بے غیرت کا بچہ
احسن اپنے کمرے میں
بیٹھا مرِنڈا کی چُسکیاں لیتے ہوئے فیس بُک پر مصروف تھا۔ ایک دوست نے گندا لطیفہ
بِما گندی تصویر شائع کیا تھا جس کا چَسکا ابھی جاری تھا کہ اگلی پوسٹ میں
دوسرے دوست کی پوسٹ سامنے آ گئی جس میں اس نے خانہ کعبہ کی بے حد عمدہ تصویر
کی اشاعت کر رکھی تھی۔ احسن نے جلدی سے اسلامی تصویر پسند کر کہ پروفائل آگے
کیا۔ پھر اُس کو وہ عریاں تصویر والا فحش لطیفہ یاد آیا اور اُس کو اپنی ٹانگوں کے
بیچ گدگدی کرتی کمزوری سی محسوس ہوئی۔ احسن نے فیس بُک پروفائل واپس گُھمایا اور
کعبہ کی تصویر پار کر کہ واپس عُریاں پوسٹ پر جا پہنچا۔ اُس کا کون کون سا دوست
اسے دیکھ کر کیسے کیسے قہقہے مارے گا، یہ سوچتے ہوئے احسن نے اپنے مختلف دوستوں کو
ٹیگ کرنا شروع کیا۔
اتنے میں اُس کے فون کی
گھنٹی بجی۔ رضا تھا۔ ہیلو کرتے ہی کراری آواز آئی "کیا کر رہا ہے بھین
چود"؟
قہقہ مار کر احسن بولا
"ابے مادر چود اپنی فیس بُک چیک کر، قسم سے کیا پّپو بچّی ہے اور کس ظالم پوز
میں۔ رانیں چیک کر بھین چود کی، مکھن کے پیڑے ہیں قسم سے"۔
"اچھا؟ ابے سالے
کبھی لائیو پیس بھی چیک کرا کہ تصویروں پر ہی ٹرخاتا رہے گا"؟ رضا نے کراری
آواز نکالی۔ "کتے مجھے ٹیگ کیا ہے کہ نہیں"؟
"ہاں ہاں کیا ہے
سالے، ساتھ میں تیرے سارے سُسرال کو بھی کیا ہے"۔ احسن نے پھر قہقہ لگایا۔
"یہ بتا تیرا بھائی نیویورک پہنچ گیا"؟
"ہاں یار، ابھی
ابھی واٹس ایپ میسج آیا ہے۔ شکر ہے خدا کا فلائٹ وقت پر پہنچ گئی، کل سے اُس
کی کلاسیں شروع ہیں اور تُجھے تو پتا ہے یہ گوروں کی یونیورسٹیاں کتنی سخت ہوتی
ہیں، گوریوں کے سینوں کی طرح"۔ رضا نے پھر قہقہ مارا۔
"اچھا بکواس بند
کر" احسن نے گوریوں کے بیک وقت کھنچے اور اُبھرے ہوئے پستانوں کا تصّور کرتے
ہوئے چَسکا لیا "تو نے آنا مرنا ہے یا میں سو جاؤں؟ تجھے پتا ہے ابّو
منسٹر سے ملنے لاہور آئے ہوئے ہیں، میں رات بھر باہر نہیں رہ
سکتا"۔
"کُتّے سالے پتا ہے
تیرا باپ بڑا افسر لگا ہے، اگلی دفعہ میں بھی سی ایس ایس کلئیر کر لوں پھر دیکھِیں
کیسے بچیاں میرے پیچھے پیچھے ہوں گی۔ ہائے کیا چکنی بچی ہے سالے۔ مِس کر دی تو نے۔
اب باہر بھی مر، گاڑی تیرے گیٹ پہ پونڈی کر رہی ہے"۔ رضا نے احسن کے ساتھ
والے گھر میں داخل ہوتی جوان عورت کے مٹکتے ہوئے کولہوں کو گھورتے ہوئے گاڑی گیٹ
پر روک دی۔ عورت ویسے ہی متناسب جسم کی مالک تھی اُوپر سے چھوٹا بچہ گود میں اُٹھا
رکھا تھاجس سے چال میں مزید جھول آگیا تھا۔ رضا کو احسن کے آتے آتے دو تین بار
اپنے عضوِ تناسل کا پوز ٹھیک کرنا پڑ گیا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی احسن
نے رضا کو ایک زور دار دھپ رسید کیا۔ "اب بتا کیا کھائے گا"؟
"تجھے کہا تھا آج
میں نے ہیرا منڈی کا توا چکن کھانا ہے"۔ رضا بولا۔
"اچھا حرامی، چل آج
تجھے ہیرا منڈی کے مزے کراؤں"۔ احسن شرارت سے بولا۔
"آیا بڑا ہیرا منڈی
کا دلّا، مزے کرائے گا"۔ رضا نے قہقہ لگایا اور احسن کی ران پر زور سے ہاتھ
مار کر گاڑی ڈرفٹ مار کر ہیرا منڈی کی طرف اُڑا دی۔
لاہوریوں کے کھانے کا
وقت ابھی بھی چل رہا تھا لہٰذا نہر پر اب بھی رونق تھی۔ مال روڈ سے ہوتے جب یہ
دونوں ڈَن ہِل سُوئچ کے سُوٹے مارتے اور رَیڈ بُل کے کَین سے گھونٹ بھرتے ہیرا
منڈی پہنچے تو آدھی رات کا دور دورہ تھا۔ ہیرا منڈی میں البتہ کھابے کھانے والوں
کا رَش تھا۔اُنہوں نے توا چکن، آلو ٹِکّی اور بوتلوں کا آڈر دیا۔ رَش کی وجہ سے
گاڑی البتہ ایک پتلی اور نسبتاً اندھیری گلی میں لگانی پڑی۔ کھانا آنے تک
وہ اپنی یونیورسٹی کی لڑکیوں اور محلّہ دارنیوں کے جسموں کے خدوخال پر بے لاگ
تبصرے کرتے اور اِس دوران بار بار ٹانگوں کے بیچ اپنی خصیہ دانیاں کُھجاتے
رہے۔
رَیڈ بُل کے ٹِین کے
چھوٹے چھوٹے کنستر تو ختم ہو چکے تھے مگر سگریٹ بہت تھے۔ رَش کافی تھا چنانچہ
کھانا آتے آتے کوئی پونا گھنٹہ لگ گیا۔ اِس دوران سگریٹ پہ سگریٹ اور ایک پہ دوسرا
گندا لطیفہ چلا۔
ایک تو کھانا دیر سے آیا
تھا اُوپر سے تھا اِتنا مزیدار۔ دونوں نے ہی بھُوک سے کافی زیادہ کھا لیا۔ کھا پی
کر اور بِل ادا کر کہ دونوں کو احساس ہوا کہ طبیعت بہت بوجھل ہو چلی ہے۔ لہٰذا طے
یہ پایا کہ سامنے کھوکھے سے ایک ایک اور بوتل پی جائے۔ کھوکھے پر بوتل کھُلی تو
ایک ایک پان کی گلوری بھی گال میں دبا لی گئی۔ ساتھ میں ایک ایک اور سگریٹ
سُلگ گیا۔ رات کے دو بجا چاہتے تھے۔ رش چَھٹ چُکا تھا، بس اِکّا دُکّا لوگ رہ گئے
تھے۔
باتیں کرتے کرتے وہ
اندھیری گلی میں کھڑی اپنی گاڑی کے پاس آکھڑے ہوے۔ اِس وقت موضوعِ سخن یہ تھا کہ
اُن کی اسلامیات کی ٹیچر کیا اپنے خاوند سے صُحبت صرف سیدھی لیٹ کر ہی کرتی ہوں گی
یا پھر کسی دوسری حالت میں بھی ہم بستری پر مان جاتی ہوں گی؟ بحث اتنے دلچسپ پیچ و
خم سے مزیّن تھی کہ دونوں نے گاڑی سے ٹیک لگا کر ایک ایک اور سگریٹ سُلگا
لیا۔
ابھی یہ سگریٹ ختم ہوئے
تھے نہ بحث کہ ایک چھوٹے قد کا کالا سیاہ آدمی لنگڑاتا ہوا اُن کے پاس آ
کھڑا ہوا۔ پاس آنے پر اُنہوں نے دیکھا کہ اُس کی شلوار قمیض نہایت گندی اور دو ایک
جگہ سے پھٹی ہوئی تھی۔ اُس کہ کندھے پر پڑا رنگین دھاری دار پَرنا
البتہ شفاف دکھائی دیتا تھا۔ انہیں کچھ گھِن سی آئی۔ کوئی عام وقت ہوتا تو
وہ اِس گندے آدمی کو نظر انداز کر کہ اپنی باتیں کرتے رہتے۔ مگر ایک تو آدھی رات
کا وقت اُوپر سے ہیرا منڈی کی اندھیری گلی۔ لاشعوری طور پر دونوں چُپ کر کے ٹُکر
ٹُکر گندے آدمی کو دیکھنے لگے۔
"مال چاہئیے
بابو"؟ گندے آدمی نے پوچھا۔
اوہ تو یہ سچ ہے۔ دونوں
نے سوچا۔ تو یہ محض کہانیاں نہ تھیں۔ یہ گندا ٹِھگنا آدمی واقعی طوائفوں کا دلّال
تھا اور جس مال کا وہ ذکر کر رہا تھا وہ رنڈیاں تھیں۔ دونوں کے دل ایک ساتھ اتنے
زور سے دھڑکے کہ اُنہیں لگا دلال نے اُن کے دلوں کی دھڑکنیں سُن لیں ہوں گی۔ مگر
یہ اُن کا خام خیال ہی تھا۔ دلال اُنہیں رِجھانے کے لئیے بتا رہا تھا کہ اُس کی
لڑکیاں بہت کم عُمر بھی تھیں اور کم قیمت بھی۔ اور یہ کہ وہ ہر کسی کو گاہک نہیں
بناتیں اِس لئے وہ دونوں بہت خوش قسمت تھے جو انہیں یہ نعمت میّسر آ رہی تھی
۔ مزید یہ کہ اُس کے حالات بہت خراب تھے اگر وہ دونوں لڑکے اُس کا مال اٹھا
لیں تو اُس کی بھی کچھ روزی روٹی چل جائے گی۔
دونوں کو لگا کہ اُن کے
دماغ سُن ہو چکے ہیں۔ نا اُن سے ہاں ہو رہی تھی نہ نا۔ مگر جب دلال نے گھگیانہ
شروع کیا تو دونوں کو حوصلہ ہوا۔ اور اُن کے اندر کا شجاع مرد بیدار ہو گیا۔
ایک دوسرے کو جھجھکتے ہوئے دیکھا اور ایک ایک اور سگریٹ سلگا لیا۔ سگریٹ سلگتے ہی
دلال اپنے وسیع تجربے کی بِنا پر سمجھ گیا کہ شکار دام میں آنے کے لئیے پر تول رہا
ہے۔ اُس نے بڑھ چڑھ کر اپنے مال کی خوبیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔ کبھی اُتلے دھڑ
کے نقشے کھینچتا کبھی نچلے دھڑ کے گُن گاتا۔ سگریٹ کے ختم ہوتے ہوتے دونوں شکار
دام میں آنے کے لئیے پوری طرح تیّار ہو چکے تھے۔
طے یہ ہوا کہ دام کا
فیصلہ مال کی عُمر اور خدوخال دیکھ کر کیا جائے گا۔
دلال کے پیچھے چلتے ہوئے
وہ قریب ہی ایک مزید تنگ اور مزید اندھیری گلی میں داخل ہوئے۔ ایک مکمل تعمیر شدہ
سے کم مگر زیرِ تعمیر سے زیادہ تعمیر شدہ عمارت کے سامنے جا پہنچے۔ تیسری منزل پر
ایک چھوٹا سا برقی قمقمہ جل رہا تھا جس کی بہت زیادہ ناکافی روشنی میں سیڑھیاں
خاصی خطرناک لگ رہی تھیں۔ یہاں پہنچ کر پہلی بار دونوں گاہکوں کو احساس ہوا کہ اگر
اِس وقت یہ دلال پستول یا صرف چاقو ہی نکال لے یا اِس کا کوئی ساتھی ہتھیار لے کر
آ جائے تو اِنہیں لوٹنا بہت آسان تھا۔ تو کیا یہ ایک جال تھا؟ محض انہیں لوٹنے کے
لئے؟ ہیرا منڈی میں کوئی انسانی ہیرے نہیں ہوتے؟ وہ سب واقعی کہانیاں تھیں؟ اب
انھیں واقعی لوُٹ لیا جائے گا؟ وہ گھر کیا بتائیں گے؟ مگر اب دیر ہو چکی تھی۔
وہ ہمت کر کہ دلال کے
پیچھے پیچھے نیم اندھیری سیڑھیاں چڑھ گئے۔ ایک کمرے میں جا پہنچے۔ چھوٹا، گندہ،
گھٹن زدہ۔ غلیظ رضائیوں میں تین جسم خراٹے مار رہے تھے۔ دو پلنگ پر اور ایک نیچے
پھٹے ہوئے قالین پر۔
"اُٹھ کنجری"۔
دلال نے نچلے جسم کو پاؤں سے ٹھوکر ماری۔ دلائی کے نیچے ایک نسوانی بدن کسمسایا۔
ایک دو اور ذرا اُنچی آواز میں "دابے" مارنے پر تینوں مال جماعیاں لیتے
ہوئے اُٹھ بیٹھے۔ یہ تینوں عورتیں کئی کئی بچوں کی مائیں، موٹے اور بھدے بدن کی
مالکائیں اور خاصی بدصورت تھیں۔ دونوں گاہک جن کے دِل عمارت کی سیڑھیاں دیکھ کر ہی
خراب ہو رہے تھے، تجوری اور اُس میں محفوظ مال دیکھ کر بلکل ہی بدک گئے۔
"ابے دلّے، یہ ہے
تیرا مال؟ یہ رنڈیاں ہیں؟ ان سے اچھی تو ہمارے گھر میں جمعدارنیاں ہیں۔ تو نے
سمجھا کیا ہے ہمیں؟ ہم تجھے اِن گندی عورتوں سے کرنے والے لگتے ہیں۔ ان کو
تو ہم مفت میں بھی نہ چودیں۔ آخ تھو۔ مجھے تو سوچ کر ہی گِھن آ رہی ہے"۔
"نہیں صاحب، یہ
اتنی بُری نہیں ہیں۔ بتّی کم ہے۔ ابھی اِن کا مُنہ دھلاتا ہوں صاحب آپ کو پسند
آئیں گی۔ اور دیکھاتا ہوں صاب، اور بھی ہیں۔ یہ دیکھیں صاب اس کا سینہ تو دیکھیں
صاحب۔ ابھی کپڑے اتارے گی تو پھر اِس کی اُٹھان دیکھنا صاب۔ چل حرامزادی قمیض
اُتار کے دِکھا صاب کو۔ یہ نخرا بلکل نہیں کرتی صاب۔ جو کہو گے کرے گی صاب۔ صاب۔
صاحب"۔
مگر دونوں صاحب باہر نکل
گئے اور سیدھے گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
ذرا آگے جا کر دونوں کو
سانس آیا۔ ایک ایک اور سگریٹ سلگ اُٹھا۔ "کتنی گندی عورتیں تھیں یار۔ مجھے تو
قے ہی ہونے لگی تھی"۔ آخر کار رضا بولا۔
"ہاں یار، اور کتنی
بدصورت بھی"۔ احسن بولا۔ "وہ حرامزادہ ہمیں کہاں پھنسانے لگا تھا۔ ایسی
عورتوں سے تو بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ یخ"۔
"ہاں تو اور کیا؟
اور دیکھو تو کیسی بے غیرت تھیں۔ وہ دلا اُن کے سینوں اور جسموں کی غیر مردوں کے
سامنے تعریفیں کر رہا تھا اور وہ مزے سے بیٹھی تھیں۔ ذرا شرم نہیں تھی اُن
کو"۔ رضا بولا۔
"شرم؟ ابے سالے وہ
تو تجھے اپنے پُستان نکال کر دکھانے لگی تھی۔ حرامی چیک ہی کر لیتا"۔ احسن نے
قہقہ لگا کر کہا۔
"ارے دفع کر یار۔
اِتنی گندی عورتیں اور اُوپر سے ایسا دو نمبر دلال۔ لعنت بھیجتا ہوں میں ان
پر"۔ رضا کا مُوڈ ٹھیک ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔
"واقعی یار۔ یہ اِن
کا دلال تو بہت ہی حرامی تھا۔ یہ رنڈیاں اِسی کی وجہ سے ماری جائیں گی۔ اُس کتے کے
بچے کا بس چلتا تو اُن گشتیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی وہیں ننگا کر کہ اُن پہ چڑھا
دیتا اور اپنے پیسے کھرے کرتا"۔ احسن نے پھر چسکے لیتے ہوئے کہا۔ مگر وہ دیکھ
رہا تھا کہ رضا کا مُوڈ اب بھی خراب تھا۔
رضا نے گاڑی کے شیشے سے
تھوک پھینکی اور کڑوے لہجے میں بولا "سالا دلّا حرامی۔ بے غیرت کا بچہ"۔
0 Comments
Thanks for feeback