہ مجھے کسنگ کرتے پیچھے جانے لگی تھی ۔۔۔۔ مہوش کے گیٹ کے پاس میں ان دونوں کو اتار کر گاڑی کو گلی میں آگے لے جا کر ٹرن کرنے لگا سائقہ بھی مہوش کے ساتھ اس کے گھر میں جا چکے تھی اور صرف دو مںٹ میں ہی برقعے میں مٹکتی واپس آ گئی تھی ۔۔۔ مہوش کی امی نے اپنے گیٹ میں کھڑے ہو کر رسمی کلمات ادا کئے اور میری بلائیں لیتی ہوئی بولی کبھی وقت پر نکل کر ہمارے گھر بھی آ جانا ۔۔۔ سائقہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی تھی اور میں مہوش کی امی کو سلام کرتے گاڑی آگے بڑھا گیا سائقہ برقعہ اتار کر میری گود میں آ گئی تھی اور کچے رستے پر گاڑی کو بڑھتا غور سے دیکھ کر اپنے ہاتھ جمانے لگی تھی مین روڈ پر آتے ہی میں نے گاڑی مکمل طور پر اس کے حوالے کر دی ۔۔۔۔ شاکرہ کی کال آنے لگی پوچھا کہاں تک پہنچے میں نے اسے لاہور روٹ کی ایک سٹاپ سے پہلے کا بتا دیا ۔۔ سائقہ لوگوں کا پوچھا تو میں نے کہا کہ انکو اگلے ہفتے انہیں بھیجنے کا بولا کہ پندرہ دن کے بعد کی روٹین بناتے ہیں ان کی اس نے مجھے محتاط ڈرائیونگ کی مختصر ہدایات جاری کیں اور کال منقطع کر دی ۔۔۔ ہم 10:15 بجے سائقہ کی بستی کے پاس پہنچ گئے سائقہ پچھلی دیٹ پر چلی گئی اور برقعہ پہننے کے بعد اپنا سامان سنبھالتے ہوئے کہنے لگی گندہ مانوں ۔۔۔ اپنی سقی کو تڑپتا چھوڑ کر جا رہا ۔۔۔۔ میں نے کہا سقی تیری تڑپ جلدی بند کر دوں گا ۔۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے اترنے لگی میں گاڑی کا سوئچ آف کئے اتر چکا تھا سائقہ کی امی اور زینت کی گیٹ پر۔موجود تھیں ۔۔۔ میں نے ان سے تھوڑی گفتگو کی اور اجازت لیکر نکل پڑا میں نے یہاں سے لاہور کے کچھ شارٹ کٹ روٹ ذہن میں بٹھا رکھے تھے جن پر مجھے کچھ سہولت دستیاب ہوئی میں صبح چھ بجے بھاٹی گیٹ کے پاس ایک ہوٹل کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے روم چلا گیا اور دس بجے کا الارم لگا کر سو گیا تقریب گیارہ بجے سٹارٹ ہونی تھی ۔۔۔۔۔ میں اس تقریب سے چھ بجے شام کو فری ہو گیا اور واپس اسی ہوٹل میں آ کر سو گیا تین گھنٹے کی نیند کے بعد میں کافی حد تک فریش ہو گیا تھا میں رات گیا بجے لاہور سے واپس نکل پڑا مہوش کو اس کا ابو شام سے کچھ پہلے اسے سائقہ کے گھر چھوڑ گیا تھا ۔۔۔ میں نے گاڑی کی سپیڈ بھی گزشتہ رات سے بڑھا رکھی تھی اور پہلے والے کچھ انجانے رستوں سے بھی واقف ہو چکا تھا میں نے صبح پانچ بجے سائقہ کے گھر کے سامنے گاڑی روک رہا تھا اور وہاں ایک گلاس دودھ پینے کے بعد سائقہ اور مہوش کی لیکر نکل پڑا تھا دن کی روشنی میں سائقہ میری گود میں نہیں بیٹھ سکتی تھی اور ایسے وہ چلانا نہیں چاہتی تھی میں نے ان کو کالج ٹائم سے 45 منٹ پہلے ہاسٹل کے گیٹ پر اتار دیا تھا اور ہاسٹل انتظامیہ سے بات کر کے گھر آ کر سو گیا ۔۔۔۔۔ میں شام کو شاکرہ کو گھر لے آیا۔۔۔۔۔۔۔ ہاسٹل میں میں نے ان دونوں کی روٹین لکھا دی تھی کہ وہ ہفتے کے روز کالج کی چھٹی کے بعد گھر چلی جائیں گی اور اتوار کی شام یا سوموار کو ہاسٹل آئیں گی جبکہ دوسری طرف سائقہ کی امی اور شاکرہ کو پندرہ روزہ پلان بتا دیا تھا ۔۔۔۔ انتظار کا یہ ہفتہ بہت طویل ہو گیا تھا اور اسی ہفتے میں نے ایک دوست کے ساتھ مشترکہ کاروبار بھی شروع کر دیا تھا میرے ذہن میں یہی تھا کہ اس سے ہونے والے پرافٹ کو سائقہ اور مہوش کے اخراجات پر صرف کرونگا ہفتے کے روز میں نے شاکرہ سے کہا کہ ان کے چھٹی کے بعد ان کو بستی چھوڑنے جائیں گے ۔۔۔ بولی اگر آپ کو برا نہ لگے تو آپ چلے جاؤں اور مجھے امی کے پاس چھوڑ دو میں تھک جاتی پھر کبھی چلی جاؤں گی ۔۔۔ شاکرہ کی امی یعنی میری ساس بھی سائقہ کی امی کی طرح شوگر پیشنٹ تھی اور شاکرہ کوشش کرتی تھی کہ فرصت کے لمحات اپنی امی کی خدمت میں گزار لے ۔۔۔۔ میں نے شاکرہ کو اوکے کہہ دیا اور اسے بولا کہ اپنی تیاری کر لو میں بھی کچھ وقت آپ کی امی کے۔ساتھ گزار لوں گا شاکرہ کی امی بھی مجھے سب دامادوں سے عزیز رکھتی تھی اور روز اول سے ہی اس نے مجھے بہت پیار دیا تھا ۔۔۔۔ میں کالج کی چھٹی سے دس منٹ۔پہلے کالج کے گیٹ پر پہنچ چکا تھا اور بزرگ چنگ چی والے کو چھٹی دے دی ۔۔۔ سائقہ اور مہوش چھٹی ہونے پر سب سے پہلے گرلز کے گروپ کے ساتھ باہر آ گئی تھی اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں میں نے مارکیٹ کا رخ کر لیا اور ان کی پسند کے دو دو سوٹ خرید لئے سائقہ نے اپنے جیسی ایک جینز اور کچھ شرٹس مہوش کے لئے بھی لے لیں اور دیگر کچھ سامان کی خریداری کے بعد ہم گاڑی میں واپس آ گئے اور میں نے گاڑی کو ایک قدرے کم رش والے روڈ پر ڈال خر ان کو سوٹ پہننے کا کہا وہ پیچھے بیٹھے بیٹھے سوٹ بدل چکی تھی اور اپنی کالج یونیفارم اتار کر شاپر میں ڈال لیں سائقہ ویسے بھی ہر سوٹ اچھا لگتا تھا اور اس کہ جسم پر کپڑے کی اہمیت بڑھ جاتی تھی اور ساتھ مہوش بھی بہت پیالگ رہی تھی ۔۔۔ اور آج وہ کچھ خاموش بھی تھی اور کچھ الجھی ہوئی بھی تھی ۔۔۔ میں نے سائقہ کو دیکھتے ہوئے کہا آج مہوش کو گاڑی چلانا سکھاتے ہیں ۔۔۔ سائقہ بولی آج مہوش کو پائلٹ بنائیں گے ۔۔۔ آج یہ جہاز اڑائے گی ۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے مہوش سے پوچھا۔۔۔۔ سائقہ کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔ سچ میں آپ کو جہاز اڑانا آتا ہے ؟؟؟ مہوش بولی یہ بکواس کرتی ہے ۔۔۔ خود اڑائے گی جہاز ۔۔۔سائقہ بولی میں تو بہت ماہر پائلٹ ہوں ۔۔۔۔ اور آج اپنی کزن کو بھی سکھا دوں گی ۔۔۔۔ وہ شرماتے ہوئے بولی مجھے نہیں سیکھنا تم بس کافی ہو ۔۔۔ سائقہ بولی اوکے مجھے دیکھتی رہنا ۔۔۔۔ مہوش بولی مجھے دیکھنا بھی نہیں ہے ۔۔۔ میں نے ایک فوڈ پوائنٹ پر گاڑی روک دی ۔۔دہی بلے اور کولڈرنکس پینے بعد ہم پانچ بجے دوسرے سٹی کے اس بڑے کی جانب بڑھ گئے سائقہ بولی شکریہ مانوں آج میں تو آپ کے سارے احسان ایک رات میں اتار دونگی ۔۔۔۔ اب اس۔کنجوس کو دیکھتے ہیں کیسی اتارتی آپ کے احسان اپنے سے ۔۔۔۔ میں نے کہا یہ مجھے اپنے سے اتارے گی تو پھر بھی نہیں اتروں گا۔۔.۔۔۔ سائقہ ہنستے ہوئے کہنے لگی شہر کے کالج میں داخلہ اتنا آسان نہیں ہے قربانی دینی پڑتی ہے خون بہانا پڑتا ہے مہوش سر جھکائے مسکرا رہی تھی اور اب بات کا جواب دینے کے بجائے ہر بات پر سائقہ کی ران پر مکے مارنے لگی تھی ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا سقی ٹم بہت بدتمیز ہے کیوں ڈرا رہی ہو بچی کو۔۔۔۔ سائقہ بولی بس جتنے تک بچی ہے بچی ہے ۔۔۔ سمجھو آج نہیں بچی ہے ۔۔۔ میں نے کہا مہوش یہ تمھیں خوامخواہ ڈرا رہی ہے ۔۔۔۔ سائقہ بولی ہاں مانوں تمھیں تو کچھ نہیں ہونے والا لیکن اففففف آج جو اس کی نازک جنڈ کے ساتھ ہونے والا ہے ناں اففففففففف ۔۔۔۔ سائقہ تالی بجاتی ہنستے ہوئے گٹھڑی بن رہی تھی ۔۔۔۔ پارک میں بھی سائقہ نے مہوش کو بہت تنگ کیا ۔۔۔ سنجیدہ ہوتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔کزن اپنی آخری خواہش بتا دو ۔۔۔ جہاز سے پہلے کس جھولے پر بیٹھو گی
..

کالج کے گیٹ سے تھوڑا پہلے میں رک گیا تھا چنگ چی والے بابے کو میں نے واپس بھیج دیا اور اسے کہا کہ ہاسٹل کے مسئلے کے بعد فی الحال آپ کی ڈیوٹی ختم ہو گئی ہے چھٹی ہونے پر سب سے پہلے گروپ میں نکلنے والی سائقہ اور مہوش کالج گیٹ کے باہر سائیڈ پر رک کر ادھر ادھر دیکھنے لگی گاڑی میں نے جان بوجھ کر سائیڈ پر کھڑی کر دی تھی اور ایک چنگ چی میں بیٹھ کر اس کے ڈرائیور سے باتیں کرتا ان کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ مہوش بہت پریشان لگ رہی تھی لیکن سائقہ پہلے سے بھی مست انداز میں اپنا سر جھکا کر مہوش سے کچھ کہہ رہی تھی پھر وہ مہوش کا ہاتھ پکڑ کر روڈ کراس کر کے دوسری طرف چلی گئی اور اسی سائیڈ پر آنے لگی جس طرف گاڑی کھڑی تھی انہوں نے مجھے نہیں دیکھا تھا لیکن سائقہ نے گاڑی کو دیکھ لیا تھا اور ایک بار پھر روڈ کراس کر کے گاڑی کے پاس آ کر مہوش ادھر ادھر دیکھنے لگی جبکہ سائقہ نے گاڑی کی کھڑکی کھولی اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے مہوش سے کچھ کہہ رہی تھی مہوش بھی عجلت میں دوسری طرف جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی میں نے گاڑی کو لاک نہیں کیا تھا اور چابی بھی سوئچ میں موجود تھی ۔۔۔ ادھر دو لڑکیاں چنگ چی کے پاس آ کر رک گئی تھی اور میں چنگ چی سے اتر کر ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا اور ایک جیپ کی آڑ میں کھڑے ہو کر دیکھنے لگا سائقہ نے گاڑی اسٹارٹ کر لی تھی اور اس کا علم مجھے گاڑی کے معمولی حرکت سے ہوا ۔۔۔ مجھے علم تھا کہ اسے آگے پیچھے کچھ نظر نہیں آ رہا ہو گا اور وہ ڈرائیونگ سیٹ میں دبی بیٹھی ہو گی ۔۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس نے گاڑی آگے بڑھا لی تھی اور میرے سامنے سے گزرتے ہو میں نے دیکھ لیا تھا کہ وہ مہوش کی جھولی میں بیٹھی ہے ۔۔۔ وہ ہارن بجاتے آگے چلی گئی تھی اور میں روڈ پر آ کر اس طرف چلنے لگا گاڑی میری نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی اور تھوڑی دیر بعد پھر آنے لگی تھی ۔۔۔ سائقہ باہمت لڑکی تھی اور اس طرح گاڑی چلانے سے میرا اعتماد بڑھ گیا تھا ۔۔ وہ میرے پاس گاڑی روک کر شیشہ اتارتے ہوئے بولی اب ہم نہیں بٹھائیں گے ۔۔۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں ہم پیدل آ جائیں گے ۔۔۔ پھر ہنستے ہوئے بولی پر جانا کہاں ہے ۔۔۔ سائقہ اٹھ کر فرنٹ سیٹ جبکہ مہوش پیچھے چلی گئی تھی ۔۔۔۔ میں بیٹھا تو سائقہ نے پوچھا کہاں چلنا ہے مانوں ۔۔۔ میں نے کہا بستی ۔۔۔ بولی مذاق نہیں کرو یاررر میں سر پھٹ رہا درد سے ۔۔۔۔۔ صبح ٹینشن میں ناشتہ بھی نہیں کیا ۔۔۔ میں نے کہا اچھا کچھ کرتے ہیں ۔۔۔ میں نے راستے سے سائقہ کی پسندیدہ بریانی پیک کرائی ۔۔۔ اور گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پارسل سائقہ کی گود میں رکھ دیا ۔۔۔۔ سائقہ بولی چائے یار چائے ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ ٹم چائے نہیں پیا کرو۔۔۔ پوچھا کیوں ۔۔۔ میں بولا ۔ کالی ہو جاؤں گی ۔۔۔ والے ہنسنے لگی تھی اور پھر بولی۔اچھا تو تم اس لئے گورے ہو کہ چائے نہیں پیتے پیچھے بیٹھی مہوش نے بھی ٹاہ ٹاہ سے قہقہہ لگایا ۔۔۔ پوچھا بتاؤ تو کہاں جا رہے ۔۔۔ میں نے گاڑی گلی سے اپنے اس مکان کی طرف بند گلی میں موڑتے ہوئے کہا ہم یہاں جا رہے ۔۔۔میں نے مکان کی چابی سائقہ کو دی اور وہ خوشی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے تالہ کھولنے لگی میں اور مہوش بھی اتر آئے تھے اور سامان نکالنے کے بعد گاڑی لاک کی اور سائقہ کے مکان میں جانے سے پہلے میں نے سوزوکی الٹو کی چابی اس تھما کر بولا ۔۔۔۔ مکان دونوں کا اور گاڑی صرف میری سقی کی ۔۔۔ گیٹ کے اندر کھڑی بلیک الٹو 17 دیکھ کر سائقہ نے خوشی سے جمپ لگایا اور ہووووو کا نعرہ لگاتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئی ۔۔۔ مہوش نے گیٹ بند کر دیا میں ان کو لیکر ایک روم میں آ گیا بیڈ کو دیکھتے ہوئے سائقہ بولی واوووووو یہ گھر کس کا وہ دوسرے کمروں برآمدے اور چھوٹے سے لان کو دیکھتے ہولی ۔۔ گھر کس کا ؟؟؟ میں نے اس کے ساتھ مہوش کو بھی اپنے بازوں میں لپیٹا اور بولا ۔۔۔ آپ کا پھر میں ان کر اسی طرح بیڈ پر لے گیا اور ان کو بٹھا کر چائے کا تھرماس اور کپ لیکر گیا سائقہ بیڈ پر کھڑی ہو کر بولی یہ کیا کر رہے ہو آپ ؟؟؟ بیٹھو ادھر میں فرمانبردار بچے کی طرح سر جھکا کر بیٹھ گیا بریانی کھاتے ہوئے میں نے بتا دیا کہ یہ اور اس کی بیک سائیڈ والا مکان بھی اپنا ہے اور دو دن میں ہونے والی اس تبدیلی کی ساری روداد سنا دی ۔۔۔ سائقہ اپنی ہرنی جیسی آنکھوں میں پیار بھر کر خاموشی سے سنتی رہی ۔۔۔ پھر بولی تم چیز کیا ہو مانوں ں ں ؟؟؟ پھر مستی سے مہوش کو دیکھتے ہوئے بولی تمھیں کہا تھا ناں ۔۔۔ تھوڑا سا درد برداشت کر لیا کرو ۔۔۔ مانوں اس کا بدلہ چکا دیتے ۔۔۔۔ مہوش بولی مجھے تو یہ حیرت ہوتی کہ تم نے کتنا درد برداشت کیا کہ ان کی مہربانیاں ختم نہیں ہوتی ۔۔۔۔ سائقہ چائے پیتے ہوئے ہنسنے لگی اور مہوش سے بولی چائے پیو ۔۔۔ مانوں کے ہاتھ کی بنی۔۔۔۔ میں تو یہ چائے زندگی بھر نہیں بھول سکوں گی ۔۔۔ پھر ہم الٹو کے پاس آ گئے سائقہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر بولی باقی سب ٹھیک ہے لیکن ایک کمی ہے بسسسس وہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ کر سیٹ سے اتر آئی تھی ۔۔۔ مہوش بولی ابھی بھی کوئی کمی ہے ؟؟؟ پورا تو بھر لیتی اپنے اندر ۔۔۔ سائقہ بولی اور تم تو تھوڑا سا باہر چھوڑ دیتی ہو۔۔ ہیں ناں ؟؟؟ وہ مستی بھری باتوں سے میرے دل کی تاروں کو چھیڑ رہی تھی ۔۔۔۔ کیبل والوں کی کال آ گئی کہ ہم سپر سٹور کے ساتھ مین گلی میں ہیں ۔۔۔۔ میں انہیں دو منٹ میں آنے کا کہہ کر ۔۔۔ ان کو دوسرے کمرے میں ساتھ لے گیا اور ایل ای ڈی اٹھا کر ان کو ادھر پلاسٹک شیٹ پر بیٹھنے کا کہا ۔۔۔ انہوں نے دروازہ بند کر لیا اور میں بیڈروم میں ایل ای ڈی رکھ کر کیبل والوں کو بلانے چلا گیا ۔۔۔ انہوں نے آدھے گھنٹے میں سب اوکے کر دیا اور چلے گئے ۔۔۔ میں نے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے سائقہ کو ریموٹ تھمایا اور انہیں بیڈروم لے آیا ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر ٹی دیکھنے کے بعد ہم پھر باتیں کرنے لگے تھے وہ اکیلے گھر میں رہنے سے ڈر رہی تھی لیکن گھر کو دیکھ کر اور میری باتوں سے تھوڑی مطمئن ہو گئیں ۔۔۔ انہوں نے دو دن بعد گھر جانا تھا اور میں نے ان سے وعدہ کیا کہ کل آپ کے پاس رہوں گا ۔۔۔ آج شاکرہ کی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں تھی دن پہلے ہونے والے بخار کے۔بعد اس کو ویکنس تھی اسے شام کے بعد ڈاکٹر کے پاس لیکر جانا تھا ۔۔۔۔۔۔ شام سے قبل شاکرہ کی کال آ گئی تھی کہ آج تو پورا دن غائب رہے خیریت ؟؟؟ میں نے کہا ادھر سٹی میں ہی ہوں ۔۔۔ کچھ دیر میں آتا ۔۔ میں نے سائقہ سے کہا کہ کل۔کا دن صبح چنگ چی پر کالج چلے جانا اور گاڑی نہیں نکالنا پھر اس کی ترتیب بںا لیں گے اور آپ گاڑی پر ہی جاؤ گی ۔۔۔ کچن میں ملک پیک کے ساتھ دیگر ضروری سامان بھی میں نے رکھ دیا تھا اور ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔۔۔ میں نکلنے لگا اور انہوں نے مجھے گیٹ تک پہنچایا اور گیٹ کو لاک کر دیا۔۔۔۔ کالج جہاں سے دس منٹ کی ڈرائیو پر تھا اور میرا گھر کالج سے آگے دس منٹ کی ڈرائیو یعنی مجھے جہاں تک آنے کے لئے بیس منٹ درکار تھے ۔۔۔ رات دیر تک دو دونوں ٹی وی دیکھنے کے ساتھ مجھ سے چیٹنگ کرتی رہیں اور پھر سونے لگیں صبح اٹھ کر میں نے اپنے ضروری کام نمٹا دئیے ۔۔شاکرہ کی طبیعت پہلے سے بہتر تھی میں نے اسے کہا کہ آپ دوچار دن امی کے گھر آرام کر لو اور میں مچھلی کے شکار پر دوستوں کے ساتھ چلا جاتا ۔۔۔۔ بارہ بجے میں نے اسے امی کے گھر پہنچایا اور کچثدیر بیٹھنے کے بعد کالج کے گیٹ پر آگیا راستے سے کچھ کھانا پیک کرانے اور ایک جگہ سے اوون خریدنے کے بعد ہم مکان میں پہنچ گئے۔۔۔۔ ہم نے ایک ساتھ کھانا کھایا ۔۔۔سائقہ اور مہوش نے صبح کالج جانے سے پہلے بیڈ روم کو صاف کر دیا تھا اب انہیں نے میرے آگے روم کا دروازہ بند کر کے گھر کی صفائی شروع کر دی تھی ۔۔۔۔ اور چائے بنا کر اپنا ایک ایک کپ اٹھائے روم میں آ چکی تھی ۔۔۔۔ چائے پینے کے ساتھ وہ دونوں میرے ساتھ باتیں کرنے لگ گئی تھی مہوش نے سائقہ سے کہا کہ شیما کی بات تو کر لو ۔۔۔۔ سائقہ بولی ہاں مانوں وہ ہماری ہاسٹل کی دوست ہے اور کلاس فیلو بھی وہ چاہتی ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ رہوں ۔۔۔۔ وہ رات اپنی کسی پھپھو کے گھر رہی ہے اور انہوں نے اسے کہہ دیا ہے کہ اپنا بندوبست کر لو ملنے آ سکتی ہو پر مستقل ہم نہیں رکھ سکتے ہمارے بچے جوان ہیں ۔۔۔ آخر میں سائقہ ہنسنے لگی تھی ۔۔۔ میں نے فوراً اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔۔۔بس بابا آپ دو بلائیں کافی ہیں میرے لئے ۔۔۔۔ سائقہ اپنے سر کو ہلاتے ہوئے بولی مانوں ں ں وہ بہت پیاری ہے ۔۔۔ دیکھو گے ناں ۔۔ تو ۔۔۔ سائقہ نے مجھے آنکھ مار دی ۔۔۔ میں نے کہا نہیں بس اسے کہو ۔۔ اپنی پھپھو سے کہے کہ تیرے جوان بچوں کا بوجھ میں اٹھا لوں گی ۔۔۔۔ مہوش بولی آپ مذاق کر رہے ۔۔۔ میں نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا نہیں مہوش ۔۔۔ میں نے سائقہ کو اپنے بازو میں لپیٹ کر اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ میں آپ لوگوں کے لئے جو اتنا کر رہا ہوں ناں ۔۔۔ یہ صرف اس چھوٹی سی سقی کے لئے کر رہا ہوں ۔۔۔ مہوش مسکرا کے اور کسی محرومی کا احساس چہرے پر سجا بولی ۔۔۔۔ آپ سچ میں سقی سے بہت پیار کرتے ہو ناں ۔۔۔ میں نے نفی میں سر ہلا کے بولا نہیں ۔۔۔۔۔۔ میں سقی سے عشق کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ مہوش کچھ دیر سر جھکائے بیٹھی رہی ۔۔۔ پھر بولی ایک بات کہوں ۔۔ میرے سوالیہ نظروں سے دیکھنے پر بولی ۔۔۔ آپ اپنی سقی سے شادی کر لو ۔۔۔۔ یہ بھی آپ کے بغیر ایک پل نہیں رہ سکی اور ذرا سا آپ کا میسج لیٹ ہو جائے ناں تو یہ وہم میں بہت سی وہم بھری باتیں کر کے رونے لگتی ہے اور کبھی کوئی بات ہو گئی ناں تو یہ ایک منٹ میں مر جائے گی ۔۔۔ میں نے سائقہ کو بچوں کی طرح اپنی گود میں لے لیا سائقہ نے بھی مجھے اپنی باہوں میں بھرتے ہوئے رونے لگی میں اس کی گال پر تھپکی دیتے حلق میں پھنسے الفاظ کے ساتھ اسے دیکھتا رہا سائقہ کچھ دیر بعد اپنی آنکھیں صاف کرتی ہوئی بولی ۔۔۔ آپ بس ہ؟ دونوں سے شادی کر لیں ۔۔۔ میں مسکرانے کی کوشش کرتے بولا اور شیما کو بھی لے آؤ تو میرا چار کا کوٹہ پورا ہو جائے گا ۔۔۔ مہوش نے گہری سانس لی اور مجھے دیکھتے ہوئے بولی زاہد سچ بتاؤں ۔۔۔۔۔ مجھے سائقہ کی بات اچھی لگی ہے بلکہ بہت اچھی لگی ہے شاید میں بھی یہی چاہتی ہوں ۔۔۔۔ لیکن آپ کو اس لئے کچھ نہیں بولتی ۔۔۔۔ کہ شاید آپ سمجھیں کے میں تمھیں پیار کے جال میں پھنسانا یا اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ میرے لئے جو کرتے وہ سقی کی خاطر کر رہے ہیں ۔۔۔ میرے پیرنٹس بہت سادہ لوگ ہیں اور میں ابھی تک آپ کو اپنے طور پر ایک گلاس دودھ تک نہیں پلا سکی۔۔۔۔ آپ جتنا ہمارے لوگ کر رہے ہو ناں یہ احسان نہیں ہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ اس سے بھی کچھ اور آگے ہیں جن کا بدلا نہ الفاظ سے ہے اور نہ کسی اور چیز سے ۔۔۔۔۔۔ سقی نے مسکراتے ہوئے مہوش کے بوبز کو پکڑا اور بولی یہ دودھ کے دو پلالے جو ہر وقت پلاتی ہو وہ گلاس دودھ سے کم ہیں کیا ۔۔۔۔۔۔ مہوش نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پھینکا اور بولی ۔۔۔ سقی ہر وقت مذاق نہیں ہوتا ۔۔۔۔ سائقہ زور سے ہنستے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ اووووو چھوکری کو عشق تھی گئے میڈے مانوں نال۔۔۔۔۔ مہوش بولی بس آپ سقی سے شادی کر لیں میں آپ کا مر کے بھی ساتھ دینا پڑا تو بھی دونگی ۔۔۔۔ ہم کغھ دیر بعد الٹو میں نکلنے لگے تھے اپنی گاڑی میں نے ادھر گھر میں کھڑی کر دی تھی ۔۔۔ سائقہ نےسیٹ پر تکیہ رکھ دیا تھا اور محتاط انداز میں مہارت کے ساتھ گاڑی کو گیٹ سے ریورس کر کے آگے بڑھ گئی تھی وہ بہترین انداز میں گاڑی چلاتی جا رہی تھی اور بار بار اپنے ہپس پر مکے مار کے کہہ رہی تھی مانوں ںں یہ خالی خالی لگ رہے ہیں ۔۔۔ میں نے کہا کہ رات کو بھر دونگا انہیں ابھی سکون سے بیٹھو۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے پھول بکھیرتی بولی نہیں نہیں بس وہ کوٹھڑی میں پہلی رات کافی تھی ۔۔۔۔۔ پھر سائقہ نے افففففف کہہ کر آنکھوں کو تھوڑا بند کیا اور اور اپنے دونوں کانوں کو باری باری پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔ ہم پانچ بجے پارک پہنچ گئے تھے سردی کے باعث پارک میں گہما گہمی نہیں تھی ۔۔۔ ہم کچھ دیر وہاں گھومنے اور کھانے پینے کے بعد واپس ہو گئے راستے میں ایک جگہ میں نے سقی سے گاڑی رکوائی اور تھوڑا پیچھے جاکر ایک بیکری سے کنڈوم کا پورا ڈبہ اور کھانے پینے کی چیزوں لے لیں ۔۔۔ گھر آنے کے بعد دونوں شہزادیوں نے کمرے کا دروازہ لاک کیا اور بیڈ پر آکر میرے آس پاس لیٹ کر مجھے چھیڑنے لگی ۔۔۔ میں نے کہا بہت سردی ہے سو جاؤ۔۔۔۔ مہوش بولی اپنے احسانوں کا بدلہ نہیں چکاؤ گے ۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں کوئی احسان نہیں ہیں ۔۔۔۔ سائقہ اٹھتے ہوئے بولی مہوش اسے کچھ نہیں کہو ۔۔۔ خاموش رہو ۔۔۔۔ سائقہ مجھ سے نگاہیں ملا۔کر اپنی قمیض اتارتے ہوئے بولی۔۔۔۔ میں دیکھتی ہو اس کی بدمعاشی ۔۔۔۔۔اور پھر وہ اپریل لباس اتار کر بھرپور انگڑائی لیتی مجھے دیکھ کر بولی جا اب سو جا اور نیند پوری کر ۔۔۔۔۔ وہ میرے پاؤں کی طرف کمبل کے اوپر سونے لگی اور میں نے اسے پکڑ کر دبوچ لیا اور اس کے ہپس پر دانتوں سے اتنا زور سے کاٹا کہ اس کی چیخ کے ساتھ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔۔۔ سفید ریشمی مکھن جیسے ملائم ہپس پر میرے دانتوں کہ گہرے نشان تھے اور میں اب رنجیدہ ہو کر اس نشان پر ہلکی ہلکی کسنگ کر رہا تھا

سائقہ نے کمبل پر اپنا چہرہ سائیڈ پر رکھے مسکرا رہی تھی اور میں اس کے ہپس پر دانتوں کے اس نشان کو چوس رہا تھا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے ریشمی ہپس کو سہلا رہا تھا مہوش سائقہ پر جھکتی ہوئی مسکرا کر بولی ۔۔مزہ آیا نخرے دکھانے کا ؟؟؟ سائقہ نے اپنے سر کو تھوڑا ہلا کر کہا بہتتتتتتت ۔۔۔ صبر کرو میں ابھی بدلہ لیتی اس سے ۔۔۔میں نے شرٹ اتار کر سائقہ کے ہپس کو اپنے سینے سے لگا لیا اس سے مجھے بہت سکون ملتا تھا ساتھ میں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر مہوش کی قمیض اوپر کر دی مہوش اپنے کپڑے اتارنے لگی تھی اور سائقہ اسے اشارہ کر رہی تھی کہ کپڑے نہیں اتارو۔۔۔ اس کے نئ رکنے پر سائقہ اٹھ گئی اور میری شلوار قمیض اتار دی وہ اپنے بھرے بھرے نازک گورے ہاتھوں سے ببلو کو سہلا کو اسے سخت کر گئی اور ان پر اپنے مکھن کے گول پیڑوں جیسے بوز لگا کر اٹھ گئی اور عجلت میں کپڑے پہن کر کمبل میں گھسٹتے ہو مہوش سے بولا جلدی سے کپڑے پہنو اور جلدی سے سو جاؤ کل ٹیسٹ ہے کالج میں نے مسکراتے ہوئے مہوش کی ٹانگوں کو اس کے پاؤں کے قریب سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور ببلو کی ٹوپی پر تھوک لگا کر اسے مہوش میں اتارتے ہوئے اوپر لیٹنےگا مہوش کی۔وائی وائی سن کر سائقہ نے اپنے چہرے سے کمبل ہٹایا اور مسکراتے ہوئے پھر سے کمبل میں دب گئی میں بس اسٹائل میں مہوش کے اوپر لیٹا اسے کس۔کر جھٹکے لگاتا رہا اور پھر وہ پانی چھوڑ کر ساکت ہو گئی میں نے سائقہ سے کمبل ہٹایا وہ گٹھری بنی دوسری طرف منہ کر کے ساکت پڑی اس کے چہرے پر تھوڑی سی مسکراہٹ تھی لیکن وہ نیند کی اداکاری کر رہی ۔۔ مہوش نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا یہ تو سو گئی ہے ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ ہوں ں ں اور اپنی طرف پھیلے ہپس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ساتھ لیٹ کر اس کے لاسٹک میں ہاتھ ڈالا اور آس کے ہپس نکال لئے ببلو کی ٹوپی پر تھوک لگا کر میں نے اسے ہپس سے پکڑا اور ببلو خو آگے بڑھا کر اس کے ہپس کے درمیان ہول پر رکھتے ہی اس پر ایک دم دباؤ بڑھا دیا سائقہ میرے ہاتھوں سے پھسل کر بیڈ سے نیچے جا گری اور قہقہے لگاتے ہوئے اٹھتی ہوئی ہاتھ جوڑ کر معافی معافی بولتے ہوئے اپنے کپڑے اتارنے لگی وہ ہنستی جا رہی تھی ۔۔۔۔ میں اسے پکڑ کر صوفے پر لے گیا اور گھوڑی بنا کر پیچھے کھڑا ہو گیا اس کی ببلی کو بھر کر میں تیز ہوتا گیا اور وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی ۔۔۔ کچھ دیر بعد اس نے اوپر آنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن میں نے اسے ایسے رہنے کو کہا میں نے مڑ کر پیچھے بیڈ پر بیٹھی مہوش کو دیکھا اور وہ اٹھتے ہوئے کنڈوم کا ڈبہ کھولنے لگی اور اپنے ہاتھوں میں کنڈوم اور کپڑا لے کر میرے قریب آ گئی مزے کی لہروں میں مست سائقہ نے ببلو کے باہر نکلنے پر پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر سے ہپس اوپر اٹھا کر اپنی پوزیشن بحال کر لی مہوش نے ببلو کو کپڑے سے صاف کیا اور اس پر۔کنڈوم چڑھا کر صوفے پر بیٹھ گئی سائقہ اور میں بھرپور انداز میں اپنے جسموں کا ملاپ کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے ایزی ہو گئے ۔۔۔۔ ۔۔۔ بیڈ پر آ کر کمبل لپیٹ کر بیٹھ گئے ۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مجھے کوئی خیال آیا اور میں باتھ روم جا کر دیکھنے لگا گیزر کی تاریں کٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔ نل سے آنے والا پانی برف جیسا سرد تھا ۔۔۔۔ میں واپس آیا اور انہیں ٹھندے پانی کی اطلاع دی دونوں کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی ۔۔۔ بولی گیس پر پانی گرم کرتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن پھر ہم پانی کی موٹر چلا کر تازہ پانی سے نہا کر سونے لگا ۔۔۔ سائقہ نے کل کالج جانے کے لئے گاڑی کا پوچھا میں نے اسے اجازت دے دی ساتھ احتیاط کرنے کا بھی بولا ۔۔۔کہ گاڑی کی کوئی بات نہیں لیکن اپنا خیال کرنا بس۔۔۔۔ ہم سو گئے تھے ۔۔۔۔۔۔ میری آنکھ کھلی تو یہ دونوں جا چکی تھیں میں نے پھر سے آنکھیں بند کر لیں اور کچھ دیر سائقہ کے ہپس پر بنے میرے دانتوں کے نشان کو ذہن میں تازہ کرکے مسکراتا رہا اور پھر موبائل اٹھا کر چیک کیا سائقہ کا موبائل بھی بستر پر پڑا تھا ۔۔۔ واٹس ایپ پر سائقہ کا مسیج آیا ہوا تھا ۔۔۔ میرے ہپس پر بنے دانتوں کے اس گہرے نشان سے خون رسنے لگا ہے۔ ہم ڈاکٹر کو دیکھانے جا رہی ہیں اور اگر کوئی خطرے والی بات نہ ہوئی تو ڈیڑھ بجے آپ کے آگے گیٹ پر لگے تالے کو کھول کر تمھیں آزاد کر دیں گے ۔۔۔ میڈیکل رپورٹ آنے تک تم اس گھر میں قیدی ہو ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر موبائل رکھ دیا اور باتھ روم چلا گیا ۔۔۔ باہر گیٹ کے پاس الٹو موجود نہیں تھی۔۔۔ اس وقت گیارہ بج چکے تھے دھوپ کا لطف اٹھانے کے لئے میں چھت پر چلا گیا جہاں پر ایک بوسیدہ کرسی پڑی تھی شاید اس کی حالت دیکھ کر کرائے دار اس یہیں چھوڑ گئے تھے ۔۔۔ میں نے کرسی کو ساتھ پڑے ایک پرانے کپڑے سے جھاڑا اور اس پر کسی طور ٹک کر بیٹھ گیا دھوپ کا مزا لینے کے بعد میں روم میں آ گیا ۔۔۔۔ میں اپنی فیسبک آئی اوپن کر کے اس پر لوگوں کی پسند دیکھنے لگا اچانک میں ایک تصویر دیکھ کر چونک گیا ۔۔۔۔ تصویر پیچھے سے لی گئی تھی جس میں میں زینت اور سائقہ کو باہوں میں لپیٹ کر اس پارک میں چل رہا تھا یہ تصویر اس وقت کی تھی جب یہ دونوں شاکرہ کی کزن کے شادی کے موقع پر میرے پاس رہیں تھیں اور میں اس شہر کے بڑے پارک میں پہلی بار ان کو پینٹ شرٹ پہنا کے لے گیا تھا ۔۔۔ تصویر کے کیپشن میں لکھا تھا ۔۔۔۔ واہ رے انکل تیری قسمت ۔۔ میں مسکرا کر اپنے فون میں سیو کرتا آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔۔ 1:15 بج چکے تھے اور مجھے بھوک نے ستانا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔ میں ان تتلیوں کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔کچھ دیر بعد گیٹ پر تالا کھلنے کی آواز آئی ۔۔۔میں نے کمبل لپیٹ کر آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ گاڑی اندر کھڑی کرنے اور گیٹ لاک کرنے کے بعد وہ روم میں آ گئیں ۔۔۔ مہوش بولی یہ تو ابھی تک سو رہا ہے ۔۔۔ سائقہ بولی نہیں ڈرامہ کر رہا پہلے اس کے جوتے بیڈ کے اس طرف تھے ۔۔۔ پھر اس نے پٹخخخخخخخ سے رجسٹر میرے سینے پر مارا اور بولی اٹھ جاؤ پولیس آ رہی ۔۔۔۔ بچیوں پر جنسی اور جسمانی تشدد کرنے کے کیس میں گرفتار ہونے والے ہیں ۔۔۔ میں نے آنکھیں کھول دیں اور وہ مسکراتے ہوئے میرے اوپر گر کر مجھے کسنگ کرنے لگی ۔۔۔ مہوش مجھ سے چمی لینے کے بعد کچن کی طرف چلی گئی ۔۔۔ وہ کالج کی کنٹین سے بریانی ۔ چکن پیس اور شامی کے ساتھ رستے سے کھلا دودھ لے کر آئیں تھیں مہوش پلیٹیں چمچ اٹھا کر لائی تھی ۔۔۔ وہ لایا گیا کھانے کا سامان پلیٹوں میں ڈالتے ہوئے بولی ۔۔۔ اٹھ جا مہارانی ۔۔۔۔ سائقہ نے اٹھ کر پلیٹوں بیڈ پر ہی رکھ دیں اور مہوش دودھ کا شاپر اٹھا کر پھر کچن میں چلی گئی ۔۔۔۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد سائقہ باتھ روم سے ہاتھ دھونے کے بعد کچن چلی گئی تھی اور کچھ دیر بعد ڈش میں دوکپ چائے اور بڑا مگ گرم دودھ کا لائی تھی میں نے کہا اتنا دودھ کون پئے گا سائقہ بولی آپ ہی پیئیں گے ۔۔۔ میں نے کہا یہ زیادہ ہے ایک گلاس دے دو بس ۔۔۔ وہ کچھ دیر مجھے گھورنے کے بعد بولی اووو مانوں کے بچے یہ ضائع ہو جائے گا کون پئے گا ۔۔۔۔ ہم آپ کے لئے لائی ہیں چائے کے لئے تو ملک پیک موجود تھا ۔۔۔۔ چائے پیتے ہوئے مہوش نے سائقہ کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔جائیں گے گھر ؟؟؟ سائقہ مجھے دیکھتے ہوئے بولی پتا نہیں مانوں کیا کہتے ہیں ؟؟ میں نے کہا جیسے تمھاری مرضی ۔۔ بولی ۔۔ اوکے چلتے ہیں امی انتظار میں ہوتی ۔۔۔ میں نے پوچھا ۔۔ اچھی لگی ۔۔ بولی بہت اچھی لگی کالج کی سب لڑکیاں منہ میں انگلیاں ڈالے کھڑی تھی میڈیم نے پوچھا گاڑی کس کی ہے ۔۔۔ میں نے بتایا کہ ماموں نے گفٹ کیا ہے ۔۔۔ وہ بہت حیران ہو رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے کہا بستی تک چلا لو گی ۔۔۔وہ ۔ مجھے گھورتے بوئے بولی مطلب ؟؟؟؟ میں نے کہا چلی جاؤ گی ؟؟؟؟سائقہ نم آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے اپنے سر جھکا کر ہچکیاں لینے لگی ۔۔۔ میں نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔۔۔ مہوش کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ یہ کیوں رونے لگی ہے ۔۔۔ مہوش بولی دل نہیں کر رہا تو نہیں جاتے اس میں رونے والی کیا بات ہے ۔۔ میں سائقہ کو کسنگ کرتا اس سے پوچھنے لگا گاڑی تم چلاؤ گی یا میں ؟؟۔ بولی بس میں نہیں جاتی ۔۔۔۔ میں نے اسے منا لیا ۔۔۔۔ اور اسے فوراً تیار ہونے کو کہا ۔۔۔۔ وہ تیار ہونے کے ساتھ اپنا سامان سیوس میں رکھنے لگی ۔۔۔ میرے گاڑی میں بیٹھتے وقت وہ الٹو کی طرف اشارہ کر کے بولی اس بیچ دو ۔۔۔۔ میں گاڑی پر بہلنے والی نہیں ہوں ۔۔۔۔ میں نے سوری کہا کہ ہر بار آپ کے ساتھ جاؤں گا ۔۔۔ وہ مسکرا دی ۔۔۔ ہم تقریباً چار بجے جہاں سے نکل پڑے تھے مارکیٹ کے قریب سے گزرتے ہوئے سائقہ نے رکنے کو کہا اور بولی مجھے ایک سوٹ خرید دو ۔۔۔ میں نے اپنی دوست زہرا کو دینا ہے ۔۔۔وہ مسکرا دی تھی میں نے گاڑی روڈ کے کنارے روک دی ۔۔۔ پیچھے بیٹھی مہوش بولی سقی کیوں ان کے پیسے فضول لگواتی ہو۔۔۔ اپنی دوست کی چیز بھی ان سے لے رہی ہو ۔۔۔ سائقہ بولی تم چپ رہو ۔۔۔۔ مہوش نے کہا چپ رہو کیا مطلب ۔۔؟؟ اپنےماں باپ کے پیسوں سے لیکر دے دینا ۔۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔ میں ماں باپ کی نہیں ہوں میں مانوں کی ہوں اور اس کے پیسے اپنی مرضی سے لگاؤں گی ۔۔اوکے ان کی زیادہ ہمدرد نہ بنو ۔۔۔ ۔۔ مہوش مسکرا کے بولی ۔۔۔ گشتی ۔۔۔۔ سائقہ نے اسے گھٹنے پر تھپڑ مارا اور مسکرا کے بولی رنڈی ۔۔۔۔۔ ہم نے سائقہ کی پسند پر ایک سوٹ اور شوز لے لیئے ہم شہر سے نکلے ہی تھے کہ سائقہ میری گود میں آنے لگی اس نے صرف نقاب اوڑھ رکھا تھا اور برقعہ اتار دیا تھا ۔۔۔ میں نے کہا یار دن کی روشنی میں تو شرم کر لیا کرو ۔۔۔۔ بولی جس کو شرم آئے گا اپنا منہ پھیر لے گا ۔۔۔۔ اس نے گاڑی کا کنٹرول سنبھال کر سپیڈ بڑھا دی اور کسی منچلے نوجوان کی طرح گاڑی کو آگے بڑھا رہی تھی ۔۔۔۔ مہوش بولی زاہد آج میرے گھر رہ جاؤ ناں ۔۔۔ امی ابو بھی ہر بار پوچھتے کہ ہمارے گھر کیوں نہیں آتے اور سعدیہ بھابھی کو بہت شوق ہے تمھیں دیکھنے کی ۔۔۔۔ میں نے سائقہ کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کے بولا یارر ہماری مرضی نہیں چلتی آج کل ۔۔۔ سائقہ نے مہوش سے کہا تم مجھ سے پوچھوں یہ رن مرید ہے اپنی مرضی نہیں چلا سکتا ۔۔۔ مہوش بولی تم کون ہوتی ہو ان پر حکم چلانے والی ۔۔۔ کون ہو ان کی ۔۔۔ سائقہ بولی میں ان کی ڈبلیو آئی ایف ای ۔۔ وائف ہوں ۔۔۔ اس کے رنڈی ہوں ۔۔ ان کی گشتی ہوں ۔۔ ان کی یار ہوں ان کی جان ہوں ۔۔۔۔۔ مہوش خاموش ہو کر باہر دیکھنے لگی وہ سائقہ کے میرے ساتھ بیٹھنے کے بعد فرنٹ سیٹ پر آ گئی تھی ۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔۔ مجھ سے اجازت لو گی تو آج اپنے مانوں کو آپ کے پاس رہنے کی اجازت دے دونگی ۔۔۔۔۔ مہوش خاموش رہی اور ہماری طرف سے تھوڑی سائیڈ پھیر لی تھی ۔۔ آج ہم بہت کم وقت میں مہوش کی بستی والے موڑ پر پہنچ گئے ۔۔۔ مہوش پیچھے چلی گئی تھی اور برقعہ پہن رہی تھی سائقہ نے سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا جاؤ گے ان کے گھر ؟؟؟ میں نے کہا جیسے بولو ۔۔۔۔ وہ فرنٹ سیٹ سے اپنا برقعہ اٹھا کر پیچھے چلی گئی تھی ۔۔۔ ابھی شام سے کچھ وقت باقی تھا کہ ہم مہوش کے گھر کے سامنے رک کر اسے اتار رہے تھے ۔۔۔ مہوش کی امی دروازے پر آ گئی تھی سائقہ نے شیشہ نیچے اتارا اور مہوش کی امیخو سلام کر کے بولی خالہ آج ماموں آپ کے مہمان ہیں ۔۔۔ کوئی بکرا ذبح کر لو یہ مجھے چھوڑ کے واپس آتے ۔۔۔مہوش کی امی خوش ہو گئیں اور مہوش سائقہ کو مسکراتی نظروں سے دیکھتی ہوئی گھر چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ سائقہ مجھ سے باتیں کرتی جا رہی تھی وہ اکثر اپنے بھائی کے شکوے کرتی رہتی تھی کہ بہت جھگڑالو ہے اور اسی وجہ سے امی ابو نے اسے کراچی میں رکھا ہوا ہے ۔۔۔ میں سائقہ کو اس کے گھر چھوڑ کر رات آٹھ بجے مہوش کی بستی میں آ گیا تھا مہوش کا ابو مجھے ایک بڑے صحن والی کسی وڈیرے کی جگہ کی طرف لے گیا جہاں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد ہم ان کے گھر کی طرف پیدل آ گئے ۔۔۔ مہوش کا گھر کاغصحن بہت بڑا تھا جبکہ ان کے مین گیٹ کی جگہ لکڑی کا چھوٹا دروازہ لگا ہوا تھا ۔۔۔ ان کے گھر میں ایک کمرہ پکا اور نیا تعمیر شدہ لگ رہا تھا ۔۔۔ جبکہ باقی چار کمرے کچے تھے ۔۔۔۔ میرے آگے چلتا مہوش کا ابو مجھے اس پکے کمرے میں لے گیا جہاں پہلے سے موجود مہوش اور اس کے ساتھ ایک چھوٹی قد کی بھرے جسم اور گدمی رنگت والی تقریباً 22 23 برس کی لڑکی ایک بچی کو اٹھائے کھڑی تھی ۔۔جس نے مسکراتی نگاہوں سے میرا استقبال کرتے ہوئے اپنے سر کر تھوڑا ہلا کر دھیمی آواز میں سلام کیا ۔۔۔ پہلے سے لگے بستر پر میں بیٹھ گیا اور سردی سے کانپتے مہوش کے ابو بھی میرے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گئے ۔۔۔ مہوش بولی ماموں دیر لگا دی سائقہ کو پہنچانے میں میں نے کہا ہاں بس باجی سے باتیں خرتا کچھ دیر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔ مہوش کے ابو مجھ سے رسمی حال احوال کرتے ہوئے اپنی ہتھیلی آگے کرتے ہوئے بولے اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں جا کر سو جاؤں مجھے آج تیسرا دن ہے اور شدت کا بخار ہے بس آپ کے لئے رضائی سے نکل آیا تھا میں نے اس کی ہتھیلی پکڑی تو واقعی وہ تپ رہا تھا ۔۔۔میں نے کہا کہ آپ کو بخار سخت ہے آپ کہیں تو میں شہر میں کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ۔۔۔۔ اس نے شکریہ ادا کیا کہ نہیں میں نے دوائی لی ہے اور شہر جانے کا یہ ٹائم نہیں ۔۔۔ صبح اگر ایسے ہوا تو آپ کو زحمت دونگا ۔۔۔ میں نے اوکے کر دیا اور وہ مہوش سے کہتے ہوئے اٹھا کہ ماموں کی خدمت میں کوئی کمی نہیں آنے دینا ۔۔۔۔ مہوش نے اچھا بابا کہہ کر اپنی کہنی ساتھ کھڑی بھابھی کو ماری۔۔۔ اپنے بابا کے جانے کے بعد مہوش نے ساتھ کھڑی لڑکی کا تعارف کراتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہ سعدیہ بھابھی ہیں ۔۔۔مجھ سے ہر وقت آپ کا پوچھتی رہتی ہے ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔آپ ٹھیک ہیں سعدیہ ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔جی ٹھیک ہوں ۔۔۔ آپ کو دیکھنے کی بہت چاہت تھی ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔ دیکھنے کی یا ملنے کی ۔۔۔ وہ مسکرا کے مہوش کو دیکھنے لگی ۔۔۔ مہوش کا بھائی اور سعدیہ کا شوہر دوبئی میں کام کرتا تھا ۔ اسی کی محنت سے گھر کا خرچ چلتا تھا ۔۔ مہوش بولی میری بھابھی بہت اچھی ہے میں گھر آنے کی جلدی بس اس کے لئے ہوتی ہے ۔۔۔۔ میں نے مہوش سے اس کی امی کا پوچھا تو بولی وہ آپ کا کھانا تیار کر رہی ہے ۔۔۔ میں نے سعدیہ سے اس کی جھولی میں سوتی بچی کا نام پوچھا تو بولی اس کا نام کنول ہے میں نے اس گڑیا کو ہاتھ سے پیار کیا اور بٹوے سے دوہزار نکال کر اس پر رکھ دئیے ۔۔۔ سعدیہ بولی نہیں صاحب یہ نہیں کرو ۔۔۔ بس آپ آ گئے یہی بڑی بات ہے وہ نوٹ اٹھانےلگی ۔۔۔ میں نے کہا کیا میرا صرف یہاں آنا کافی ہے ؟؟؟؟ میں مسکرا دیا تھا ۔۔۔ سعدیہ نے مسکرا کر مہوش کو دیکھا ا۔۔مہوش نے میری طرف بڑھتے سعدیہ کے ہاتھ خو پکڑا اور بولی ۔۔ بس لے لو اور اپنے پاس رکھو ۔۔امی لوگوں کو نہیں دینا ۔۔۔سعدیہ نے اپنی مٹھی بند کر لی تھی ۔۔۔ سعدیہ بولی صاحب آپ بہت اچھے ہیں مہوش مجھے سب بتاتی رہتی ہے ۔۔۔ میں نے کہا مہوش خود اچھی ہے تو ہمیں بھی ایسا بننا پڑ گیا ۔۔۔ کسی آواز پر مہوش باہر چلی گئی تھی ۔۔سعدیہ بولی نہیں مہوش بھی اچھی لڑکی ہے آپ اس سے اتنی وفا نبھا رہے تو یہ بھی آپ کو اتنا پیار دے گی ۔۔۔ باقی اس کے والدین کی نہ پوچھیں بسسس میں نے کہا نہیں مجھے پتا ہے ۔۔۔۔ بولی آپ سے نہیں پوچھا ہوگا کہ کتنا پیسا لگا رہے ہو ۔۔۔ بس آپ ٹھیک کر رہے ہو ۔۔۔ مہوش آپ کو پیار دے رہی اس کو کافی سمجھو۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ بولی میرے خاوند کی جو کمائی آتی کبھی مجھے ایک پائی بھی نہیں دیکھائی ۔۔۔ بس جو آتا سب ختم ۔۔۔۔ میں نے کہا اگر یہ۔نہیں کرتے تو آپکے خاوند کا حق بنتا ہے کہ آپ کو الگ سے کچھ بھیجے ۔۔۔ بولی نہیں کرتا ایسے وہ بھی ان کی مرضی سے چلتا ہے ۔۔۔ شادی کے۔دوماہ بعد چلا گیا اور اب بچی چھ ماہ کی ہو گئی نہیں آیا۔۔۔۔ پیسنہ دے پھر بھی ۔۔۔۔۔ وہ خاموش ہو گئی ۔۔۔ میں نے تین اور نوٹ نکال کے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اس میں تھما دئیے ۔۔۔۔ مٹھی میں دبا گئی ۔۔۔۔ پھر اپنے پیچھے لگے چھوٹے پردے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں نے کھڑکی کی کنڈی ادھر سے کھول دی ہے رات کو۔مہوش کو ادھر سے آپ کے پاس بھیجوں گی ۔۔۔ اکٹھے سو جانا۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔ مہوش تو میرے پاس ہوتی مل لیتے آج آپ آ جائیں گی تو مجھے اچھا لگے گا اس نے مسکرا کے اپنا سر جھکا لیا



سعدیہ کچھ دیر سر جھکائے خاموش بیٹھی رہی پھر اپنی بچی کو چارپائی پر سلا کر اٹھ گئی اور کمرے کے باہر دیکھتے ہوئے ایک بکسے کا ڈھکن اٹھا کر عجلت میں اپنا ہاتھ اس میں آگے بڑھا کر پیسے رکھ کر اس کو بند کر دیا اور دوبارہ اپنی بچی کو گود میں اٹھا کر اس دوسری چارپائی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ میں نے سکوکا پوچھا تو بولی بس آٹھ تک پڑھا ہے ابو نہیں پڑھنے دیتے تھے ۔۔۔ پھر سنٹر سے سلائی کا کام سیکھا ۔۔۔۔۔ پھر وہ دانت پیستے ہوئے بولی اس گھر والوں سے میری ایک سلائی مشین تک نہیں خریدی جا سکی ۔۔۔۔ میں نے پوچھا سلائی کر لیتی ہو ۔۔ بولی بہت بہترین اور اس بستی میں تو کوئی اور سلائی والی بھی نہیں ۔۔۔۔ میں نے کہا کہ آپ کی سلائی مشین کا بھی کوئی بندوبست کر لیتے ۔۔۔ وہ خوش ہو۔کر بچی کو پھر چارپائی پر سلاتے ہوئے آہستہ سے بولی ۔۔۔ پھر آپ یہ پیسے رہنے دیں ۔۔۔ میں نے اس بازو سے ایسا پکڑا کہ میرے ہاتھ کا انگوٹھا اس کے موٹے بوبز پر دباؤ بڑھا گیا ۔۔۔۔۔ وہ میرے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے بیٹھ گئی اور دروازے کو دیکھ کر بولی خالہ بہت شکی عورت ہے ۔۔۔ میں نے کہا آرام سے بیٹھو۔۔۔ بس پیسوں کو رہنے دو ۔۔۔۔ وہ اب خاموش تھی اور مجھے لگا کہ اس کے لب ذرا کانپ رہے ہیں ۔۔۔ باہر قدموں کی آواز کے ساتھ مہوش اونچی آواز سے بولتی کہتی آ رہی تھی ۔۔۔ خیر ہے ماموں لوگ ویسے بھی لیٹ کھانا کھاتے۔۔۔ مہوش کے ڈش اٹھا کر کمرے میں آنے کے بعد باجی بھی آ گئی تھی اور میں نے موبائل کو رکھ کر چارپائی سے اتر کر اس سے ملا۔۔۔ کھانا میرے سامنے رکھ کر مہوش بولی آ جائیں ماموں ہاتھ دھو لیں ۔۔۔ میں اٹھ گیا روم سباہر آنے پر مہوش نے ایک اسٹیل کا لوٹا اٹھا کر میرے ہاتھوں پر پانی ڈالا ۔۔۔ باجی مجھ سے باتیں کرتی مہوش سے بولی آپ ماموں کے ساتھ کھانا کھا لو ۔۔۔۔۔ ہم بعد میں کھا لیں گی ۔۔۔ میں نے باجی اور سعدیہ کو بولا کہ آ جائیں ایک ساتھ کھا لیتے ۔۔۔ لیکن اس نے انکار کر دیا کہ بس آپ کھائیں ۔۔۔ ہم نے کھانا شروع کر دیا تھا ۔۔۔ مہوش نوالہ بنا کر کئی بار ایسا انداز اپنا گئی تھی جیسے وہ اپنی عادت کے مطابق مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی ۔۔۔۔ پھر بولی امی مالٹے ۔۔۔۔۔ باجی یہ کہتے ہوئے اٹھ گئی کہ میں لاتی ہوں میں نے کھانے پر چلتے اپنے ہاتھ کو تھوڑا آہستہ کر لیا ۔۔۔ باجی کے باہر نکلتے ہی مہوش نے اپنا ہاتھ میرے منہ کی طرف بڑھا لیا سعدیہ آہستہ سے بولی ۔۔۔ محبتیں محبتیں ۔۔۔ مہوش اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دی ۔۔۔ دو تین نوالے مہوش کے ہاتھ سے کھانے کے بعد میں نے ایک نوالہ بنا کر اپنا ہاتھ سعدیہ کی طرف بڑھا لیا وہ مسکراہٹ کے ساتھ سر جھکا کر پھر روم کے دروازے کو دیکھتی ہوئی ۔۔۔ اپنا منہ کھول گئی ۔۔۔ مہوش مسکرا کے بولی ۔۔۔ بھابھی سے گپ شپ ہوئی ۔۔ میں نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور بولا ۔۔ گپ شپ نہیں ہوئی ۔ دوستی ہو گئی ۔۔۔ مہوش بھابھی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا سر ہلا کر بولی ۔۔۔ اب اپنی خیر مناؤ۔۔۔ سعدیہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن میں نے ایک اور نوالہ اس کے لبوں کے قریب کر دیا مہوش اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاتے ہوئے سعدیہ کی طرف بڑھا کر بولی جلدی کھا بھی لو ۔۔۔ باجی روم میں آ گئی تھی ۔۔۔۔ کھانے کے بعد بہت دیر تک سب بیٹھے مجھ سے باتیں کرتے رہے پھر باجی ان دونوں کو دیکھ کر بولی چلو سو جاؤ اب بچی بھی سردی میں پڑی ہے ۔۔۔ بھائی کو بھی سونے دو بہت رات ہو گئی وہ دونوں چلی گئیں تھی باجی اٹھتے ہوئے بولی اچھا بھائی میں بھی سوتی ہوں آپ کنڈی لگا دیں اور پھر وہ آہستہ سے چلتی ہوئی باہر چلی گئی اور دروازے سے ایک بار پھر جھانک کر بولی کنڈی لگا دو بھائی ۔۔۔ میں نے اٹھ کر کنڈی لگا دی اور ایک طرف موٹے دھاگے میں سکڑے پردے کو دروازے پر پھیلا دیا میں نے لیٹ سے پہلے اپنی پینٹ اتار کر اسے لپیٹ کر تکیے کے دوسری طرف رکھ دیا ۔۔۔ اور انڈرویئر درست کرتا بستر پر لیٹ کر رضائی اپنے اوپر تان لی میں نے موبائل اٹھا لیا اور واٹس ایپ چیک کرنے کے بعد فیسبک کی طرف آ گیا ۔۔۔۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے بستی میں ہرطرف خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔۔۔۔ میں نے موبائل رکھ دیا اور آنکھیں بند کر کے سائقہ کی دن بھر کی باتوں کو اپنے ذہن میں دہرانے لگا ۔۔۔ اس دوران کھڑکی کھلنے کی آواز کے ساتھ اس پر لگا چھوٹا پردہ تنبو بنتا اٹھنے لگا اور پھر مہوش نمودار ہو گئی میں نے مسکراہٹ سے اس کا استقبال کیا اور آکر دروازے کی طرف چلی گئی اور کنڈی چیک کرنے کے بعد میری طرف آ گئی وہ میرے پاس بیٹھ کر مجھے کسنگ کرتے پوچھا صبح کس ٹائم جائیں گے ۔۔۔ میں نے کہا صحب نو بجے میں نے سائقہ کے پاس جاؤں گا اور شام کو آپ کے پاس آئیں گے اور پھر جہاں سے نکل پڑیں گے ۔۔۔ بولی نو بجے کیوں لیٹ چلے جانا ۔۔۔ میں نے کہا نہیں سقی سے وعدہ کیا ہے ۔۔۔ بولی آپ نے اسے بہت سر پر چڑھا لیا ہے ۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا آپ کو نہیں چڑھایا ؟؟؟ وہ ہنس کے ببلو پر کہنی مارتے ہوئے بولی مجھے صرف اس پر چڑھایا ہے اور اسے دونوں سروں پر ۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا سعدیہ کہاں ہے بولی بچی کو سکا رہی ہے ابھی بھیجتی ہوں اسے ۔۔۔ پھر وہ اٹھ گئی اور کوئی بکسہ کھول کر ایک صاف کپڑا میرے ساتھ رکھ کر بولی ۔۔ صبح امی کے سامنے کاکی کو صرف 500 روپے دے دینا میں نے اوکے کر دیا اور وہ چلی گئی کوئی دس منٹ بعد سعدیہ کمرے میں آ گئی تھی اور مسکراتے ہوئے سلام کرتی ساتھ والی چارپائی پر بیٹھ گئی اور سر جھکا کر بیٹھ گئی میں نے پوچھا ننھی سو گئی ۔۔۔ بولی مہوش سلا رہی ہے اسے ۔۔۔ بولی خالہ کو مشین کا کیا کہوں گی ؟؟؟ وہ تو پھر رولا کرتی ہے میں نے مسکرا کر کہا ابھی آپ کسی کے سامنے نام نہیں لو ۔۔۔ میں کبھی شاکرہ کو ساتھ لے آؤں گا وہ آپ کو دے جائے گی ۔۔۔ اس نے فوراً کہا ہاں یہ ٹھیک ہے اس کا جسم کانپ رہا تھا ۔۔۔ میں نے کہا سردی ہے ادھر آ جاؤ۔۔۔ وہ سر جھکا کر خاموش ہو گئی میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنی طرف کھینچ لیا اور ساتھ لٹا کر رضائی لپیٹ لی ۔۔۔وہ لرز گئی تھی اور پھر اپنا سر اٹھا کر روم کے دروازے کی طرف دیکھا میں نے کہا کنڈی لگا دی ہے میں نے اس کی کمر کو پکڑ کر اپنا ساتھ ملا لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی بھر کے پیار کرنے کے بعد میں نے اسے پگھلا دیا تھا اور اب وہ بار بار مجھے پکڑ کر بیتاب ہو رہی تھی قمیض اس کی پہلے اتار لی تھی ۔۔۔ میں نے اس کی شلوار کو نیچے سرکاتے ہوئے میں اس کی ہپس کو تھپکی دیتا جا رہا تھا وہ ہلکی سیٹی کی آواز سے سسک رہی تھی ۔۔ میں نے اسے کپڑوں کی قید سے آزاد کر لیا تھا اور اپنی انڈرویئر اتار کےسعدیہ کے ہاتھ کو پکڑ کر ببلو پر رکھ دیا ۔۔ اس نے ہاتھ پھیر کے فوراً مٹھی بھری اور ایک دم اٹھ کر رضائی ہٹاتے ہوئے ببلو کو دیکھ کر کھلے منہ پر ہاتھ رکھتے اففففففففف کہہ دیا اس نے آنکھیں بند کر لیں تھی میں نے اسے لٹا دیا اور اس کی ٹانگوں کو کھولتا ہوا ان کے درمیان بیٹھ گیا اس کی ٹانگیں لرز گئی تھیں اور اس نے بستر پر اپنی مٹھیاں سخت کر لیں تھی میں نے ٹوپی کو تر کیا اور ببلو کو آزاد چھوڑتا سعدیہ کے گدے جیسے بدن پر لیٹ گیا ببلو نے اپنا رستہ ڈھونڈ لیا تھا بغیر رکے نرمی سے اترتا جا رہا تھا سات انچ پر سرخ چہرے کے ساتھ سعدیہ کی۔مشکل سے آواز نکلی ۔۔۔ بسسسسسسس۔۔۔میں نے اس کے لبوں کو چوستے ببلو پر دباؤ بڑھا دیا ۔۔۔ سعدیہ کے لبوں سے وائی کی ںلند آواز نکلی اور اس نے تکیہ کی قریب ہاتھ پھیر کر اپنی قمیض اٹھائی اور اس اپنی دانتوں تلے دبا لیا ببلو کو سعدیہ کے اندر جڑ تک اتارنے کے بعد میں اس کے موٹے بوبز کے براؤن نپلز پر جھک گیا ۔۔۔۔ جل دی کا روووو۔۔۔۔۔۔ اونہہہہہہہ آئی کی ابھرنے والی سعدیہ کی آوازیں مجھے مزا دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ اس نے پھر اپنی قمیض کے ایک بڑے حصے کو دانتوں میں دبایا اور میں نے اپنی حرکت شروع کر دی ۔۔۔۔۔ جانے کب سے ترسی سعدیہ نے پانچ منٹ میں اپنی ببلی کو گیلا کر دیا تھا اور مجھے اپنے اوپر پکڑ لیا تھا ۔۔۔ میں نے حرکت کرنے کی کوشش کی تو بولی بسسسس ۔۔۔ اششششش بہت سخت ہے میرا اندر کٹ گیا ہے میں نے کہا بس تھوڑا سا ۔۔۔ میں ابھی پورا نہیں ہوا وہ کچھ دیر خامشی سے اپنی چہرے کی تکیہ پر سائیڈیں بدلتی پھر بولی اچھا تھوڑا کم کر لو ۔۔۔ مجھے بہت درد ہو رہا ۔۔اس دوران مہوش نے کھڑکی کا پردہ اٹھا کر دیکھا اور مسکرا کر چلی گئی تھی ۔۔۔ میں نے سعدیہ سے بولا اوکے تھوڑی کھڑی ہو جاؤ پھر آدھا جائے گا اندر ۔۔۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اور اٹھنا چاہا میں نے ببلو کو آہستہ سے باہر نکال لیا وہ اپنی ببلی پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر کے کچھ دیر وششش وششش۔کرتی اٹھنے لگی تھی میں نے اسے بستر پر گھوڑی بنایا اور چارپائی سے اتر کے اس کی کمر کو نیچے جھکایا اور اپنا ایک پاؤں چارپائی پر رکھ کر آدھا ببلو اندر ڈال کر جھٹکے دینا شروع کر دیئے اس کی ہپس سائقہ سے بھی موٹے تھے اور دیکھنے میں بہت دلکش نظارہ پیش کرتے مچل رہے تھے اس سٹائل میں آدھا بھی اسے بہت تکلیف دے رہا تھا اس نے اپنا ہاتھ لگا کر ببلو کے آدھا اندر جانے کی تسلی کی ۔۔۔ سائقہ اور مہوش کے ساتھ سیکس کرتے اب ایسی درد بھری آوازیں سننے کو نہیں ملتی تھی اور مجھے بہت دنوں بعد سعدیہ کی درد بھری آہیں سن کے اچھا لگ رہا تھا میں آخری لمحات کی طرف بڑھنے لگا تھا اور سعدیہ کے ہپس پکڑ کر میں نے اپنے جھٹکوں کی رفتار بڑھانے کے ساتھ ببلو کو بھی آگے کرتا جا رہا تھا سعدیہ نے ایک بار پھر اپنی قمیض دانتوں تلے دبا لی تھی اب تقریباً پورا ببلو تہہ تک جا رہا تھا اور سعدیہ کے۔ہپس میرے جسم سے ٹکرا رہے تھے سعدیہ اپنے جسم کو اکڑتے ہوئے آئی آئی کی دبی آواز کے ساتھ آگے لیٹنے لگی اور میں ہپس کو پکڑتا ببلو باہر نکالنے بغیر اس کی موٹے ہپس پر بیٹھ کر تقریباً پورا ببلو اندر باہر کرتااس نظارے کے ساتھ ساکت ہونے لگا۔۔۔۔ لاوا اندر جاتے ہی سعدیہ نے اووووہ کہ دیا اور اپنا ماتھا بستر پر ٹیکا دیا ۔۔۔۔۔ میں اس کی ہپس کو سہلاتا ببلو کے خالی اور پرسکون کرنے کے بعد اسے بسہر نکال لیا اور سعدیہ کے ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔ وہ لمبی سانسوں اور ہچکیوں کے ساتھ اس کے آنسوؤں بہہ رہے تھے میں نے کسنگ کرتے ہوئے پوچھا ۔۔درد ہو رہا ۔۔ اس نے ہچکی لے۔کر ہونہہہہ کہا ۔۔۔ میں بولا ابھی ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔ بولی۔درد سے بھی برا ہو گیا ۔۔۔ میں چوکنا وہ کیسے ؟؟؟ بولی اکرم تو شاید اب بھی ایک۔سال بعد آئے گا اور اس سے پہلے دوسرا بچہ ہو جائے گا میں نے ہنس کے کہا نہیں ہو گا بےفکر ہو جاؤ۔۔۔ میں نے اس کے آنسو صاف کیئے ۔۔۔ بولی کیسے نہیں ہو گا ۔۔۔ میں نے کہ کل میں سائقہ کو جب لے کر مہوش کو لینے آؤں گا تو آپ کو گولیوں کے ساتھ کھانے کی ترکیب کی پرچی بھی بھجوا دون گا ۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔۔۔ وہ کچھ مطمئن ہو گئی ۔۔۔ پھر سیدھی ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ رنڈیاں کیسے کرتی ہیں میری تو جان نکل گئی ۔۔۔ اففففف بہت سخت ہو تم۔۔۔۔۔ پھر وہ اپنے کپڑے پہننے لگی ۔۔۔ اور جانے کا اشارہ کیا ۔۔۔ میں نے کھڑے ہو کر اس کو گلے لگایا اور کچھ دیر تک اس کے ہپس کو اپنے ہاتھوں میں بھرنے کے ساتھ جھک کر اس کے گال چوسے ۔۔۔۔ وہ چلی گئی تھی میں نے انڈرویئر پہنا اور رضائی میں دب گیا کچھ دیر بعد ہنستی مہوش کھڑکی سے اندر آئی اور بولی۔کیوں کر دیا میری بھابھی کو ۔۔۔۔ میں نے کہا کیوں کیوں ہوا ۔۔۔ بولی توبہ توبہ کر رہی ہے ۔۔۔ بہت درد ہے اسے ۔۔۔ مہوش کچھ دیر میرے ساتھ لیٹی باتیں کرتی رہی اور پھر یہ۔کہہ کر چلی گئی سو جاؤ ۔۔۔ اور صبح سائقہ کے گھر جا کر نہا لینا ۔۔۔ ادھر نہ نہانا امی پہلے بھی بھابھی پر شک کرتی ہے ۔۔۔ میں نے اوکے کہا اور سو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح میں 9:05 بجے سائقہ کے گیٹ پر پہنچا ۔۔۔ اس نے گیٹ کھول دیا اور مجھے شیشہ کھولنے کا اشارہ کیا میں نے شیشہ نیچے اتار دیا ۔۔۔ بولی سیدھے اپنی باجی کے پاس چلے جاؤ اور پانچ گھنٹے مجھ سے بات نہیں کرنی ۔۔۔ پورے پانچ منٹ لیٹ آئے ہو ۔۔۔۔ میں مسکرا کر آگے غلا گیا باجی میرا استقبال کرنے روم سے باہر آ چکی تھی ۔۔۔۔ میں مہوش کے گھر سے جلدی نکل آیا تھا اور رستے میں ایک حمام پر نہانے اور میڈیکل سٹور سے ٹیبلیٹس لینے کی وجہ سے پانچ منٹ تاخیر سے سائقہ کی ناراضگی مول لے گیا تھا ۔۔۔۔وہ بہت دیر میرے سے نہیں بولی تھی اور باجی اس کو بار بار مسکرا کے ٹوک رہی تھی ماموں سے ایسا نہیں کرتے ۔۔۔ بولی مجھے پتا ہے ماموں کے ساتھ ایسا نہیں کرتے ۔۔۔ اس نے کھانا میرے ساتھ کھایا تھا لیکن بی نہیں تھی ۔۔۔ میں باجی سے باتیں کر رہا تھا اور پھر سائقہ ساتھ آ کر خامشی سے کھڑی رہی ۔۔۔ اور کچھ دیر بعد ایک دم سے دونوں ہاتھ آگے بڑھا کر بولی السّلام وعلیکم ماموں کیسے ہیں آپ۔۔۔۔ باجی بولی ہاں اب کیا ہوا ۔۔۔سائقہ بولی 2:05 منٹ ہو چکے ہیں یعنی نخرے کے پانچ گھنٹے پورے۔
سائقہ کچھ دیر میرے سے باتیں کرتی رہی اور پھر اپنی امی کی چائے بنانے چلی گئی سائقہ کے جانے کے باجی بولی بھائی آپ مے اسے بہت لاڈلا بنا لیا ہے ۔۔۔ اب مجھے لگتا ہے کہ یہاں اب اس کا دل بھی نہیں لگتا ۔۔۔ میں نے فوراً کہا نہیں باجی ایسا نہیں ہے میں ان کو زبردستی روک لیتا ہوں ورنہ یہ ہر ہفتے آنا چاہتی ۔۔۔ کل بھی میں نے کہا کہ میں بزی ہوں تو رونے لگی ۔۔۔۔ باجی مسکرا کر خاموش ہو گئی اور اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔ سائقہ اپنی امی کو چائے دیتے ہوئے بولی جلدی سے کڑوی چائے پی لو پھر آپ کو ایک بات بتاتی ہوں ۔۔ وہ مسکرا رہی تھی ۔۔ باجی شوگر کی وجہ سے چائے میں میٹھا بالکل استعمال نہیں کرتی تھی ۔۔۔ میں نے سائقہ سے کہا آپ باجی کو مزے کی بات ضرور بتاؤ لیکن ساتھ تیاری بھی کر لو بس نکلتے ہیں ۔۔۔ بولی کچھ دیر تو مجھے امی کے پاس رہنے دو ۔۔۔ شام کو چلے جائیں گے ۔۔۔ باجی چائے پینے کے بعد بولی ۔۔۔ تیاری کر لو بس شام کو اندھیرے کے دھکے کھانے سے بہتر ہے وقت پر پہنچ جاؤ۔۔۔۔ سائقہ نے بولا امی باہر آؤ تو ۔۔۔ باجی بولی ادھر بتا دو کیا مسئلہ ہے بولی نہیں امی مسئلہ کوئی نہیں ہے ۔۔۔ آپ باہر آؤ ۔۔۔ سائقہ نے مسکراتے چہرے کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے ۔۔۔ دوسری چارپائی پر پڑے تکیہ کو اٹھایا اور امی کا ہاتھ پکڑ کر باہر جانے لگی میں سمجھ چکا تھا کہ وہ کیا کرنے والی ہے ۔۔ میں صحن میں بچھی ایک چارپائی پر بیٹھ گیا سائقہ اپنی امی کو گاڑی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آئی ہے تکیہ رکھ کر بیٹھ گئی اور گاڑی اسٹارٹ کر کے اس بڑے صحن میں گھمانے لگی باجی بہت حیرت زدہ اسے دیکھتی جا رہی تھی پھر سائقہ نے گاڑی روکی اور اپنی امی کو دیکھ کر ہنسنے لگی باجی مسکراتے ہوئی نیچے اتر آئی تھی اور میرے پاس آتے ہوئے بولی آپ نے اس چھوکری کو میرے ہاتھ سے نکال دیا بھائی ۔۔۔ میں خاموش بیٹھا رہا ۔۔۔ شام سے کچھ قبل ہم وہاں سے نکل پڑے تھے بستی کی گلی سے نکلنے وقت بار بار گزری شب والا سین مجھے کچھ سنجیدہ کر رہا تھا اور میں خود کو کنٹرول میں لاکر صرف سائقہ تک محدود ہونا چاہتا تھا میری سنجیدگی دیکھتے ہوئے سائقہ بولی مانوں۔۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولا نہیں تو ۔۔۔ بولی اتنے سنجیدہ کیوں بیٹھے ہو۔۔۔۔ سوری لیکن پانچ منٹ کی انتظار میں میں نے جو تکلیف برداشت کی وہ تم نے پانچ گھنٹے میں نہیں خر سکے ۔۔۔ میں نے بولا میں کسی اور وجہ سے سنجیدہ ہو گیا تھا ۔۔ پوچھا کس وجہ سے ۔۔۔ میں کچھ دیر خاموشی سے سامنے کچے رستے کو دیکھنے کے بعد گہری سانس لیکر بولا ۔۔۔ سقی میں بہت بڑھ گیا ہوں اور اب صرف تمھارے تک محدود ہونا چاہتا ہوں ۔۔۔ پوچھا یہ اچانک خیال کیسے آ گیا ۔۔۔۔ میں نے چند لمحے کی خامشی کے بعد پینٹ کی جیب سے چھوٹا لفافہ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا سائقہ اسے ٹٹولتی ہوئی بولی اس میں کیا ہے ؟؟ میں نے کہا یہ لفافہ سعدیہ کو دے دینا ۔۔۔ اس میں پین اور وقفے کی گولیاں ہیں ۔۔۔ سائقہ نے لمبی سی اووووو کی اور اپنا سر سیٹ سے ٹکرا کر کچھ دیر مسکراتے چہرے کے ساتھ باہر دیکھتی رہی مکن روڈ پر آنے کے بعد میں نے پوچھا ۔۔ چلاؤ گی ؟؟۔ بولی مہوش کو لینے کے بعد چلاؤں گی ابھی برقعہ اتارو پھر ان کی بستی میں جا کر پہن لو پھر اتارو۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ مہوش کے گھر میں چلی گئی تھی اور میں گلی کی نکر سے گاڑی موڑ کر واپس آ گیا تھا کچھ دیر یہ دونوں باتیں کرتی آئیں اور پیچھے بیٹھ گئیں مین روڈ سے سائقہ نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے ہمیں شہر پہنچا دیا تھا رات ان کے ساتھ سو گیا اور صبح ان کے کالج جانے کے بعد میں نے الیکٹریشن کو بلوا کر گیزر اور کچھ دیگر مرمت کر دی گھر۔کی چابیوں کے تین سیٹ بنا۔لئے تھے جن میں ایک میرے پاس اور باقی دو ان کے پاس تھے میں ایک بجے سے پہلے شاکرہ کو لیکر گھر آ گیا تھا زینت کو بیٹا تین ماہ کا ہو چکا تھا لیکن ہم نہیں جا سکے تھے رات دیر تک شاکرہ اور میں باتیں کرتے بیٹھے رہے تھے سونے سے قبل شاکرہ بولی میرا آجکل کہیں جانے کو دل کر رہا ہے ۔۔۔ میں نے کہا چلتے ہیں جہاں بولو ۔۔۔وہ کچھ سوچتے ہوئے خاموش رہی پھر بیڈ پر لیٹے ہوئے بولی زینت کے گھر چلیں صبح ؟۔۔ میں نے کہا ہاں کل ہفتہ ہے اور زینت سے ہوکر آگے بھی چلے جاتے ۔۔۔ میں نے اسے بتایا کہ مہوش کی بھابھی سلائی کا کام اچھا کر لیتی لیکن اس کے پاس سلائی مشین نہیں ہے اور اس کا ہاتھ تنگ ہوتا ۔۔۔ بولی جاتے وقت بازار سے لیتے جائیں گے پروگرام فائنل ہونے کے بعد میں نے سائقہ کو میسج کر دیا کہ صبح کالج نہیں جانا اور گھر جانے کی تیاری کر لینے شاکرہ اور میں آپ کو ہاسٹل والی گلی سے کچھ پہلے پک کر لیں گے ۔۔ میں صبح آپ کو ٹائم بتا دونگا ۔۔۔۔ ہم سو گئے ۔۔۔۔ صبح ہم زینت کے گھر سے دو بجے کھانا کھا کر آگے چل پڑے مہوش کے گھر شاکرہ نے چائے پی اور اسے سیونگ مشین گفٹ کر دی شاکرہ اور میں شام سے کچھ قبل نکل پڑے تھے ۔۔ اگلے روز میں شام سے قبل سائقہ اور مہوش کو لے کر آ گیا تھا اور انہیں مکان میں چھوڑنے کے بعد گھر آ گیا تھا ۔۔۔۔۔ ان کے امتحانات شروع ہونے لگے تھے یہ دونوں بہت محنت کر رہی تھی اور جب ان کے دماغ پر گرمی چڑھنے لگتی تو سائقہ مسیح کر دیتی آ جاؤ مانوں آ جاؤ ۔۔۔ ان کو ریفریش کرنے کے بعد میں واپس آ جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ نے بہت اچھے نمبر لئے تھے جبکہ مہوش بمشکل پاس ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔ امتحانات کے بعد ہماری پرانی روٹین بحال ہو گئی گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے انھوں نے گھر والوں کو بتا دیا تھا کہ وہ چھٹیوں میں ٹیوشن اکیڈمی کھول کر بچیوں کو پڑھائیں گی ۔۔۔ سو چھٹیاں ان کی بہت اچھی گزر رہی تھیں وہ ایک گھنٹہ محلے کی بچیوں کو پڑھا لیتی تھی ۔۔۔ سائقہ کے ابو سے میری ہفتے دس دن میں بات ہو جاتی تھی انہوں نے ستمبر میں گھر آنا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن آگست کے پہلے ہفتے میں قطر کے ایک نمبر سے مجھے کال موصول ہوئی اور مجھ سے سائقہ کے ابو کا پوچھا گیا کہ آپ کے کون ہیں ۔۔۔۔ میں نے کہا بھائی ہیں ۔۔۔اطلاع دی گئی کہ وہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ہیں ۔۔۔۔ میں بہت دیر پریشان بیٹھا کچھ سوچتا رہا اور پھر اطلاع دینے والے اسی نمبر پر کال کر کے اس سے میت پاکستان تک پہنچانے میں مدد طلب کی ان صاحب کی فرمائش پر میں نے فوری عمل کر لیا اور انہوں نے مسلسل رابطے میں رہنے کا عہد کرکے فون بند کر لی ۔۔۔ میں نے سائقہ کے ابو کا نمبر ملایا تو وہ بھی ان صاحب نے ریسیو کر لیا یہ بدھ کا دن تھا اور میں ایک بجے ان کے پاس پہنچ گیا اور ان سے باتیں کرتا ہوا انہیں کہا کہ چلو بستی چلتے ہیں سائقہ نہ چاہتے ہوئے بھی میری بات پر فوراً تیاری کرنے لگی شاکرہ کو میں پہلے بتا چکا تھا اور اسے اپنی امی کے پاس پہنچا آیا تھا ۔۔۔ جیسے میں نے پہلے بتایا کہ سائقہ نے ابو نے پسند کی شادی کی تھی اور اس کے اس کی بیوی کے خاندان کا برتاؤ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا ۔۔۔ ادھر میرا حال بھی کچھ ایسا تھا شاکرہ سے شادی کے بعد میرے خاندان نے جو پےدرپے مجھ پر اور شاکرہ پر حملے کئے ان کو برداشت کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں تھی ۔۔۔۔ سائقہ رستے کئی بار پوچھ چکی تھی کہ مانوں آپ پریشان اور الجھے ہوئے کیوں ہیں میں ہر طرف سے اعصاب کو مضبوط کر چکے تھا اور ویسے بھی میں ایک مضبوط اعصاب کا۔مالک ہوں اور 19 برس کی ایک لڑکی کا جان جانا اس کی مجھ سے محبت کی نشانی تھی ۔۔۔۔۔۔ ہم سائقہ کے گھر پہنچ گئے تھے اور اس سے قبل مہوش کو بھی اس کے گھر چھوڑ آئے تھے ۔۔۔میں نے ان کو دوسرے دن سہہ پہر کے وقت کسی طور بتا گیا اور اس کے بعد میں اٹھ کر زینت کی امی کے گھر آ گیا کیونکہ سائقہ کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی تھی اور ممکن تھا کہ میں اس کو گلے لگا کے رو دیتا ۔۔۔۔ قطر والے صاحب سے میں مسلسل رابطے میں ۔تھا اور کل اس نے وہاں سے میت روانہ کرنی تھی ۔۔۔ اس وقت میں نے سائقہ کے بھائی شفقت کو کال کر کے اطلاع دی ۔۔۔۔ اور شفقت سے میں جنازے والے دن پہلی بار ملا تھا ۔۔۔۔ چالیسویں کے قبل وہ کراچی ا گیا تھا اور سب کو اس کے اس روپے کا بہت افسوس تھا ۔۔۔ کالج کھلنے کے دس روز بعد میں مہوش کو لے آیا تھا اور مسلسل اس کے ساتھ رہ رہا تھا ۔۔۔ سائقہ چالیسویں کے ایک ہفتہ بعد آئی تھی زندگی رفتہ رفتہ معمول پر آنے لگی میں ایک روز سائقہ کی امی کے گھر قریبی شہر سے فرنیچر کے کاریگر کے ساتھ پہنچ گیا ۔۔۔اور اس سے شفقت کے کمرے لکڑی کے فل کام کا بول دیا وہ دوسرے دن سے کام پر لگ گیا اور ایک ہفتے بعد ایک بہترین کام کر کے غلا گیا تھا شفقت کی بچپن میں منگنی ہو چکی تھی لیکن اب وہ اس کے روپے کی وجہ سے بیک فٹ پر آ گئے تھے میرے جانے کے بعد معاملہ میں نے اپنے طور پر سب کچھ بہتر بنا کرشفقت کی جنوری کے آخر میں شادی کرا دی تھی شادی کے دنوں میں میں پورا ہفتہ وہیں اس چھوٹی کوٹھڑی میں رہا اور ہر رات سائقہ میرے سینے پر آ کر سوتی تھی ۔۔۔۔ شادی کے بعد سائقہ کی امی کی تنہائی ختم ہو گئی تھی اور میں سائقہ کو ساتھ لے لیکر شہر آ گیا تھا امتحانات کے دن قریب آ رہے تھے ۔۔۔ شفقت کی فرمائش پر میں نے اسے چنگ چی خرید دی جو وہ بستی سے مین روڈ پر چلا کر اپنے اخراجات پورے کر رہا تھا ۔۔ شفقت کی شادی اور اس کی خوشی کے ساتھ سائقہ کی امی کی صحت بہتر ہونے لگی تھی اور وہ اب مجھے سلام کرتے وقت میرا ہاتھ چوم کر مجھے دعائیں دیتی ہویہ کہتی میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں کہ میں آپ کے ہزاروں احسانات میں سے کوئی ایک احسان اتار سکوں ۔۔۔ سائقہ شفقت کی شادی کے بعد کچھ سنجیدہ ہو گئی تھی اور مجھے کئی بار بولا مانوں میں امی سے کسی دن خود کہہ دونگی شادی کا ۔۔۔ اور اگر ممکن ہوا تو شاکرہ سے بھی کہہ دونگی ۔۔۔ پھر دیکھا جائے گا ۔۔۔۔۔ بولی میں آپ کے سوا کسی قابل بھی نہیں رہوں گی ۔۔۔ مرنا ہی ہے مجھے اور کیوں نہ کوشش کرکے مرا جائے ۔۔۔۔۔ میں اس کی باتوں سے بہت پریشان ہو جاتا تھا ۔۔۔ شاکرہ سے دوسری شادی کے بارے میں میں نے دو بار اپیل کی کہ مجھے بچوں کی ضرورت ہے لیکن اس کے آنسوؤں کہ سیلاب میرا دل ڈبو دیتے تھے اور آخری بار اس سے یہ بات کہے مجھے تقریباً چار سال ہو گئے تھے اور اب میں خاموش ہو گیا تھا ۔۔۔ مہوش کے والدین نے بولا تھا کہ امتحانات کے بعد وہ اس کی شادی کر دیں گے ۔۔۔ سائقہ نے ایک دن میرے سے پوچھا میں کیا کروں گی ۔۔۔ میں نے اگر آپ کے نمبر اچھے آ گئے تو ایم بی بی ایس۔۔۔۔ وہ اس روز سے کچھ زیادہ محنت کر رہی تھی ۔۔۔۔ میرے ان کے پاس جانے پر بھی وہ اکثر میرا سر اپنی گود میں رکھ کر پڑھنے لگتی اور کبھی کبھی مجھے اس کی گود میں بےوقت نیند آ جاتی تھی ۔۔۔۔ امتحانات سے ایک ہفتہ قبل میں نے ان کو اپنے گھروں کا چکر لگوایا اور ان سے کہا کہ بس اب پیپر کے بعد جانا ہے ۔۔۔ امتحانات کے ان دنوں میں ایک مہینے میں ہم نے صرف ایک بار سیکس کیا جیسے جیسے پیپر ختم ہوتے جا رہے تھے مہوش بہت پریشان ہوتی جا رہی تھی گوکہ میں اس میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی اور میں سائقہ کی خاطر سب کر رہا تھا لیکن وہ جہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی وہ چاہتی تھی کہ میں کسی طریقے اس کی شادی رکوا کر اسے اپنے ساتھ رکھوں ۔۔۔ لیکن میں صرف سائقہ تک محدود ہوتا جا رہا اور اور مجھے اس سے خوشی ملتی جا رہی تھی ۔۔۔۔ پیپر ختم ہو چکے تھے لیکن مہوش نے اپنے گھر والوں کو پہلے سے ہی ایک ہفتے کا اضافی ٹائم دے چکی تھی سو ایک ہفتہ بھی ایک لمحے میں ختم ہو گیا اور اس ہفتے سائقہ کے کہنے پر میں نے اسے زیادہ وقت دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ نے میرے ساتھ واپس آنا تھا اس روز ہ؟ الٹو میں نکلے تھے اور سائقہ گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی مہوش رستے بھر میری گود میں سر رکھ کر روتی رہی تھی ۔۔۔۔ کہ آپ کے احسانات اور پیار کا بدلہ نہیں چکا پائی سائقہ کی وہ چنچل سی باتیں اب رک گئی تھی اور مہوش کی شادی کی تاریخ کے بعد سے تو وہ بجھ گئی تھی ۔۔۔۔ وہ مہوش کی شادی کے خلاف نہیں تھی اور نہ اسے یہ غم تھا کہ مہوش کے بعد وہ اکیلی ہو جائے گی ۔۔۔۔ اسے غم یہ تھا جو سوال بن کر اکثر اس کے لبوں پر آ جاتا کہ میرا کیا ہو گا ۔۔۔۔ اسے میڈیکل کالج میں داخلے کی بات یہ حوصلہ تو دے گئی تھی کہ وہ ابھی مجھ سے جدا نہیں ہو رہی تھی لیکن اسے وہم اٹھنے لگتے تھے اور بولنے لگتی ۔۔۔ مانوں مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ ایک پل میں ہمارا سب کچھ ٹوٹ جائے گا ۔۔۔ نہ میں جینے کے قابل رہوں گی اور نہ آپ جی سکو گے ۔۔۔۔میں مہوش کے سر پر ہاتھ رکھے سائقہ کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر اس کی باتیں سوچے جا رہا تھا ۔۔۔۔ مہوش کو اس کی گھر پہچایا ۔۔۔ اور کچھ کچھ دیر بعد واپس آنے لگے تھے سعدیہ بولی آپ شادی پر ضرور آنا آپ صرف میرے مہمان ہونگے ۔۔۔۔ سائقہ نے ایک لمحے کو سنجیدہ رہنے کی کوشش کی اور پھر مسکرا کے اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔مہوش بھی اپنے دکھ کو کہٹدبا کے مسکرانے لگی تھی

 

سائقہ نے ایک بری چادر لپیٹ رکھی تھی وہ میرے آگے چلتی گلی میں کھڑی الٹو کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی ۔۔ گلی میں کھڑے لوگ اسے حیرت سے تک رہے تھے شاید انہوں نے آج تک کسی لڑکی کو گاڑی چلاتے نہیں دیکھا میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھا آس پاس کی بنجر زمینوں کو دیکھتا جا رہا تھا ۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ میں ان ویران زمینوں میں اس کچے رستے سے کہیں دور جا کر جی بھر کے رو لوں ۔۔۔ میں اپنے آنسوؤں کو بہت مشکل سے روکا ھوا تھا انہی رستوں پر سقی اپنی چنچل باتوں سے ہنسایا کرتی تھی آج وہ سنجیدہ ہو کر مجھے رنجیدہ کر گئی تھی سائقہ نے اپنے چہرے سے چادر ہٹا چکی تھی ۔۔ مین روڈ پر آنے کے بعد سائقہ نے گاڑی کو شہر کی طرف موڑ لیا تھا میں نے اسے دیکھا ۔۔۔اور پھر سامنے روڈ پر نظریں جما کر گلے کو صاف کرتے ہوئے پوچھا ۔۔ سقی۔۔۔ گھر نہیں جاؤں گی ۔۔۔ وہ تھوڑے کھلے لبوں کے ساتھ مایوس سے چہرہ بنا کر گہری سانس لے کر بولی۔۔۔ نہیں مانوں دل نہیں کر رہا ہے ۔۔۔۔۔ میں خاموش ہو گیا کچھ دیر گاڑی میں سکوت طاری رہا پھر سائقہ نے ہاتھ بڑھا کر گانا پلے کر دیا ۔۔۔۔۔
یاررر ڈاڈھی عشقِ آتش لائی ہے۔۔۔ یارر ڈاڈھی ۔ی ی ی.,. وے یار سانوں وے دوست سانوں لگ گئی بے اختیاری ی ی ی ۔۔۔سینے دے وچ نا سمائی ہے یار ڈاڈھی ی ی ی ی عشق آتش لائی ہے ۔۔ یار ڈاڈھی ۔ی ی ی ۔۔۔۔۔۔ عشق آتش۔۔
پھلا ہلا کے عشق جو آیا ۔۔۔محبت والا شور مچایا ۔۔۔کڈھی کڈھی شام آئی ہے ۔۔۔۔ یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے ییار ڈاڈھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گانا کے اختتام تک سائقہ گاڑی کی سپیڈ بہت بڑھا گئی تھی وہ آنکھیں جھپکائے بغیر روڈ کی دیکھ کر گاڑی چلا رہی تھی ۔۔ سائقہ کی پوزیشن ڈرائیونگ کے درست نہیں تھی ۔۔ لیکن میں اس سے کہیں زیادہ اندر سے ٹوٹ چکا تھا میرے اعصاب کے ساتھ میری زبان بھی میرا پورا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔۔۔ میں نے اس کی طرف صرف ہاتھ بڑھایا تھا اور سائقہ نے گاڑی سپیڈ کم کرکے نارمل کر لیا تھا وہ گہری سانس لیکر آس پاس کا جائزہ لینے لگی پھر دو بار میری طرف دیکھ کر اپنا گلہ صاف کرتے ہوئے بولی مانوں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ج جی۔۔۔ کے ساتھ میں نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔ ۔۔۔ وہ گلابی تپتے چہرے کے ساتھ ۔۔۔۔ درد بھری ہنسی کے ساتھ پھر خاموش ہو گئی ۔۔۔ کوثدس منٹ بعد پھر بولی ۔۔۔ شاکرہ گھر میں ہے ۔۔۔۔ میں نے لمحے بھر بعد ۔۔۔۔ گہری سانس لیکر بولا ۔۔۔ نہیں بہن کے ساتھ چلی گئی تھی صبح کل جاؤں گا لینے ۔۔۔۔ وہ مطمئن ہو گئی ۔۔۔ سائقہ نے گاڑی گیٹ کے سامنے روک دی اور اپنی چادر درست کرتے ہوئے گیٹ کی طرف چلی گئی میں کھڑکی کو پکڑ کر باہر آنے لگا ۔۔بولی بیٹھے رہتے آپ ۔۔۔ میں آہستہ سے چلتے روم کی طرف چلا گیا اور لاک کھول کر صوفے پر لیٹ گیا ۔۔۔ سائقہ گاڑی سے سامان نکالنے اور گیٹ لاک کرنے کے بعد روم میں آ کر بولی ۔۔۔ گرمی میں لیٹ گئے ۔۔۔ اےسی چلا کے باہر رک جاتے کچھ دیر ۔۔۔ اس نے اے سی آن کیا اور پوچھا ۔۔۔ کچھ کھائیں گے آپ ؟؟؟ ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔میں نے کمرے کی چھت کو دیکھتے ہوئے مختصر سا جواب دیا وہ میرے سر کو اٹھا کر صوفے پر بیٹھی اور اپنی گود میں میرا سر رکھ کر انگلیوں سے کنگھی کرتے بولی ۔۔۔ میرا بھی موڈ نہیں ہے ۔۔۔ کچھ کھانے کا ۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ چائے پی لیتی ۔۔۔۔۔مسکرا کے بولی آپ بنا دو گے ۔۔۔ میں نے اپنا سر اثبات میں ہلایا اور اٹھنے لگا ۔۔۔ اس نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور بولی ۔۔۔ ابھی نہیں ۔۔ میں رک گیا ۔۔۔ بولی ماسی آ جائے تو ۔۔ دودھ کا بولتی اسے ۔۔۔ میں نے سوالیہ انداز میں کہا ۔۔ ملک پیک۔۔۔ ؟ بولی پڑے ہیں ۔۔۔ لیکن ساتھ تم بھی دودھ پیو گے ناں۔۔۔۔ میں نے اس کے بوبز پر ہاتھ رکھا ہاں پیوں گا ۔۔۔ بولی یہ بعد میں پی لینا پہلے گلاس پی لو۔۔۔ آج کمزور لگ رہے ہو ۔۔۔ اس نے ہنستے ہوئے میرے ناک کو دانتوں سے کاٹ لیا تھا اور اب اس کو اپنی انگلیوں سے سہلا رہی تھی ۔۔۔۔۔ ماسی اسی محلے کی ایک بیوہ غریب خاتون تھی جو تقریباً گزشتہ چھ ماہ سے سائقہ اور مہوش کے پاس آتی اور تھوڑا بہت کام کرتی ےا محلے کی دکان سے کچھ لینا ہوتا تو وہا دیتی تھی اور یہ اس کی مالی معاونت کر لیتی تھی ۔۔۔ماسی کوئی 55 سال کے قریب لگتی تھی دکھی چہرے کے ساتھ خاموش رہتی اور کبھی کبھی ضرورت کی بات پر بھی خاموشی سے سر جھکا جاتی تھی ۔۔۔ ماسی کو کچھ روز قبل سائقہ نے بول دیا تھا کہ مہوش کے جانے کے بعد میں گھر میں رہے گی اور ماسی نے حامی بھر لی تھی ۔۔کچھ دیر میں ماسی نے گیٹ بجایا اور سائقہ نے اٹھکر گیٹ کھولا اور اسے دودھ کے لئے پیسے دے دئیے ۔۔۔ ماسی کے واپس آنے پر سائقہ نے اس کے ہاتھ سے دودھ کا شاپر لیا اور پیسے رکھنے کا کہتی ہوئی اسے بولا کو آپ کل سے آ جانا آج مانوں میرے پاس رہیں گے ماسی پیسے اپنی مٹھی میں دبا کر سر جھکائے واپس چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ کچن میں چلی گئی اور کچھ دیر بعد کیک کی پلیٹ کے ساتھ دودھ کا گلاس اٹھائے روم میں آتے ہی بولی مانوں مجھے چائے بنا دو ۔۔۔۔ میں مسکرا کر اس کے ساتھ سے گزرتا ہوا کچن چلا گیا ۔۔۔ میں نے چائے کا کپ اسے تھمایا اور ساتھ بیٹھ گیا وہ اپنے ہاتھ سے مجھے کیک کھلانے لگی اور میں اس کو۔۔۔۔۔ شام کی پرچھائیوں نے گھر کے صحن کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا تو سائقہ جھولے سے اتر کر میرے ساتھ بینچ پر بیٹھتے ہوئے بولی مانوں آ جاؤ بس سوتے ہیں آج ۔۔۔ میں آسمان کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔ پارک چلیں ۔۔۔ بولی موڈ نہیں ہے ۔۔۔ میں نے اسے باہوں میں بھر کر اٹھایا اور روم میں آگیا اے سی نے روم کو فل کول کر لیا تھا میں نے اسے بیڈ پر لٹایا اور اس کے لبوں کو چوسنے لگا ۔۔۔سائقہ نے اپنے ہاتھ میری پیٹھ پر جما لیئے تھے ۔۔۔ اور میرا بھرپور ساتھ دے رہی تھی ۔۔۔ اپنی زبان نکال کر مجھے ایسا کرنے کا بولا اور میری زبان چوسنے لگی ۔۔۔۔ بہت دیر بعد وہ لمبی سانسیں لیتی ہوئی بولی ۔۔۔۔ شہد چاٹ کر اور میٹھے ہو گئے ہو۔۔۔ میں نے کہا شہد لائی تو۔نہیں ہو ۔۔۔۔ بولی نہیں ملی تھی بہت کوشش کی اس بار دو بوتلیں لاؤں گی اور تجھ سے ایک دن میں ختم کرا دوں گی ۔۔۔۔ وہ مسکرا کے اٹھنے لگی اور مجھے پیچھے کو لٹا دیا وہ میری شرٹ کے بٹن کھولتی اور کسنگ کرتی جاتی تھی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ دس بجے سے کچھ پہلے وہ کاغذ میں لپٹے کنڈوم کو اٹھا کر برآمدے میں رکھے ڈسٹ بن میں ڈالنے کے بعد وہ باتھ روم چلی گئی اور نیا سوٹ پہنے باتھ روم سے باہر آتے بالوں کو تولیہ سے خشک کر رہی تھی ۔۔۔ میں نہا کر واپس آیا تو سائقہ اپنے سامنے دوچکن پیس شامی اور دہی لئے بیڈ پر بیٹھی تھی ۔۔۔ بولی جلدی آؤ۔۔ میں نے پوچھا یہ کب کے بولی تین دن پہلے جو آپ لائے تھے ۔۔۔ مہوش نے بالکل کچھ نہیں کھایا تھا اور آپ بھی چلے گئے تھے ۔۔۔ میں نے ایک شامی کو دہی میں دبویا اور پورا سائقہ کے منہ میں بھر دیا ۔۔۔۔ اور اس کے ہاتھ سے پیس کا ٹکڑا منہ میں لیتے ہوئے میں نے اس کی انگلی کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔ وہ یہ کھاتے ہوئے پھر سنجیدہ ہونے لگی تھی ۔۔۔ میں نے کہا کہ اگر میں کوئی وعدہ کروں تو تم خوش ہو جاؤ گی ؟؟ اس نے مسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے زور سے بولا ۔۔۔ بہت زیادہ ۔۔۔۔۔۔ میں کہا کتنا یقین کرو گی ؟۔ بولی پورے کا پورا۔۔۔ کیونکہ آپ جو بات کہہ دیتے اسے پورا ضرور کرتے ۔۔۔ اب تک کسی وعدے سے مس نہیں ہوئے ۔۔۔ اور اگر اس بار مس ہو بھی گئے ناں تو میں پھر بھی برا نہیں مانوں گی ۔۔۔۔۔ وہ مسکرا کر میری طرف غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔سقی تم اپنا دھیان صرف پڑھائی کی طرف لو اور میڈیکل کالج کے ٹیسٹ کی تیاری کرو۔۔۔۔۔ میں جیسے بھی ہوا اور اگر لیٹ بھی ہو گیا تو ایک سال میں تم سے شادی کر لوں گا۔۔۔۔ وہ چیختی ھوئی مجھ سے لپٹ گئی ۔۔۔۔ اور بہت دیر بعد خود کو سنبھالتے ہوئے خالی پلیٹ کو اٹھا کے بولا بھوک بڑھ گئی اور یہ ختم ہو گئے ۔۔۔۔ سائقہ کی مسکراہٹیں پوری طرح واپس آنے کے بعد میں بھی اس کے ساتھ کچھ اور کھانا چاہتا تھا ۔۔۔ میں نے پوچھا ۔۔۔ ہوٹل چلیں ۔۔۔ بولی ضرور چلیں ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔ آج میں پارٹی دونگی ۔۔۔ میں نے گدے پر ہاتھ رکھا اور بولا ابھی تو دی ہے ۔۔۔۔ اووو نہیں مانوں ۔۔۔ وہ پھر بھی دونگی ۔۔۔ صرف تمھیں دی ہے اور صرف تمھیں دونگی ۔۔۔ لیکن ابھی کھانے کی پارٹی ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔ خرچے کا موڈ ہے کیا ۔۔۔ بولی بہت زیادہ ۔۔۔ پھر قدرے سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی ایک چیز دیکھاؤں ۔۔۔ میں اس کے بوبز پر نظریں جما کر بولا ہاں ہاں دکھاؤ ۔۔۔ قہقہہ لگا کے بولی اب اگر زیادہ لیٹ بھی ہو گئی تو ایک سال میں کسی دن دکھا دوں گی ۔۔۔۔ پھر وہ اٹھ کر صوفے کے اس طرف ایک کاٹن پر جھک گئی اور ایک بڑا نیلے رنگ کا شاپر اٹھا کر مسکراتی ہوئی بیڈ پر آ گئی ۔۔ بولی ادھر منہ کر لو میں گھوم گیا اس نے شاید شاپر کو انڈیل دیا تھا ۔۔۔ بولی مانوں آ جاؤ۔۔ میں نے دیکھ تو گدے پر نوٹوں کا انبار لگا ہوا تھا میں حیرت سے اس کا چہرہ تکنے لگا وہ اٹھی اور پانی کا گلاس میں دیتے ہوئے بولی پانی پی لو مانوں پھر بتاتی ہوں میں نے مسکرا کے اس کے ہاتھ سے گلاس لے لیا بولی ۔۔۔ مانوں آپ جب بھی پیسے دیتے تھے ناں مجھے میں یہ۔نہیں کہتی تھی کہ رہنے دو ابھی ہیں میرے پاس ۔۔۔ آپ سے پیسے لے لیتی اور جو پہلے کے بچے ہوتے وہ اس میں شاپر میں ڈال دیتی ۔۔۔ یہ دیکھو۔۔۔ ان پر تاریخیں بھی لکھی لکھی ہوئی ہیں ۔۔۔ باریک دھاگے کی مدد سے بنے نوٹوں کے بنڈل پر کچی پنسل سے مانوں 3
۰5۰18 لکھا تھا اس طرح باقی سب بنڈلز پر بھی اس طرح لکھا تھا ۔۔۔۔۔ کچھ نوٹ دھاگے سے باندھے ہوئے نہیں تھے بولی یہ سب وہ نوٹ ہیں جو امی مجھے دیتی تھی ان کو کبھی خرچ ہی نہیں کیا ۔۔۔ میں نے اس کے ہاتھ کو چوما اور ان کو بس ایسے رہنے دو۔۔ بولی نہیں بس ابھی نکال لئے ھیں تو ان کو آپ سیٹ کر دو پھر رکھ لوں گی ۔۔۔ یہ کوئی دو لاکھ سے اوپر کی رقم بن رہی تھی ۔۔۔ ہم گیارہ بجے کے قریب ہوٹل چلے گئے اور سائقہ کی فرمائش پر بہت سی چیزیں کھا لیں ۔۔۔ رات ایک بجے گھر آئے اور سائقہ میرے سینے پر لیٹتے ہی نیند کی آغوش میں چلی گئی ۔۔۔۔ ہم مہوش کی رخصتی والے دن پہنچ گئے تھے ۔۔۔ سعدیہ کے روم میں شاکرہ اور سائقہ میرے ساتھ بیٹھی تھیں ۔۔۔ سعدیہ کے چہرے پر کوئی محرومی جھلک رہی تھی وہ شکوہ بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے چائے کی ڈش ٹیبل پر رکھ کر چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ سائقہ کی امی چار روز قبل سے یہاں آئی ہوئی تھی ۔۔۔ شاکرہ اور میں شام کو واپس آ گئے تھے اور سائقہ وہیں رہ گئی تھی ۔۔۔ اس بار اس نے اپنا موبائل اپنے پاس رکھ لیا تھا جبکہ اس سے پہلے وہ موبائل کو یہی چھوڑ جاتی تھی اور اس کی امی کو معلوم نہیں تھا۔ کہ سائقہ کے پاس موبائل فون بھی ہے ۔۔۔۔ سائقہ نے چار روز بعد کال کر کے کہا کہ مجھے لے جاؤ۔۔۔ اگلے دن ہفتے کا روز تھا اور میں شاکرہ کو اس کی امی کے گھر چھوڑنے کے بعد میں سائقہ کی طرف چلا گیا ۔۔۔ آج اس کی امی کچھ بجھی بجھی لگ رہی تھی شفقت ہر بار مظلوم بن کر اپنی کوئی محرومی بتاتا اور میں اسے کچھ پیسے تھما دیتا ۔۔۔ آج بھی کچھ ایسا ھوا تھا اور شفقت کے گھر سے جانے کے بعد اس کی بیوی اور باجی بولیں بھائی اسے کچھ نہ دیا کرو اس کے پاس پیسے آ جاتے تو نواب بن کر گھر سو جاتا چنگ چی نہیں نکالتا ۔۔۔سائقہ کے ابو کی وفات کے بعد میں جب بھی جاتا باجی کی کچھ مالی معاونت ضرور کرتا ۔۔۔۔ میں باجی سے اس کی پریشانی پوچھنا چاہتا تھا لیکن خاموش ہو گیا اور فیصلہ کیا کہ سائقہ سے پوچھ لونگا۔۔ شام کو سائقہ کے ساتھ میں اپنے گھر آ گیا تھا۔۔۔ میں نے سائقہ سے رات کو پوچھا آپ کی امی کچھ پریشان لگ رہی تھی ۔۔۔ بولی میں نے اسے کہا تھا کہ میں مانوں سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ میں ایک دم چونکا اور پھر اسے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔ تم نے خود کیوں کہا ۔۔۔ بولی مجھے پتا تھا کہ تم ان سے کبھی بھی نہیں کہہ سکو گے ۔۔۔ میں بہت دیر خاموش بیٹھا رہا پھر پوچھا کیا بولا باجی نے ۔۔۔ سائقہ بولی وہ بہت خوش ہوئی ۔۔۔۔ لیکن نعمت کی وجہ سے پریشان ہے کہ وہ کوئی بڑا مسئلہ بنائے گا ۔۔۔۔ میں نے پوچھا تو بولی بھابھی اس کے کان بھرتی ہے وہ چاہتی کہ میری شادی اس کے بھائی کے ساتھ ہو جائے جو موبائل کی کوئی دکان چلاتا ہے ۔۔۔ میں نے اسے کہا کہ اوکے جو آپ نے کر دیا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب اس پر تم کسی سے بات نہیں کرو۔۔ میں دیکھ لوں گا ۔۔۔ سائقہ خاموش ہو گئی تھی ۔۔۔۔ میں اس دیکھ کر کسی کے لکھے محاورے کو یاد کر رہا تھا بہت پہلے کہیں پڑھا تھا کہ عورت کسی مرد سے محبت کا اظہار نہیں کرتی ۔۔۔ لیکن اگر وہ اظہار کر دے تو مرد اسے برداشت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ سائقہ نے زینت کے بھائی کی شادی پر ہماری پہلی ملاقات میں ہی دیوانہ وار اپنی محبت کا اظہار کر دیا تھا ۔۔۔ اور اس روز کے بعد سے اب تک وہ ہر پل ہر گھڑی ہر لمحہ۔۔۔ مجھ کو اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی تھی اور میں کسی طور اس کی محبت کے حصار سے نکلنے کے قابل نہیں رہا تھا اور سائقہ بھی میرے بغیر ایک پل بھی نہیں گزار سکی تھی ۔۔۔۔ سائقہ میری محبت میں مسلسل آگے بڑھتی جا رہی تھی اور مجھے لگتا تھا کہ یہ دنیا سے ٹکرا تو جائے گی لیکن واپسی کی راہ کبھی نہیں لے گی ہزار طوفانوں کے باوجود اب تک ہماری محبت کا زیادہ ڈنکا نہیں بجا تھا اور اس سے زینت اور مہوش کے علاوہ کوئی نزدیک سے واقف نہیں کہا تھا ۔۔۔ مہوش کے رخصتی والے دن جب میں اس سے کمرے میں ملنے گیا جہاں وہ دلہن بنی بیٹھی تھی تو صرف نم زدہ آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہی تھی ان پانچ منٹ میں ہم اکیلے تھے ۔۔۔۔اور وہ بہت سی باتیں کر سکتی تھی لیکن اس نے خاموشی سے مجھے دیکھنے کو عظیم سمجھا اور آخر میں جو بات اس نے اپنے لبوں سے نکالی تھی وہ سسکیوں کے درمیان ٹوٹے لہجے میں یہ الفاظ تھے ۔۔۔ زاہد ۔۔۔ تم ہر صورت سائقہ سے شادی کرنا ورنہ یہ مر جائے گی ۔۔۔ یہ تمھیں کتنا پیار کرتی ۔۔۔۔ یقیناً تم نہیں جانتے اور اس نے بہت سی باتیں تم سے چھپا رکھیں ہیں ۔۔۔ میں دعا کرونگی میں بہت دیر تک سائقہ کو دیکھتا کئی پہلوؤں پر غور کرتا رہا میں شاکرہ پر دباؤ ڈال کر شادی کر سکتا تھا کیونکہ اس سے بچے نام ہونے کا مضبوط موقف میرے پاس موجود تھا۔لیکن میں اس کو مردانگی تصور نہیں کرتا اور میں چاہتا تھا کہ شاکرہ کی رضامندی سے ایسا ہو جائے اور وہ خوش ہو ۔۔ شاکرہ نے اپنی زندگی کے تقریباً تیرہ برس میرے ساتھ گزار لئے تھے اور میرے ہر دکھ درد میں برابر کی شریک رہی تھی میں اسے کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔ سائقہ کو کچھ روز پہلے میں نے ایک سال میں شادی وعدہ محض ہوائی فائر کے کچھ نہیں تھا میں ایسا بلکہ اس سے بھی پہلے سائقہ سے نکاح کرنا چاہتا تھا لیکن میرے پاس کوئی واضح پلان نہیں تھا تقریباً چار سال سے میں اس انتظار میں تھا کہ شاکرہ مجھے کسی دن خود بول دے کہ آپ دوسری شادی کر لو ۔۔۔۔ سائقہ ماں کی کہی اس بات سے ایک بار پھر سنجیدہ ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔ میں اسے دیکھتا یہ سوچ رہا تھا کہ اسے کیا کہوں کہ اس کی یہ سنجیدگی ختم ہو جائے وہ ہنسنے کے لئے بنی تھی ۔۔ وہ مجھے ہنسانے کے لئے بنی تھی اور اس سے دوستی کے سے اب تک میں اپنے سارے دکھ بھول چکا تھا لیکن آئے روز کسی نئے ایشو پر اس کی سنجیدگی مجھے اندر سے کاٹ دیتی تھی اور میں لاچارگی کی مثال بن جاتا تھا ۔۔۔ سائقہ کا چہرہ پانی کی لہروں پر پھیلتا نظر آیا اور اس کے ساتھ ہی سائقہ کی بلند آواز کے درمیان میری ہچکی نکل گئی ۔۔۔ مانوں ۔۔۔۔۔ کیا ہوا تجھے ۔۔۔۔۔ وہ میرا سر اپنی گود میں رکھ کر میری آنکھیں صاف کر رہی تھی ۔۔ سائقہ کی میری زندگی میں انٹری سے قبل اپنے گھر میں میرے ساتھ ایسا ہوتا تھا جب گلی میں کھیلتے بچوں کی آواز میرے کانوں میں پڑتی اور شاکرہ بھی اسی طرح میرا سر اپنی گود میں بہر لیتی تھی ۔۔۔۔ لھر شاکرہ کے پریشان ہونے پر مجھے خود سے شاکرہ کو ہنسانے کی کوشش کرنی پڑتی تھی میں نے آنکھیں پر سائقہ کے ہاتھوں کو پکڑ لیا گیا انہیں سکون دینے لگا ۔۔۔۔ رات آدھی سے زیادہ ڈھل چکی تھی میں سیدھا لیتے ہوئے سائقہ کو کمبل کی طرح اپنے سینے پر کھینچ لیا وہ میرے ہاتھ کر پکڑ دیکھتی رہی اور پر اسے اپنے گال پر ٹکا کے نیند کے جھونکوں میں کھونے لگی ۔۔۔ ۔۔۔ صبح میری آنکھ کھلی طو سائقہ میرے سینے پر ٹیک لگے میرے موبائل پر گیم کھیل رہی تھی ۔۔۔ اس نے مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا اور موبائل پھینک کر میرے سینے پر لیٹتے ہوئے بولی۔۔۔ میرا مانوں اٹھ گیا ۔۔۔ سوری میں دوبارہ اس لئے آپ کے اوپر نہیں سوئی کہ آپ کی نیند ٹوٹ جائے گی ۔۔۔ دس بج چکے تھے میں نے اسے بازو میں لپیٹا اور اسے اپنے نیچے دبوچ لیا اور بوبز کو کپڑوں کے اوپر سے کس کر کے ان پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں وہ میرے بالوں سے کھیلتی ساکت پڑی رہی ۔۔۔۔ میرے باتھ روم سے نکلنے کے بعد وہ دودھ لے کر آئی ۔۔۔ اور مسکرا کے بولی بریانی لا دو گے میں نے کہا نہیں لا دونگا۔۔۔۔ وہ مسکرا کے مجھے دیکھتی رہی ۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے اسے تیار ہونے کا کہا ۔ تو وہ پانچ منٹ میں سب چیزوں کو سنبھالتی ریڈی ہو گئی۔۔۔۔۔ گلی سے نکلتے وقت میں نے کہا پوچھو گی نہیں کہاں جا رہے ۔۔۔ بولی ۔۔ ضرورت ہی نہیں ہے ۔۔۔ جہاں لی کر جاتے وہ ہی ٹھیک ہوتا ۔۔۔ پھر وہ مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔ مانوں سے کیوں پوچھوں گی بھلا ۔۔۔ میں نے اس کی پسندیدہ بریانی شاپ کے سامنے گاڑی پارک کر دی وہ مسکراتے ہوئے اترنے لگی ۔۔۔۔۔ بریانی کھانے کے بعد میں نے مارکیٹ کا رخ کر لیا ایک گارمنٹس کی دکان پر میں نے ایک لیڈیز پینٹ سے بھرے ہینگر کا رخ کیا اور ساتھ خاموشی سے کھڑا رہا وہ مسکراتے ہو پینٹس چیک کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ بس یہی ایک ٹھیک ہے ناں ۔۔ میں نے پینٹ دیکھ کر کہا ہاں ٹھیک ہے ایک اور بھی لے لو۔۔۔۔ شرٹس اور کچھ دیگر سامان لینے کے بعد ہم سائقہ کے مکان میں آ گئے اور کچھ دیر ساتھ لیٹ کر پیار کرنے کے بعد میں نے اسے تیار ہونے کا بولا اور ایک پینٹ شرٹ الگ کر کے اسے دے دی وہ مسکرا کر دوسرے روم میں چلی گئی اور کچھ دیر بعد فٹ ہو کر آ گئی ۔۔۔۔ ہم پانچ بجے دوسرے سٹی کے اس پارک کی طرف نکل پڑے راستے میں میرے اشارے پر میری گود میں بیٹھ کر اسٹیرنگ پکڑتے ہو سائقہ بولی ۔۔۔ ابھی کوئی لالچ نہیں چلے گا پتا ہو ۔۔۔ بس ۔۔۔ جتنی دیر کرو گے خود ترسوں گے ۔۔۔ میں مسکرا دیا ۔۔۔۔ ہم پارک میں بیٹھے بہت دیر باتیں کرتے رہے اور میں سائقہ کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کے ساتھ اسے اپنی چنچل طبیعت کی طرف دوبارہ لانا چاہتا تھا باپ کی وفات کے بعد اپنی امی کی بیماری اور بھائی بھابھی کے روپے نے اسے سنجیدہ کرنا شروع کر دیا تھا اور جب مہوش کی شادی ہونے لگی تو سائقہ کے لبوں پر بس یہی سوال آ گیا کہ میرا کیا ہو گا اور تب سے اس کی سوچوں نے بس اس سوال کا گھیراؤ شروع کر رکھا تھا ۔۔۔ ہم رات ایک بجے آ گئے اور میں اسی حالت میں سائقہ کو اپنے سینے پر لپیٹ کے سو گیا تھا صبح اس کے ہاتھ کا بنا کھانا کھانے کے بعد میں شاکرہ کو اس کی بہن کے گھر سے لینے چلا گیا ۔۔۔۔۔ سائقہ کی پہلے جیسی مست باتیں تو۔نہیں رہی تھی لیکن میرے ایک سال میں شادی کے وعدے نے اس کی ہمت بڑھا دی تھی اور وہ دل لگی سے میڈیکل کالج کے ٹیسٹ کی تیاری میں مگن تھی ۔۔۔ میرا دوست ڈاکٹر طاہر اس کی ہلپ کر رہا تھا اور ہم کئی بار اس کی ہلپ کے لئے اس کے سٹی جا چکے تھے ۔۔۔۔ کچھ دنوں بعد ایک نئے نمبر سے مجھے کال موصول ہوئی سیک نسوانی آواز نے مجھے سلام کیا اور تعارف کراتے ہوئے بولی میں آپ کے دوست زبیر کی بیگم اور سائقہ کے کالج کی پرنسپل ہوں ۔۔۔ میں نے سلام کا جواب دے کر اس سے رسمی کلمات ادا کئے ۔۔۔ اور اس کو بات کرنے کا موقع دیا ۔۔بولی بھائی پہلے تو آپ کو بہت مبارک ہو ۔۔۔ سائقہ نے بورڈ کو ٹاپ کیا ہے اور ہمارا مان بڑھا دیا ہے میں ایک دم سے اچھل پڑا ۔۔۔۔ اور میڈیم کی اگلی بات پر چونک گیا پوچھا بھائی وہ ایک بات پوچھنی تھی ۔۔۔۔ سائقہ کے پیرنٹس اس کے رشتے کے لئے کیا ارادہ رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے آسمان پر نظروں کو گھمایا اور ایک لمحے کے بعد بولا میڈیم وہ تو اس کی منگنی طے ہو چکی ہے ۔۔۔۔ وہ کچھ دیر خاموش رہنے کی بعد بولی ۔۔۔ دراصل میں اپنے بیٹے کے لئے ۔۔۔۔بہرحال بھائی ۔۔۔ چلو زبیر بھی آپ سے مل لیں گے اور بھائی پرسوں آڈیٹوریم ہال میں رزلٹ آؤٹ ہوگا اور پوزیشن ہولڈرز کو انعامات سے بھی نوازا جائے گا سائقہ کے پیرنٹس اور آپ جو بھی آنا چاہیں ۔۔۔ میں نے اوکے کر دیا اور فوراً سائقہ کو کال ملا لی ۔۔۔ فوراً ہی جی مانوں ۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا کیا کر رہی ہو ؟؟۔ بولی سٹڈی ۔۔۔ کیوں خیریت ۔۔ میں نے کہا ہاں بس آپ کی یاد آئی تو ۔۔۔ بولی ۔۔۔ کوئی لالچ تو نہیں ۔۔۔ میں ہنس کے بولا ۔۔۔ ابھی نہیں ۔۔۔ بولی کال کیوں کی ۔۔۔ میں نے کہا بس ایسے ےاد آئی تو۔۔۔ بولی سفید جھوٹ ۔۔۔۔ اب آگے بتاؤ ۔۔۔ میں نے کہا نہیں بتاؤں گا ۔۔۔ بولی مار مار کے سرپرائز دیتے ہو۔۔۔ کچھ خاص خبر لازمی ہے ۔۔۔ اوکے نہیں بتاؤ۔۔۔۔ میں کہا ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بتاتا اس نے کہا اوکے کال بند کرو ۔۔۔ میں نے کہا نہیں ۔۔۔ گہری سانس لے کر بولی اچھاااا ۔۔۔۔۔۔ ابھی مہوش تو ہے نہیں میرے پاس ۔۔۔ آپ شاکرہ کو ملا دو پھر میں بند کر لوں گی ۔۔۔۔۔ میں نے کال منقطع کر دی ۔۔۔۔۔ میں نے شاکرہ کو بتایا تو بہت خوش ہوئی اور بولی کچھ اہتمام ہم بھی کر لیتے ہیں ۔۔۔ ہم نے پروگرام ترتیب دے دیا اور اگلی صبح میں سائقہ کو بتائے بغیر اس کی بستی طرف نکل گیا ۔۔۔۔ باجی کے پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ اس نے شفقت کی بیگم سے آہستہ سے کہا کہ آپ کا گھی پڑا ہے تو تھوڑا سا دے دو ۔۔۔ میں سالن بناتی ہوں ۔۔۔ مدھم سے یہ الفاظ مجھے بہت بڑا پیغام دے گئے ۔۔۔میں کچھ دیر ساکت بیٹھا رہا ۔۔۔ اور پھر بولا باجی مجھے تھوڑی جلدی بھی ہے میں آپ لوگوں کو لینے آیا ہوں رات کو شاکرہ نے آپ لوگوں کے لئے دعوت کا اہتمام کیا ہوا ہے دلہن دولہا کی دعوت ہم سے لیٹ ہو گئی ۔۔۔۔ وہ خوش ضرور ہوئی پھر بولی ان کی دعوت آپ نے فضول میں کی ہے اس کے آنسو نکل آئے بولی بھائی آپ نے ہم پر احسان کر دیا آپ کی سوچ اچھی تھی لیکن شفقت کی شادی مجھے سہولت کے بجائے عذاب میں مبتلا کر گئی ۔۔۔ ہفتہ ھوا ہے انہوں نے کھانا پینا الگ کر لیا ۔۔۔۔ میں پہلے سمجھ چکا تھا ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔باجی بس آپ تیاری کر لیں ان کو رہنے دیں ۔۔۔ بولی میں آپ کے کھانا بناتی ہوں ۔۔میں نے اسے روک دیا ۔۔۔ شفقت گھر میں داخل ہوا تو مجھے دیکھتے ہوئے میرے پاس آنے کے بجائے اپنے روم میں چلا گیا اور میں نے سر جھکا کر خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ باجی نے مختصر تیاری کے بعد اپنے کمرے کو تالا لگایا اور آہستہ سے گاڑی کے پاس آنے لگی ۔۔۔ شفقت نے کمرے کے دروازے سے نکل کر اکھڑے لہجے میں اپنی ماں پر کوئی طنز کیا تھا ۔۔۔ میرا صبر اچھلنے سے پہلے واپس لوٹ آیا تھا جس پر میں نے بےشمار احسانات کئے تھے وہ آج میری تذلیل کے ساتھ اپنی سگی ماں کو بھی طنز کا نشانہ بنا رہا تھا ۔۔۔ اتنی اکڑ دکھانے والے اس لڑکے کی پاور یہ تھی کہ اگر میں اسے مکا مار دیتا تو اس کی کمر ٹوٹ جاتی میں نے عجلت میں گاڑی کو جہاں سے نکال کر بستی سے باہر آنے لگا میرے ہاتھ کپکپا رہے تھے اور آنکھوں پر دباؤ سا آ گیا تھا ۔۔۔ مہوش کی رخصتی والے دن کہی ایک بات کہ سائقہ بہت کچھ تم سے چھپا رہی ہے اور مجھے اندازہ ہونے لگا تھا راستے میں باجی نے دب،لفظوں میں کہا بھائی سائقہ نے کوئی بات کی تھی ۔۔ مجھے اس کی بات سے پریشانی کے بجائے خوشی ہوئی اور یہ کرکے بھی میں سمجھوں گی کہ آپ نے ہم پر ایک اور احسان کر دیا ہے ۔۔۔۔ لیکن بھائی صرف دو لفظ آپ نے سن لئے اس لئے فی الحال کچھ نہیں کہہ رہی اور خاموش ہوں ۔۔۔ میں نے کہا باجی ۔۔۔۔۔ میں آپ کو۔مایوس نہیں کرونگا ۔۔۔ لیکن فی الحال سمجھو کہ یہ بات تمھارے میرے اور سائقہ کے درمیان ہے ۔۔۔ اور کسی سے ذکر نہ کرو۔۔۔۔۔ شفقت اور اس کی بیوی کے بارے میں بتاتی ہوئی باجی رونے لگتی تھی ۔۔۔ شفقت کی بیوی کا اصل مشن یہی تھا کہ وہ ان پر شفقت کے ذریعے دباؤ بڑھا کر اپنے بھائی کے لئے سائقہ کا رشتہ حاصل کرے ۔۔۔۔ ہم گھر پہنچ گئے تھے شاکرہ نے شفقت اور اس کی بیوی کا پوچھا اور میرے سر جھکانے پر خاموش ہو گئی ۔۔۔ بولی مارکیٹ چلیں گے سائقہ اور اس کی امی کے کپڑے لیتے ہیں ۔۔۔ میں نے کہا اوکے باجی اور آپ چلیں میرے ساتھ سائقہ ویسے بھی ٹیسٹ کی تیاری کر رہی ہو گی ۔۔۔۔ میں شام کے بعد اسے لے آؤں گا ۔۔۔ ہم چار بجے مارکیٹ سے واپس آ گئے تھے شاکرہ نے کل کی تقریب کے لئے سائقہ کے لئے خاص اہتمام سے شاپنگ کی تھی ۔۔۔ باجی کو بہت اچھا لگ رہا تھا اور ساتھ وہ اس اچانک تبدیلی پر حیران بھی تھی ۔۔۔ شاکرہ کھانا بنانے لگ گئی ۔۔۔ میں شام سے کچھ پہلے نکلتے ہوئے باجی کو سمجھا گیا کہ شاکرہ کو کوئی بات نہیں کرنی ۔۔۔۔سائقہ نے بجتے گیٹ کے قریب کھڑے ہو کر آواز دی ۔۔۔ کون ہے ۔۔۔ میں نے پھر گیٹ بجایا ۔۔۔ میں پوچھ رہی کون ہیں آپ۔۔۔۔۔۔ میں نے پھر بجایا تو چیختے ہوئے بولی آپ انسان ہیں یا جانور ۔۔۔ میں نے کہا جانور تو نہیں ہوں ۔۔۔۔ سائقہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے گیٹ کھولا اور مجھے اندر کھینچ کر گلے لگاتے بولی ۔۔۔۔ مانوں ں ں ۔۔۔ کیوں تنگ کرتے ہو ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔میں تنگ تو نہیں کرتا ۔۔۔بولی تنگ نہیں تو اور کیا ۔۔؟؟۔ میں نہیں سائقہ کو باہوں میں بھرا اور اس سے نظریں ملا کر بولا ۔۔۔ میں تو کھلی کرتا۔۔۔۔۔ وہ سر جھکا کے ہنسی وہیں بیٹھ گئی ۔۔۔ کچھ لمحے بعد میں نے اسے اٹھا لیا اور بیڈ پر۔لٹاتے ہوئے بولا ۔۔۔ سقی کپڑے اتارو ۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے نگاہیں ملا کر خود کو کپڑوں سے آزاد کر لیا ۔۔۔ اور پوچھا اور میں نے کہا لیٹ جاؤ وہ لیٹ گئی اور میں اس کے بوبز پر جھک گیا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد بولی آج کچھ عجیب نہیں ہو رہا ۔۔۔۔ میں مسکراتے ہوئے اٹھ گیا اور بولا کپڑے پہن لو بولی نہیں اب تم پہناؤ گے ۔۔ میں نے اس کا ایک اور سوٹ نکال کر اسے پیار کرتے ہوئے پہنا دیا ۔۔۔۔ اور بولا بس ٹھیک ہے چلو ۔۔۔۔ وہ چادر اور شوز پہن کر مسکراتی ہوئی روم کا تالا لگا کر گیٹ کی طرف آ گئی اور پوچھا آپ کی گاڑی ؟؟؟ میں نے کہا مین گلی میں ہے اس نے گیٹ کو لاک کیا اور میرے ساتھ آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔ وہ اپنی امی سے لپٹ کر پیار کرنے ۔۔۔ دونوں کو معلوم نہیں تھا کہ اتنا اہتمام کیوں کیا جا رہا ہے ۔۔۔ صبح شاکرہ نے ناشتے کے بعد مجھ سے وہ آپ آڈیٹوریم ہال میں میری دوست کی تقریب ہے کوئی ۔۔۔ میں چاہتی سائقہ اور باجی بھی ہمارے ساتھ چلیں ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر اوکے کر دیا شاکرہ نے خود اہتمام کے ساتھ سائقہ کو تیار کر دیا ۔۔۔ بولی مجھے نہ بتاؤ لیکن مجھے پتا چل رہا کہ کچھ ضرور ہے جو چھلا رہے ہو ۔۔۔۔ آڈیٹوریم ہال میں ہم پیچھے بیٹھ گئے سائقہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ رزلٹ آؤٹ ہونے کی تقریب ہے ۔۔۔۔ تقریب شروع ہو گئی اور کچھ دیگر ایکٹیویٹیز کے بعد پوزیشن ہولڈر کو سٹیج پر بلایا جانے لگا ۔۔۔۔ 1:10 بجے سٹیج سیکرٹری میڈیم نے کہا اب استقبال کیجئے پری میڈیکل میں بورڈ ٹاپ کرنے والی بچی ۔۔۔۔ بہت بہت مبارک ہو ۔۔۔۔ گورنمنٹ گرلز کالج نمبر 1 کی سٹوڈنٹ مس سائقہ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے سائقہ کو باہوں میں بھر کے اٹھا دیا اور سب کھڑے ہوکر پیچھے دیکھنے لگے ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا


سائقہ چند قدم چلنے کے بعد رک کے مجھے دیکھنے لگی تھی شاکرہ نے آہستہ سے کہا چلے جاؤ۔۔۔ میں اس کے ساتھ سٹیج پر چلا گیا سائقہ موجود سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی اس نے ایک بڑی چادر لپیٹ رکھی تھی جا میں اس کا آدھا چہرہ چھپا ہوا تھا سائقہ کی آنکھیں نم ہو چکی تھی اور انعامات وصولی کے وقت بھی مجھے دیکھتی جا رہی تھی ۔۔۔ سند ۔۔ اعزازی سرٹیفکیٹ اور بورڈ کے علاوہ کچھ کمپنیوں کے طرف سے اسے انعامی لفافوں کے ساتھ شیلڈ بھی دی گئی تھی ۔۔سٹیج سے اترتے ہوئے کچھ مقامی وےب چینلز کے لوگو آگے لہرا رہے تھے سائقہ نے اپنی کامیابی پر سب سے پہلے میرا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مانوں کی شفقت اور نگرانی کے سبب میں اس مقام پر پہنچی ۔۔۔ میرے والدین کی دعاؤں نے مجھے کامیابی کی سیڑھیوں پر چلایا اور میں اپنے والد محترم کو مس کرتے ہوئے اپنی کامیابی اس ہال میں بیٹھی اپنی امی کے نام کرنا چاہوں گی ۔۔۔ کاش آج میرے ابو میری کامیابی کو دیکھ لے۔۔۔ ۔۔۔سائقہ رو دی تھی میں نم آنکھوں سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی امی کے پاس لایا جو سر جھکائے رو رہی تھی اور باجی کے دیکھئے سے پہلے شاکرہ نے اسے اپنی باہوں میں بھرا اور پیار کرنے لگیں ۔۔۔ باجی نے اٹھ خر اسے اپنی باہوں میں لپیٹا اور دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں بہت سی لڑکیاں ان کے پاس کھڑی سلفی لینے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔ سائقہ لڑکیوں میں گھل مل گئی تھی اور باجی میرا سر پکڑ کر میرا ماتھا چومتے دعائیں دے رہی تھی ۔۔۔ باجی نے شاکرہ کو بھی بہت دیر تک گلے لگائے رکھا اور اسے چومتی رہی ۔۔۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد شاکرہ نے باجی سے کہا کہ آج بھی آپ ہمارے مہمان ہیں باجی نے کہا کہ آج مجھے آپ لوگوں کی وجہ سے جو خوشی ملی اس کا احسان کبھی نہیں اتار پاؤں گی ۔۔۔ دل چاہتا آپ کے پاس رہوں لیکن گھر جانا ہے مجھے پھر کبھی آ جاؤں گی ۔۔۔۔ شاکرہ نے موبائل پر ٹائم دیکھا اور بولی مجھے امی کے گھر پہنچا دو ۔۔۔ اور آپ باجی لوگوں کے ساتھ چلے جاؤ ۔۔۔ میں نے تھوڑا آگے جا کر یوٹرن لیا اور شاکرہ کو پہنچانے کے بعد واپس ہو گیا ۔۔۔۔ رستے میں باجی نے سائقہ کو گود میں لٹا لیا اور اسے پیار کرتی جا رہی تھی ۔۔۔ مجھے بولی بھائی آج میں بہت خوش ہوں اور مجھے پکا یقین ھو گیا کہ میرے بعد کم سے کم میری گڑیا رل نہیں جائے گی ۔۔۔ میں سائقہ تمھیں دیتی ہوں بس ۔۔۔ اسے اپنا سمجھو شفقت نے جو کرنا کر لے۔۔۔۔ وہ مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے سائقہ کو سب کچھ اپنی امی کو دینے کا کہا ۔۔۔ سائقہ کو تقریباً تین لاکھ کے نقد انعامات ملے تھے لیکن باجی نے قسم اٹھا لی کہ میں نہیں لوں گی ۔۔۔۔ سائقہ سے بولی میرے بھائی کو دے دو پتا نہیں تم پر کتنا خرچ کر لیا میں نے انکار کر دیا سائقہ نے اپنی سائیڈ پر رکھ لئے ۔۔۔ بولی میں ان سارے پیسوں کی شہد لوں گی ۔۔۔ باجی بولی ڈہد کیا کرنی اتنی ۔۔۔ سائقہ مجھے دیکھ کر خاموش ہو گئی ۔۔۔ میں نے گزشتہ روز کے شفقت کے روپے پر باجی سے معذرت کرتے ہوئے بولا کہ آج دل نہیں کر رہا پھر کبھی آؤں گا میں نے گاڑی ان کے گیٹ کے پاس کھڑی کر دی اور ان کے اترنے پہلے ڈگی کھول کر سامان نکالنے لگا تھا ۔۔۔ گزشتہ روز کے باجی کے حالات کو دیکھ کر میں غم زدہ تھا اور شام کو سائقہ کو اس مکان سے لینے جاتے ہوئے میں نے بہت سا راشن خرید لیا تھا ۔۔۔۔ باجی کے پاس کہنے کو الفاظ نہیں تھے وہ نم آنکھوں میں مجھے دیکھتی گھر چلی گئی تھی اور میں نے راشن کے سارے کاٹن ان کے گیٹ کے اندر رکھ دئیے اور میں زینت کی امی کے گھر چلا گیا تھا ۔۔ سونیا کا بیٹا ڈیڑھ سال کا ہو چکا تھا اور کچھ ماہ کی طرح سونیا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر۔میرے ہاتھ پر رکھا اور آہستہ سے بولی ابو کو سلام کرو۔۔۔۔ صرف ادھے گھنٹے بعد ہی سائقہ شہد کی بوتل اٹھا کر یہیں آ گئی تھی اور سب اس مبارکباد دینے لگے وہ گھر سے کچھ رنجیدہ ہو کر آئی تھی ۔۔۔ وہ زینت کی امی اور سونیا سے رسمی کلمات کے بعد مجھے بولی چلیں ۔۔۔۔ میں اٹھ گیا سونیا بولی آج ہمارے گھر رک جاؤ۔۔۔ سائقہ بولی مہمان نوازی کرو گی مانوں کی ۔۔۔۔ وہ چارپائی پر بیٹھ گئی اور مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا ۔۔۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میں نے کہا سقی اگر رہنے کا موڈ ہے تو میں آپ کی خاطر آپ کے گھر چلا جاتا ۔۔۔ بولی نہیں ۔۔۔ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔ کہ اگر امی نہ ہوتی تو مجھے قتل کر دیتے یہ دونوں ۔۔۔۔ اس نے بھائی اور بھابھی کی عکاسی کی تھی ۔۔۔۔ ہم رات نو بجے کے قریب سائقہ کے مکان میں پہنچ گئے تھے سائقہ یہاں پہنچنے تک نارمل ہو چکی تھی ۔۔سائقہ نے انعام میں ملنے والی ساری رقم اس نیلے شاپر میں ڈال دی۔۔۔ بازار سے لایا گیا کھانے میں سے برائے نام کھانے کے بعد سائقہ میرے اوپر لیٹ گئی تھی اور کچھ دیر بعد میرا لباس اتارتی مجھے بےتحاشہ کسنگ کرتی جا رہی تھی اور پھر مجھے بیڈ سے نیچے کھڑا کر کے سر کے بالوں سے پاؤں کے تلووں تک کسنگ کی اور میرے سینے پر شہد گرا کے اسے چاٹتی رہی اور بہت دیر بعد شہد کی بوتل مجھے تھما دی اور نشے بھری آنکھوں سے تکنے لگی میں نے کسنگ کے ساتھ اس کو لباس سے باہر نکالا اور شہد کی بوتل ہاتھ میں لے کر گالوں سے پاؤں تک تھوڑی تھوڑی گرا کر چاٹتا رہا ۔۔۔ میں نے اس سے فرمائش کی اور سائقہ نے بیڈ پر کھڑے ہو کر بھرپور انگڑائی لی اور مست نگاہوں سے دیکھتی کچھ بولے بغیر میرے آگے لیٹ گئی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ہر دس منٹ بع میں ببلو کو باہر نکال کے پھر سے شہد چاٹنے لگتا ۔۔۔۔۔ رات دو بجے ہم بے حال ہو کر ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے سائقہ مجھے سیدھا لٹاتے ہوئے میرے سینے پر الٹا لیٹتے ہوئے کمبل کھینچ کر سو گئی ۔۔۔۔۔ دوپہر کا ایک بج چکا تھا ۔۔۔ گیٹ بجنے کی آواز پر ہم جاگ گئے تھے سائقہ اپنے جسم پر بڑی چادر لپیٹتے ہوئے مجھے دیکھ کر بولی۔۔ ماسی ۔۔۔ ہے ۔۔۔ گیٹ کھولے بغیر سائقہ نے اسے پانچ بجے شام کا ٹائم دیا اور والس آ کر میرے اوپر لیٹ گئی ۔۔۔۔ میں چار بجے اس کے پاس سے چلا آیا تھا ۔۔۔۔ سائقہ کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا تھا وہ بہت خوش تھی لیکن جب گھر جانے کا وقت آتا تو بہت دکھی ہو جاتی ۔۔۔۔ ایک دن بولا مانوں آپ نے بہت جلدی کر دی شفقت کی شادی کرانے میں ۔۔۔ زندگی اسی پگڈنڈی پر چلتی رہی تھی ۔۔۔ اس دوران میں سائقہ اور شاکرہ کے علاوہ کسی سے نہیں ملا اور میں نے خود کو محدود کر لیا تھا۔۔ زینت کبھی کال کرتی تو یہی شکوہ کرتی تھی ۔۔۔ نومبر کے وسط میں ایک رات دیر سے سائقہ کی کال آنے لگی ۔۔۔ رات کے اس پہر کال آنا بھی خطرے کی گھنٹی تھی ۔۔۔ میں موبائل اٹھانے کے ساتھ باہر آ گیا میں شاکرہ کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ میں نے سائقہ کو کال کر لی ۔۔ مانوں ۔۔۔ پیٹ میں شدید درد ہے ۔۔۔ میں نے کہا اوکے میں آتا۔۔۔ میں نے ایک پرچی پر لکھا ۔۔۔ ہاسٹل سے کال آئی ہے سائقہ کی طبیعت بہت خراب ۔۔۔ اٹھ جاؤ تو کال کر لینا ۔۔۔۔ میں جلد ہی سائقہ کے پاس پہنچ گیا اور اسے لیکر ہسپتال چلا گیا ۔۔۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد سائقہ کے ٹیسٹ ہونے لگے ۔۔۔۔ پین کلر انجکشن لگنے کے بعد اس کا درد ختم ہو گیا لیکن ٹیسٹ کی رپورٹس ہمیں صبح جاکر ملیں ۔۔۔۔ شاکرہ نے صبح چار بجے کال کر لی تھی میں اس کے آگے روم اور مین گیٹ کو لاک کر کے آیا تھا ۔۔۔ وہ پھر سونے لگی تھی اور میں سائقہ سے باتیں کرتا رہا اسے صبح پانچ بجے نیند آ گئی اور میں موبائل پر گیم کھیلنے لگ گیا ۔۔۔ سائقہ نو بجے جاگ گئی اور اب وہ اس روم میں چلنے لگی تھی اور پھر بیڈ پر بیٹھ کر مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔۔۔ میڈیکل رپورٹس آ گئیں تھی اور چند ہی منٹ بعد ڈاکٹر بھی آ گیا ۔۔۔ ڈاکٹر نے سائقہ کا چیک اپ کیا اور تسلی کے بعد رپورٹس لے کر بیٹھ گیا ۔۔۔ پوچھا پہلے اس کا علاج کس ڈاکٹر سے چل رہا ۔۔۔ میں نے کہا کسی سے نہیں رات درد ہوا تھا ۔۔۔۔یہاں آ گئے تھے ۔۔۔ بولا درد کا مسئلہ اتنا نہیں ہے ۔۔۔ بچے نہ ہونے کا مسئلے کا علاج چل رہا ۔۔۔ میں ڈولنے لگا اور خود کو سنبھال کر مشکل سے ڈاکٹر سے ڈیٹیل پوچھی ۔۔۔ بولا اس کے بچے نہیں ہو سکتے کراچی میں علاج ہے ایک ۔۔۔ لیکن اس سے بھی امکان بیس فیصد ہیں ۔ڈاکٹر میڈیسن لکھ کر جانے کب کا جا چکا تھا ۔۔۔۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کہاں بیٹھا ہوں ۔۔۔۔ ایک نرس نے میرا کندھا پکڑ کر ہلایا اور پوچھا صاحب آپ ٹھیک ہیں میں نے اسے تکتے ہوئے مشکل سے کوئی لفظ ادا کر دئیے اگلے لمحے اس نے کاغذ تھماتے ہوئے ہوئے کہا ۔۔۔ آپ کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے ۔۔۔ کاغذ میرے ہاتھ سے کبوتر کی طرح نکل کر بیڈ کے نیچے چلا گیا تھا ۔۔۔ بہت دیر بعد میں نے آنکھوں کو راف کیا اور سائقہ کی طرف دیکھا ۔۔۔ وہ بت بنی دیوار کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ میں اس کے قریب جاتا چاہتا تھا لیکن میں جسم میں سکت باقی نہیں تھی اور بدن کا انگ انگ ٹوٹ چکا تھا ۔۔۔ میڈیکل عملے کے ایک اہلکار نے آ کر ریکوسٹ کی کہ صاحب ہم پورے دوگھنٹے سے آپ کا ویٹ کر رہے ۔۔۔ ہم نے یہاں ایک اور مریض کو لانا ہے ۔۔۔ میں بیڈ کو پکڑتے ھوئے بینچ سے اٹھ گیا تھا ۔۔۔۔ میں نے سائقہ کا کندھا پکڑ کر اسے اٹھنے کو کہا وہ مجھے پاگلوں کی طرح گھورنے لگی تھی ۔۔۔ میں نے اپنے اعصاب کو بحال کرتے ہوئے سائقہ کی ٹانگوں کو پکڑا اسے بیڈ سے نیچے لٹکا کر ان میں شوز پہنائے اور اسے اٹھا کر پکڑے ہوئے روم کے دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا میں سائقہ کو اٹھانا چاہا رہا تھا لیکن آج یہ بہت بھاری ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ صدیوں کی مریضہ کی طرح قدم گھسیسٹے گیلری میں چل رہے تھے کہ پیچھے نرس نے آ کر کچھ کاغذ ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا سر یہ آپ کے میڈیکل ٹسٹ اور کاغذات ۔۔۔۔ گاڑی کی کھڑکی پتا نہیں کیوں نہیں کھل رہی تھی ۔۔۔ ایک بزرگ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے چھوٹے بھائی یہ میری گاڑی ہے ۔۔۔ میں نے سوری کرتے ہوئے تھوڑا آگے کر ادھر ادھر دیکھنے لگا سائقہ زمین پر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے اس گاڑی کو غور دیکھا ۔۔۔ اور چابی لگائی تو گیٹ کھل گیا میں نے جیسے تیسے سائقہ کو پچھلی سیٹ پر سلا دیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر بہت دیر خود کو سیٹ کرتا رہا ۔۔۔ بوتل اٹھا کر دو گھونٹ پانی کے حلق سے اتارے اور گاڑی اسٹارٹ کرنے ہی والا تھا کہ مجھے محسوس ھوا کہ موبائل ویبریشن کر رہا ہے میں نے موبائل نکال کر دیکھا شاکرہ کی کال تھی میرے اعصاب بحال کرنے اور ذہن میں پلان بنانے تک اس کی گھنٹی بند ہو گئی اور میرے نمبر ڈائل کرنے سے پہلے اس کی پھر کال آ گئی میں نے مشکل سے ہیلو کہا ۔۔۔ بولی کہاں ہیں آپ زاہد ۔؟؟۔ آپ ٹھیک ہیں اور سائقہ کیسی ۔۔۔ میں دوگھنٹے سے کالیں کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے گلے کو صاف کیا اور بولا ۔۔۔ سائقہ ٹھیک ہے ہاسٹل چلی گئی تھی اور میرے دوسکا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اس کے ساتھ بزی تھا ۔۔۔ سوری آپ کی کال کا علم نہیں ہوا۔۔۔۔ بولی ابھی کہاں ہو ۔۔۔ میں نے کہا ہسپتال ۔۔۔ لیکن ڈاکٹر اسے ملتان لے جانے کا بول رہ۔۔۔ اوہ ہ ہ گارڈ ۔۔۔ اوکے اگر ملتان جاؤ تو مجھے بتا دو ۔۔۔ امی آئی ہے پھر میں ان کے ساتھ چلی جاتی ۔۔۔۔ میں نے اوکے کہہ کر کال منقطع کر دی ۔۔۔بہت دیر بعد میں نے آس پاس کا جائزہ لیا اور چیونٹی کی رفتار گاڑی کو ایک سائڈ پر لے جانے لگا ہسپتال سے نکلنے کے بعد میں نے ایک سائیڈ پر رکتے ہوئے شاکرہ کو بتا دیا کہ ہم ملتان جا رہے اور کال بند کرتے مکان کی طرف آنے لگا یہ پررونق شہر ویران ہو چکا تھا دھند نے اسے اپنی لپیٹ میں لے۔لیا تھا اور رستہ دکھنا مشکل ھو رہا تھا ۔۔۔ جانے کس ٹائم ہم سائقہ کے مکان میں پہنچے گاڑی کو باہر گلی میں لاک کیا اور سائقہ کو پکڑ لیا بیڈ تک لے آیا ۔۔۔ میں نے اسے لٹا دیا اور اس کے شوز اتار کر نیچے پھینک دئیے ۔۔۔میں اس کے ساتھ لیٹ گیا اور اس کے گالوں کو سہلانے لگا ۔۔۔۔بہت دیر بعد اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور میں نے اٹھ پانی کا گلاس بھتا اور سائقہ کا سر اپنی جھولی میں رکھا اور اس کو دوبارہ اپنے ہاتھ سے اٹھا کر پانی پلایا ۔۔۔ سائقہ نے مجھے تکتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے شروع ہو گئے ۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ وہ جی بھر کے رو پڑے ۔۔۔ آہستہ آہستہ اس کی ہچکیاں بندھنے لگیں اور وہ بہت دیر تک روتی رہی ۔۔۔ میں نے اس کو کسنگ کرنا شروع کر دی اور پھر کچھ باتیں کرتے ہوئے سائقہ کے ساتھ لیٹ گیا اور اسے اپنے سینے پر الٹا لٹا کر اس کے ہپس پر اہستہ سے تھپکی دینے لگا بہتر دیر بعد سائقہ سو گئی تھی اور میری آنکھیں بھی بند ہونے لگیں تھیں

میری آنکھ کھل چکی تھی اور میں ساکت پڑا سائقہ کا جائزہ لے رہا تھا میری شرٹ گیلی ہو چکی تھی جانے کب سے رو رہی تھی وہ آہستہ سے بار بار اپنا ہاتھ اپنی ناک کی طرف لے جاتی تھی ۔۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ اس کے گال پر رکھ دیا ۔۔ وہ بہت دیر تک میرے ہاتھ کو سہلاتی رہی ۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھے بغیر بھری آواز میں بولی ۔۔۔۔ سو جاؤ مانوں ۔۔۔۔ ابھی صبح نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔ وہ لمحے بھر بعد اپنا گلہ صاف کرتے ہوئے پھر بولی سردیوں کی راتیں طویل ہوتی ناں؟؟۔ میں نے گہری سانس لی اور گلہ صاف کرکے بولا ۔۔۔۔ ہاں ں ں ں ں ۔۔۔ جما کے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔۔۔ پوچھا کچھ کھاؤ گے ۔۔۔ بنا دوں ۔۔۔ میں نے کچھ سوچ کر پھر پوچھا ۔۔۔ کیا پڑا ہے ۔۔۔ وہ اٹھتے ہوئے بولی پتا نہیں ۔۔۔۔ دیکھتی ہوں ۔۔۔۔ وہ دروازے کے پاس رک کر پوچھنے لگی ۔۔۔ دروازہ لاک نہیں کیا تھا ۔۔۔ میں نے اپنا سر اٹھا کے دیکھا اور خاموش ہو کر کروٹ بدل گیا ۔۔۔۔۔ سائقہ کے جانے کہ کچھ دیر بعد میں بھی کچن میں چلا گیا وہ پراٹھا بنا رہی تھی میں اس کے پیچھے ٹھہر کے اس سے عام سی باتیں کرنے لگا تھا اس نے ایک پراٹھا اتار کے انڈے کی طرف ہاتھ بڑھا دیا میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑا مجھے دیکھتے ہوئے بولی کیا ہے ۔۔ میں نے کہا ایک پراٹھا اور بنا لو ۔۔۔ بولی آپ یہ بھی پورا نہیں کھاؤں گے ۔۔۔ میں مسکرانے کی کوشش کے ساتھ خاموش ہو گیا اور ساتھ والے چولہے کو جلا کر میں اس پر چائے بنانے لگا ۔۔۔ سائقہ نے دوسرا پراٹھا بنانے کے بعد میرے کہنے پر دو انڈے بھی تل لئے میں نے اس منہ دھونے کا کہا وہ روم میں چلی گئی ۔۔۔ وہ باتھ روم سے باہر آئی تو میں بیڈ پر دستر خوان سجائے بیٹھا تھا ۔۔۔ بولی چائے پیو گے آپ ؟؟ میں نے کہا ہاں آج سر میں درد ہو رہا تو۔۔۔ وہ ایک کپ چائے کھسکا کر مجھے اپنے ہاتھ سے کھلانے لگی تھی میں نے منہ بند کر کے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا ۔۔۔ بولی کیا ہے ۔۔۔ میں نے کہا تم کھاؤ۔۔۔ بولی موڈ نہیں ہے بس چائے پی لیتی آپ نے جو بنا لی ۔۔۔ میں نے چائے کا کپ اٹھا کر سائقہ سے بولا بس اسے رکھ دو ۔۔۔ بولی کیا ہے مانوں ۔۔۔ میں نے کہا موڈ نہیں ہے بولی پھر مجھ سے کیوں بنوایا ۔۔؟؟؟ بس ایسے ہی ۔۔۔میں نے سر جھکاتے ہوئے کہہ دیا ۔۔۔ بولی اچھا میری طرف دیکھو۔۔۔ میں نے اس کو دیکھنے لگا ۔۔۔ اس نے ایک نوالا اپنے منہ میں ڈالا اور پھر مشکل سے اپنے خشک حلق سے اتارا ۔۔۔۔ بولی اب خوش میں نے مسکرا کے کہا ہا ں ں اس نے نوالا بنایا اور مجھے کھلا دیا میں چائے کا کپ ڈش میں رکھ دیا اس نے دوسرا نوالہ بنا کر میری طرف بڑھایا تو میں نے پھر منہ بند کر لیا ۔۔۔ اس نے روہانسی آواز میں کہا مانوں کیا ہے پھر۔۔۔۔ میں نے کہا تمھاری باری ہے وہ نم آنکھوں سے چلا کر بولی۔۔۔ جب دل نہیں کر رہا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رک گئی تھی ۔۔۔ سائقہ نے آج پہلی بار اس لہجے میں میرے سے بات کی تھی میں سرجھکا گیا ۔۔۔۔۔ وہ نوالہ ڈش میں رکھ کر لیٹ گئی تھی میں دستر خوان سے تھوڑا پیچھے ہوئے ہوئے چائے کی ڈش کو سائیڈ پر کر گیا ۔۔۔ وہ بہت دیر بعد اٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ سوری مانوں ۔۔۔۔۔۔۔۔تم کیا کہتے ہو ؟؟؟ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور بولا ایک نوالہ آپ کا ایک میرا ۔۔۔۔ بولی اوکے ۔۔۔۔۔ پھر پراٹھا کو توڑتے ہوئے ۔۔ اٹھ گئی بولی گرم کر کے لاتی ہوں وہ چائے والا ڈش کے ساتھ دوسرا ڈش بھی اٹھانے لگی تھی فجر کی آذانیں بلند ہونا شروع ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح نو بجے میں نے اس سے ایک گھنٹے میں آنے کا کہا اور نکل پڑا میں بینک سے ہوتا ہوا مارکیٹ چلا گیا اور اپنے ساتھ سائقہ کے بھی کچھ سوٹ خرید لئے ۔۔۔۔۔ اور گھر آ گیا میں نے اسے تیار ہونے کو کہا ۔۔۔ وہ بہت دیر سر جھکائے بیٹھی رہی پھر پہلی بار پوچھا تھا ۔۔۔ اب کہاں جانا ہے ؟؟؟ میں نے گہری سانس لی اور بولا اب کیوں پوچھا ہے ؟؟؟ بولی بس ۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں ۔؟؟ میں نے بڑے شاپر کی طرف اشارے کرتے پوچھا اس میں بیگ ہے ۔۔۔میرے ساتھ اپنے کچھ سوٹ بھی ڈال لو ۔۔۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ گئی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔ ہم سہہ پہر تین بجے کے قریب سائقہ کی بستی کو جانے والی کچی سڑک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مین روڈ پر آگے بڑھ گئے ۔۔۔ سائقہ نے مجھے دیکھا اور پھر سر جھکا گئی ۔۔۔۔ میں نے بولا سقی تھکی بیٹھی ہو تو پیچھے سو جاؤ۔۔۔۔۔ سفر لمبا ہے ۔۔۔۔ ہم کراچی جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اس نے گہری سانس لی اور کپکپاتے لبوں سے مانوں ں ں ں کہا اور پھر خاموش ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم صبح ہونے سے کچھ دیر قبل کراچی پہنچ گئے تھے اور اچھا ہوٹل تلاش کر رہے تھے ۔۔۔ ہوٹل کے روم میں ہم نے اس وقت ہوٹل میں دستیاب نہاری اور پراٹھے کھائے اور سو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات دس بجے ہم ڈاکٹر کی تسلیاں اور میڈیسن لینے کے بعد اسی ہوٹل میں آکر سو گئے اور صبح پانچ بجے ہم وہاں سے نکل پڑے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ نے کوئی تین گھنٹے کی شاندار ڈرائیونگ کی تھی۔۔۔۔ اس نے ایک بڑے شاپر میں اترے ہوئے کپڑے ڈال کر گٹھڑی بنا کر سیٹ پر رکھ لی تھی ۔۔۔ مجھے پیچھے لیٹنے کا بولا تھا ۔۔۔۔ ایک ہوٹل سے ڈنر کرنے کے بعد وہ میری گود میں بیٹھ کر ڈرائیونگ کرنے لگی تھی ۔۔۔۔ رات نو بجے کے قریب ہم مکان میں پہنچ گئے تھے ۔۔۔۔ میری گود میں لیٹتے ہوئے سائقہ بولی ۔۔۔۔۔ مانوں میں ٹھیک ہو جاؤں گی ۔۔۔۔ ؟؟؟؟ میں نے کہا ۔۔۔ یہ مسئلہ تمھارا نہیں میرا ہے ۔۔۔۔۔ بولی کیسے ؟؟؟ بچے مجھے چاہیں ناں ۔۔۔۔ بس تم ٹینشن نہیں لو۔۔۔۔ ہم رستے سے لایا گیا دودھ اور جوس پینے کے بعد سو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے موبائل پر ٹائم دیکھا ۔۔۔ صبح کے سات بج چکے ۔۔ میں نے سائقہ کو اپنے سینے پر گھسیٹتے ہو اوپر کھینچا اور اسے کسنگ کرنے لگا۔۔۔وہ جاگ گئی اور مسکرانے لگی تھی میں نہیں اسے پہلی بار جگایا تھا ورنہ اس سے قبل اس کے جاگنے کا انتظار کرتا تھا ۔۔۔۔ بولی خیریت ؟؟؟ میں نے کہا کالج کی تیاری کر لو ۔۔۔۔ کچھ دیر خاموش پڑی رہی پھر بولی اوکے ۔۔۔ پھر وہ میرے گال پر چٹکی بھرتے ہوئے بولی ۔۔۔جیسے میرا مانوں بولے گا۔۔۔۔۔ میں نے عام زندگی میں مسکرانا چھوڑ دیا تھا اور صرف سائقہ کی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیتا تھا ۔۔۔۔ شاکرہ بھی مجھے دیکھ کر سنجیدہ ہونے لگی تھی ۔۔۔۔ سائقہ نے کال کرکے پوچھا شاکرہ گھر ہے یا۔۔۔۔ میں نے کہا گھر ہے بولی پھر ابھی آ جاؤ۔۔۔ میں کالج سے نکلنے لگی ہوں ۔۔۔۔۔ یہ ہمیں کراچی سے واپس آئے بیسواں روز تھا ۔۔۔اور میں تقریباً روزانہ ایک گھنٹے کے لئے اس کے پاس جاتا تھا ۔۔۔۔ میں سائقہ کے پاس پہنچ چکا تھا اور اس کے گلے ملنے کے بعد روم کی طرف چلا گیا بیڈ کے درمیان شہد کی بوتل دیکھ کر میں نے سائقہ کے ہپس پر زور کا تھپڑ مارا وہ ہنسنے لگی تھی ۔۔۔۔۔ میں نے جوتے اتارتے ہوئے بیڈ کے نیچے کچھ محسوس کیا اور ہاتھ بڑھا کر تکیہ کو باہر کھینچ لیا اس پر میری ایک پرانی پنک شرٹ چڑھی ہوئی تھی اور اس پر نیلے رنگ سے بڑا سا “MAANUU” لکھا تھا ۔۔۔ میں نے حیرت سے سائقہ کی طرف دیکھا ۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے تکیہ میرے ہاتھ سے لیا اور بیڈ پر آکر اس تکیے پر الٹی سو کر آنکھیں بند کرتے ہوئے بولی اکیلے سونے کے لئے میں نے سائقہ کی قمیض کو پکڑ کر اسے اوپر تک پھاڑ دیا اور اس کی کمر پر شہد ڈال کر چاٹنے لگا ۔۔۔۔ مدہوشیوں میں آگے بڑھتے ہوئے جب میں سائقہ کو اپنے نیچے گٹھڑی بنائے تالی کی آواز سے لذت کے آخری لمحات کی طرف بڑھنے لگا تو بیڈ پر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سائقہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بولی ۔۔۔۔ کنڈوم پھینک دئیے ۔۔۔۔ اور پھر اس نے اپنے پیٹ پر تھپکی دیی میرا جسم اکڑنے لگایا اور میں آنکھیں بند کرتا اس پر ساکت ہو گیا ۔۔۔ سائقہ اپنے اندر گرتی بوندیں محسوس کرتے ہوئے کھلے منہ سے کمرے کی چھت کے پار دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں شام فوراً بعد گھر آگیا ۔۔۔۔ ہم نے کراچی کے چار دورے کر لئے تھے ۔۔۔۔ اور سائقہ اب ہر ہفتے مجھے بلاتی رہی ۔۔۔۔ وہ اب گھر بہت کم جاتی تھی فروری کے پہلے ہفتے میں سائقہ نے مجھے بہت محبت سے کہا ۔۔۔ مانوں آپ کہیں بھی شادی کر لو ۔۔۔۔ میں چونک گیا ۔۔۔ پوچھا تو بولی مانوں ۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے اور ۔۔۔۔۔۔ میں تمھیں زمانے میں تماشا نہیں بنانا چاہتی ۔۔۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن الفاظ میرے حلق میں پھنس گئے تھے۔۔۔ میں گھر پہنچا تو اس وقت گھر کے گیٹ پر ۔۔۔۔ محلے کے بچے کھیل کر شور مچا رہے تھے ۔۔۔ میں ٹوٹے بدن کو گھسیسٹتا کمرے میں چلا آیا ۔۔ کچھ لمحے بعد شاکرہ نم آنکھوں سے میرے بیڈ سے لٹکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔ زاہد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو زاہد۔۔۔۔۔ زاہد ۔۔۔ میں نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر بہت رلا دیا زاہد۔۔۔۔۔ مجھے معاف کردو ۔۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی ۔۔۔۔ زاید جب تم بچوں کی آواز پر ٹوٹ جاتے ہو ناں ۔۔۔۔ تو میں اندر سے کٹ جاتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ زاہد آپ نے میرا احترام کیا آپ نے مجھے بہت پیار دیا ۔۔۔ میں تمھاری احسان مند ہوں ۔۔۔۔ زاہد ۔۔۔ تم عظیم انسان ہو۔۔۔۔۔ زاہد تم میری مرضی کے بغیر بھی شادی کر سکتے تھے لیکن تم نے میری محبت کا جواب محبت سے دیا اور میرے دل میں اپنی محبت بڑھا دی آئی لو یو زاہدددد۔۔۔۔۔ وہ سسکیوں کے درمیان چیختے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔ پھر ہچکی لیتے بولی زاہد تم شادی کر لو۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔ میں تیرا رشتہ لے کر جاؤں گی ۔۔۔۔ پھر کچھ سنجیدہ ھوتے ہوئے بولی ۔۔۔ سنو۔۔۔ سائقہ اچھی لڑکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹے بڑے رشتے ہو جاتے ۔۔۔۔ میں اس کی امی سے بات کر لوں گی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے شاکرہ کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا میں نے اسے ٹٹول کر کندھوں سے پکڑا اور کھینچ کر اپنے ساتھ لٹا لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے دن سائقہ نے مجھے میسج کیا جلدی سے مکان میں پہنچو۔۔۔۔۔ میں بیس منٹ بعد اس کے پاس پہنچ گیا گیٹ۔کھلا ہوا تھا اور میں اندر چلا گیا سائقہ اپنے کپڑوں کے اوپر پہنا سفید کوٹ اتار رہی تھی اس نے مصنوعی مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا ۔۔۔۔ لیکن وہ اپنے چہرے پر سے درد کی لکیروں کو نہیں مٹا سکی ۔۔۔ وہ برآمدے ہی سے مجھے باہوں میں بھرتی اندر لیتے ہوئے بولی سدرہ یہ ہیں میرے مانوں ۔۔۔۔ ایک کانچ کی گڑیا جیسی لڑکی نے صوفے سے اٹھ کر مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا اس کی آنکھوں کی چمک کچھ کہہ رہی تھی ۔۔۔ میں نے اسے سلام کیا اور بیڈ پر سر جھکا کے بیٹھ گیا ۔۔۔ یہ سائقہ کی ہی ہم عمر لگ رہی تھی ۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔۔ میرا مانوں دیکھا ہے ۔؟؟؟۔ وہ میٹھی آواز میں بولی ہاں یہ آپ کو کبھی کبھی لینے آتے تھے ناں اور آڈیٹوریم ہال میں بھی آپ کے ساتھ تھے ۔۔۔۔ سائقہ بولی مانوں میری دوست کیسی لگی ؟؟؟؟؟ میں نے اس کی طرف دیکھتے ھوئے کہا بہت پیاری ہے ۔۔۔ اب نہیں پڑھتی ۔۔۔۔ سدرہ سر جھکا گئی ۔۔۔۔ سائقہ بولی نہیں مانوں میری طرح اس کے ابو بھی فوت ہو گئے تو ۔۔۔۔۔۔۔ سدرہ رنجیدہ ہو گئی ۔۔۔ میں نے سائقہ سے پوچھا ۔۔۔ کچھ لے آؤں یا ۔۔۔۔۔۔ بولی ماسی گئی ہے دہی بلے لینے ۔۔۔۔ ۔۔۔ ایک گھنٹے بعد سدرہ چلی گئی ۔۔۔ سائقہ میرے پاس آ کر بیٹھی اور بولی ۔۔۔ مانوں ۔۔۔۔۔۔ میں نے سدرہ سے بات کر لی ہے ۔۔۔ اس کی امی کو بھی راضی کر لوں گی ۔۔۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔ میں نے اس کی بات کو کاٹ دیا ٹوٹے الفاظ کے ساتھ بولا سقی میں پارسل نہیں ہوں ۔۔۔ مجھے بچوں کی خواہش نہیں رہی اب ۔۔۔۔۔۔ سقی میں نے کب کہا کہ میں تم سے بچوں کے لئے شادی کرنا چاہتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہچکیاں لیتے رونے لگی ۔۔۔ بولی مانوں ۔۔۔ میری بات کو آپ نہیں سمجھ رہے ۔۔۔۔۔ میں اٹھ کر گھر چلا آیا تھا ۔۔۔۔ اگلے کئی دن تک میں ایک گھنٹہ اس کے بعد بیٹھ کر واپس آ جاتا تھا شاکرہ کے پوچھنے پر میں نے اس سے کہا کہ ابھی صبر کرو جب سائقہ۔کی امی سے بات کرنی ہو گی بتا دوں گا ۔۔۔۔۔ کرونا کے سبب تعلیمی ادارے بند ہو چکے تھے ۔۔۔۔ ہم ابھی بستر میں ہی تھے کہ گیٹ بجنے لگا ۔۔۔ میں نے گیٹ کھولا تو زینت اور نعمت آئے تھے زینت گھر آ گئی تھی اور نعمت مجھ سے مل کر بازار چلا گیا ۔۔۔۔ میں واپس آیا تو زینت شاکرہ سے پوچھ رہی تھی ۔۔۔ صاحب کو کیا ہوا بیمار ہیں کیا ۔۔۔۔ اتنے کمزور کیوں ہو گئے ۔۔۔۔؟؟؟ شاکرہ اس سے باتیں کرتی چائے بنانے چلی گئی ۔۔۔۔۔ زینت فوراً میرے قریب آتے بولی یارر وہ شفقت نے اپنی امی کو مارا ہے اس نے آپ کے رشتے کی بات کی تھی ۔۔۔ اور ساتھ بولا ہے کہ یہ دونوں آئیں گے تو ان کو بھی قتل کر دونگا ۔۔۔۔ مجھے کانپنے لگا اگر میں اپنی پہلی پوزیشن پر ہوتا تو شفقت کو شفقت کرنا سکھا دیتا ۔۔۔ لیکن سائقہ نے مجھے توڑ ڈالا تھا اور میں ان دنوں اپنا ٹوٹا بدن لے کر پاگل جیسی زندگی گزار رہا تھا ۔۔۔۔زینت بولی مجھے رات امی نے کال کر کے بتایا تو میں صبح صبح آ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے روز تک سائقہ کو بھی اپنی امی سے معلوم ہو چکا تھا میں صدیوں کے ںیمار جیسا پچھلے دو روز سے بستر پر پڑا تھا اور شاکرہ ٹینشن میں بہت کمزور ہو گئی تھی رات کو سائقہ کا میسج آیا ۔۔۔ مجھے صبح گھر پہنچا دوں گے۔۔۔۔۔ میں نے یس کا ریپلائی دیا ۔۔۔۔۔ اگلےروز 20 مارچ 2020 کا دن تھا میں گیارہ بجے کے قریب سائقہ کے پاس پہنچ گیا ۔۔۔ سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا اس نے اپنی تیاری مکمل کر لی اور چلنے کا بولا گھر سے نکلتے ہوئے اس نے تکیہ ڈرائیونگ سیٹ پر رکھ دیا اور کمرے سے اپنا ایک شاپر اٹھا کر الٹے پاؤں اس مکان کو دیکھتی گیٹ کی طرف آنے لگی ۔۔۔۔۔ سائقہ خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی اور میں بکھرے بالوں کے ساتھ بےخیالی میں کچھ ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر دیکھے جا رہا تھا سائقہ نے کچھ کہنے کے لئے کئی بار اپنی لب کھولے لیکن پھر گہری سانس لیکر خاموش ہو جاتی ۔۔۔۔ مہوش کی بستی کو جانے والے کچے رستے کو کراس کرنے کے بعد سائقہ کی آواز گونجی ۔۔۔۔ مانوں ں ں ں ں ں ں ں ں ں ں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تم سے کئی درجے زیادہ ٹوٹ چکی ہوں ۔۔۔۔ اس کا لہجہ کلیجہ چھلنی کرنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مانوں آپ نے مجھے وہ دیا شاید اس دور میں کوئی کسی کو نہ دے پائے ۔۔۔ آپ نے مجھ پر جو کئے وہ احسانات سے بہت آگے کی باتیں ہیں ۔۔۔۔ اگر میں آپ سے شادی بھی کر لوں یا تم پر اپنی جان وار دوں ۔۔۔ پھر بھی تھوڑی ہو گی ۔۔۔۔ الفاظ سے کسی طور ان کے بدلے کم سے کم تمھاری سقی نہیں اتار سکتی ۔۔۔ آپپپپپپ ۔۔۔۔افففففففففففف ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے جتنا پیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیار مجھے تھوڑے عرصے میں دیا ۔۔۔۔ وہ زندگی بھر میں بھی بہت کم لوگ پا سکتے ہیں ۔۔۔۔ مانوں ۔۔۔ میں آئی لو یو نہیں بولوں گی ۔۔۔۔ کیونکہ میں سے سے بھی بہت آگے تک تمھیں چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔ مانوں میں نہیں چاہتی کے میرے سے شادی کے بعد ۔۔۔۔ اولاد نہ ہونے کا الزام تم پر آئے ۔۔۔۔۔۔۔ مانوں میں سب کچھ چھوڑ کر ۔۔۔نئی زندگی گزارنے جا رہی ہوں ۔۔۔۔ مانوں سدرہ بہت اچھی لڑکی ہے ۔۔۔۔ وہ تمھیں کال کرے گی ۔۔۔۔۔ اس سے میرے اس خوبصورت مکان میں ایک بار مل لینا اگر ۔۔۔۔آپ کا دل شادی کرنے کی طرف آ جائے تو ۔۔۔۔ میں کر لوں گی سب کچھ ۔۔۔۔ مانوں شفقت بہت بگڑ چکا ۔۔۔۔ امی کو بھی مارا۔۔۔۔۔ (وہ رونے لگی تھی اور گاڑی کو کچھ دیر سائیڈ پر روک لیا تھا ۔۔۔) میں بت بنا دھند میں کچھ ڈھوندھنے کے کوشش کرتا اس کی باتیں سن رہا تھا ۔۔۔۔۔سائقہ نے گاڑی آگے بڑھائی اور پھر اپنی بستی کے کچے رستے پر موڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔ مانوں میں اپنی امی کی ذلالت نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔۔ میں خود کو سنبھالنے کو جستجو کروں گی ۔۔۔۔۔ اور آپ کے لئے سوائے دعا کے شاید کچھ نہ کر پاؤں ۔۔۔ میں اس لئے تم سے ملنے کی کوشش نہیں کرونگی ۔۔کیونکہ یہ کہانی ختم نہیں ہو گی ۔۔۔ اور میں چاہتی میرے ساتھ تم بھی نئی زندگی کی طرف لوٹ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لمبی خاموشی کے بعد گاڑی رک چکی تھی ۔۔۔ میں نے آنکھوں کے کنارے کو صاف کرتے شیشہ نیچے اتار کے باہر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔ سائقہ مانوں اپنا خیال رکھنا کہہ کر ۔۔۔اپنا سامان اتارنے لگی تھی ۔۔۔۔ سائقہ کے گھر نے نکلنے والے شفقت نے کوئی گالی دی اور تیزی سے لپکتا .,., میرے چہرے پر روز سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھپڑ رسید کر گیا ۔۔۔۔۔۔ گپ اندھیرے میں سائقہ کی بہت بلند آآآآآآآآ آآآآآآآآآ آآآآآآ کی جیخوں نے شاید بستی کے سب لوگوں کو گلی میں بھر دیا تھا کو مدھم سا شور میرے کانوں میں آ رہا تھا اور میںاس گپ اندھیرے میں اپنی بند مٹھیاں آپس میں رگڑ رہا تھا ۔۔

محبت دے دل چوں پلیکھے نی جاندے

محبت دے مجبور ویکھے نی جاندے

محبت نے مجنوں نوں کاسہ پھڑایا

محبت نے رانجھے نوں جوگی بنڑایا

محبت دے لٹے تے ہو جانڑ دیوانے

ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

محبت دی دنیا دے دستور وکھرے

محبت دی نگری دے مجبور وکھرے

محبت دلاں دی کدورت مٹاوے

محبت ہی بندے نوں رب نال ملاوے

محبت نے یوسف نوں مصرے وکایا

محبت زلیخا نوں وی آزمایا

محبت دے وکھرے تانے تے بانڑے

ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

محبت دے رونے تے ہاسے نے وکھرے

محبت دے جھِڑکاں دلاسے نے وکھرے

محبت نے کڈھیاں نےدودھ دیاں نہراں

محبت نی منگدی کسی دیاں خیراں

محبت دی سب توں اے وکھری کہانڑی

نہ سُکھی راجہ، نہ سُکھی رانی

محبت نے جنے وی گائے ترانے

ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

محبت نے ہیراں نوں زہراں پلائیاں

محبت دی نگری چوں گیاں نہ آئیاں

محبت دے اجڑے کدی وی نہیں وسدے

محبت دے روندے کدی وی نہیں ہنسدے

محبت نے مہینوال نوں آزمایا

محبت نہ ویکھے اپنڑا پرایا

محبت دے بدلن کدی نہ زمانے

ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

محبت ہی سسیاں نوں ریتاں تے ساڑے

محبت نے وسدے کئی گھر اجاڑے

محبت دی سوہنی چنانہہ وچ روڑے

محبت ای لہو پئی دلاں دا نچوڑے

محبت نے منصور سولی چڑھایا

محبت نے صادقؔ بلھا نچایا

محبت دی اکھ دے نے وکھرے نشانے

ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانے۔۔۔۔۔

میرے جسم میں بجلیاں دوڑ رہیں تھی لیکن سائقہ کے پاگلوں جیسی چیخوں نے مجھے بے بس کر دیا تھا ۔۔۔ میں لگنے لگا کہ میرے پاؤں کے جان نکلنا شروع ہو گئی ہے آج تک مجھ سے کوئی اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتا تھا لیکن آج جانے کیا ہوا کہ ایک پانچ فٹ کا ایکسرے جیسا لڑکا مجھے اس بستی میں ذلیل کر گیا تھا جس بستی میں آنے پر سب رشک سے دیکھتے تھے ۔۔۔۔ میں یہاں سے اڑ جانا چاہتا تھا میں چاہتا تھا مجھے ہوا کا کوئی جھونکا اڑا کر کہیں دور لے جائے ۔۔۔۔ گلی میں ہر طرف سے بچوں بڑوں کی آوازیں آ رہی تھی ۔۔۔ لیکن مجھے ابھی بھی کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔ میرے کندھے پر کوئی ہاتھ آیا اور ساتھ کچھ قریب سے آوازیں آ رہی تھیں لیکن میں سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔۔ میری آنکھوں کو کسی نرم کپڑے نے صاف کرنا شروع کر دیا تھا میں نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔یہ زینت کی امی تھی جو آنکھوں کو اپنے دوپٹے سے صاف کرتی شاہد کہہ رہی تھی کہ میرے گھر آ جاؤ۔۔۔لیکن میں شاکرہ کے پاس لوٹ جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔ بہت مشکل سے میں نے زخموں سے چور بدن کو گھسیٹ کر ڈرائیونگ سیٹ پر لانے میں کامیاب ہو گیا ۔۔۔ سائقہ کے گھر کا دروازہ بند تھا اور یہاں سے آنے والے شوروغل سے غیر معمولی حالات کا اندازہ تقریباً گلی میں موجود ہر فرد لگا چکا تھا اور میں ایک بڑے ہجوم میں تماشا بنا ہوا تھا ۔۔۔ مجھ میں اتنی ہمت باقی نہیں تھی کہ میں گاڑی کو اس گلی میں ہی سے پیچھے موڑ لوں سو میں نے اس ہجوم میں سے گاڑی آہستہ سے آگے بڑھانے لگا ۔۔۔ اس دیوار کے پیچھے سائقہ پر کیا بیت رہی تھی اور ایک لمحے کو میرے دل میں خیال آیا کہ اس کچی دیوار پر گاڑی ٹکرا کے سائقہ کے گھر میں داخل ہو جاؤں ۔۔۔۔ لیکن میں خود کو کنٹرول کرتا آگے بڑھ رہا تھا میں نہیں جانتا تھا کہ میں کس طرف جا رہا ہوں میں بستی سے جانے کب کا نکل چکا تھا اور ایک کچے رستے پر گاڑی کبھی کبھی ہچکولہ کھا کر کسی طرح آگے بڑھ جاتی تھی ۔۔ میں نے ایک جگہ رک گیا اور گاڑی سے نیچے اترتا اس رستے سے تھوڑا دور زمینوں میں بیٹھ گیا ۔۔۔ مجھے اپنے وجود کے ٹوٹے ایک ایک انگ پر رحم آ رہا تھا ۔۔۔ میں خود کو کنٹرول کرنے کی جستجو کو رہا تھا میں سر گول دائرے میں گھومتا محسوس ھو رہا تھا بہت دیر بعد میں نے اس کچے رستے کو آہستہ سے پہچاننا شروع کر دیا تھا ۔۔۔ مجھے لگا یہ وہی رستہ ہے جس پر آگے سونیا کی بستی ہے اور میں اس کی شادی کے موقع پر کئی چکر لگا چکا تھا اور اس بستی سے ایک اور کچہ رستہ بھی اس مین روڈ کی طرف جاتا تھا ۔۔۔۔ میں نے اپنے وجود کو سنبھالا اور گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ایک اور دھماکہ ہوا سائقہ اپنا موبائل اور اس مکان کی چابیاں گاڑی میں چھوڑ گئی تھی ۔۔۔ وہ ہمیشہ کے لئے مجھ سے جدا ہو گئی تھی یا کوئی بڑا مذاق تھا ۔۔۔۔ نہیں سائقہ ایسا مذاق نہیں کر سکتی تھی میں گاڑی کو کسی طور آگے بڑھا گیا تھا یہ وہی رستہ تھا جہاں اس نے پہلی بار میرے ساتھ سفر کیا تھا ۔۔۔ سو ہماری محبت کے پہلے روز اور آج اس آخری روز میں شمولیت کا کیا راز تھا میں نہیں جان سکا ۔۔۔۔ میں سونیا کی میکے والی بستی سے گزر رہا تھا جب مجھ کچھ اندھیرے اور اذان سے احساس ہوا کہ مجھے اس حال میں کم سے چار پانچ گھنٹے گزر چکے تھے ۔۔۔ میں اس رستے کے پرانی یادوں کو ذہن میں گردشِ دے کر بار بار گاڑی کو روکتا اور کچھ دیر بعد گہری سانس لیتا تو مجھے لگتا کہ میرے اندر سے آنے والا سانس میرے ہونٹوں کو جلا رہا ہے ۔۔۔ میرے اندر ایک آگ لگی ہوئی تھی ۔۔۔ میں ایک جگہ رکا ھوا تھا اور کتنی دیر سے رکا ہوا تھا مجھ مجھے معلوم نہیں لیکن گاڑی کے شیشے پر جھکتا ایک شخص تیکھے لہجے میں بولا صاحببببب ۔۔۔ پیتی تے گھر مویا۔۔۔ جس کا اردو میں مطلب ہے ، اگر نشہ کر لیا ہو تو گھر تک محدود رہا کرو۔۔۔۔ میں نے اس کو کوئی جواب دینے کے بجائے اس سے صرف سوالیہ انداز میں ۔۔۔۔ پانی بولا ۔۔۔۔ مجھے لگا کہ اسے چند سیکنڈ پہلے کہ روپے پر ندامت ہو گئی تھی ۔۔۔۔ وہ پیچھے جانے لگا تو میں نے دیکھا ایک پرانی ڈاٹسن شاید میری گاڑی کے سائیڈ پر ھونے کے انتظار میں ہے ۔۔۔وہ شخص ایک ٹوٹے سلور کے گلاس میں پانی بھر کر لایا میں نے چند گھونٹ خشک حلق میں اتارے اور باقی پانی کو اپنے چہرے پر اچھال دیا ۔۔۔۔ بولا صاحب طبیعت خراب ہے تو ہم آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ۔۔۔میں نے اپنے ہاتھ کو اپنے سینے پر رکھ کر اس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی کو ایک سائیڈ پر لگا دیا ۔۔۔ قریب سے گزرتی ڈاٹسن کی روشن لائٹس دیکھ کر میں نے بھی گاڑی کی لائٹس آن کر دیں اور اپنے چہرے سے پانی کے قطرے نچوڑ کر آگے چل دیا ۔۔۔۔۔۔ مین روڈ پر گاڑی آنے کا مجھے اس وقت احساس ہوا ۔۔۔جب کسی بھاری ہارن نے میرے گانوں کو پھاڑ ڈالا ۔۔۔۔۔۔ ساتھ چیں ی ی ی ی ی کی آواز سے میں نے اپنے پاؤں سے بریک پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔ ڈم کی آواز اور جھٹکے کے ساتھ ۔۔۔۔ ۔۔۔ سائقہ کی کچھ دیر قبل سنی گئی بلند چیخوں سے ایک بار پھر میرے کان پھٹنے لگے ۔۔۔۔۔ پانی سے بھری اس چائنا گینڈ کو دیکھا ہے جس کے اندر پانی میں تیرتی لائٹس ہوتی ۔۔۔۔۔۔ بالکل اسی روشنی کے گولے کی طرح بکھرے بالوں کے ساتھ سائقہ کا چمکتا چہرہ گھومتا ہوا آسمانوں کی طرف چلا گیا تھا ۔۔۔ مجھے یاد ہے میری نے اپنی ہونہہہ کی آواز سنی تھی ۔۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر سے مجھے سائقہ کی چیخوں کے بعد بھاری ہارن بریک لگنے کی لمبی بھاری چیں ییی کی آواز کے ساتھ سائقہ کا روشن چہرہ گھومتا اپنی طرف آتا دکھائی دیا ۔۔۔۔۔ میں نے بریک لگانے کے لئے پاؤں پر دباؤ بڑھایا تو ۔۔۔کچھ آوازیں میرے کانوں میں پڑیں ٹانگ پکڑو ٹانگ ہل رہا ہ۔۔۔۔۔۔۔ کے بعد میں سر میں بھاری ٹھاہ کی آواز آئی ۔۔۔۔ میں اپنا سر پکڑنا چاہا رہا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن کسی نے میرے ہاتھوں کو پکڑ لیا تھا ۔۔۔۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں ہلکی نیند میں ہوں اور کمرے میں کوئی زار سے بول کر مجھے ڈسٹرب کر رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ روشنیوں کے ساتھ مجھے اپنے پورے وجود میں کٹاؤ محسوس ہوتا اہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔ کچھ آوازیں ۔۔۔۔۔ میں کچھ چہرے دیکھ کر بول رہا تھا ۔۔۔۔ لیکن کیا بول رہا تھا اور چہرے کون تھے ۔۔۔۔۔۔ جھٹکے پر میں نے آنکھیں کھولیں ۔۔۔ اسٹریچر پر تھا اور کسی روم میں لے جایا جا رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔ میں بہت دیر بعد یا کئی بار دیکھتے کے چہروں کو اتنا پہچان چکا تھا کہ میرے اپنے ہیں ۔۔۔۔ لیکن کون ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ میں ان سے اونچی آواز میں بول رہا تھا وہ دونوں چہرے مسکراتے ہوئے محھ پر جھک گئے تھے ۔۔۔۔ ساتھ انہی چیخوں نے مجھے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کو دیا مجھے لگا میں چیخ کر بدن کو ہلا رہا ہوں اور کچھ ہاتھ مجھے پکڑ رہے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے چمچ سے پانی پلاتے سائقہ کو پہچان لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مسکرا۔کے کچھ کہہ رہا تھا اور ساتھ کوئی اور آواز بھی سائقہ کے ساتھ قہقہہ لگا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ پانی میرے لبوں سے نکل کر گردن تک پھیل گیا تھا ۔۔۔۔ شاکرہ کا۔مسکراتا چہرہ میں سامنے آیا اور اس کا ہاتھ کسی سفید چیز کو پکڑے میرے میرے ہونٹوں اور اس خے نیچے پھرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ کسی روشن غار سے نکلتے ہی میں نے شاکرہ کو دیکھ کر اسی بلند آواز سے کچھ کہا لیکن وہ اپنے کان پر ہاتھ رکھ کر میرے ہونٹوں کے قریب لانے لگی ۔۔۔۔۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ شاکرہ بہری ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔ مسکراتے چہرے کے ساتھ ۔۔۔۔ سائقہ نے میرے ہونٹوں سے کچھ لگا کر بولا اسٹابری جوسسسسس۔۔۔۔ میں پوچھنا چاہ رہا تھا ،کہ توں کالج نہیں گئی آج۔۔۔۔۔ لیکن تےز روشنیاں میری آنکھوں کو بند کر رہی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ اور سائقہ کی کوئی بات سنتے ہوئے مجھے رفتہ رفتہ سب یاد آنے لگا۔۔۔۔۔۔ اور پھر سائقہ کی چیخیں ۔۔بھاری ہارن ۔۔۔۔ بریک کے آواز کے ساتھ میں نے اپنے پاؤں پر دباؤ بڑھایا اور دونوں مجھے پکڑنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں وقت خا اندازہ ہونے لگا تھا سائقہ پوری رات میرے ساتھ بیٹھی رہی مجھ چمچ سے پانی پلاتی اور مجھ سے باتیں کرتی رہتی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ اس سے آگے ایک بیڈ پر سو جاتی ۔۔۔ اور دن کے کچھ اوقات سائقہ سو جاتی تھی وہ اکثر سوتے ہوئے میری طرف پیٹھ کر کے اپنے ہپس پا قمیض کو سیٹ۔کرتی اور اور مجھ دیکھ کر مسکراتی ہوئی دوسری طرف چہرہ پھیر لیتی اور شاکرہ اس کے اس انداز پر قہقہہ لگا کر مجھے دیکھتی ۔۔۔۔ یہ سب کیا تھا شاکرہ اس کی اداؤں پر کیوں ہنستی تھی ۔۔۔۔۔ سائقہ مجھے چھوڑ کر جا چکی تھی تو وہ کیسے واپس آئی تھی ۔۔۔ اور اس جیسی بہت سے سوالات تھے جن کا جواب میں جاننا چاہتا تھا ۔۔۔ مجھے کوئی بتا نہیں رہا تھا اور مجھے بولنے بھی نہیں دےا جا رہا تھا مجھے ساکت رکھنے کی کوشش کرتی تھی وہ۔۔۔ میں کتنے دنوں سے جہاں تھا اور میرے اپنوں میں سے کوئی کیوں میرے ساتھ نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔ شاکرہ اور سائقہ کو میں مسلسل کئی روز سے ایک ہی لباس میں دیکھ رہا تھا ۔۔۔ میں نے شاکرہ سے کچھ کہنا چاہا رہا تھا وہ اپنا کان میرے ہونٹوں کے قریب لا۔کر سننے کی کوشش کی اور پھر مایوسی سے پیچھے ہٹ گئی میں نے اس کے کپڑوں پر نگاہیں پھیرنے کی کوشش کی ۔۔۔ فوراً مسکرا کے بولی ۔۔ کپڑے بدل لوں ۔۔۔ ؟؟؟ میں نے قدرے مسکرانے کی کوشش کی اور سائقہ کی طرف آنکھیں پھیر لیں ۔۔۔ شاکرہ بولی سائقہ بھی بدل لے ؟؟؟ میں نے آنکھوں میں یس کہا ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔ او مانوں کی جانوں ادھر آ فرمائش آئی ہے تیری ۔۔۔۔ وہ فوراً اٹھ کے آ گئی میں ۔”مانوں کی جانوں” شاکرہ کے منہ سے سن کر اس سے نظریں چرا گیا ۔۔۔ شاکرہ نے مسکراتے ہوئے سائقہ کو بتلا دیا کہ دونوں نے کپڑے بدلنے ہیں ۔۔۔ سائقہ بولی میں تو نہیں بدلوں گی ۔۔۔ جب تک مانوں مجھے خود نہ پہنا دیں ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے ہنستے ہوئے سائقہ کے ہپس پر مکا مارا تھا اور دونوں کھلکھلا کے ہنس پڑیں تھی میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ ایسا کیسے ھو رہا۔۔۔ ۔۔ کچھ دنوں بعد میں بہت سے ٹیسٹ کئے گئے اور اگلے دن یہ دونوں اپنا سامان سنبھالنے لگیں تھیں ۔۔۔۔ ہسپتال عملے نے مجھے احتیاط سے اسٹریچر پر رکھا اور ایمبولینس تک پہنچایا میری دونوں ٹانگوں اور ایک بازو پر سٹیل کے فریم لگے ہوئے تھے ہسپتال سے نکلتے ہوئے میں نے الشفاء انٹرنیشنل کا بورڈ دیکھ لیا تھا اور مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ ہم اسلام آباد میں ہیں ۔۔۔ سائرن بجاتی ایمبولینس نے رات کے کسی پہر ہمیں گھر پہنچا دیا تھا ۔۔۔ محلے کے کچھ افراد جمع ہو گئے اور مجھے گھر کے ایک روم میں منتقل کر دیا ۔۔۔۔ رات کو سائقہ میرے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ شاکرہ تم سو جاؤ۔۔۔ مجھے نیند آئے گی تو آپ کو جگا دونگی ۔۔۔۔۔ شاکرہ اور سائقہ ساتھ بیٹھ گئیں اور باتیں کرنے لگیں مجھ نیند آ گئی تھی ۔۔۔۔ میرے دائیں بازو پر شدید چوٹ لگی اور میں آئی کی آواز کے ساتھ جاگ گیا ۔۔۔ میں نے سائقہ کو دیکھا وہ اپنے کھلے منہ پر ہاتھ رکھے پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے پھر روتے ہوئے بولنے لگی سوری مانوں سوری نیند کے جھونکے سے میرا سر آپ کے بازو سے ٹکرا گیا ۔۔۔۔پھر وہ بلند آواز سے روتے ہوئے بولنے لگی مانوں میں نے آپ کو بہت درد دے دئیے ۔۔۔ سوری مانوں ۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ شاکرہ بھاگ کر آئی اور مجھ پر جھک گئی تھی ۔۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔۔ سائقہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے شاکرہ کو بازو سے پکڑا اور اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے۔۔۔ اسے بتانے لگی کہ کیا ہوا ۔۔۔ شاکرہ نے اسے اپنے بازو میں لپیٹا اور اس کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے تھپکی دیتے ہوئے بولی ۔۔۔ پاگل کہیں کی ۔۔۔ مجھے ڈرا دیا ۔۔۔ وہ بہت دیر تک سائقہ کو پیار کرتی رہی پھر اس کا ماتھا چومتے ہوئے بولی ۔۔۔ جا سو جا توں میں بیٹھی ہوں ۔۔۔ سائقہ بولی نہیں بسسس۔۔۔ صبح شاکرہ کی امی بہن ۔ زینت اور کچھ محلے کی خواتین کے ساتھ شاکرہ کی دیگر رشتہ دار بھی آ گئی اور اگلے کئی روز تک رش بڑھتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حاصل معلومات کے مطابق شفقت نے میرے بعد سائقہ کو بالوں سے پکڑ کر گھر میں گھسیٹتا ھوا گھر لے گیا باجی مشکل سے چلتی اس کی طرف لپکی تو اسے دھکا دیا اور وہ دیوار سے جا لگی ۔۔۔ جس کے کچھ دیر بعد اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ جانبر نہ ہو سکیں ۔۔۔۔۔ ادھر شاکرہ شام سے مجھے کالز کر رہی تھی لیکن کوئی کال اٹینڈ نہیں کر رہا تھا ۔۔۔ اور کچھ دیر کے بعد میرا موبائل آف ہو گیا تھا اور شاکرہ نے اپنی امی کو کال کر لی تھی وہ اسے رات دس بجے اپنے گھر لے گئی تھی شاکرہ مسلسل مجھے کال کر رہی تھی اور ساتھ واٹس ایپ اور فیسبک پر بھی نظر رکھے ہوئے تھی ۔۔۔صبح شاکرہ اپنی امی کے ساتھ تھانے جا کر رپورٹ درج کرا آئی ۔۔۔۔۔ ادھر جائے حادثہ سے قریبی ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچایا گیا تھا ۔۔ میری حالت بہت سیریس تھی مجھے ملتان یا اسلام آباد شفٹ کرنا تھا لیکن میرے پاس سے ہسپتال عملے کو کچھ نہیں ملا تھا موبائل کے ساتھ میرا بٹوہ اور دیگر سامان بھی غائب تھا ۔۔۔ پولیس میری گاڑی کے ڈھانچے سے معلومات اکٹھی کر رہی تھی ۔۔۔ ہسپتال عملے نے مجبوراً میری تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی کہ یہ شخص شدید زخمی حالت میں ڈسٹرکٹ ہسپتال میں لاوارث پڑا ہے ۔۔۔ ہسپتال عملہ مجھے اپنی کپیسٹی کے مطابق طبی امداد فراہم کر رہا تھا ۔۔۔ شاکرہ کا بھائی دوبئی میں اپنے کسی کام سے گیا ہوا تھا ۔۔۔۔ شاکرء دو راتوں سے جاگ کر اپنے جتنی کوشش میں سرگرداں تھی وہ میرے حادثے کے دو روز بعد دوپہر کے وقت روتی ہوئی پھر سے فیسبک پر آ گئی تھی ۔۔۔۔ میرے ایک قریبی رشتے دار کا کمنٹ پڑھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ ۔۔۔یہ ہے بھی لاوارث ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے دوبارہ پوسٹ دیکھنے کے لئے اپنے انگوٹھے کو موبائل کی سکرین پر نیچے کھسکایا تو زخمی شخص کی تصویر کو غور سے دیکھنے کے بعد پاگلوں کی طرح ۔۔۔ بغیر پردہ کئے گھر سے نکل کر گلیوں میں بھاگنے لگی تھی ۔۔۔۔ اسے محلے کی خواتین نے پکڑ کر گھر چھوڑا وہ پوسٹ دوبارہ پڑھ کر اکیلی نکل پڑی تھی ۔۔۔ شاکرہ بہت مشکل سے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتی اس ہسپتال تک پہنچی تھی ۔۔۔۔ اور جہاں سے وہ اکیلی مجھے ایمبولینس میں لے کر اسلام آباد آئی تھی ۔۔۔۔۔ ادھر بستی کے کسی فرد نے میری کچلی ہوئی گاڑی کسی طور پہچان لیا تھا اور نعمت کو کال کر دی تھی ۔۔۔ نعمت کو بھی میرا موبائل گزشتہ تیثدن سے آف مل رہا تھا ۔۔۔ وہ صبح سویرے زینت کو ساتھ لا کر میرے گھر پہنچا تو ۔۔۔۔ میرا گھر لاک تھا ۔۔۔ نعمت نے زینت کی رہنمائی سے میری ساس کا گھر ڈھونڈ لیا اور انہیں معلومات مل گئیں تھیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آج پانچویں روز کی رات کو بھی سائقہ کے گھر بستی کی خواتین غم بانٹنے آئی بیٹھی تھی ۔جب زینت نے امی نے وہاں جا کر میرے اس بڑے حادثے کی اطلاع دی تھی سائقہ چیخیں مارتے بے ہوش ہو گئیں اور پھر رات تین بجے اکیلی بستی سے نکل کر اس کچے رستے پر بھاگتی مین روڈ پر آئی تھی ۔۔۔۔ لاک ڈاؤن کے سبب وہ بہت دشواریوں کے بعد دوسرے روز رات کے دو بجے الشفاء ہسپتال پہنچی تھی اور شاکرہ مجھے چھوڑ کر اسے سنبھال رہی تھی


 

سائقہ دو دن بعد ہسپتال تک کیسے پہنچی اور اس کو بے حس معاشرے میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا اگر کبھي فرصت کے لمحات میسج ہوئے اس پر بھی کہانی لکھنے کی کوشش کروں گا۔۔۔ میں 26 دن بعد ہوش میں آیا تھا اور مجھے دو ماہ سے زائد کے بعد 27مئی 2020 کو الشفاء سے ڈسچارج کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔ میرا پورا بدن کٹ چکا تھا لیکن مجھے پھر بھی اتنی تکلیف نہیں تھی جتنی حادثے سے قبل کے دنوں میں ٹوٹے بدن سے محسوس کر رہا تھا میں زخم زخم ہونے کے بعد ان دنوں سائقہ کے ہاتھ کے لمس سے پرسکون تھا ۔۔ زینت ہمارے گھر آنے پر بہت روئی تھی اور سائقہ سے بولی مجھے اب تمھارا خطرہ ہے شفقت تمھیں بھی مار دے گا شاکرہ بولی کہاں مار دے گا ۔۔۔ زینت نے کہا جب بھی گھر گئی تو۔۔۔۔ شاکرہ بولی یہ کہیں نہیں جائے گی ۔۔۔۔ زینت کے آنسوؤں بھرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی اور اس نے اپنی نظریں اٹھا کر میری طرف دیکھا تھا ۔۔۔ اسی روز ہی مہوش اپنی ساس کے ساتھ میرے گھر آ گئی تھی وہ ضبط کئے میری خیریت معلوم کر رہی تھی اس کی ساس ایک اچھی خاتون تھی جو مجھ سے حال احوال پوچھ رہی تھی اور اس کے پیچھے صوفے پر بیٹھی سائقہ دھیمی آواز میں مہوش کو کچھ بتا رہی تھی کہ مہوش کا ضبط ٹوٹ گیا اور والے چیخیں مار مار کر رونے لگی ۔۔۔ سائقہ نے اسے کیا بتایا تھا میں نے اپنے آنسوؤں چھپانے کے لئے آنکھیں بند کر لیں اور آنسوؤں کی لکیر میرے کانوں کی طرف آنے لگی سائقہ ٹشو سے میری آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے کچھ بول گئی تھی اور میں سنجیدہ ہونےگا تھا ۔۔۔ مہوش کو اس کی ساس اور شاکرہ سنھبال رہی تھی ۔۔۔۔ مہوش کی ساس بولی اسے ایسے ہوتا ہے کبھی کبھی گھر میں بھی ۔۔۔۔ مہوش لوگ اسی دن واپس چلے گئے تھے لیکن زینت اور اس کی امی کچھ دن یہیں رہے تھے ۔۔۔ سائقہ اور شاکرہ نے مجھے جس طرح سنبھالا تھا میں اس کی کوئی مثال نہیں دے سکتا ۔۔۔ شاکرہ نے ایک دن بولا تیری سقی نے تیری خدمت میں تمام حدیں کرس کر لیں ۔۔۔ ہسپتال کے اس روم میں میں نے بےہوشی کے عالم میں کچھ باتیں شاکرہ کو خود بتا دیں تھی اور سائقہ نے اسے اپنے اس مکان ۔سیکس کرنے اور شفقت کے اس تھپڑ کے جو اس نے مجھے مارا تھا سب کچھ بتا دیا کہ وہ اور میں عشق میں بہت آگے چلے گئے تھے تین ماہ بعد شاکرہ کے اکائونٹ میں موجود ساری رقم ختم ہو گئی تھی وہ کچھ پریشان تھی میرے اکاؤنٹ کی۔معلومات پر علم ھوا کہ وہ بھی خالی ہو چکا ہے جس کا اے ٹی ایم کارڈ میرے بٹوے میں تھا اور حادثے کے روز سے غائب ہو چکا تھا ۔۔۔۔ اسی روز میری زمینوں کے سارے مزدور ایک ساتھ مجھ سے ملنے آ گئے نعمت ان کی قیادت کر رہا تھا پردہ کرنے کے بعد سب میرے پاس آئے یہ بہت محبت کرنے والے میرے غریب دوست تھے وہ بہت عرصے سے مجھ سے ملنے کو بےتاب تھے اور میری صحت یابی کے لئے اپنے اپنے طور پر خیرات اور دعاؤں کا اہتمام کرتے رہے تھے اس روز سب کی طرف سے نعمت نے بات کی کہ ان دنوں میں فصلوں کی مد میں جو آمدن ہوئی وہ سب آپ کو دے رہے اور کوئی کچھ نہیں لے رہا ۔۔۔۔ میں نے انکار کیا کہ ایسا نہیں ہے سب اپنا حصہ نکال لیں ۔۔۔لیکن سب نے یہ کہتے ہوئے قسم اٹھا لی کہ ہم نہیں لیں گے آپ نے ہمیشہ ہمیں اپنے حق سے زیادہ حصہ دیا ہے آپ ٹھیک ہو جائیں گے تو ہم لیں گے ۔۔۔ سب نے اجناس کی فروخت والی پرچیوں کے ساتھ اپنے اپنے پیسوں کے شاپر میرے پاس رکھ دیا اور چائے وغیرہ پینے کے بعد چلے گئے ۔۔۔۔ اس بار مجھے فصلوں کی مد میں جتنی آمدن ہوئی تھی وہ گزشتہ دس برسوں سے بھی زیادہ تھی ۔۔۔ شاکرہ نے سب پرچیوں کو دیکھنے سے بعد سارے پیسوں کو ایک ہی بڑے شاپر میں ڈال کر سائقہ کی طرف بڑھاتے ہوئے مسکرا کے کہاں ۔۔ ہاں او مانوں کی جانوں اپنا اثاثہ سنبھال لو ۔۔۔۔ سائقہ نے میرے بائیں ہاتھ کو پکڑا اور بولی میرا اثاثہ تو مانوں ہے ۔۔۔ شاکرہ نے کہا تیرا مانوں میرا زاہد بھی ہے ۔۔۔۔۔۔ سائقہ مسکراتی مجھے دیکھ رہی تھی شاکرہ نے کہا چلو آدھا آدھا کرتے ہیں اسے ۔۔ شاکرہ نے میری ناف کے قریب آہستگی سے پیٹ پر اپنی انگلی سے لکیر کھینچی اور بولے کونسا لو گی اوپر والا حصہ یا نیچے والا ۔۔۔۔ سائقہ ایک لمحے بعد میری گال پر چٹکی بھر کے بولی اوپر والا شاکرہ نے کہا ابھی ہاتھ نہیں لگاؤ اسے مولوی کو بلائیں گے پھر ۔۔۔ اور میرے والے حصے کی طرف بھول کے بھی نہیں دیکھنا۔۔۔۔ سائقہ کھکھلا کے ہنس پڑی اور بولی اوکے۔۔۔ میں نے کہا سقی تم نے خسارے کا سودا کر لیا ہے ۔۔۔وہ مسکراتی ہوئی شاپر اٹھا کر دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی ۔۔۔سائقہ نے اپنے ایک کزن کو بھیجا کہ گاڑی تھانے سے اٹھوا کر کباڑ پر بیچ ایسی منحوس چیز کی شکل بھی نہیں دیکھنی ۔۔۔ گاڑی کا کیا حال ہوا تھا میں نہیں دیکھ سکا ۔۔۔ ایک ماہ سے کچھ دن بعد ہم ایمبولینس پر جولائی کے پہلے ہفتے میں چیک چیک اپ کرانے چلے گئے ۔۔۔۔ وہاں سے آنے کے بعد شاکرہ نے رات کو سائقہ سے پوچھا کل تم اپنے مانوں کو سنبھال لو تومیں امی سے مل آؤں ۔۔۔۔ شاکرہ کی امی ان دنوں بیمار تھی اور بہت دنوں سے میری خیریت دریافت کرنے بھی نہیں آئی تھی ۔۔۔ سائقہ نے اوکے کہہ دیا ۔۔۔۔ شاکرہ نے مجھے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔ میں نے کہا ہاں چلی جاؤ ۔۔۔ بولی شام کو واپس آؤں گی۔۔۔۔۔ سائقہ مسکرا کے بولی اگر رات رہ بھی جاؤں گی تو مانوں کے تمھارے حصے پر قبضہ نہیں کروں گی ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے ہنستے ہوئے اسے اپنے بازو میں بھرا اور سائقہ کی گال کو دانتوں سے کاٹ لیا ۔۔۔۔ مجدیکھ کر شاکرہ کہنے لگی اس کی آنکھیں دیکھی ہیں ۔۔۔ نیند پوری نہیں کرتی ۔۔۔ میں سائقہ کو مسکرا کے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ سائقہ بولی مجھے ایک اور طرح سے پوری نیند آتی ؤ۔۔۔۔ سلاؤ گی ویسے ۔۔۔۔ شاکرہ بولی آپ کو جیسے پوری نیند آئے گی ویسے سلا لوں گی ۔۔۔۔ سائقہ بولی اوکے ۔۔۔ اور کل امی کے گھر کیسے جاؤ گئی ۔۔۔ شاکرہ بولی دیکھوں گی ۔۔۔چنگ چی پکڑ لوں گی ۔۔۔ سائقہ مجھے دیکھ کر خاموش ہو گئی ۔۔۔۔ شاکرہ میرا دودھ لینے کچن کی طرف چلی گئی ۔۔۔ سائقہ نے میری طرف دیکھ کر پوچھا مکان کی چابیاں کہاں ہیں ۔۔۔۔ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا پتا نہیں ۔۔۔ اس نے سر جھکاتے ہوئے اونہہ کہا ۔۔۔ میں نے پوچھا کالج کھل گئے ۔۔بولی نہیں کھلے ابھی ۔۔۔۔ میں بولا یہیں سٹڈی تو کر لیا کرو۔۔۔۔ بولی اوکے کل بکس اٹھا لاؤں گی ۔۔۔۔ شاکرہ نے آتے ہی پوچھا کیا راز کی باتیں ہو رہی ہیں ۔۔۔۔ سقی مانوں کی ۔۔۔ سائقہ بولی بہت شکی عورت ہو تم ۔۔۔ میں آئندہ تمھیں شاکرہ نہیں شکی کہوں گی ۔۔۔۔۔ شاکرہ مسکرا دی ۔۔۔۔ سائقہ پوچھنے لگی ۔۔۔ شکی کس ٹائم جاؤ گی امی کے گھر۔۔۔۔ شاکرہ مسکرا کے بولی کیوں کوئی پروگرام ترتیب دینا ہے۔۔۔۔۔ خیال کرنا ابھی ٹھیک نہیں ہیں یہ۔۔۔۔ سائقہ مسکرا کے بولی میں نے تمھارا صحیح نام چن لیا ہے ۔۔ شکی۔۔۔۔ ۔۔ شاکرہ بولی دس بجے تک جاؤں گی ۔۔ سائقہ بولی اوکے میں صبح صبح ہاسٹل چلی جاؤں گی ۔۔۔ کچھ سامان اٹھانا ہے ۔۔اور دس سے پہلے آ جاؤں گی ۔۔۔ شاکرہ مجھے دودھ پلاتے ہوئے سائقہ سے بولی ۔۔۔ سقی تم ببلو کو جانتی ہو۔۔۔ وہ آنکھوں میں مسکراہٹ کے ساتھ حیرت سے بولی ۔۔۔ نہیں تو ۔۔۔ کہاں کا ہے ۔۔۔۔ شاکرہ بولی کہاں کا نہیں اسی گھر کا ہے ۔۔۔ سائقہ بولی میں نے تو نہیں دیکھا ۔۔۔ شاکرہ بولی اوکے ۔۔۔ تھوڑا صبرر کر لو ملواؤں گی آپ کو اس سے ۔۔۔۔ سائقہ نے اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبایا اور سر جھکا لیا ۔۔۔۔ ان دنوں میری طبیعت کافی بہتر ہو چکی تھی اور یہ دونوں رات کو میرے ساتھ والے بیڈ پر ایک ساتھ سو جاتی تھی سقی رات کو بار بار اٹھ کے مجھے دیکھتی رہتی تھی ہسپتال میں یہ دونوں کمزور ہو گئیں تھیں اور صدیوں کی بیمار لگنا لگیں تھیں لیکن اب آہستہ آہستہ یہ دونوں ٹھیک ہو رہی تھی ۔۔۔ بیڈ پر لیٹتے ہوئے شاکرہ نے پوچھا سقی کیا کہہ رہی تھی ۔۔۔ کیسے نیند آئے گی تمھیں ۔۔۔ سائقہ صوفے ساٹھ کر دروازے کی طرف گئی اور اسے لاک کرتے ہوئے بولی صبرر آتی ہوں ۔۔۔۔ شاکرہ کو سیدھا لٹا کر سائقہ اس کو باہوں میں بھرتے ہوئے اس پر الٹی لیٹ گئی اور میری طرف چہرے کر کے شاکرہ کے بوبز پر اپنا سر ٹکا دیا ۔۔۔۔ اور بولی ۔۔۔ ایسے ۔۔۔۔شاکرہ ہنستے ہوئے سائقہ کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ۔۔۔ بولی بہت کمینی ھو تم۔۔۔۔۔ ہم سو گئے تھے ۔۔۔۔ صبح میرے آنکھ کھلی تو شاکرہ پہلے سے جاگ رہے تھی اور سائقہ اس پر ویسے ہی الٹی لیٹی گہری نیند کے مزے لے رہی تھی ۔۔۔ شاکرہ نے میءطرف دیکھا اور ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔۔ اس حرام زادی کا کیا کریں گے ۔۔۔۔۔ میں مسکرا دیا ۔۔۔۔ شاکرہ بولی سچ بتاؤں ۔۔۔۔۔ یہ آپ کے مسئلے کے بعد سے آج پہلی بار اس سکون سے سوئی ہے میں نے کہا ۔۔۔ سلا لیا کرو۔۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔۔ ٹھیک ہو جاؤ پھر تم سلا لینا ۔۔۔۔ میں مسکرا کر کمرے کی چھت کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ شاکرہ سے ٹائم پوچھا اس نے بتایا کہ سات بج گئے ہیں ۔۔۔ میں نے کہاں اسے جگا دو ہاسٹل کا کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ اس کے ہپس پر تھپکی دیتے ہوئے اسے اٹھانے لگی ۔۔۔ اووو مانوں کی سقی۔۔۔۔ سائقہ مسکراتے ہوئے انگڑائی لیتی پھر وہ شاکرہ کا چہرہ پکڑ کر اس کو چومنے لگی ۔۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔ بہت بدمعاش ہو تم۔۔۔۔ ہاسٹل جانا۔۔؟؟؟؟ سائقہ نے شاکرہ کا موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا اور پھر شاکرہ کو بازوں میں بھر کر بولی جاتی ہوں ۔۔۔ تھوڑا سکون لینے دو۔۔۔۔۔ شاکرہ بولی سکون کی بچی میں نے ناشتہ بنانا ہے ۔۔۔ سائقہ اس سے اتر کر بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولی مانوں تمھاری بیگم کتنی گندی ہے ۔۔۔ پورا سونے بھی نہیں دیتی ۔۔۔ شاکرہ نے اٹھتے ہوئے سائقہ کے ہپس پر تھپڑ مارا اور بولی ۔۔۔ اچھائی کا زمانہ بھی نہیں ہے پوری رات موٹو کو اٹھائے رکھا اور اب باتیں کرنے لگی ۔۔۔۔ شاکرہ روم سے باہر چلی گئی تھی ۔۔۔۔ سائقہ نے اپنی آنکھیں کھولیں اور مجھے دیکھتے ھوئے پوچھا تالہ کیسے ٹوٹے گا ۔۔۔۔ میں نے کہا ماسی کو بلا لینا مین گلی میں آگے ایک مستری بیٹھا ھے اس کو بلا لے گی ۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ تھوڑا ناشتہ کرکے اٹھنے لگی ۔۔۔ شاکرہ نے اسے پکڑ کر بٹھایا اور بولی ۔۔۔ ناشتہ پورا کرو۔۔۔۔ اچھا کھایا کرو مانوں کو پورے ایک درجن بچے دینے ھیں آپ نے ۔۔۔ سائقہ کچھ سنجیدہ ہونے لگی لیکن میری غصے بھری آنکھیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔۔صرف ایک درجن ۔۔۔۔ ۔۔ میں نے شاکرہ سے بولا انڈوں پر بٹھانا اسے ؟؟؟؟ شاکرہ نوالا میرے منہ میں دیتے ہوئے بولی ۔۔۔ ببلو پر بیٹھے گی تو انڈے بھی نیچے آ جائیں گے ۔۔۔ پھر شاکرہ تالی بجا کر ہنسنے لگی۔۔۔۔۔ سائقہ نے جھکائے سر کو اوپر اٹھاتے ہو اپنی ہنسی کو حیرت میں بدلتے ہوئے بولی ۔۔۔ کون ہے ببلو اور میں بھلا اس پر کیوں بیٹھوں گی ۔؟؟؟ شاکرہ نے اس کی تھوڑی کو بچوں کی طرح پکڑ کر کہا۔۔۔ شوق سے بیٹھو گی ۔۔۔۔ ابھی بچی ہو تمھیں پتا نہیں ہےناں ۔۔۔ میں نے کہا کہ ابھی بچی ہے تو اب نہیں بچے گی سائقہ خاموش رہی مگر شاکرہ نے زور کا قہقہہ لگایا اور میری ناک کو کھینچا۔۔۔۔ ۔۔سائقہ چلی گئی تھی اور شاکرہ میرے پاس بیٹھ کر کہنے لگی زاہد ۔۔۔ میں امی کے پاس کبھی نام جاتی اگر مجھے سائقہ پر اعتماد نہ ہوتا ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ ہاں وہ بھی ٹھیک ہے اور آپ کا جانا بھی ضروری ہے ۔۔ لیکن پلیز شام کو آ جانا آپ۔۔ بولی میں پاگل ہوں جو تمھیں اس حال میں چھوڑ کر رات گزاروں گی ۔۔۔۔ پھر بولی زاہد ایک بات کہوں ۔۔۔ میں نے کہا ہاں ہاں بولو ۔۔۔ بولی زاہد تم بہت لکی ہو ۔۔۔ یہ لڑکی تمھیں مجھ سے بھی زیادہ پیار کرتی ہے ۔۔۔ اور میں اس کے آپ سے پیار کو پاگل پن قرار دیتی ہوں یہ ہسپتال میں پہنچنے تک یہ پاگل ہو چکی تھی اور تیرے خاندان سے کسی نے ایک کال کرنے تک کی زحمت نہیں کی ۔۔۔۔ زاہد مجھے تیرے رشتے دار کا وہ کمنٹ آج بھی تیر بن کر دل میں چبھ رہا جس میں اس نے لکھا تھا کہ ۔۔۔ یہ ہے بھی لاوارث ۔۔۔۔ شاکرہ رونے لگی تھی ۔۔۔ پھر بولی تیرے رشتے دار میرے سے شادی کے بعد تم سے مخالفت پر اتر آئے ۔۔۔۔ میری انا کی وجہ سے تم دوسری شادی نہیں کر سکے اور ایک دن اندر سے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئے ۔۔۔۔۔ اور پھر اسی حال میں تم حادثے کا شکار ہو گئے ۔۔۔وہ رونے لگی اور اٹھ کر میرا ماتھا چومتے اپنے آنسو میرے چہرے پر گراتی۔۔۔۔ سوری زائد سوری میں اب تمھیں کو دکھ نہیں پہنچاؤں گی سوری مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ میں نے اپنے ہونٹ کھول کر اس کو دیکھا وہ میرے ہونٹوں میں اپنے لب جوڑ دئیے شاکرہ بھی میرے ہونٹ چوس رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے اسے پیار سے دیکھا اور کہا شکی ۔۔۔۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ مسکرانے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاکرہ چکن چلی گئی اور بہت دیر بعد آ کر بولی میں نے کھانا بنا لیا ہے ۔۔۔۔ سقی تمھیں وقت پر کھلا دے گی ۔۔۔۔ میں نے پوچھا کیا بنایا ۔۔۔۔ وہ مسکرا کے بولی بریانی ۔۔۔۔ تمھاری سقی جو مرتی ہے۔۔۔۔میں نے مسکرا کر اپنی نظریں ٹی وی کی طرف پھیر لیں ۔۔۔ اور کرونا اپڈیٹ سننے لگا ۔۔۔۔۔ شاکرہ میرے پاس بیٹھ کے پوچھنے لگی ۔۔۔ آج سقی کا کوئی موبائل نہ لے لیں ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔ہاں ۔۔۔ اور سم اپنے نام کی لے لینا ۔۔۔۔ شاکرہ ٹی وی دیکھنے لگی ۔۔ گیٹ کے باہر سے ہارن بجنے لگا ۔۔۔ میں نے شاکرہ سے کہا گیٹ کھول دو سقی آئی ہے وہ حیرت سے مجھے دیکھتی باہر چلی گئی ۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں ہنستی روم میں آگئیں ۔۔۔ شاکرہ بولی توں تو بہت بڑی بدمعاش نکلی ۔۔۔۔ سائقہ صوفے پر کچھ سامان رکھتے ہوئے پوچھنے لگی کیسا ہے میرا مانوں ؟؟؟ شاکرہ بولی رو رہا تھا ۔۔۔۔۔ بولی کیوں ۔؟؟؟ شاکرہ نے نیم آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنے گلے سے دبتی آواز نکالی سقی ی ی ۔۔۔ وہ دونوں اپنے ہاتھ ملا کر کھلکھلا کر ہنسنے لگیں ۔۔۔۔ میں سمجھ چکا تھا کہ ہسپتال میں بےہوشی کی حالت میں میں شاید ایسے بول رہا تھا ۔۔۔۔۔ سائقہ نے ایک شاپر سے بکس نکال کر ٹیبل پر رکھیں اور نیلے شاپر کو صوفے سے نیچے رکھتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے پوچھا اس شاپر میں کیا لائی ہو ۔۔ سائقہ بولی وہ رات کو کھول لیں گے ۔۔۔ شاکرہ بولی گاڑی کس کی ؟؟؟ سائقہ نے مسکراتے ہوئے میری طرف اشارہ کر دیا ۔۔۔۔ شاکرہ نے ہنستے ہوئے کہا اووو ماموں عاشق۔۔۔۔۔۔۔ میری گاڑی ؟؟؟؟۔ میں نے کہا وہ تو ٹوٹ گئی ۔۔۔۔ اور لے لیں گے ۔۔۔۔ پھر پوچھا جاؤں میں ؟؟؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔ شاکرہ اٹھنے لگی ۔۔۔ سائقہ بھی اٹھتے ہوئے بولی ۔۔ میں چھوڑ آتی ۔۔۔ شاکرہ بولی نہیں تم بیٹھو ان کے ساتھ سائقہ نے کہا نہیں بیس منٹ میں آ جاتی ۔۔۔ میں تیرے لئے تو گاڑی اٹھانے گئی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ مسکراتے ہوئے بولی مانوں بیس منٹ میں آدھا ہو جائے گا تیرے بغیر سائقہ میری طرف بڑھتے ہوئے بولی ۔۔۔ نہیں میں اسے بیس منٹ کی خوراک دے کر جاتی ۔۔۔ سائقہ میرے چہرے پر جھک گئی اور مسکراتے ہوئے کسنگ کرنے لگی ۔۔۔۔ شاکرہ باہر جاتے ہو مسکرا کے بولی ۔۔ بہت بےشرم ےو تم سقی۔۔۔۔ اور سائقہ بھی ہنستے ہوئے اس کے پیچھے چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔ تیس منٹ بعد گیٹ کا لاک کھلنے کی آواز آئی اور ۔۔۔ کچھ دیر بعد سائقہ ایک شاپر اٹھائے اندر آئی ۔۔۔ کیسا ہے میرا مانوں ۔۔۔۔۔
اس نے شاپر صوفے پر رکھا اور میرے ہونٹ چوستے ہوئے بولی سوری دس منٹ لیٹ ہو گئی ۔۔۔ شکی مجھے موبائل شاپ پر لے گئی تھی…….
سائقہ جھک کر میری پیشانی پر کس کرتے میرے سر کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ سائقہ نے بہت پیار سے میرے گالوں کو اپنے نرم ہاتھوں میں بھرا تھا سائقہ کے ان بھرے ہاتھوں کا لمس مجھے پانچ ماہ بعد نصیب ہوا تھا میرے جلتے بدن میں ٹھنڈک محسوس ہونے لگی تھی اور میں نے وششششش کے ساتھ اپنی آنکھوں کو بند کر لیا ۔۔۔۔ سائقہ نے میرے ہونٹوں کو کس کیا اور میرے گال پر تھپکی دیتے ہوئے بولی ۔۔۔ مانوں ۔۔۔ میں نے اپنی آنکھیں کھول لیں اور جی کے ساتھ اسے دیکھا ۔۔۔ بولی ۔۔ آنکھیں کیوں بند کر لیں۔۔۔ میں مسکرا کے اسے دیکھا اور گہری سانس لے کر بولا ۔۔۔ تیرے ہاتھوں سے میری تھکن دور ہونے لگی تھی ۔۔۔۔ اس نے مسکرا کے اپنے ہاتھ دوبارہ میرے گالوں پر ٹکا دئیے ۔۔۔۔۔ مانوں ۔۔۔ آج میں آپ سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ اور تیری باتیں سن کر بہت سا رونا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ میرے دل پر ابھی بھی بہت سا بوجھ ہے ۔۔۔ میں نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولا سقی ۔۔۔ مجھے زندگی کی طرف واپس لوٹتے دیکھ کر خوش ھو نا ۔۔۔۔ سائقہ نے جھک کر مجھے کس کیا اور بولی ۔۔۔ بہتتتتت بلکہ تیرے سے مجھے بھی نئی زندگی ملی ہے اور میں جینے لگی ہوں ۔۔۔۔۔ ورنہ شفقت کے تیرے اس چہرے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوکر رونے لگی تھی ۔۔۔ مانوں سوری مانوں ۔۔۔۔ میری وجہ سے تمہیں بہت درد ملے مانوں ں ں ں ں ۔۔سائقہ نے اپنا سر میرے ماتھے پر ٹکا دیا تھا ۔۔۔۔ میں نے پانی بھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے کی کوشش کی اور ذرا اونچی آواز میں بولا ۔۔۔۔۔ سقی۔۔۔۔۔۔۔ وہ فوراً اپنا سر اٹھا کے آنکھیں ملتی بولی ۔۔۔ جی۔۔۔۔۔ تم مجھے رلانا چاہتی ہو۔۔۔؟؟؟ وہ آنکھوں کو صاف کرتے ہولی ۔۔۔ کبھی نہیں مانوں ۔۔۔۔ بسسسسس۔۔۔۔۔ وہ مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔۔ بولی وعدہ کرو ایک ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ بولو۔۔۔ سائقہ بولی جب آپ ٹھیک ہو جاؤ گے تو مجھے وہ سب بتاؤ گے ۔۔۔ اور مجھے کھل کر رونے بھی دو گے ۔۔۔ میں نے کہا بتانا کیا ہے ۔۔۔ بولی جب میرے گھر سے آگے چل گئے تھے اور حادثے تک ۔۔۔۔ میں نے کہا سقی کبھی بتا دونگا ۔۔۔۔ لیکن اب تم خوش رہا کرو پلیز ۔۔۔ بولی شام تک زینت کی امی گلی میں کھڑی رہی تھی کہ آپ ادھر آئیں گے تو وہ آپ کو اپنے گھر لے جائے گی اور تمھیں اس حال میں جانے نہیں دے گی ۔۔۔۔ سقی تمہیں جانا نہیں تھا میرے پاس سے ۔۔۔ ۔۔ بولی میں امی۔۔۔۔۔۔ وہ رونے کے قریب جا کر پھر چپ ہو گئی اور میرے گال پر ہاتھ رکھ کر خاموش بیٹھی رہی ۔۔۔ مانوں ں ں ایک بات کہوں ۔۔۔۔ میں نے کہا جی بولو۔۔۔ ۔۔۔ بولی ۔۔ مانوں ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اچھا بس ۔۔۔۔ میں نے کہا سقی ۔۔۔ شہد پڑا ہے گھر میں ۔۔۔۔ وہ فوراً اٹھ کر صوفے پر چلی گئی ۔۔۔۔ اور بولی نہیں پڑا ۔۔۔۔ لالچی مانوں ۔۔۔۔۔ میں مسکرا دیا پھر سائقہ اٹھ کر اپنی رائٹ سائیڈ میری طرف پھیر کر بھرپور انگڑائی لیتے ہوئے وشششش کرتی ۔۔۔۔ صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی ۔۔۔ بسسسسس ؟اتنا کافی سمجھو۔۔۔ شہد کے بچے ابھی شہد بہت مہنگی ہو گئی ۔۔۔۔ وہ اپنے لبوں کو سختی سے آپس میں ملاتے ہوئے اپنا سر ہلانے لگی تھی ۔۔۔ اس کی انگڑائی سے ببلو میں بہت عرصے بعد کچھ حرکت پیدا ہوئی تھی ۔۔۔ میں نے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ بولی سو جاؤ سو جاؤ بہت گرمی ہے ۔۔۔ پھر وہ پاس آتے ہوئے بولی بولو لالچی انسان ۔۔۔۔ میں نے اسے زبان نکالنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ وہ میرے لبوں میں زبان دے کر جھک گئی اور اپنے ہاتھ گدے پر ٹکا دئیے میں اس شیریں ذائقے کا عادی ہو چکا تھا وہ شہد سے زیادہ میٹھی تھی ۔۔۔ اور اس نشئی کے طرح جسے بہت عرصے سے نشہ نا ملا ہو اور وہ اپنے نشے ٹوٹ پڑے میں اسی میں مست ہو کر اپنا بازو اٹھا گیا ۔۔۔۔۔ میں درد سے ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔۔۔ بیڈ سے تھوڑے اٹھے بازو کے نیچے سائقہ نے اپنے ہاتھ لے جا کر میرے بازو کو آہستہ سے گدے پر ٹکا دیا اور بھاگ کر الماری سے پین کلر اٹھا لائی ۔۔۔ سائقہ نے مجھے ٹیبلیٹ کھلانے کو بعد میرے ہونٹوں پر اپنا گال رکھ دیا میں درد کو بھولنے لگا تھا ۔۔۔ وہ بہت دیر مجھے پیار کرتی رہی ۔۔۔ میں نارمل ہوا تو بولی مانوں ۔۔۔۔ یار تھوڑا صبرر کر لیا کرو۔۔۔۔میں تیری ھوں ۔۔۔ ۔۔۔ تم پھر چلی تو نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔۔ سائقہ نم آنکھوں سے میرے چہرے پر جھکتے ھوئے بولی ۔۔۔۔ مانوں مجھے اپنا فیصلہ ہر وقت اندر سے کاٹتا رہتا ہے پلیز مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ اگر منہ مسکراتا،تو وہ رونے لگتی ۔۔۔۔ بہت دیر تک خاموش رہنے کے بعد سائقہ بولی ۔۔۔۔ مانوں اگر شاکرہ کو میرے مسئلے کا پتا چل گیا تو۔۔۔۔ میں نے کہا یہ صرف تمھیں اور مجھے معلوم ہے ۔۔۔ ۔۔۔ میں تو بتا نہیں سکتا ۔۔۔۔ باقی دیکھ لو۔۔۔۔۔۔۔ سقی سمجھو تمھارے ملنے سے میری ساری خواہشیں ختم ہو گئیں ہیں ۔۔۔ میں خوش ھوں ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے آگے بس ساری خواہشیں ختم ۔۔۔۔ میں جانتا ہوں ۔۔۔ شاکرہ تمھیں کبھی رنجیدہ نہیں ہونے دے گی اور اگر کہیں تم پر جان نچھاور کرنی پڑی تو وہ مجھ سے پہلے تم پر قربان ہو جائے گی ۔۔۔۔ سائقہ بولی شکی بہت اچھی ہے مانوں۔۔۔ اور میں چاہتی اس کا دل کبھی نہ ٹوٹے ۔۔۔ سائقہ نے میرے بازو کی طرف دیکھا اور پوچھا ۔۔۔ درد تو نہیں ۔۔۔۔ میں نے اسی فلائنگ کسنگ کرکے بولا تیرے ملنے کے بعد سارے درد ختم ۔۔۔۔۔۔ وہ مسکرا دی تھی ۔۔۔۔ میں نے پوچھا بھوک نہیں لگی ۔۔۔ بولی لگی ہے ۔۔۔۔ بہت لیکن جتنا تم کھاؤ گے اتنا میں ۔۔۔۔ جیسے ایک رات انڈہ پراٹھا کھایا تھا ۔۔۔۔ میں نے کمرے کی چھت کو تکتے ہوئے کہا ۔۔۔ ہاں سب سے بھاری دن تھا وہ ۔۔۔۔۔۔ سائقہ کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی ۔۔۔ پھر کچن کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔۔ وہ بریانی کے ساتھ رائتہ بنا لائی تھی ۔۔۔ اور ایک ایک چمچ کے کھیل سے بریانی ختم ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔شام سے کچھ پہلے سائقہ نے میرا موبائل اٹھا کر شاکرہ کو کال ملا دی ۔۔۔ شکی ۔۔۔ کال نہیں کی تم نے ۔۔۔۔۔ پھر چند لمحے کی خاموشی کے ساتھ بولی ہاں بہت سا مزا لیا ۔۔۔ لیکن تیرے حصے پر حملہ نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔ وہ کھلکھلا کر ہںس دی ۔۔۔ بولی آ جاؤں ۔۔۔ ؟؟؟ وہ شاکرہ کی بات سنتے ہوئے بولی ۔۔بیس منٹ کی خوراک دے کے ابھی آتی ۔۔۔۔ پھر خاموشی کے بعد بولی ۔۔۔ ہاں گھنٹے کی خوراک بھی دے دیتی لیکن مانوں ٹھیک نہیں ہیں ناں سمجھا کرو۔۔۔۔ وہ ہنسنے لگی ۔۔۔ بولی ہاں بس تیار ہو امی سے بھی مل لیتی ۔۔۔ اوکے۔۔۔۔ ۔۔ موبائل رکھتے ہوئے بولی مانوں ۔۔۔ بازو ٹھیک ہے ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ ہاں ٹھیک ۔۔۔۔ بولی میں جاؤں ؟؟؟؟ میں نے اسے فلائنگ کس دی ۔۔۔۔ وہ واپس مڑی ۔۔۔ مجھے کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد اپنا گال میرے ہونٹوں پر رکھا اور بولی صرف ایک ۔۔۔۔ بسسس اور مسکراتے ہوئے باہر چلی گئی ۔۔۔۔ وہ جاتے ہوئے گیٹ باہر سے لاک کر گئی ۔۔۔۔۔ کچھ دیر میں دونوں ہنستی ہوئی روم میں آ گئیں شاکرہ نے قریب آ کر پوچھا ۔۔۔ سقی کا مانوں ٹھیک ہے ۔۔ میں نے مسکرا کر بولا ٹھیک ہوں ۔۔۔ امی ٹھیک ۔۔۔ بولی ہاں دعائیں دے رہی تھی ۔۔۔ اور سقی کو اپنی بیٹی بنایا ہے ۔۔۔ سائقہ بولی امی بہت اچھی خاتون ھیں ۔۔۔ بہت پیار دیا مجھے ۔۔۔۔ شاکرہ اپنی امی کے گھر سے کھانا بنا کر لائی تھی سائقہ اس کچن میں رکھ کر آ گئی ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔ سقی موبائل کیسا ہے ۔۔۔ سائقہ نے مسکرا کر شاپر اٹھا کے اس کے طرف بڑھا دیا اور بولی ویسے کا ویسا ہے ۔۔۔ شاکرہ موبائل کا ڈبہ شاپر سے نکالتی ہولی ۔۔۔۔ بچی کو اتنا وقفہ تو دے دیتے کہ اپنا موبائل تو دیکھ لیتی ۔۔۔ شاکرہ نے موبائل ڈبے سے نکالا اور سم ڈال کر سائقہ کو دے دیا سائقہ نے موبائل میرے قریب رکھ دیا اور صوفے کے قریب پڑا نیلا شاپر اٹھا کر بولی شکی ادھر آؤ۔۔۔ وہ بیڈ پر آ گئی اور شاکرہ بھی اس کے سامنے بیٹھ گئی ۔۔۔ پوچھا سقی دودھ پلایا اسے۔۔۔۔ میں نے فوراً کہا نہیں پلایا اس نے ۔۔۔ سائقہ مسکرا کے میری طرف دیکھ کر خاموش ہو گئی ۔۔۔ شاکرہ نے پھر پوچھا ۔۔۔ سائقہ بولی پلایا ہے ۔۔ ایسے مستی کر رہا ۔۔۔۔ شاکرہ بات کو سمجھتے ہوئے مسکرا دی ۔۔۔ سائقہ نے شاپر کو الٹا کر دیا شاکرہ بولی کس کے ہیں یہ پیسے ؟؟؟سائقہ بولی مانوں کے اور میرے ۔۔۔ پھر اسے دھاگے میں لپٹے اور انعامات میں ملی رقم کے ساتھ اپنی امی سے ملنے والی رقم کے ساتھ پوری تفصیل بتا دی ۔۔۔ شاکرہ اس کے ساتھ مل کر نوٹوں کی الگ الگ کاپیاں بناتے ہوئے سائقہ سے پوچھا انعام والی رقم امی کو نہیں دی ۔۔۔ ؟؟ سائقہ نے بتایا کہ اس نے انکار کرتے ہوئے قسم اٹھائی تھی کہ بس مانوں کو دے دینا اس نے اتنے لگائے ہیں تم پر ۔۔۔ شاکرہ بولی کیوں مانوں نے تم پر اس لئے خرچ کئے تھے ۔۔۔؟؟؟؟ پھر خود ہی بولا ویسے اچھا ہوا ورنہ اب وہ یزید (شفقت ) کھا رہا ہوتا ۔۔۔ شاکرہ کو شفقت اور میرے معاملے کا علم نہیں تھا ۔۔۔ پھر بھی وہ شفقت کا نام سن کر جل بھن جاتی تھی شاکرہ نے نوٹوں کی کاپیاں دوبارہ شاپر میں ڈالیں اور سائقہ کو دیتے ہوئے ان کو الگ رکھ دو۔۔ اور ان پیسوں میں شامل نہیں کرنا۔۔ ۔۔ ہم دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے پھر شاکرہ اٹھ کر کچن چلی گئی اور کچھ دیر بعد وہ کھانا لیکر آ گئی ۔۔۔ سائقہ بولی آج میں نے اس کو بہت سی بریانی کھلائی ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔ بہت سی کیسے کھا لی اس نے ۔۔۔ سائقہ بولی ابھی دکھاتی ۔۔۔۔ اور اس طرح ایک نوالہ وہ اپنے منہ میں ڈالتی اور ایک میرے منہ میں ۔۔۔ شاکرہ بولی ماشاءاللہ ۔۔ کسی اور کے سامنے یہ عشق نہ جتانا ۔۔۔۔ نظر لگے گی تم دونوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیڈ پر آئی تو شاکرہ سیدھی لیٹ گئی اور سائقہ اس کو باہوں میں لپیٹ کر اسے کسنگ کرتی اس کے سینے پر سو گئی شاکرہ مسکرا کر اس کے گال پر چٹکی بھر گئی ۔۔۔۔ اگست میں میری ٹانگوں اور ایک بازو پر لگے اسٹیل کے جنگلے اتار لیئے گئے ۔۔۔ گھر آ کر ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق یہ دونوں میری ٹانگوں اور بازو کر ورزش دیتی تھی ۔۔۔ سائقہ گھر کے کاموں کے ساتھ میری خدمت کہ ساتھ سٹڈی بھی کرتی رہتی گھر میں وہ کبھی موبائل ہاتھ میں لے کر نہیں بیٹھی تھی ۔۔۔ ہاں گھر سے باہر جاتے وقت وہ موبائل اٹھانا نہیں بھولی تھی ۔۔۔ میری حالت بہتر ہونے لگی تھی اور اب بیڈ پر تکیے کی ٹیک سے بیٹھنے لگا تھا ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہم الشفاء ہسپتال جا رہے تھے میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹا ہوا تھا شاکرہ فرنٹ اور سائقہ سیٹ بلٹ باندھے ڈرائیونگ کر رہی تھی ۔۔۔ دوسرے دن واپسی پر ہم شاکرہ کی بہن کے گھر رکے تھے جو اسی روڈ پر موجود ایک سٹی میں تھا ۔۔۔ رات وہی۔ گزارنے کے جب صبح نکلنے لگے تو اس گھر کی ساری خواتین سائقہ کی دوست بن چکی تھی ۔۔۔ شاکرہ کی بہن نے بھی شاکرہ کے فیصلے پر اسے داد دی ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کچھ سکون کی دوائیں لکھی تھی کیونکہ میرے سر میں اب بھی درد ہوتا تھا اور نیند آنے کے وقت مجھے اب بھی سائقہ کی چیخیں ۔۔۔ بریک اور ہارن کی بھاری آواز کے ساتھ سائقہ کا بکھرے بالوں کے ساتھ گھوم خر دور جاتا چہرہ دیکھائی دیتا تھا اور میرے آوازیں نکل جاتی تھی ۔۔۔ گھر آنے کے بعد شاکرہ نے ایک دن بولا دونوں اپنی خوراک بڑھا لوں ۔۔۔میں کچھ دنوں بعد تم دونوں لیلیٰ مجنوں کے ساتھ بہت برا کرنے والی ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ ایک دن میری صبح جلدی آنکھ کھل گئی ۔۔۔ آج میری طلب شدت میں تھی اور اس وقت اور زیادہ ہو گئی جب میں نے شاکرہ کے اوپر الٹی لیٹی سائقہ کو دیکھا ۔۔۔۔ میں کچھ کرنا چاہتا تھا لیکن کیسے یہ سوال مجھے ڈسٹةکر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ سائقہ نے آج تیاری کر لی تھی میڈیکل کالج اوپن ھو رہے تھے ۔۔۔۔ وہ آٹھ بجے گاڑی لیکر نکل گئی ۔۔۔ شاکرہ اسے اپنے بازو میں لپیٹ کر چومتی گاڑی تک لے گئی تھی اورگیٹ پر گڈ بائی کہنے کے بعد گیٹ لاک کرتی کچن چلی گئی ۔۔۔ اور کچھ دیر بعد میرے پاس آئی تو گیٹ بجنے لگا وہ محلے کی اس خالہ کو سودا سلف کے پیسے تھما کر واپس آ گئی تھی ۔۔۔ یہ خالہ ہمارے ہسپتال کے آنے کے بعد سے گھر کا سودا سلف لاتی تھی ۔۔۔ شاکرہ میرے پاس آئی تو میں نے پوچھا خالہ کتنی دیر میں آئے گی ۔۔۔ شاکرہ نے ہنستے ہوئے پوچھا ۔۔۔ کیوں خیریت ؟؟؟؟ آج آپ کی آنکھوں میں شیطان نظر آ رہا مجھے ۔۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا ۔۔۔۔ ہونہہہ بہت زیادہ ۔۔۔ بولی صحت کا خیال کرو۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا ہاں صحت کا خیال تو کر رہا ۔۔۔ ڈسٹرب ہوں ناں وہ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھتی باہر چلی گئی ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد خالہ سودا دے کر چلی گئی تھی اور شاکرہ میرے سر کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔ بولی کچھ دن رک جاتے تو میں تمھیں سہاگ رات دینے لگی تھی ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ اسی رات کی پریکٹس کرنی ہے ۔۔۔ وہ ہنسنے لگی اور بولی ۔۔۔ ہل تو سکتے نہیں ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ آپ تو ہل سکتی ناں ۔۔۔شاکرہ نے میرے گال پر چٹکی بھر لی تھی شاکرہ میرے ساتھ لیٹ کر احتیاط سے آگے بڑھنے لگی تھی وہ مجھے کسنگ کرتے اپنا ہاتھ شلوار کے اوپر ہی ببلو کی طرف بڑھا گئی وہ بہت عرصے بعد میرے پاس سوئی تھی ۔۔ بہت دیر تک وہ ببلو کو ہاتھ میں بھرتی کسنگ کرتی رہی اور پھر اٹھ بیٹھی اور میری شلوار کو اتار دیا ببلو کو غور سے دیکھتی بولی۔۔۔ اچھا ہوا یہ ہڈی بچ گئی ۔۔۔ ایک ہی چیز تو کام کی پورے زاہد میں ۔۔۔ وہ ہنسنے لگی تھی پھر اس نے اپنے کپڑے بھی اتار دئیے اور الماری کے نچلے دراز سے ایک کپڑا نکال کر بیڈ پر آ گئی میں نے اس کی لائٹ براؤن کلر کی چھوٹے نپلز سے سجے بوبز کی طرف دیکھ کر اسے قریب لانے کا اشارہ کیا اور اپنے سر کو اٹھانے لگا ۔۔۔ شاکرہ نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کے بولا سوتے رہو۔۔۔ اور پھر اپنے بوبز کو میرے ہونٹوں پر لٹکانے لگی ۔۔۔ ببلو بہت دنوں بعد بیدار ہو کر اپنا غصہ اتارنے کو بیچ و خم کھا رہا تھا ۔۔۔ میں نے بوبز کو جی بھر سے پینے کے بعد تیز سانس لیتا ۔۔۔ شاکرہ کو دیکھ کر ہونہہ بولا اور اٹھ بیٹھی اور احتیاط سے میرے آس پاس پاؤں رکھتی ببلو کی ٹوپی کو گیلا کرتی اس پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ بہت دیر بعد وہ ڈسچارج ہو کر اپنی مٹھیاں گدے پر ٹکا کر اپنے ہپس کو میرے جسم سے قدرے اوپر کرکے بیٹھی رہی پھر اور لمبی سانسیں لیتی میرے بائیں طرف آ گئی ببلو کی خواہش تھی کہ وہ اپنی مرضی سے چلتا آگے بڑھے لیکن حالات اسے اجازت نہیں دے رہے تھے ۔۔۔ شاکرہ لمبی سانسیں لیتی مسکرا کر اپنی رانوں کو پکڑتی بولی ۔۔۔۔ تھک گئی ہوں ۔۔۔ میں احتیاط سے بائیں سائیڈ پر کروٹ لیتے اسے لیٹنے کا اشارہ کیا اور میرے ساتھ لیٹتی ہوئی اپنی بائیں ٹانگ آرام سے میرے اوپر رکھی اور ببلو کو پکڑ کر اپنی ببلی کو آگے لاتی بولی ۔۔۔۔ آج تو اس کی سختی بھی زیادہ ہو گئی ہے ۔۔۔۔ شاکرہ میرے بڑھتے جذبات کو دیکھتے ہوئے کچھ تیز ہو گئی تھی ۔۔۔ اور پھر میرے سے پہلے ساکت ہو گئی میرے جسم کے اکڑنے کے ساتھ بازو اور ٹانگوں میں کٹاؤ کے ساتھ درد برداشت سے بڑھ گیا تھا ۔۔۔ میری اوی ی ی اوی ی کے ساتھ آوازیں نکلی لیکن میں نے صبرر کا دامن تھام لیا تھا ۔۔۔۔ برداشت سے بڑھتے درد پر اگر میں خود کو کنٹرول نہ کرتا تو اگلی باری تاخیر کا شکار ہو جاتی ۔۔۔ میرے پورے وجود کو پسینے کی بوندوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔۔۔ شاکرہ میرے چہرے کا جائزہ لینے لگی تھی اور میں مصنوعی مسکراہٹ سے اسکے چہرے کو دیکھنے لگا پوچھا درد ہو رہا ۔۔۔۔ میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔ بولی ہونہہہہ کٹ جاؤ گے لیکن مانو گے نہیں ۔۔۔ میں نے درد کو ضبط کرتے ہوئے اس کے گال کو چٹکی میں بھرا اور اس کی آئی ی ی ی پر چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ کچھ سوچ کر وہ جلدی اٹھ گئی اور چادر لپیٹ کر اٹھ گئی ۔۔۔ اس نے برآمدے سے ویل چیئر کھینچی اور بیڈ کے پاس لا کر میرا جائزہ لینے لگی ۔۔۔ اور پھر مجھے کندھوں سے پکڑ کر اٹھانے لگی ۔۔۔۔۔۔ میرے گیلے بدن کو تولیہ سے صاف خشک کرتی شاکرہ مجھے عجلت میں کپڑے پہناتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔۔۔۔ آتے ہی سمجھ جائے گی ۔۔۔ بہت بڑی بلا ہے یہ۔۔۔۔۔ شاکرہ اپنے کپڑے اٹھا کر باتھ روم چلی گئی تھی اور کچھ دیر بعد گیٹ پر ہارن بجنے کی آواز آئی شاکرہ باتھ روم سے نکلتے ہوئے مسکرا کر گیٹ پر چلی گئی ۔۔۔ چند منٹ بعد ۔۔۔ دونوں کمرے میں داخل ہو گئی ۔۔۔ سائقہ بول رہی تھی شاکی صبح نہائی تو تھی ۔۔۔ پھر کیوں نہائی ہے۔۔۔۔۔ سائقہ نے سر جھکایا اور آنکھ مارتے ہوئے مجھے سلام کیا شاکرہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے خاموش تھی ۔۔۔۔ سائقہ اپنا ماسک اتارتے ہوئے بولی ۔۔ شکی یہ سمل کیسی ہے روم میں ۔۔۔۔؟؟ شاکرہ بولی دوائی کی ہے۔۔۔۔ سائقہ بولی اچھا ااا کہاں گری ہے دوائی ۔۔؟؟؟ وہ بیڈ پر میرے آس پاس دیکھنے لگی تھی ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔ جلدی سے فریش ہو جاؤ۔۔۔۔ مانوں کھانے کے لئے تیرا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ میرے مانوں بھی نہائے ہوئے ۔۔۔۔ وہ میرے چہرے پر جھک کر کس کرتے ہوئے بولی شکی ۔۔۔ مانوں کا رنگ آج پیلا پیلا کیوں لگ رہا ۔۔۔۔ میرے مانوں کا خون تو نہیں چوس لیا ؟؟؟؟ شاکرہ نے ہنستے ہوئے سائقہ کے ہپس پر زور سے مکا مارا ۔۔۔اور یہ کہتے ہوئے روم سے باہر چلی گئی ۔۔ بدمعاش کہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ بہت دیر سر جھکائے ہنستی رہی ۔۔ پھر مجھے سر ہلاتے ہو ۔۔۔ ہونہہہہ ۔۔ میں نے اپنا سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہاں ۔۔ ہاں ں ں ں ۔۔۔ پھر بولا سقی مجھے پین کلر دے دو ۔۔۔ سائقہ الماری سے میڈیسن کا شاپر لاتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔ زیادہ ہے درد۔۔۔ میں نے ہاں کہہ دیا بولی زور لگایا ناں ؟۔۔ میں نے کہا نہیں جسم اکڑتے درد شروع ہو گیا ۔۔۔۔۔ میں نے اسے شکی کو بتانے سے منع کیا وہ باتھ روم چلی گئی ۔۔۔ جب سائقہ اپنا فیس تولیہ سے خشک کرتی باہر آئی تو شاکرہ کھانا لا چکی تھی ۔۔۔ سائقہ نے مجھے بڑے تکیہ کی ٹیک لگا کر بٹھایا ۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد سائقہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی شکی وہ کالج والے کچھ ڈاکومنٹس اور فیس مانگ رہے تھے ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔ توں پیسے لے کر نہیں گئی تھی ۔۔ سائقہ بولی پیسے تھے لیکن فیس سے کم تھے ۔۔۔ شاکرہ بولی تو بتانے کی کیا ضرورت ہے کل لیتی جانا۔۔۔ اور ڈاکومنٹس کہاں ہیں ۔۔۔ سائقہ نے اپنا سر جھکا لیا اور چند لمحے بعد گہری سانس لے کر بولی ۔۔۔ گھر ہیں وہ ۔۔۔۔ شاکرہ روم کی دیوار پر نظریں جمائے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولی ۔۔۔ ڈاکومنٹس اور تیار نہیں ہو سکتے ؟؟؟۔ سائقہ نے سرجھکائے ہی نفی میں اپنا سر ہلا دیا ۔۔۔۔ شاکرہ اپنی انگلی اپنے دانتوں میں دبائے بہت دیر خاموش بیٹھی رہی ۔۔۔۔۔ پھر بولی سقی کل فیس جمع کرا دینا اور ڈاکومنٹس کا بولنا کہ گھر ہیں ہفتے تک لاؤں گی ۔۔۔ سائقہ نے سر جھکائے دھیمے لہجے میں بولی اوکے ۔۔۔ وہ دکھ میں جکڑی بیٹھی تھی ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔ اس کو بستی میں سمجھانے والا کوئی نہیں ۔۔۔ سائقہ نے شاکرہ کی طرف دیکھا اور بولی شفقت کسی کی نہیں سنتا ۔۔۔ سب اس کے فساد سے ڈرتے ہیں ۔۔۔ شاکرہ بولی کیوں ڈرتے ؟؟۔ اور اس میں کونسی شفقت ہے کہ تم اس کا نام لے رہی ہو ۔۔ یزید بولا کرو اسے۔۔۔ جس کو ماں اور بہن کے رشتے کی تمیز بھی نہیں ۔۔۔ ۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی کیا چیز ہے یہ بندہ ؟؟ اور تم اسے ٹھیک نہیں کر سکتے ۔۔۔میں نے گہری سانس لی اور بولا ۔۔ پہلے ٹھیک کرنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔ اب ہو جائے گا ۔۔۔۔ تھوڑا ویٹ کر۔لیں تو بہتر ہو گا ۔۔۔ میری آنکھیں نم ہو چکی تھی اور شفقت کے ذکر پر میرے سر پر دباؤ بڑھ گیا تھا ۔۔۔ میرا ہاتھ بےاختیار اپنے بائیں گال کی طرف اٹھ گیا تھا جہاں شفقت نے مجھے تھپڑ مارا تھا ۔۔۔ سائقہ ایک دم پاگلوں کی طرح میرا ہاتھ ہٹا کر میرے گال پر کسنگ کرتے ہوئے اسی روز کی طرح آآآآآآآآ آآآآآآآآآ آآآآآآ کی بلند چیخیں مارنے لگی ۔۔۔۔ اور پورا گھر اس کی چیخوں سے گونج اٹھا شاکرہ نے اسے اپنی گود میں بھر لیا تھا اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے نم آنکھوں سے کسنگ کر رہی تھی ۔۔۔۔ میری آنکھیں بھی نم ہو چکی تھی اور میں نے اپنا ہاتھ سائقہ کے سر پر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔ بہت دیر بعد سائقہ کچھ نارمل ہو چکی تھی ۔۔۔ کمرے میں اردگرد نظریں گھماتی شاکرہ اس کے گال سہلاتی ہوئے بولی ۔۔۔ سقی یہ شخص دیکھ رہی ہو ۔۔۔ شاکرہ نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ سائقہ نے اپنی آنکھوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے شاکرہ کے ہات کو دیکھا ۔۔۔۔ شاکرہ بولی یہ بہت اچھے انسان ہیں ۔۔۔یہ مجھ سے پیار نہیں کرتے میں اس سے بہت پیار کرتی اور آخری حد تک کرتی ہوں ۔۔۔۔ اور زاہد میری اس آخری حد سے بھی آگے جا کر تم سے پیار کرتے ہیں ۔۔۔ اب۔۔۔۔ میں اس سے پیار کرتی تو یہ میرے محبوب ٹھہرے ناں ؟؟؟ اور محبوب کی پسند اس کے عاشق کی بھی پسند ہوتی ہے ۔۔۔۔ ہم شادی سے پہلے ملے نہیں تھے ۔۔۔ زاہد کی کزن میری دوست ہے اور اسکی شادی پر میں نے انہیں دیکھا تھا ان کی کہی کو بات اور ان کا اعتماد مجھے اچھا لگا ۔۔۔ اور اس کی کزن سے کچھ اور اچھی معلومات مل گئیں ۔۔۔ اور جب میرے گھر میں رشتہ لینے والوں کی لائن لگی تھی ۔۔میں نے اس کو اس کی کزن کے ذریعے خود شادی کا پیغام بھیجا تھا ۔۔۔ میرے اور اس کے خاندان کی بھرپور مخالفت کے باوجود ہماری شادی ہو گئی ۔۔۔ اور آپ کے ایک بھائی جیسے درجنوں یزید ہمارے خلاف چلنے لگے ۔۔۔ زاہد نے میرے رشتے کو بچانے کی خاطر یہ گھر بنا کر یہاں چلے آئے اور سب کو پیچھے چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سقی۔۔ (شاکرہ نے اپنا کوئی درد گلے سے نیچے اتارا ) سقی میں نے بھی اپنے خاندان کے ان تمام افراد کو چھوڑ دیا جو ہمارا رشتہ توڑنے اور ہمیں تکلیفیں دینے لگے تھے ۔۔۔ ہم دونوں نے بہت گھٹن حالات کا مقابلہ کیا ۔۔۔ جادو اور پتا نہیں کیا کیا ۔۔ ۔۔۔ سقی سمجھ لو کہ تمھاری شفیق والدین کی طرح ۔۔۔ یہ یزید بھی مر گیا ۔۔۔ یہ گھر میرا بھی نہیں اور زاہد کا بھی نہیں بلکہ تمھارا ہے اور زاہد جلدی یہ گھر تمھارے نام کر دیں گے ہماری کوئی بات نہیں ہوئی اس بارے میں ۔۔۔اور اب کہہ رہی ہوں تو سمجھو آپس میں مشورہ ہوگیا ہمارا اور اس مشورے میں تم بھی شریک ہو ۔۔۔سائقہ حیرت سے شاکرہ کا چہرہ تکتے اس کی باتیں سن رہی تھی ۔وہ ابھی تک شاکرہ کی گود میں لیٹی ہوئی تھی ۔۔ شاکرہ بولی میں تمھیں بہت بڑا سرپرائز دینے جا رہی ہوں جو تم دونوں نے دیکھا تو دور سنا بھی نہیں ہو گا۔۔۔۔ تم مجھے زاہد سے زیادہ پیاری ہو۔۔۔۔۔ سقی میں اس اکیلے گھر میں اکتا جاتی تھی اور تیرے مانوں جس دن مصروف ہوتے میں امی کے گھر چلی جاتی تھی ۔۔۔ میں ہفتے میں دو دن امی کے گھر ھوتی تھی ۔۔۔ اور آپ نے دیکھا نہیں کہ زاہد کی صحت بہتر ہونے اور میری امی کی طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھی ۔۔۔ میں نے چند گھنٹوں کے لئے گئی ۔۔۔ پتا ہے میں کیوں نہیں جاتی ؟؟؟۔ شاکرہ مسکرا کے بولی تیری شکل میں مجھے ایک گڑیا مل گئی ہے۔۔۔۔۔ اب میرا کہیں جانے کو دل ہی نہیں کرتا ۔۔۔۔۔ سائقہ مسکرا کر شاکرہ کے گالوں کو اپنے ہاتھوں میں بھرنے لگی ۔۔۔ بولی تو دوبارہ روئی تو میں تجھ سے ناراض ہو جاؤں گی ۔۔۔ آپ کے ڈاکومنٹس بھی آ جائیں گے ۔۔۔ اب یزید تجھ پر ہاتھ تو کیا ۔۔۔ تمھیں آنکھ بھی نہیں دیکھ سکے گا ؟؟؟؟ شاکرہ گہری سوچ میں ڈوبتے ہوئے بولی ۔۔۔ کوشش کرتے سارے کام ایک دن میں میں مکمل کر لیں ۔۔۔۔ بہت دیرکی خاموشی کے بعد شاکرہ بولی میں نے صبح سے چھت پر واشنگ مشین سیٹ کر دی تھی اور تیرے مانوں کی طبیعت خراب ہو گئی تو کپڑے نہیں دھو سکی۔۔۔ سائقہ نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپایا اور ہنسنے لگی شاکرہ نے اس کی کلائی کو دانتوں سے کاٹا اور بولی بہت بڑی بدمعاش ہو تم ۔۔۔۔ سائقہ اٹھتے ہوئے بولی میں دھوتی ہوں کپڑے ۔۔۔۔ شاکرہ نے اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے اٹھتے ہوئے بولی ادھر لیٹو۔۔۔۔ اور میرے پیٹ پر انگلی سے لکیر کھینچ کر بولی میرے حصے کا خیال کرنا ۔۔۔۔ شاکرہ مسکراتی باہر چلی گئی اور سائقہ مجھے دیکھ کر مسکراتی ہوئی خاموش پڑی رہی اور پھر میرے ساتھ اپنا جسم ٹچ کر کے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کے شاکرہ کی باتیں کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔ شام کے بعد شاکرہ نے میرا موبائل اٹھایا اور پوچھا ۔۔۔ نعمت کا نمبر کونسا ۔۔۔ میں نے سکرین پر نظر ڈال کر اسے بتا دیا وہ نمبر ڈائل کرتے ہوئے بولی نعمت سے کہو زینت کا خل پرسوں لے آئے میرے پاس کچھ وقت کے لئے ۔۔۔۔ شاکرہ نے موبائل میرے کان پر پکڑ لیا میں نے نعمت کو زینت کو لانے کا بول دیا ۔۔۔۔ اگلے روز جمعرات کے دن زینت ہمارے گھر آ گئی نعمت اسے گیٹ پر چھوڑ کر شہر چلا گیا تھا اور 5 بجے آنے کا بول گیا ۔۔۔ زینت کا بیٹا بھی ساتھ تھا ۔۔۔۔ شاکرہ بچے کے دودھ کے ساتھ زینت کے لئے چائے وغیرہ لے کر آ گئی تھی بہت دیر تک شاکرہ زینت سے شفقت کی باتیں کرتی رہی ۔۔۔۔ اس دوران سائقہ واپس آ گئی تھی ۔۔۔ اس نے سلام کیا اور زینت سے ملنے لگی ساتھ شاکرہ کی گال پر چٹکی بھری اور بولی کیسی ہو میری عاشق ۔۔۔ شاکرہ بولی تڑپ رہی تھی تیرے لئے توں بیس منٹ لیٹ آئی ہو آج اس نے بتایا کہ ٹریفک جام ہو گیا تھا کالج سے تھوڑا آگے ۔۔۔ اور ساتھ شاکرہ کو رسید تھماتے ہوئے بولی فیس جمع ہو گئی ۔۔۔ شاکرہ نے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹایا اور بولی مجھے کیوں دے رہی رکھ لو کہیں سنبھال کے ۔۔۔ سائقہ زینت کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے ہوئے اس سے بستی بستی کی یادیں تازہ کرنے لگی ۔۔۔ شاکرہ مجھے سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی پھر وہ اٹھ کر باہر چلی گئی ۔۔۔۔ زینت کا بیٹا شاید اس سے چیز خریدنے کے لئے پیسے مانگ رہا تھا ۔ سائقہ دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے بچے کو اپنے پاس بلانے لگی۔۔۔ اوےےےے ادھر آ۔۔۔ بچہ اس کی طرف چلا گیا سائقہ نے اپنا ہاتھ بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی جاؤ اپنے ابو سے پیسے لیکر چیز لے آؤ۔۔۔۔ زینت نے قہقہہ لگاتے ہوئے اپنا ہاتھ سائقہ کے چہرے پر پھیرا ۔۔۔ اور پھر بولی چل رنڈی ۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔ گشتی ۔۔۔۔ ۔۔۔ شاکرہ روم میں آئی اور زینت کو بولا کہ آ جاؤ کھانا کھا لیں ۔۔۔ ساتھ سائقہ سے کہا کھانا میں لاتی ہوں ۔۔۔ آپ فریش ہو جاؤ۔۔۔ سائقہ اپنا سفید کوٹ اتار کر باتھ روم چلی گئی ۔۔۔۔ شاکرہ کھانا رکھ کر مجھے تکیے کی ٹیک لگا کر چلی گئی ۔۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد سائقہ برتن اٹھا کر باہر گئی اور واپس آ کر بولی آج تو شکی زینت سے کوئی راز نیاز کی باتیں کر رہی ۔۔۔ مجھے بھی واپس بھیج دیا ۔۔۔۔ سائقہ نے روم کی کنڈی لگائی اور زیتون آئل کا ٹین اٹھا کر میری ٹانگوں پر مالش کرنے لگی ۔۔۔ کچھ دیر بعد شاکرہ نے دروازہ بجایا ۔۔۔ سائقہ اٹھ گئی شاکرہ نے میری ٹانگوں پر لگے آئل کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے سائقہ کو ساتھ لیکر چلی گئی ۔۔۔ سائقہ نے واپس آ کر بتایا کہ۔پیسے لانے کا بولا شاکرہ نے جو اس دن شاپر میں رکھے تھے اس مکان والے ۔۔۔ ۔۔۔ میں نے پوچھا پیسے کیا کرنے زینت کے پاس منگا کے ۔۔ بولی پتا نہیں ۔۔۔ زینت مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔۔۔میں نے کہا یہ کوئی سرپرائز دینے جس رہی ۔۔۔۔ سائقہ نے اپنے ہونٹوں کو سختی سے ایک دوسرے سے جوڑا اور سر ہلاتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ بہت بڑی شکی ہے۔۔۔۔۔۔

 


شاکرہ پچھلے ایک دو روز سے بہت مصروف ہو گئی تھی زینت کے جانے کے بعد وہ اگلے دو روز تک سائقہ کے میڈیکل کالج جانے کے بعد گھر کی اضافی کاموں میں مصروف رہتی اور ساتھ والے روم پر خصوصی توجہ دے رہی تھی صبح اتوار تھی اور کو کھانا کھانے کے بعد وہ مجھ سے پوچھنے لگی زائد کل سقی کی چھٹی ہے اگر آپ آکیلے گزارا کر سکیں تو ہم بازار جائیں گے ۔۔۔۔۔ میں نے کہا خیریت ؟؟؟ شاکرہ مسکرا کے بولی خیریت تو نہیں ہے ناں۔۔۔ آپ دونوں لیلیٰ مجنوں کا میں بہت برا حال کرنے جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔ سائقہ بولی مانوں آپ دونوں کی ایک ہی عادت ہے بات بتاتے نہیں ۔۔۔ آخر تک تڑپاتے ہیں ۔۔۔۔۔ شاکرہ مسکرا کے اسے اپنے بازو میں لپیٹ کر بولی اسی میں تو مزہ ہوتا ۔۔۔۔ ہم سونے لگے تھے شاکرہ نے لیٹتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ زاہد جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔۔۔ پھر وہ سائقہ کی ران پر تھپڑ مارتے بولی اس پچاس کلو کی گٹھڑی کا وزن پوری رات مجھ سے نہیں اٹھایا جاتا اب۔۔۔۔۔ سقی بولی مانوں ٹھیک بھی ہو جائے تو بھی کیا کریں گے اس مسئلے کا ۔۔۔۔ شاکرہ بولی پھر تیرا بوجھ وہ اٹھائیں گے۔۔۔۔ سائقہ بولی ۔وہ کیوں اٹھائیں گے ؟؟؟ شاکرہ نے اپنی انگلیوں سے اس کی گال کھینچتے ہوئے کہا کہ تم ان کے کام آنے والی چےز ہو۔۔۔۔ سائقہ نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور بولی کیسے ۔۔۔ شاکرہ ہنستے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔ تم بہت بڑی بدمعاش ہو۔۔۔۔اور پھر شاکرہ اسے اپنے اوپر لیٹا کر آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لئے کچھ ضروری اہتمام کر کے وہ 9:45 بجے نکل گئی تھیں ۔۔۔۔ میں ٹی دیکھنے کے ساتھ محبت کی گھٹن داستانوں پر غور کر رہا تھا سائقہ کی امی اور ابو نے محبت کی شادی کی تھی اور زندگی بھر اپنے خاندان سے کٹ کر محروم دلوں کے ساتھ رخصت ہو گئے تھے ۔۔۔۔ میں شاکرہ کے بھیجے پیغام پر اپنی کزن کے گھر اسے دیکھنے گیا اور شاکرہ کو دیکھنے کے بعد خود پر رشک کرتے اپنے حوصلے بڑھا گیا اور اپنے خاندان سے ٹکراتے سب سے کٹ کر رہ گیا ۔۔۔ شاکرہ نے بھی اپنے خاندان کو چھوڑ دیا تھا اور اس کی امی کے علاوہ کوئی قابل بھروسہ سہارا نہیں تھا ۔شاکرہ کی دونوں بہنیں اپنے گھروں کی ہو چکی تھی ۔۔ ۔۔۔ سائقہ کا ہمارے گھر کے علاوہ کہیں ٹھکانہ نہیں تھا اور اس کے ساتھ ہم دونوں بھی اپنے اس گھر کی زندگی تک محدود ہو چکے تھے اور شاکرہ بھی سب سمجھ چکی تھی اور سائقہ کے آنے کے بعد اس کی ساری اداسیاں ختم ھو گئیں تھی اس نے نہ صرف اپنی امی کے گھر جانا چھوڑ دیا تھا بلکہ اب ناول بھی نہیں پڑھتی تھی ۔۔۔ تقریباً دو بجے کے قریب وہ دونوں گھر میں آ چکی تھیں اور لگ رہا تھا کہ وہ گاڑی سے سامان نکال رہی ہیں ۔۔۔۔ وہ باتیں کرتی ہنس رہی تھی میں ان کی باتوں کو تو نہیں سمجھ پا رہا تھا لیکن ان کے بار بار ہنسنے پر میں مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ روم میں آ گئیں اور اپنے لپیٹی چادریں اتارتے ھوئے میری خیریت دریافت کر رہی تھیں ۔۔ سائقہ بولی سوری مانوں آج شکی نے صبح منع کیا تھا کہ مانوں کو کوئی خوراک دے کے نہیں جانا۔۔۔ ان دنوں نعمتوں کی فون کالز کچھ زیادہ آ رہی تھی اور وہ بولتا باجی سے زینت ملنا چاہتی ہے اور شاکرہ زینت سے باتیں کرتی دوسرے روم چلی جاتی تھی ۔۔ اور ہماری شادی کے بعد سے اب تک یہ پہلی بار ہو رہا تھا کہ وہ مجھ سے الگ جا کر کسی سے بات کر رہی تھی ۔۔۔۔ اس وقت بھی زینت سے باتیں کرتی وہ دوسرے روم میں چلی گئی تھی ۔۔۔ سائقہ نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ شاکرہ نے بہت سے کپڑوں کے سوٹ کے علاوہ کچھ دیگر چیزیں خریدی تھیں ۔۔۔ سائقہ کے بتائے فگر پر مجھے حیران ہوکے سوچ رہا تھا کہ وہ اتنے سارے سوٹ کیا کرنے جا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد شاکرہ ہمارا کھانا لے کر آئی تو سائقہ بولی شکی مجھے بتا دیا کرو اب مجھے دیکھ کر شرم آتی ہے میں خود کام کر لوں گی ۔۔۔ شاکرہ نے کھانا میرے قریب رکھتے ہوئے بولی سقی ابھی آپ کا ایک امتحان شروع ہونے والا ہے ۔۔۔ اس میں پاس ہو جاؤ پہلے پھر باقی کام بھی کر لینا ۔۔۔ سائقہ بولی۔میں پہلے فرسٹ آئی ہوں ناں اب بھی فرسٹ آؤں گی دیکھ لینا۔۔۔۔۔ شاکرہ بولی پگلی وہ امتحان اور ہوتا یہ اور ہے ۔۔ سائقہ بولی ۔اور مطلب ؟؟؟؟ شاکرہ ہنستے ہوئے بولی اس امتحان میں بہت درد ہوتا افففففففف ۔۔۔ سائقہ مسکراتی آنکھوں کے ساتھ قدرے سنجیدہ ھوتے ہوئے بولی امتحان میں درد ؟؟؟۔ آپ نے امتحان دیا ؟؟ شاکرہ ہنستے ہوئے مجھے دیکھ کر بولی ہاں دیا ہے۔۔۔۔۔ سائقہ بولی پھر ۔؟؟؟؟ شاکرہ ہنسی میں لت پت سر جھکائے ٹوٹتے الفاظ کے ساتھ بولی ۔۔۔ بے ہوش ہو کر پاس ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ میں پہلی بار شاکرہ کو دیکھتے ہو کھلکھلا کر ہنس رہا تھا سائقہ بھی اپنا سر گھٹنوں پر رکھ کے ہنس رہی تھی ۔۔۔ تین دن بعد شاکرہ کی ایک بہن امی کے گھر آئی ہوئی تھی شاکرہ نے اسے کال کر کے بولا کہ میں 12 بجے آؤں گی میرے ساتھ بازار چلی جانا کچھ سامان لینا ہے میں نے ۔۔۔۔ اور پھر سائقہ کو کہا جاتا کالج سے آ کر۔مجھے امی کے گھر چھوڑ آنا۔۔۔ ۔۔۔ سائقہ اوکے کرتی مجھے آنکھ مار کے چلی گئی ۔۔۔ سائقہ آج ذرا جلدی آ گئی تھی اور شاکرہ کو بولا دیر تو نہیں آپ کو ۔۔۔۔ شاکرہ بولی نہیں بس مجھے پیسے لا دو چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں چلی گئی اور سائقہ اسے امی کے گھر چھوڑ کر کچھ ہی دیر میں آ گئی اور میرے ساتھ لیٹ کر پیار کرتے باتیں کرنے لگی تھی وہ یہاں بہت خوش تھی اور وہ اس خوشی میں اور پیاری ہو گئی تھی ۔۔۔ میں نے کہا سقی بہت دن ہو گئے ۔۔۔۔۔ بہت دل چاہتا ہے اب۔۔۔۔۔ سائقہ مسکرا کے مجھے دیکھنے کے کہنے ۔۔۔۔ سچ بتاؤں ۔۔۔۔۔ میں نے کہا ہاں مجھے صرف سچ بتایا کرو۔۔۔ بولی آپ نے پہلے بھی میرا جھوٹ نڑپخڑا ھو گا اور آئندہ کی بھی گارنٹی ہے۔۔۔۔۔ میں مسکرا دیا اور پوچھا ۔۔۔ کچھ کہنا چاہ رہی تھی تم ۔۔۔۔۔ بولی میں آپ سے بھی زیادہ بےتاب ہو چکی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے لگتا شکی ہمیں ملانے جا رہی ؟؟؟ وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ ہاں ایسا ہے ۔۔۔ لیکن وہ پروگرام کیا بنا رہی مجھے معلوم نہیں ۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔ ہونہہ بتا بھی نہیں رہے گی ۔۔۔۔ پھر سائقہ میرے گال پر ہلکے تھپڑ مارتے بولی ۔۔۔۔ گندے مانوں ۔۔ تم نے اس معصوم پر بہت ظلم کئے ۔۔ میں بدلے لوں گی اب ۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ کیسے لو گی بدلہ ۔۔۔۔۔ بولی جیسے تم میرے ساتھ کرتے تھے ناں۔ ۔۔۔ میں اب تیرے ساتھ ویسا کرونگی ۔۔۔ پھر وہ قہقہے لگانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ شاکرہ پانچ بجے اپنی بہن کے ساتھ واپس آ گئی تھی وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور کوئی سامان لے کر واپس اس کمرے میں آ گئیں تھی ۔۔ سائقہ منہ پھیلا کر صوفے پر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔ میں نے شاکرہ کی بہن سے رسمی کلمات کے بعد میں نے سائقہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاکرہ سے پوچھا ۔۔۔اسے کیا ہوا؟؟۔ شاکرہ بولی مسکرا کر بولی یہ پاگل ہے ۔۔۔ جب ہم بازار سے فارءہو گئے تو چنگ چی پکڑ کر آ گئے اس میں کیا ہے ابھی اس کو کال کرتے اور ۔۔۔ گھنٹہ لوگوں کے سامنے تماشہ بنے کھڑے رہتے ۔۔۔۔۔ شاہدہ (شاکرہ کی بہن ) بولی بھائی آپ بہت لکی ہیں ۔۔۔ (وہ سائقہ کو دیکھ کر بولی تھی ) پھر کہا میں دعا کرتی ہوں اللّٰہ آپ کی خواہشیں پوری کرے ۔۔۔ اور شاکرہ آپ کے لئے بہت بڑی قر۔۔۔۔۔۔ ۔۔ وہ رونے لگی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ نم آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا گئی تھی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ سائقہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی میں نے ساتھ پڑا رومال اپنے چہرے پر کھینچ لیا تھا اس ان کی ہونے والی گفتگو سے بےنیاز ہو چکا تھا ۔۔۔۔ بہت دیر بعد شاہدہ نے میرے چہرے سے رومال ہٹا دو اور بولی سوری بھائی میں نے۔۔۔۔۔ وہ اپنے گلے سے کچھ اتارنے لگ گئی میں نے اپنی آنکھوں کو صاف کیا ۔۔۔۔ شاکرہ سائقہ کا سر اپنی گود میں رکھے بغیر آنکھیں جھپکائے ۔ بہت دور دیکھتی کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔ ۔۔ کچھ دیر بعد شاہدہ کا ہسبنڈ آ گیا تھا اور چائے وغیرہ پینے کے بعد وہ ڈاہد کو لیکر چلا گیا ۔۔۔۔ ان کے جاتے ہی شاکرہ نے گیٹ لاک کیا اور سائقہ کے پاس بیٹھ گئی کچن دیر خاموش رہنے کے بعد شاکرہ نے سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ سقی تمھیں کیا ہوا تھا ۔۔۔ سائقہ خاموش رہی ۔۔ شاکرہ بولی سقی آئندہ ایسے نہیں کرنا رونا تو مجھے چاہیئے تھے ۔۔۔ اور توں بلکنے لگی ۔۔۔ ۔۔۔ سائقہ نے سر جھکائے ۔۔۔ سوری بولا ۔۔۔ شاکرہ مسکراتے ہوئے باہر چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے چار روز تک شاکرہ کی مصروفیت زیادہ رہیں اور وہ دن میں دو تین بار زینت سے رابطہ کرتی تھی اور دوسرے روم میں جاکر اس سے دیر تک باتیں کرتی رہتی ۔۔۔ جمعہ کے روز زینت اور نعمت آ گئے تھے اور تھوڑی دیر کے بعد ہی جانے لگے تھے شاکرہ جو خریداری پچھلے چند دنوں سے کرتی رہی تھی وہ سارا سامان زینت اور نعمت اپنے ساتھ لے گئے تھے سائقہ ہفتے کے روز کالج جانے لگی تو شاکرہ نے اس سے کہا کہ منڈے کو کالج کی چھٹی ہوگی آپ کی ۔۔۔ سائقہ نے پوچھا جانا ہے کہیں ۔۔۔؟؟؟ شاکرہ مسکراتے بولی کل جانا ہے کہیں ۔۔۔ پرسوں آپ کا ریسٹ ہو گا۔۔۔ ۔۔ رات کو کھانا کھانے کے بعد شاکرہ نے مجھے زیتون آئل کی مالش کی اور بولی ۔۔۔ جلدی سو جاؤ۔۔۔۔ کل سائقہ کی بستی چلیں گے ۔۔۔۔ سائقہ کچھ گھبرا گئی تھی ۔۔۔ شاکرہ نے مسکرا کے کہا اب ٹینشن نہیں لینی ۔۔۔۔ دیکھتی جاؤ میں کیا کرتی ۔۔۔۔ میں نے پوچھا کوئی بڑا پروگرام ہے کیا ۔۔۔ شاکرہ بولی کبھی میں نے پوچھا آپ سے کہ کہاں کیوں جا رہے ۔۔۔۔ سائقہ خاموش تھی ۔۔۔ شاکرہ لیٹتے ہوئے بولی سقی آج بہت تھکی ہوئی ہوں ۔۔۔ سائقہ مسکرائی اور شاکرہ کی ٹانگیں دبانے لگ گئی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن پھر رک گئی ۔۔۔۔۔وششششششش سقی تیرے ہاتھوں بہت سکون ہے ۔۔۔۔ چلو دبا دو ۔۔ کلتم تھک جاؤ گی تو میں دبا دونگی ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کی شاکرہ کو دیکھا اور بولا ۔۔ میں دبا دؤں۔۔۔ شاکرہ نے مسکرا کر کمرے کی چھت دیکھتے ہوئے کہا تم کل اپنی سقی کو دبا دینا ۔۔۔۔۔دومنٹ بعد ہی شاکرہ نے اس کے ہاتھوں خو پکڑ کر سائقہ کو اپنے اوپر سلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح چھ بجے کے قریب شاکرہ کی آواز پر میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔ وہ سائقہ کو جگا رہی تھی ۔۔۔ سقی اٹھ جاؤ تمھارے نیند کے دن پورے ہو گئے ۔ اب جاگنے کے دن آ گئے تمھارے ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے ایک نیا سوٹ نکال کر سائقہ کو دیا اور بولی نہا کر تیار ہو جاؤ۔۔ میں تیرے مانوں کی ہلپ کرتی ہوں ۔۔۔ آج سات ماہ بعد شاکرہ مجھے پینٹ شرٹ پہنا رہی تھی ۔۔۔۔ ناشتے کے فوراََ شاکرہ اٹھ گئی تھی اور باھر سے اس کے قدموں کی آوازیں بتا رہی تھی کہ وہ گاڑی کی طرف بار بار آ جا رہی ہے ۔۔۔ شاہد کوئی سامان کمرے سے اٹھا کر گاڑی میں رکھ رہی تھی ۔۔۔ سائقہ بہت دیر سے سر جھکائے خاموش بیٹھی تھی ۔۔۔ اس نے ایک بار میری طرف دیکھا اور کانپتے ہونٹوں کے ساتھ کچھ کہتے کہتے رک گئی ۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔ بولو سقی۔۔۔ کچھ لمحے بعد دروازے کی طرف دیکھ کر مدھم آواز میں بولی مجھے ڈر لگ رہا ۔۔۔ ۔۔ میں نے پوچھا کس سے ؟؟ بولی شفقتتتتت ۔میں نے ایک جگہ اپنی نظریں ٹکائیں اور بولا سقی آج ویسا نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔ شاکرہ اور سقی میرا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کے پاس لے گئیں شاکرہ نے کپڑوں سے بھرا ایک شاپر میں سر کے نیچے رکھ کر پچھلی سیٹ پر سلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ نے ڑیڈ کلر کے ایک رومال سے نقاب بنا رکھا تھا اور نیچے عربی برقعے والا سیاہ کوٹ پہنے ڈرائیونگ کر رہی تھی شاکرہ مجھے نظر نہیں آ رہی تھی آج 18 اکتوبر 2020 کا دن تھا گاڑی میں خاموشی طاری تھی ۔۔ شہر سے نکل کر مین روڈ پر آتے وقت شاکرہ بولی ۔۔۔ زاہد تیار ہو۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے کچھ بولنے سے پہلے خود ہی کہنے لگی ۔۔ آج میں تمھیں کچھ نیا دکھانے جا رہی ہوں ۔۔۔ جو پہلے تم لوگوں نے نہ تو دیکھا اور شاید کبھی سنا بھی نہیں ہو گا۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ اللّٰہ خیر کرے ۔ شاکرہ بولی ۔۔ ہاں ں ں اللّٰہ خیر کرے گا ۔۔۔ بولی زاہد کبھی میرا ڈاںس دیکھا ۔۔۔۔۔؟؟؟ میں نے کہا آپ نے کبھی دکھایا ہی نہیں ۔۔۔ بولی موقعہ بھی نہیں ملا ۔ کوئی جنگ لڑتے تیرہ برس بیت گئے ۔۔۔۔ کچھ لمحے بعد بولی زاہد ایک تو آج میں آپ کو ڈاںس دیکھاتی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ شاید اور بھی بہت کچھ ۔۔۔۔ سائقہ سارے رستے تقریباً خاموش رہی تھی اور شاکرہ بھی آج کچھ زیادہ سنجیدہ تھی ہم دس بجے کے قریب بستی میں داخل ہونے لگے تھے ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔۔ ڈاکومنٹس کہاں رکھے تھے ؟؟؟؟ سائقہ بولی کانپتی آواز میں بولی ۔۔ امی کے بکسے میں تھے ۔۔۔۔۔ شاکرہ کچھ سوچتے ہوئے بولی یزید نے جلا نہ لئے ہوں ۔۔؟ ۔۔۔۔۔ بھاری ہارن۔۔۔۔۔۔بریک کی لمبی آواز ۔۔۔۔ سائقہ کی آآآآآآآآآآ آآآآآآآآآآ آآآآآآآآ کی کلیجہ چھلنی کر دینے والی چیخیں کے ساتھ روشنی کے گولے کی طرح دور جاتا بکھرے بالوں کے ساتھ چہرہ ۔۔۔۔ میں نم آنکھوں کے ساتھ شاکرہ کی سیٹ کو پکڑتا کسی طور نم آنکھوں کے ساتھ اپنا سر کچھ اوپر اٹھا چکا تھا ۔۔۔۔ شاکرہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بولی آپ لیٹے رہو زاہد ۔۔۔۔۔ میں خاموش رہا ۔۔۔ شاکرہ نے سائقہ سے اس کے گھر کے آگے گاڑی روکنے کا بولا زینت کی امی کے گھر کے آگے کچھ کا ہجوم لگا تھا ۔۔۔ ہم وہاں سے گزر چکے تھے ۔۔۔۔۔ گاڑی سائقہ نے اپنے گیٹ کے سامنے روک دی تھی ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔ سقی گیٹ بجاؤ اور اندر نہیں جاؤ ۔۔۔ میں بھی اتر رہی ۔۔۔۔۔ سائقہ کانپتی گیٹ کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔ شاکرہ بولی زاہد ادھر ہی رہنا آپ چاہے کچھ بھی ہو جائے ۔۔۔ سائقہ کے گیٹ کے پاس پہنچنے سے پہلے شفقت باہر آ گیا اور سائقہ کی طرف آہستہ قدم اٹھاتا آگے بڑھتے دانت پیستے بولنے لگا ۔۔۔۔ رنڈی تو کیوں آئی ۔۔۔ توں تو یار کیلئے ماں کی موت پر ہی بھاگ گئی تھی سائقہ اپنے قدم پیچھے ہٹاتی نم آنکھوں سے شفقت کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔ میں نے جھٹکے سے اٹھنے کی کوشش کی درد کی لہروں نے مجھے جکڑ کے رکھ دیا شاکرہ چیختے ہوئے یہ۔کہتی اتر گئی نی اٹھو زاہد ۔۔۔۔ اس دوران شفقت نے سائقہ کے گال پر تھپڑ مار دیا تھا ۔۔۔ شاکرہ کھلے منہ پر ہاتھ رکھ کر رکی اور پھر اپنے سر کو جھٹکا دے کر آہستہ قدم اٹھاتے آگے بڑھنے لگی اس کا چادر سے کیا نقاب اتر چکا تھا وہ شفقت کے سامنے جا کر بولی تم نے بہن پر ہاتھ اٹھایا ۔۔؟؟؟؟ تم نے میری سقی کو مارا۔۔۔۔ تم نے میری ۔۔۔۔۔۔ اور کسی بپھری شیرنی کی طرح اچھل اچھل کر شفقت کا چہرہ ادھیڑتی جا رہی تھی میں درد میں جکڑا بیٹھا ۔۔۔ شاکرہ کا وہ روپ دیکھ رہا تھا جو دیکھا تو اپنی جگہ لیکن کبھی سنا بھی نہیں تھا شفقت اپنے چہرے کے آگے ہاتھ لانے کی کوشش کرتا پیچھے ہٹنے لگا اور اس کچی دیوار سے لگ گیا شاکرہ کسی طور رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی گلی میں بچوں کے ساتھ ایک دو مرد بھی آ گئے تھے لیکن وہ تماشا دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے شفقت کا چہرہ لال ہو چکا تھا اور تیل سے خوب چکنے بال الجھ گئے تھے مجھے اس کے حال پر رحم آنے لگا تھا میں شاکرہ کو روکنا چاہتا تھا لیکن درد کی شدت سے میری آواز نہیں نکل رہی تھی شاکرہ مسلسل بولتے ہوئے اپنا ہاتھ چلاتی جا رہی تھی ۔۔۔ یہ ماں کی موت پر چلی گئی تھی ۔۔۔ توں نے ماں کو قتل کیا ۔۔۔ توں نے گھر کو برباد کیا ۔۔۔ تمھیں کوئی روکنے والا نہیں ۔۔۔۔ توں نے سقی کو مارا ۔۔۔ تو نے۔۔۔۔ نعمت بھاگتا کہیں سے آ گیا تھا اور کچھ فاصلے پر کھڑا ۔۔۔ باجی ۔۔۔۔ باجی ۔۔ باجی بسس باجی ۔۔۔ اس دوران شاکرہ ایک بار فرنٹ پر پڑے اپنے پرس کی طرف لپکی لیکن پھر رک گئی اور آگے جاتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ صرف تیرا گھر نہیں ہے ۔۔۔ یہ سقی کا گھر بھی گھر ہے یہ آئے گی اور توں مرد کا بچہ بن کر اس صرف آنکھ اٹھا کے دیکھ لینا ۔۔۔۔ آؤ سقی شاکرہ نے سائقہ کی کلائی پکڑی اور اسے کھینچتے ہوئے گھر کے گیٹ اندر جاتے ہوئے بولی جا رہی ہے سقی اپنے گھر آؤ اور روک کے دکھا دو۔۔۔ زینت کی امی گاڑی کے قریب سے گزرتی شفقت سے بول رہی تھی لے لی ناں عزت ۔۔ بہت سمجھایا تمھیں تم ایسے لوگوں کے ہاتھوں سمجھنے والے ہو۔۔ زینت کی امی نے شاید مجھے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔ وہ شفقت سے بات کرتی سائقہ لوگوں کے پیچھے گھر چلی گئی اس کے پیچھے کچھ دیگر خواتین زینت اور بچے بھی اس کے گھر میں داخل ہو گئے ۔۔۔۔ شفقت دیوار سے ٹیک لگ کے نیچے بیٹھ گیا ۔اور اور اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا ایک بزرگ اس کو پکڑ کر کچھ باتیں کرتا گلی میں آگے لے جا رہا تھا میں مسلسل اس پر نظر رکھے ہوئے تھا نعمت میرے پاس آ گیا اور میرے بازو پر ہاتھ رکھے میری خیریت دریافت کر رہا تھا میں بول نہیں سکا ۔۔۔ اور نعمت کو اشارہ کیا کہ وہ مجھے صحیح سے بٹھا دے۔۔۔ نعمت کھڑکی کھول کر سیدھا بٹھانے لگا میں نے اپنی دائیں ٹانگ گیئر لیور کی طرف سیدھی کر لی۔۔۔ کچھ دیر بعد زینت چادر لپیٹے میرے پاس آئی اور بولی بیگم صاحبہ کہہ رہی ہے کہ کاغذ نہیں مل رہے ہم آتے ہیں ۔۔آپ وہیں بیٹھے رہو۔۔۔ زینت کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی اور وہ گلی میں کچھ فاصلے پر لوگوں میں تماشا بنے کھڑے شفقت کو دیکھتے گھر چلی گئی ۔۔۔۔ نعمت مجھ سے باتیں کر رہا تھا وہ بہت خوش تھا کہ شفقت کے ساتھ بہت اچھا ہوا ۔۔۔۔ اور پھر مسکراتے ہوئے بولا ویسے مجھے آج باجی سے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔ نعمت پانی کی بوتل لایا تھا اور مجھے گلاس بھر کے دیا ۔۔۔اس دوران شاکرہ اور سائقہ کے پیچھے دیگر خواتین اور بچے بھی باہر آ گئے ۔۔۔ سائقہ کے ہاتھ میں شاپر تھا ۔۔۔ نعمت گاڑی سے دور ا گیا سائقہ کی آنکھوں میں سکون اور حوصلے کے اثرات موجود تھے ۔۔۔ میرے چہرے پر درد کی لکیریں دیکھ کر وہ دونوں کھڑکی پر جھک گئیں ۔۔ سائقہ بولی۔۔۔ درد ہو رہا ۔۔؟؟؟ میرے بولنے کی کوشش میں شاکرہ بولی جھٹکے لے کے اٹھ رہا تھا ناں۔۔۔۔ منع کر رہی تھی آپ کو۔۔۔۔ ۔۔ شاکرہ نے سائقہ سے بولا ادھر پیچھے لے آؤ۔۔۔ سائقہ گاڑی کو ریورس کرتے جا رہی تھی اور شاکرہ ساتھ پیدل چل رہی تھی ۔۔ بستی کی خواتین اور بچے منہ میں انگلیاں ڈالے حیرت سے سائقہ کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔ زینت کی امی کے گھر کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے سائقہ اتر گئی شاکرہ اور سائقہ سامان نکال کر زینت کو دے رہی تھی اور وہ اپنی امی کے علاوہ ایک اور خاتون کو تھماتی جا رہی تھی ۔۔ وہ سامان لیکر چلی گئیں ۔۔ اور یہ دونوں مجھے اتارنے لگیں ۔۔۔ شاکرہ سنجیدہ تھی لیکن سائقہ کی آنکھوں میں چمک تھی شاید وہ سرخ رومال کے پیچھے مسکرا رہی تھی ۔۔۔ میرے کیفیت کو بھانپتے ہوئے شاکرہ نے نعمت کو اشارہ کیا وہ آتے ہی بولا جی باجی۔۔۔ نعمت اس احتیاط سے گھر لے آؤ ۔۔ میں نعمت کا سہارا لے کر جیسے گھر میں داخل ہوا تو وہاں لگے دو شامیانے لگے تھے اور گھر میں خواتین کا میلہ لگا تھا ۔۔ ۔۔میں پچھلے دس دنوں کی شاکرہ کی مصروفیت کو سمجھتے ہوئے پروگرام سمجھ چکا تھا ۔۔ اور پیچھے گھوم کر شاکرہ کو محبت سے دیکھا درد کے باوجود مہوش لی لمبی اور بلند آواز میں ہوووووووووو پر میں مسکرا دیا وہ بہت خوبصورت لباس میں گڑیا بنی ہوئی تھی ۔۔ نعمت مجھے سونیا کے روم میں لے میں بیڈ پر۔لیٹ گیا روم کا دروازہ بند کرکے شاکرہ نے اپنے پرس سے پین کلر نکالیں سونیا پانی لیکر آئی تھی ۔۔ میں ٹیبلیٹس حلق سے اتار کر پھر۔لیٹ گیا زینت نے آکر شاکرہ سے پوچھا باجی وہ نعمت پوچھ رہا کہ دیگیں کس ٹائم منگوانی ہیں ؟؟؟ شاکرہ نے موبائل پر ٹائم دیکھا اور بولی ایک بجے کا بول دو۔۔۔ اور باقی سامان آ گیا ؟؟ زینت بولی جی باجی ۔۔۔ شاکرہ بولی اوکے کوئی گانے وغیرہ لگا دو ہم آتے ہیں ۔۔۔۔۔ سائقہ نے مسکرا کے مجھے دیکھا اور نخرے سے تھوڑی سائیڈ پر ہوکے سرخ رومال سے اپنے آدھے چہرے کو نقاب میں چھپا لیا شاکرہ قہقہہ لگا کر اسے دروازے کی طرف دھکیل کے بولیجاؤ تم دوسرے روم میں ابھی پردہ ہے تمھارا ۔۔۔۔ شاکرہ نے اسے باہر نکال کے کنڈی لگا دی ۔۔۔۔ شاکرہ مسکراتے ہوئے پیچھے گھومی اور بولی ۔۔ اب بتاؤ۔۔ بڑے عاشق بنے ہوئے ہو۔۔ ۔۔ مجھے تم بھی شفقت لگنے لگے ہو۔۔۔ وہ مجھ پر جھک کر کسنگ کرتے ہوئے بولی زاہد کیسا لگ رہا ۔۔۔ میں نے شاکرہ کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرا اور اسے کس کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ میں تھینکس نہیں بولوں گا۔۔۔۔ کیونکہ یہ بہت چھوٹا لفظ ہے ۔۔۔ میں نے اس کی پیشانی پر صرف ایک بوسہ دیا ۔۔۔ شاکرہ مجھے یہ بول کر باہر چلی گئی میں واپس آتی ہوں درد کم ہو جائے پھر آپ کی تیاری کراتی ہوں ۔وہ باہر چلی گئی تھی اور ۔۔۔باہر سے اونچی آواز میں ۔۔اللہ میڈا میں تاں ڈاڈھی لوکاں دے منہ وچ آئی آں۔۔ سوہنڑے ڈھولے نال میکوں پائی آں منہگیاں شنائیاں۔۔۔۔میں کمرے میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا اسی روم میں سائقہ سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی وہ سکول کی یونیفارم میں آئی تھی اور محبت سے مجھے دیکھتے ہوئے خاموش کھڑی تھی ۔۔۔ میں شاکرہ سے آج کھل کے آنکھ نہیں ملا پا رہا تھا کیونکہ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا میں اس کی نظروں سے اوجھل ہو کر رنگینیوں کی دنیا میں بہت آگے نکل گیا تھا میں آج اس کی محبت میں ہار چکا تھی شاکرہ جیت گئی تھی زینت سے شروع ہونے والی کہانی سائقہ ۔ زہرا۔ مہوش ۔ سونیا اور سعدیہ سے ہوتی ہوئی آج شاکرہ کے ہاتھوں محبت کے اس اظہار کے ساتھ سائقہ تک محدود ہو چکا تھا جو آج کے اس دور میں میں نے کہانیوں میں بھی نہیں پڑھا تھا ۔۔۔۔ میں اپنی گیلی آنکھوں کے کناڑصاف کرتا اس وقت بھی شرمندہ تھا کہ میں نے شاکرہ سے سائقہ کی اصل حقیقت چھپا گیا تھا میں اپنے عشق کے حصول کے لئے اس سے چھپا گیا تھا کہ سائقہ کا کوئی مسئلہ ہے اور بچے مشکل ہیں ۔۔۔۔ شاکرہ میری محبت میں میری محرومی کے لئے اپنی انا کو آخری حد تک مار گئی تھی اور آج اس نے سائقہ کے ایک تھپڑ کے بدلے شفقت کے ساتھ جو کیا تھا وہ اس بات کی دلیل تھی کہ وہ میرے عشق میں سائقہ کو بھی بہت پیار کرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور شاکرہ نے اندر آ کر پوچھا ۔۔ درد ختم ہوا ؟؟؟ میں نے جسم کو حرکت دی اور بولا ۔۔۔ ہاں کچھ کم ہو گیا ہے اس نے میڈیسن والے شاپر کو اٹھایا اور بولی ایک گولی اور لے۔لو خیر ہے۔۔۔ اس نے مجھے ٹیبلیٹ کھلائی اور دروازے کی کنڈی لگا کر شاپر سے میرا سوٹ نکال لیا ۔۔۔ میں نے شاکرہ کا نگاہوں میں شکریہ ادا کیا وہ مجھے دولہا بنانے کا سارا انتظام کر کے لائی تھی ۔۔۔ وہ مجھے ڈریس پہنانے لگی ۔۔ میں نے پوچھا سائقہ کہاں ہے۔۔۔ مسکرا کے بولی اس کا پردہ آ گیا تم سے ۔۔۔۔۔۔ کیوں عشق جوش میں آ گیا ۔۔۔ ؟؟ میں مسکرا دیا وہ مجھے ڈریس پہنا کے ایک بار پھر عجلت میں روم سے نکل گئی ۔۔۔۔ آج پہلی بار ایسا ہو رہا تھا کہ شاکرہ جاتے ہوئے اپنا پرس اٹھا کے لے جاتی تھی ۔۔۔ وہ بہت دیر بعد آئی زینت اور مہوش بھی اس کے ساتھ تھی ۔۔۔ اندر آ کے شاکرہ بولی آ جائیں بڈھے دولہا ۔۔۔۔ شاکرہ کے ساتھ زینت اور مہوش بھی ہنسنے لگی تھیں ۔۔۔ شاکرہ مجھے پکڑ کر روم سے باہر لانے لگی دوازے کے قریب ہی ایک بڑا صوفہ لگا ہوا تھا ۔۔ ٹیبل کو اٹھا لیا گیا اور میرے بیٹھنے کے بعد ٹیبل رکھ کے اس پر گلدستے سجا دئیے گئے تھے ۔۔ مہوش ساؤنڈ پر بجتے گانوں کے ساتھ ھوووووو کی صدا لگاتی بہت پرجوش تھی ۔۔۔۔ گانوں پر کچھ دیر ڈانس ہوتا رہا ۔۔۔۔۔۔شاکرہ اور زینت میرے پاس بیٹھی رہیں ۔۔۔ مہوش دور کھڑی محبت اور مایوسی کے ملے جلے تاثرات سے دیکھ رہی تھی سائقہ کے بعد میں نے سب سے زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارا تھا ۔۔مہوش ۔کی جہاں شادی ہوئی تھی وہ اس جگہ خوش نہیں تھی لیکن وہ اب گزارنے لگی تھی ۔۔۔خواتین اور لڑکیوں میں چہہ مگوئیاں جاری تھی آج ان کے لئے سائقہ کی شادی کے بعد نعمت کی کی پٹائی بڑا موضوع تھا ۔۔۔ کچھ دیر میں نعمت نے زینت کو آواز دی ۔۔اور اس سے کچھ بات کرکے واپس گیٹ کی طرف چلا گیا زینت نے شاکرہ کو کوئی بات بتائی اور شاکرہ مجھے ساتھ لیکر مین گیٹ کے ساتھ ایک چھوٹی کوٹھڑی کی طرف چلی گئی جہاں دو چٹائیاں بچھی ہوئی تھی ۔۔۔ شاکرہ نے پرس سے ہاتھ نکال کر کچھ پیسے میری جیب میں بھر دئیے مولوی صاحب کے ساتھ زینت کا ابو اور ایک اور بزرگ کے ساتھ نعمت بھی آ گیا ۔۔۔ مولوی صاحب مجھ سے باتیں کرنے لگ گئے اور باقی تینوں ایک اور کچے کمرے کی طرف چلے گئے ۔۔۔ لڑکیوں کے شور شرابے کے بعد یہ تینوں واپس آ کر مولوی صاحب کو گواہی دیکر ہمارے ساتھ بیٹھ گئے ۔۔۔۔ مولوی صاحب نے نکاح پڑھا دیا ۔۔۔۔۔۔ میرے لئے پہاڑ جیسا بڑا مسئلہ شاکرہ نے تھوڑے عرصے میں ایسا سنبھالا کہ یہ سب حیران کن بھی تھا اور عشق کی انتہا بھی میں بہت پہلے سے شاکرہ سے دوسری شادی کا ذکر کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس کی رضا میں اپنی انا کو مار چکا تھا لیکن شاکرہ میری محرومی کو دل سے محسوس کرتے ہوئے اپنی انا کو اپنے پیروں تلے رونڈ ڈالا تھا اور عشق کو انمول کر ڈالا تھا ۔۔ آج سے تیرہ برس پہلے شاکرہ سے میری شادی ہوئی تھی جب میری عمر 25 اور شاکرہ اس وقت 21 برس کی تھی ۔۔ آج میری عمر 38 برس شاکرہ کی 34 برس اور سائقہ 20 سال کی عمر میں میری دوسری بیوی بن گئی تھی ۔۔۔۔۔ میں اس چھوٹی کوٹھڑی سے باہر آتے آسمان کی طرف دیکھتے دوبارہ صوفے کی طرف آ رہا تھا ۔۔ شاکرہ نے مجھے صوفے پر بٹھایا ۔۔ زینت مہوش اور چند دوسری لڑکیاں ہنسی مزاق کرتی شاکرہ کے ساتھ اس کچے کمرے میں چلی گئیں اور واپس پر لڑکیوں کے بلند نعروں میں سائقہ کو ادھر لانے لگیں تھی ۔۔۔۔ سائقہ دلہن کے روپ ایسی نکھر گئی تھی اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔ ایک بزرگ خاتون نے ٹیبل پر جھکتے ہوئے میرے اور شاکرہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی آپ کمال لوگ ہو ۔۔۔ منہ بولی اس بہن سے وفا نبھا لی۔جس سے اپنا سگا بیٹا وفا نہیں کر سکا۔۔۔۔۔ بولی آج آپ نے اس کی بچی کو بستی میں جو عزت دے دی وہ جہاں ایک مثال رہے گی ۔۔۔ وہ سائقہ کا۔ماتھا چومتی اسے دعاؤں سے نوازتی نم آنکھوں کے ساتھ پیچھے جانے لگی ۔۔۔ شاکرہ نے ہمیں محبتیں بھی دی تھی اور اس بستی میں سائقہ کا وقا بڑھا دیا تھا ۔۔۔ سائقہ رنجیدہ تھی اسے اپنے والدین کے کھو جانے ۔۔ بھائی کے ظالمانہ روپے کے ساتھ بستی کی پرخلوص محبتوں کا غم بھی تھا اور میری محرومی پر پورا نہ اترنے کا غم بھی لیکن اس کا مجھ سے عشق آج امر ہو گیا تھا کچھ چھوٹی رسموں کے بعد آنے والے مہمانوں کو پرتکلف کھانا کھلایا گیا اور شاکرہ بچوں میں سو سو کے نوٹ بانتنے کے ساتھ سب خواتین میں سوٹ بانتے ہوئے اعلان کیا ۔۔۔ آپ دعا کرو گے اور سائقہ کی جھولی آباد ہو گی تو میں آپ کی بستی میں بہت بڑا جشن مناؤں گی۔۔۔۔ زینت کی امی کا گھر سائقہ کا میکا ہے اور وہ جہاں آتی رہے گی۔۔۔ ۔ مجھے اور سائقہ کو سونیا کے کمرے میں ایک ساتھ کھانا دیا گیا ۔۔۔ سائقہ مجھے روز ہی کھانا کھلاتی تھی لیکن آج کا مزہ ہی الگ تھا ۔۔۔ آج اس میں شرم بھر آئی تھی اور میں اس کے لئے بےقرار ہو رہا تھا شام سے کچھ قبل رخصتی ہونے لگی تھی ہم مین گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے کے میرے پیچھے بالکل قریب یکے بعد دیگر تین فائر ہو گئے ۔۔۔۔ میں ایک دم سے پیچھے مڑا اور مسکرا دیا ۔۔۔ شاکرہ میرا پسٹل اپنے پرس میں ساتھ لائی تھی ۔۔۔ اکثر عید کا چاند دیکھنے کے بعد میں چھت پر جاکر ہوائی فائرنگ کرتا تھا اور شاکرہ کو بھی سکھا دیا تھا ۔۔۔۔ شاکرہ پسٹل ہاتھ میں لئے ہمارے پیچھے چل رہی تھی ۔۔ گیٹ۔کے پاس زینت اور مہوش پیچھے دیکھتے ہوئے بلند آواز سے بولنے لگیں اوےے سب آ جاؤ۔۔ دلہن گاڑی چلا کر دلہے کو لے جائے گی ۔۔۔۔ قہقہوں کے ساتھ سب بھاگ آئے تھے سائقہ بھی سر جھکائے ہنس رہی تھی ۔۔۔ زینت ۔ مہوش اور زینت کی امی سائقہ کو پکڑ کر گاڑی تک لائیں تھی ۔۔۔ زینت نے ہمارے ساتھ آنا تھا ۔۔ پچھلی سیٹ پر میں اپنوں سر شاکرہ کی گود میں رکھ کر کسی طرح لیٹ گیا ۔۔۔ زینت فرنٹ سیٹ پر اور جب سائقہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھانے لگی تو پیچھے سے آنے والے قہقہوں نے ،م سب کو ہنسا دیا ۔۔۔۔۔ سائقہ کو ایک کمرے میں بٹھانے کے بعد شاکرہ مجھے لیکر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور مجھے بہت سی محبتوں کے ساتھ زیتون آئل کی مالش کرتے ہوئے اپنی محبتیں اس دعائیں نچھاور کرتی رہی شاکرہ کے چہرے پر کبھی کبھی سنجیدگی آ جاتی تھی لیکن پھر وہ مجھے دیکھ کر مسکرا دیتی ۔۔۔ وہ سائقہ کے اس روم میں چلی گئی اور کچھ دیر بعد واپس آ کر بولی آ جائیں ۔۔۔ میں اٹھا تو۔مجھے پکڑ کر دروازے کی طرف لے جاتے ہوئی بولی زاہد تیری خوشیوں اور اس گھر کی رونقوں کے لئے بیٹھ کر دعا کرونگی ۔۔۔ اپنی صحت کے ساتھ سائقہ کا خیال کرنا ۔۔۔ وہ معصوم بچی ہے دروازے سے باہر۔نکلنے سے پہلے میں نے شاکرہ کو باہوں میں بھرا اور اسے کسنگ کرتے شاید رونے لگا تھا کہ شاکرہ کی بلند آواز آئی ۔۔۔ زاہد اںسان بنو۔۔۔ کیا کرنے لگے ۔۔۔۔ شاکرہ نے دروازہ کھولا اور مجھے اس کمرے میں میرا ہاتھ چوم کر چھوڑ دیا میں نے دروازہ کھولا اور زینت علجت میں باہر نکل گئی

کسی ایسے مسافر کو دیکھا ہے جو منظر پانے کی جستجو میں کانٹوں بھر رستے پر ایک لمبے عرصے تک بھاگتا زخمی زخمی ہو گیا ہو اور پھر اچانک سے منظر اس کے سامنے آ جائے ۔۔۔۔۔۔۔ مبیڈ کی طرف آتے ہوئے سائقہ کو سلام کر کے بیڈ پر لمبا ہو گیا میں گہری سانس لے کر دلہن بنی سائقہ کو دیکھتے اپنے جسم میں سکون بھرنے لگا شاکرہ نے اپنے عشق سے مجھے نچوڑ کے رکھ دیا تھا ۔۔۔۔ اور اس کے محبت کے اس اظہار کو میں برداشت نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔۔ سائقہ کے اظہار محبت سے کہیں زیادہ شاکرہ نے مجھے توڑ کر رکھ دیا تھا اور میں بستی پہنچنے کے بعد سے اپنے وجود کی کرچیاں سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔ اتنے اہتمام سے شاکرہ نے یہ کمرہ کب سجایا تھا ۔۔۔۔ سائقہ کو بھی علم نہیں تھا ۔۔۔۔ میں نے اٹھ کر سائقہ کے بھاری دوپٹے کو اٹھا کر اس کے ماتھے کو چوم لیا میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر شیشے کی چھوٹی ڈبیہ نکالی جو کچھ دیر پہلے شاکرہ نے میری جیب میں ڈالی ایک ہی چمکتے چھوٹے سفید نگ والی انگوٹھی میں نے اس کے بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی۔میں پہنا دی ۔۔۔ سائقہ نے بھی میرا بایاں ہاتھ پکڑا اور اسے چومتی ہواس میں انگوٹھی پہنانے لگی تھی بستی میں ہم دونوں کو شاکرہ نے انگوٹھیاں پہنائی تھی ۔۔۔ مٹھائی کھلاتے ہوئے سائقہ نے میری انگلی کو ایسا کاٹا کہ وہ ایک یاد بن گئی ہے میرے ذہن میں ابھی تک عطاء اللّٰہ کا گانا ۔(عشق پوایاں زنجیراں ) گونج رہا تھا بستی کی اس تقریب میں شاکرہ نے اس پر ڈانس کیا تھا ۔۔۔ عشق کا سمندر سینوں میں جوش مار رہا تھا آج کا ملنا پچھلی ساری ملاقاتوں سے بہت پیارا تھا افسوس ہونے لگا تھا کہ میں جسموں کے ملاپ کے بجائے عشق اپنی پاکیزگی سے یہاں پہنچتا ۔۔ لیکن شاید ایسا ممکن نہ ہو سکتا گزرے لمحوں کے اتار چڑھاؤ کے قصے چھڑے تو رات منٹوں میں ہاتھوں سے نکلنے لگی تھی میں نے گھڑی کی طرف نظر اٹھائی تین بج چکے تھے گزرے چار گھنٹے چار منٹ سے زیادہ نہیں لگ رہے تھے ۔۔۔ میں نے سائقہ کے ہاتھ کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا تھا شاکرہ نے اسے کسی ماہر بیوٹیشن کی طرح تیار کیا تھا ان لمحوں کے الفاظ نہیں ہیں میرے پاس کہ میں اس محبت کے لمحات کو کیسے بیان کروں ملنے تو بہت بار ہو چکا تھا لیکن تقریباً آٹھ ماہ بعد سائقہ سے ان بابرکت گھڑیوں میں ملنا لاجواب ہے سائقہ کے مجھ سے جانے کے وقت سے تقریباً ایک ماہ قبل ہمارا ملاپ ختم ہو چکا تھا اور صرف ٹیشن میں ملاقاتیں ہوتی تھی تڑپ دونوں طرف تھی لیکن حالات نے ہمیں بےبس کر دیا تھا ہمارے انگ انگ کو توڑ ڈالا تھا ۔۔۔ میں نے زیور چومتے ہوئے انہیں اتارتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ تو سائقہ کو علم نہیں تھا کہ یہ کہاں سے آئے تھے بستی میں ہماری چھوٹی مگر محبتوں سے بھرپور تقریب میں سائقہ اور شاکرہ نے ایک جیسے زیور پہن رکھے تھے دو تڑپتے بدن بےتابی سے آگے بڑھتے جا رہے تھے کون کیا کر رہا ہے ان مدہوش لمحوں کو ہم دونوں میں کوئی نہیں جان پا رہا تھا ۔۔۔ بس ہمارے ہونٹ تھے جو تھکنے کا نام نہیں لے رہے تھے کوئی بات نہیں ہو رہی تھی تیز سانسوں میں کبھی کبھی کسی کے لبوں سے وشششششش کی لمبی آواز نکل جاتی کوئی صدیوں کی پیاس تھی جو بےتابی سے بڑھتی جا رہی تھی میرے درد جانے کہاں کھو گئے تھے جسم کا انگ انگ پرجوش انداز میں سائقہ کا لمس لینے کو خود سے آگے بڑھ رہا تھا جسم کے اندرونی زخم پرسکون ہو چکے تھے مچھلی کی طرح تڑپتی سائقہ میرے ہاتھوں سے پھسل کر کبھی میرے اوپر آ جاتی تو کبھی میں اسے دبوچ کر اسے اپنے سینے میں اتارنے لگتا تھا سنگ مرمر جیسا شفاف بدن مکھن جیسی نرمی کے ساتھ شہد سے کہیں مٹھاس میرے جسم میں بھرتا جا رہا تھا ۔۔۔ سائقہ میرے زخمی وجود کے درد بھول کر مجھے کھا جانے کی جستجو کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ میں نے افففففففففف کی گہری آواز سے اپنے پورے وجود میں نرم گرم احساس پایا کچھ عجب لہریں مجھے مزے کی وادیوں میں دھکیلتی جا رہی تھی میرے سینے کے نچلے حصے پر ہاتھ ٹکائے سائقہ اپنے کانپتے وجود کو نیچے لاتی درد اور محبت میں ڈوبی میں مانوں ں ں ں ں ں ں ں کہتی اپنے لبوں سے پانی کی ایک ننھی لکیر میرے سینے پر گراتی میرے اوپر لیٹی چلی گئی جذبات میں بپھرے میرے ہاتھوں نے سائقہ کے ہپس کو پکڑ کر ایسا کھینچا کہ اس کی مدہوش سے آئی ی ی ی ی کمرے میں گونج اٹھی ۔۔۔ سائقہ مجھے لال دوڑے پڑی آنکھوں سے دیکھتی پھر سے میرے لبوں کی طرف لوٹ آئی ببلو سائقہ کی بھری ٹانگوں میں پھنسا ہپس کی درمیانی لکیر کی گرمی میں مست ہونے لگا تھا میرے دکھتے اور سانسوں کی گرمی سے جلتے ہونٹوں کو چھوڑ کر وہ پھر پیچھے لوٹ گئی ہم ایک دوسرے کے جسموں کو دیکھتے وہ انگ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے جو لبوں کے چوسنے سے بچ گیا ہو دردِ بھری آہ ہ ہ ہ کے ساتھ ببلو گرم تر ہوتا جا رہا تھا درد بھری لکیروں سے بھرے چہرے کو میں نے پھر اپنے لبوں پر کھینچ لیا تھا سائقہ کا چہرہ گلابی ہو چکا تھا میں اس کے لبوں کو چوستا گالوں کی نرمی کو لبوں میں بھرتا آنکھیں چوم کر اسے زور سے اٹھا کر اپنی ٹانگوں کے بیچ پھینک دیا سائقہ مہوش سے لہجے میں مانوں ں ں ں ں کہتی پھر سے ببلو کو اپنے جسم میں بھرنے لگی تھی روم میں گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ تیز سانسوں کا ملاپ محبت بھرا میوزک بھر رہا تھا میں کسی سحر انگیز جھیل میں اتر آیا تھا تتلی کے پنکھوں میں حرکت بھر آئی تھی ۔۔۔۔ میں نے رفتہ رفتہ مچلتے ان پنکھوں پر چٹاخ سے تھپڑ مارا ۔۔۔۔۔۔ منہ سے پانی گراتی سائقہ میرے لبوں کو لوٹ آئی تھی ببلو کو مسلسل تیسری بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا میں اسے دبوچتا اوپر آ گیا تھا ۔۔۔ وادیوں رنگین ہو گئی تھیں قوس قزح کے رنگ کمرے کے دیواروں پر پھیل گئے تھے مدہوش سے میٹھی آواز میں آہ ہ ہ ہ اونہہ کی بڑھتی صدائیں محبتوں کے گیت گا رہی تھیں ۔۔۔۔ تڑپتی مچھلی میرے نیچے سے نکل کر خود سے کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن میرا سینہ اسے اپنے سے الگ کرنے کو کسی طور راضی نہیں ہو رہا تھا چپک چپک کے ساز نے مدہوش آوازوں کا ساتھ دیتے ہوئے ایک ہی لے میں گانا چلا رکھا تھا پیسنے کی ننھی بوندیں سجائے جسم اکڑنے لگے تھے ۔۔۔۔ محبت امر ہونے لگی تھی آج بند آنکھوں میں اندھیرے نہیں روشنیاں پھیل گئی تھی ۔۔۔۔ آہا ا ا ا ا مانوں ۔۔۔۔۔سقی کے ساتھ جسم ڈھیلے پڑنے لگے تھے ۔۔۔ گلابوں کی مہک سی مدہوشی ساکت کر گئی تھی ۔۔۔۔ لمحے گزر رہے تھے گھڑی کی ٹک ٹک ہمیں داد دینے لگی تھی ۔۔۔۔ جسم اٹھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا موذن نے بھول کر سائرن بجا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ کی مست ہنسی نے مجھے مسکرا دیا تھا درد کی لہروں نے ریڑھی کی ہڈی کو سرد کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ وششششش کی لمبی آواز نے میری آنکھیں نم کر دی تھیں ۔۔۔ سائقہ میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرتی نیچے سے نکلنے کی کوشش کے ساتھ مانوں مانوں پکار رہی تھی ۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھوں کی بند مٹھیوں کو گدے پر ٹیک کر جسم اٹھانے کی کوشش میں سائقہ کی ہلپ کر دی تھی وہ مچھلی کی طرح پھسل گئی تھی اور گدے پر گرتے میرے وجود کو اپنے چھوٹے ہاتھوں میں بھرنے کی ناکام کوشش کرتے اپنے ہاتھ میرے نیچے دبا گئی تھی مجھے پیٹ میں کچھ چبھنے لگا تھا لیکن مجھ میں جسم اٹھانے کی سکت باقی نہیں رہی تھی میرے جسم پسینے میں شرابور ہو چکا تھا سائقہ اپنے ہاتھ آہستہ سے کھینچتے چوڑیوں کی ٹکڑے بیڈ سے نیچے پھینکتے مانوں ۔۔ مانوں پکارتے درد میں ڈوب رہی تھی اور پھر میرے اوپر کمبل کھینچتے ہوئے ۔۔۔ وشششششش مانوں پلیز ٹھیک ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے آوازوں کا گلہ گھونٹ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ بہت دیر بعد اپنے چہرے پر گھومتے سائقہ کے ہاتھ کو کس کرتے میں نے آنکھیں کھول لیں تھی ۔۔۔ سائقہ ساکت آنکھوں سے کھلے لبوں کے ساتھ مجھے تکے جا رہی تھی ۔۔۔ میں نے مسکرا دیا ۔۔۔۔ وہ کسنگ کرتے بولی مانوں سات بجنے لگے ۔۔۔ میں نے سیدھا ہونے کی کوشش کی اور بیڈ سے اترنے کی ہمت پیدا کرتا باتھ روم کے دروازے کو دیکھنےگا۔۔۔۔۔ سائقہ اپنے جسم پر چادر لپیٹی اور میرے کپڑے لیکر باتھ روم چلی گئی ۔۔۔ مجھے پکڑ کر باتھ روم میں رکھی کرسی پر بیٹھایا اور اپنے جسم پر لپٹی چادر اتار کر پانی کا نل چلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیڈ کے ساتھ ٹیبل پر ٹشو کے ڈبے کے ساتھ ائیر فریشر ایک کپڑا اور پین کلر ٹیبلیٹس کے ساتھ پانی کی بوتل رکھی تھی میں ایک ساتھ دو ٹیبلیٹس اپنے حلق سے اتار کر لیٹنے لگا تھا روم سے باہر شاکرہ کے قدموں کی آواز آنے لگی تھی میں نے موبائل اٹھا کر شاکرہ کو میسج کیا ۔۔۔۔ ہم ابھی سونے لگے ہیں ۔۔۔۔ 8:05 بج چکے تھے میں سائقہ کو کمبل میں لپیٹتا آنکھیں بند کر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوبجے کے بعد ہم باتھ روم سے واپس آ کر بیڈ پر آ کر بیٹھے میں نے موبائل اٹھایا 8:06 بج کا شاکرہ کا۔میسج آیا ہوا تھا بچی زندہ تو ہے ناں ۔۔۔میں نے مسکرا کر موبائل سائقہ کی طرف بڑھا دیا وہ ہنستی ہوئی بیڈ پر لیٹ گئی ۔۔۔۔سائقہ بولی مانوں آپ وزن بہت بڑھ گیا میری ہڈیاں توڑ دیں اور سب کچھ موٹا ہو گیا ہے۔۔ میں نے مسکرا کر سائقہ سے ڈور کا لاک کھولنے کا بولا ۔۔۔۔ اور شاکرہ کو میسج کیا ابھی زندہ ہو گئی ہے ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد دروازے پر ہلکی دستک ہوئی اور چند لمحے بعد شاکرہ اندر آ گئی ۔۔ سائقہ میری ٹانگوں کے پاس بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔ شاکرہ نے کوئی بات کئے بغیر مسکراتے ہوئے سائقہ کو پکڑ کر میرے ساتھ لٹایا اور اس کی رانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی زائد تم نے میری سقی کو تھکا دیا ناں ۔۔۔ سائقہ نے اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر کسنگ کرتے ہوئے اپنے سینے پر رکھ دیا اور مسکراتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔ زینت کہاں ہے ؟؟؟ شاکرہ بولی کچن میں ہے تمھارا کھانا گرم کر رہی ۔۔۔۔ میں شاکرہ کو۔پیار اور تشکّر بھری نگاہوں سے دیکھا اور پھر موبائل اٹھا کر اس میں کھو جانے کی اداکاری کرنے لگا ۔۔۔۔ شاکرہ نے ہاتھ کے اشارے کے۔ساتھ ہلکی۔آواز میں سائقہ سے پوچھا ۔۔ ببلو ؟؟؟ سائقہ نفی میں سر ہلا کر ایک لمحے بعد بولی ڈبلو۔۔۔ وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس دیں ۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا ۔۔ کیا ہوا۔۔۔ شاکرہ بولی لیڈیز کی باتوں میں انٹری نہیں کرتے ۔۔۔۔ دروازے لر دستک کے بعد زینت مسکراتی اندر آئی اور سلام کیا ۔۔۔ پھر مجھے اور سائقہ کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے شاکرہ سے بولی باجی کھانا؟؟؟ شاکرہ اٹھتے ہوئے بولی ہاں آتی ہوں ۔۔۔ زینت کھانا لیکر آئی اور جانے لگی میں نے کہا کہ شاکرہ کو ںلا کے آپ بھی واپس آؤں ۔۔۔ بہت اصرار کے بعد میں نے ان دونوں کو اپنے ساتھ بیٹھ کر۔کھانا کھانے پر راضی کر لیا ۔۔ شام سے قبل نعمت اپنے بچے کے ساتھ آیا اور زینت کو ساتھ لیکر چلا گیا ۔۔۔ اگلی۔رات ہم بارہ بجے نہا کر بیڈ پر آئے تو سائقہ نے شاکرہ کو کال ملا لی۔۔۔ اور بولی۔شکی ادھر آ جاؤ۔۔ مجھے نیند نہیں آ رہی رات بھی مانوں میری وجہ سے جاگتے رہے میں نے سائقہ سے موبائل لیا اور شاکرہ سے بولا ادھر آ جاؤ۔۔۔ وہ بہت دیر۔کی کوشش کے بعد آ گئی تھی سائقہ اسے چھپکلی کی طرح چپٹ کر اس کے اوپر الٹی سو گئی ۔۔۔ سائقہ ان دنوں مجھے صحت کی بہتری تک پرہیز کرنے کا بولتی رہی لیکن میں نہیں رک سکتا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ سائقہ اور شاکرہ صوفے پر بیٹھی تھی ہم باتیں کر رہے تھے انہی دنوں میری تکلیف کچھ بڑھ گئی تھی اور اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ میں احتیاط نہیں کر رہا تھا میرے گلے میں خارش ہونے لگی سائقہ اٹھ کر الماری کے پاس گئی اور شہد کی بوتل اٹھا کر میری طرف بڑھتے ہوئے اپنے منہ پر بوتل رکھی اور منہ کر شہد سے بھر کر میرے چہرے پر جھکتے ہوئے مجھے ہونٹ کھولنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ چڑیا کی طرف اپنے لب۔میرے ہونٹوں سے جوڑتے پیار کرنے کے ساتھ شہد میرے منہ میں گرانے لگی۔۔۔۔۔ شاکرہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ لڑکی تو کسی کی نظر لگنے سے مر جائے گی ۔۔۔ شادی کے اگلے ہی روز یعنی منگل کے۔روز سائقہ کالج چلی گئی تھی اور میں نے اسی روز سے یہ کہانی لکھنا شروع کر دیا تھا میں موبائل زیادہ دیر اٹھائے ٹائپ نہیں کر سکتا تھا اور وقفے وقفے سے کوشش کرتا آگے بڑھنے لگا تھا ۔۔ شادی کے پہلے ہفتے میں شاکرہ کی امی بھی چل بسی تھی کچھ دن تک شاکرہ ادھر ہی رہی سائقہ مجھے شاکرہ کے پاس چھوڑ کر کالج جاتی اور واپس وہیں شاکرہ کی امی کے گھر آ جاتی ۔شام کو شاکرہ ہمیں گھر بھیج دیتی تھی ۔ شاکرہ کی امی اس کا وآحد سہارا تھی بھائی بہنیں اپنے گھروں کے ہو گئے تھے اور رسمی سا تعلق باقی رہا تھا ۔شاکرہ گھر آ گئی تھی اور معاملات روٹین میں آنے لگ گئے تھے سائقہ کے بعد شاکرہ کا بھی کوئی سہارا نہیں بچا تھا شاکرہ کے بھائی بہنیں اور ماموں کبھی کبھی آ جاتا ۔۔۔ اور شاکرہ بھی دن کے کچھ وقت میں کبھی بہنوں کے پاس چکر لگا لیتی ہے ۔۔۔۔میرا خاندان بھی شادی کے بعد بہت دکھ دینے کے بعد منہ پھیر چکا تھا ہمارے گھر پھر بھی رب نے محبتوں سے لبا لب بھر دیا تھا سائقہ کے جہاں آنے کے بعد برکتوں نے ایسے ڈیرے ڈالے کہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کونسا کام کیسے خود سے ٹھیک ہو جاتا تھا فصلوں کی آمدن میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے شاکرہ سائقہ اپنی مرضی سے ضرورت مند خواتین اور بچیوں میں بانٹی رہتی ۔۔ ایک دن سائقہ اس مکان سے اپنا کچھ سامان اٹھانے چلی گئی اور اگلی صبح کالج جاتے مجھے ساتھ لیکر گئی اور اسی مکان میں چھوڑا کہ اس ماسی کی بیوہ بیٹی کی شادی ہے۔۔ وہ اس مکان کا سارا سامان اٹھانے کو بندے لے آئیں گی آپ یہیں رہو۔۔۔ تقریباً ایک بجے کے قریب سائقہ کالج سے مکان میں آئی تو میں لان میں چمن پر لیٹا ہوا تھا ڈبل بیڈ صوفے فریج سب کچھ ماسی کی بیٹی کو گفٹ ہو چکا تھا اگلے روز سے ہی یہ مکان دوبارہ کرائے پر لگ گیا اور شاکرہ کو آج تک معلوم نہیں ہو سکا ۔۔۔۔۔ شادی کے۔تقریباً بیس دن بعد سائقہ کی فرینڈز نے میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں ہمارے اعزاز میں تقریب کی ۔جہاں ہمیں ڈھیر ساری محبتوں سے نوازا گیا سائقہ کی ایک چنچل دوست نے کہا ۔۔۔ اس دیہاتی لڑکی نے محبت کا میدان مار لیا ہے ۔۔۔ سائقہ کی فرینڈز اسے سقی سقی پکار رہی تھی اور تنگ کرتی شاکرہ اور مجھے خراج تحسین پیش کرتی رہی اور واپسی پر ہماری گاڑی کو محبتوں سے سجے گفٹس سے بھر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ ایک روز جب سائقہ کے ایگزام شروع ہو چکے تھے تھکی ہاری سائقہ گھر آئی اور سلام دعا کے بعد صوفے پر گرتی بولی۔۔۔ شکی۔ایک کپ چائے تو بنا دو۔۔۔۔۔ میں نے اس کی طرف سنجیدگی سے دیکھا اور بولا ۔۔سقی تم چائے خود بنا لیتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ نے پہلی بار مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ہماری آپس کی باتوں میں تم انٹری نہیں مارا کرو ۔۔۔اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاکرہ مسکراتے باہر چلی گئی اور سائقہ سر جھکائے بیٹھی رہی میں مسکرا کے اس کی طرف خاموشی سے دیکھتا رہا وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد مجھے دیکھ۔کر نگاہیں چرا جاتی شاکرہ مسکراتی ہوئی چائے کا کپ اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولی۔۔۔ جی ڈاکٹر سائقہ۔۔۔۔۔ سائقہ نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ ڈاکٹر سائقہ ملک۔۔۔۔۔۔ شاکرہ اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگی ۔۔۔۔ اور کچھ دیر بعد بولی سقی چائے ٹھنڈی ہو رہی ۔۔۔۔ سائقہ آہستہ سے شاکرہ سے کہنے لگی ۔۔۔ یہ جو بندہ بیڈ پر لیٹا ہوا ہے ناں بہت ظالم انسان ہے ۔۔۔۔ اس کے پاس خود جانا پڑتا ۔۔۔۔ وہ صوفے سے اٹھی اور اپنا سفید کوٹ اتارتی ہوئے انگڑائی لیتی میرے پاس آئی اور میرے سینے پر الٹی لیٹ گئی ۔۔۔۔۔ میرے ساتھ شاکرہ بھی ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔میں نے اسے اوپر کھینچ کے کچھ دیر پیار کیا پھر وہ مسکراتی اٹھی اور گندے مانوں ۔۔ گندے مانوں کہتی اتر گئی اور چائے پینے لگی۔۔۔۔۔ شام کو وہ اپنی بک۔کے ساتھ کچن چلی گئی اور کھانا بنانے لگی۔۔۔۔۔۔ہم نے ہر اتوار کی۔صبح بستی جانے اور شام کو واپس آنے کی۔روٹین بنا لی ہے زینت کی امی کا گھر ان دونوں کا میکہ بن چکا ہے ۔۔۔۔سونیا مجھے آج بھی للچائی نظروں سے دیکھتی اور بارش کی امید پر آسمان پر نظریں گھما کر بادل ڈھونڈنے کی کوشش کرتی لیکن میں محدود ہو چکا ہوں ۔۔ میں سمجھتا جس دن بھی میں نے ان دونوں سے چھپ کر بھی کچھ کر لیا تو ہمارے گھر سے برکتیں اور محبتیں ایک ساتھ اٹھ جائیں گی ۔۔۔ حالانکہ میرے لئے راستے پہلے سے بھی زیادہ کھل۔گئے تھے اور بستی کے ان کچے گھروں سے میڈیکل کالج اور اس سے بھی آگے تک میری وفا کی داستانوں پر درجنوں میسج اور کالیں آ جاتی تھیں ۔۔۔ ۔۔۔ میں نے اپنے جس وجود کے انگ انگ کو حرام کی لذتوں کا عادی بنا لیا تھا میں اسے ٹوٹے وجود کی۔کرچیاں آج بھی سنبھالنے کی جستجو کر رہا ہوں ۔۔۔جس گاڑی کو میں نے لذتوں کا بیڈ روم بنا لیا تھا اسے آج تک پھر۔نہیں دیکھ سکا ۔۔۔ میں سائقہ کو پا کر اپنے اس میعار پر واپس آ چکا ہوں جہاں سے میں بھٹک گیا تھا ۔۔۔۔ شفقت آج۔بھی بستی میں ذلالت کی زندگی گزار رہا ہے اور زینت کی امی ہر بار شاکرہ سے کہتی ہے بیگم صاحبہ آپ کے چپیڑوں نے اس بگڑے لڑکے کو سیدھا کر دیا سائقہ کی بھابھی سائقہ کو دیکھ کر آج بھی اپنی آگ میں جلتی ہے۔۔۔۔۔ پچھلے دنوں جب ہم رات کو ایک ساتھ کھانا کھانے کے بعد باتیں کر رہے تھے تو میرے ایک عزیز کی۔کال آ گئی انجانا سا نمبر تھا میں نے کال پک کر لی۔۔۔ روہانسے لہجے کی اداکاری کرتا میرا خونی رشتہ کل اپنی بیگم کے۔ساتھ ہمارے ہاں آنے کی بات کر گیا میں نے اوکے کہا اور کال منقطع کر دی ۔۔۔ شاکرہ کو بتایا تو۔پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی زاہد مجھے انہوں نے بہت دکھ دئیے ہیں زاہد یہ جادوگر اب میری سقی کو مارنا چاہتے ہیں (شاکرہ نے سائقہ کو اپنی گود میں لٹا لیا ) میں نے اس اشارہ کرتے ہوئے چپ کرائی اور اسی نمبر پر کال بیک کر لی۔۔۔۔۔ چاچا آپ ہمارے گھر نہیں آئے آپ کی ایک کال پر ہماری سب کی ہنسی آنسوؤں میں بدلنے لگی ہے ہم ایسے خوش ہیں آپ اپنی دنیا میں خوش رہیں ۔۔۔۔۔ میں نے موبائل کو سائیڈ پر پھینکا اور شکی ۔۔سقی پر لیٹتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ اگر شاکرہ اپنے ضد پر قائم رہتی اور اگر اس سے پہلے نہیں تو سائقہ کی امی کی وفات کے بعد اگر مجھے شاکرہ کو طلاق بھی دینی پڑتی تو بھی ناممکن نہیں تھا ۔۔ لیکن شاکرہ نے نہ صرف میدان مار لیا تھا بلکہ محبتوں کے اس پودے کو ایک۔طاقتور درخت بنا لیا تھا ۔۔۔۔ آج ہم تینوں کا ایک دوسرے کے بغیر سیکنڈ گزارنا بھی مشکل ہو چکا ہے سائقہ ایم بی بی ایس سیکنڈ ائیر میں ہے ۔۔۔ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ خون کالے ہوئے تو پوری بستی احساس کے رشتوں سے بھر گئی ۔۔۔ شاکرہ اپنے گھر کی ملکہ ہے۔۔۔۔ سائقہ ہم دونوں کی شہزادی ہے اور پھر پہ دونوں مجھے بادشاہ بنا گئیں ہیں دونوں مجھے بچے نہیں دے سکتی تو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لازمی نہیں کہ انسان کی سب خواہشیں پوری ہوں ۔۔۔ بادشاہوں کے پاس بھی بہت سی حسرتیں باقی رہتی ہیں ۔۔۔ میں بھی اس خلش کے ساتھ عمر بتا سکتا ہوں ۔۔۔۔۔ میں اپنی اس پہلی اور سچی کہانی کو شاکرہ کے نام کرنا چاہتا ہوں جس نے نہ صرف اپنی محبت کو امر کر لیا ہے بلکہ ہم دونوں کو بھی محبتوں میں رنگ دیا ہے ۔۔۔ اگر شاکرہ کی انا باقی رہتی تو پتا نہیں ان دنوں ماں کی وفات کے بعد وہ کہاں ہوتی ۔۔۔۔ میں اپنی اس کہانی کو ان لڑکے لڑکیوں کے نام کروں گا جو ویڈیوز اور چیٹینگ سے اپنا وقت اور اپنی صحت گنوا رہے ہیں ۔۔۔ ان مردوں کے نام کرنا چاہوں گا جو گھر سے باہر۔محبتوں کی تلاش میں اپنا اور اپنی دوست کا گھر بھی تباہ کر دیتے ہیں ان لڑکیوں کے نام کرنا چاہوں گا ۔۔۔ جو کم عمر اور خوبصورت نوجوان ڈھونڈنے کی تلاش میں خود کو کھلونا بنا کر اپنی زندگی برباد کر دیتی ہیں ۔۔۔ ان نوجوانوں کے نام کرنا چاہوں گا جو لڑکیوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں ۔۔۔۔ان لڑکوں کے نام لرنا چاہوں گا جو دیہات کی لڑکیوں پر لطیفے بناتے ہیں ۔۔۔ ان دیہات کی لڑکیوں کے نام کرنا چاہوں گا جو احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں ۔۔ ان بے اولاد جوڑوں کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنی انا۔کی خاطر ۔۔۔ اپنے گھر برباد کر دیتے ہیں ان سب دوستوں کا شکریہ جنہوں نے میری کہانی کو پسند کیا اور اس کے لئے انتظار کرتے رہے ۔۔۔ معذرت کے ساتھ میں تاخیر کا شکار ہوتا رہا کیونکہ میں اب بھی تکلیف میں ہوں اور اپنے بازوں کو ریسٹ دیتا کہانی کی یہ قسط ٹائپ کرتے رات گزار کر صبح کی جانب بڑھ چکا ہوں ۔۔۔ ان دوستوں سے شکریہ ادا کرتے ہوئے جنہوں نے مسینجر پر رابطہ کر کے میری کہانی پر ڈرامہ بنانے کی اجازت چاہی ۔۔ میں بغیر کسی ڈیمانڈ کے اس کہانی کو ان کے نام کرنا چاہوں گا کہ وہ طلاق ہوتے ڈرامے دیکھانے کے بجائے یہ۔بھی دیکھا دیں ۔۔۔۔۔۔ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ۔۔۔ لیکن آج تک کے حالات تقریباً بتا چکا ۔۔۔ اگر ہماری زندگی میں کچھ نیا موڑ آیا تو اس کہانی کی نئی قسطیں دوستوں سے ضرور شئیر کرونگا ۔۔۔ دو روز قبل ایک مانگنے والی عورت گھر آئی شاکرہ سے کچھ باتیں کرتے پوچھنے لگی آپ کا۔مسئلہ شروع سے تھا ؟؟؟ شاکرہ نے بتایا نہیں شادی کے پہلے ماہ۔میں لگتا تھا کہ مجھے حمل ہو گیا ہے لیکن پھر تب سے آج تک یہی لگتا ہے کہ۔میرا پیٹ اندر سے بہت خشک ہو گیا ہے ۔۔۔۔ خاتون ادھر ادھر دیکھتے ہوئی بولی یہ تو جادو ہے اور اس لڑکی کی اولاد بھی نہیں ہو گی (اس نے سائقہ کی طرف اشارہ کر دیا ) شاکرہ نے سائقہ کو دیکھ کر مصنوعی مسکراہٹ کا تبادلہ کرتے مایوسی سے میری طرف دیکھنے لگی۔۔۔ خاتون بولی آپ آج پانچ سو دے دو میں آج بچوں کو گوشت کھلا کے ان سے دعا کراؤں گی ۔۔۔۔۔۔ سائقہ اور شاکرہ نے اپنا اپنا پانچ پانچ سو دیکر نم آنکھوں سے اس خاتون کو گیٹ تک چھوڑ کر واپس آئیں تھیں ۔۔۔۔ ابھی رات ایک بجے کے قریب سائقہ میرے سینے پر مکا مار کے یہ کہتے ہوئے نیند کے مزے میں مست شاکرہ کے سینے پر لیٹتے چلی گئی کہ ۔۔۔ گندے مانوں میں تیری اور شادی کرونگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ (فی الحال ختم شد)

ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

محبت دے دل چوں پلیکھے نی جاندے

محبت دے مجبور ویکھے نی جاندے

محبت نے مجنوں نوں کاسہ پھڑایا

محبت نے رانجھے نوں جوگی بنڑایا

محبت دے لٹے تے ہو جانڑ دیوانے

ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

محبت دی دنیا دے دستور وکھرے

محبت دی نگری دے مجبور وکھرے

محبت دلاں دی کدورت مٹاوے

محبت ہی بندے نوں رب نال ملاوے

محبت نے یوسف نوں مصرے وکایا

محبت زلیخا نوں وی آزمایا

محبت دے وکھرے تانے تے بانڑے

ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

محبت دے رونے تے ہاسے نے وکھرے

محبت دے جھِڑکاں دلاسے نے وکھرے

محبت نے کڈھیاں نےدودھ دیاں نہراں

محبت نی منگدی کسی دیاں خیراں

محبت دی سب توں اے وکھری کہانڑی

نہ سُکھی راجہ، نہ سُکھی رانی

محبت نے جنے وی گائے ترانے

ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

محبت نے ہیراں نوں زہراں پلائیاں

محبت دی نگری چوں گیاں نہ آئیاں

محبت دے اجڑے کدی وی نہیں وسدے

محبت دے روندے کدی وی نہیں ہنسدے

محبت نے مہینوال نوں آزمایا

محبت نہ ویکھے اپنڑا پرایا

محبت دے بدلن کدی نہ زمانے

ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

محبت ہی سسیاں نوں ریتاں تے ساڑے

محبت نے وسدے کئی گھر اجاڑے

محبت دی سوہنی چنانہہ وچ روڑے

محبت ای لہو پئی دلاں دا نچوڑے

محبت نے منصور سولی چڑھایا

محبت نے صادقؔ بلھا نچایا

محبت دی اکھ دے نے وکھرے نشانے

 

 

Post a Comment

1 Comments

Thanks for feeback