دیہاتی
لڑکی
چوتھی
قسط
تحریر:
ماہر جی
میں چارپائی سے اٹھ کر کھڑکی
کے پاس چلا گیا گودام سے زینت اور سائقہ کی مدھم سی آوازیں آ رہی تھی میں نے اپنی
سائیڈ سے کھڑکی کی کنڈی کھول دی دوسری طرف سے بھی کنڈی کھل چکی تھی سائقہ کے بعد
زینت بھی اندر آ چکی تھی لیکن میں نے پہلے آنے والی سائقہ کو باہوں میں بھر کے
آنکھیں بند کر لی تھی سائقہ نے بھی اپنی باہیں میرے گرد لپیٹ لیں وہ میرے سینے پر
کسنگ کرتے ہوئے بولی کہ آج مجھے قتل کرو گے ناں ؟؟۔ میں نے سائقہ کا چہرہ اوپر
پھیر کر اس کے گالوں کی مکھن جیسی نرمی کو اپنے منہ میں بھرتے ہوئے کہا آج تو آپ
کو میزائل مار کر دو ٹکڑے کر دونگا۔۔۔ سائقہ نے پیار بھرے انداز میں اپنی بڑی
پلکیں تھوڑی بند کرتے ہو چپپپپپ کی آواز کے ساتھ مجھے کس کرتے ہوئے بولا تو جلدی
کرو ناں ۔۔۔۔ پیچھے ٹھہری زینت نے اس کے پونی میں جکڑے بالوں کو کھینچ کر کہا اب
قبضہ نہیں کرو ۔۔۔ یہ میرا یار ہے میں نے زینت کو پیچھے پیچھے کرتے ہوئے کہا تم نے
اپنا کھلایا مکھن صبح نکال لیا تھا اب صرف ایسے دیکھتی رہو گی جیسے صبح سائقہ دیکھ
رہی تھی سائقہ نے وشششش کرتے ہوئے مجھے اپنی باہو میں مذید زور سے جکڑا اور اپنی
ایڑیاں اٹھاتے ہوئے تھوڑی اوپر ہوئی اور اس کے بوبز میرے پیٹ سے رگڑا کھا کر میرے
سینے کے نچلے حصے تک آ گئے اور صبح سے شل ہونے والے ببلو کی جان میں جان آنے لگی
سائقہ کی ٹائٹ پاجامے میں جکڑی ٹانگیں میری ایک ٹانگ پر سانپ کی طرح لپٹی ہوئی تھی
زینت کی نگاہیں میرے ہاتھوں پر تھی جو زور زور سے سائقہ کے بھاری ریشم جیسے ہپس کو
اپنی لپیٹ میں لے لے کر مسل رہے تھے میں نے سائقہ کو کسنگ کرتے ہوئے اپنی باڈی سے
آہستہ آہستہ الگ کیا زینت آگے بڑھ کر میری چھاتی پر زور کا مکا مار کر شکوے بھری
نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگی میں نے زینت کو آنکھ مار دی وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر
میری پینٹ کا بلٹ کھولنے لگی زینت مجھے پیارے سے دیکھتے اپنے ہونٹوں پر آنے پانی
کو صاف کر رہی تھی زینت نے پینٹ اور انڈروئیر میری ٹانگوں سے کھینچ لی سائقہ کھڑکی
کے پردے کو ہٹاتی ہوئی ہوئی جھک کر گودام میں کچھ دیکھنے لگی تھی اس کی قمیض آدھے
ہپس تک اٹھ گئی تھی موٹے ہپس کے ساتھ پتلی کمر کا یہ نظارہ دیکھ کر میرے لبوں سے
آہہہ نکلی سائقہ اس طرف سے کھڑکی کو کنڈی لگا کر واپس آ گئی زینت نے میری انڈروئیر
نیچے کھینچی لی ببلو بھوکے بھیڑیے کی طرح ہچکولے کھاتے باہر آ گیا زینت انڈروئیر
میرے پاؤں سے نکالنے لگی اور سائقہ کا ہاتھ بھوکی بلی کی طرح ببلو کو طرف جھپٹا
ریشم جیسے بھرے بھرے گورے چھوٹے ہاتھوں کا لمس پا کر ببلو فراٹے بھرنے لگا سائقہ
کی انگلیاں آپس میں نے مل رہی تھی وہ مسلسل وشششش وشششش کر رہی تھی اور دوسرے ہاتھ
سے اپنے بوبز مسلنے لگی تھی صبح گاڑی میں زینت کا زوردار شارٹ دیکھ کر نہ صرف
سائقہ کا سارا خوف ختم ہو گیا تھا بلکہ اس کی پیاس اس حد تک بڑھی ہوئی تھی اکثر
سارا دن والے بار بار اپنی ببلی پر ہاتھ رکھتی رہی تھی زینت نے سائقہ کی ہاتھ سے
آگے ببلو کو اپنے ہاتھ میں لیکر اس کی ٹوپی پر اپنے لپس رکھ دئیے سائقہ لرزتے جسم
کے ساتھ کبھی مجھے اور کبھی ببلو کو چوستی زینت کو دیکھ رہی تھی میں نے سائقہ کو
کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا سائقہ کہ گلے میں لٹکے دوپٹے کو ٹیبل پر رکھا اور
اس کے ہپس پر تھپکی دیتے ہوئے اس کے چہرے کو اوپر کر کے اس کے ہونٹوں کو اپنے
ہونٹوں میں جڑ لیا سائقہ کے بوبز پر پھرتا میرا ہاتھ سائقہ نے پکڑ کر دو بار اپنی
ببلی پر رکھا وہ زینت کی طرح کھلی ہمت نہیں کر پا رہی تھی لیکن زینت سے زیادہ ہاٹ
ہو چکی تھی میں نے اس کی قمیض کے دامن پکڑ کر اوپر اٹھانا شروع کر دئیے تھے پتلی
کمر سے قمیض کے ساتھ سائقہ کی شمیض بھی اوپر آ رہی تھی بوبز کے آنے تک میں سائقہ
کے چھوٹے پیٹ کو دکھ رہا تھا جو شدت جذبات سے بل کھا رہا تھا اور لرزتے جسم کے
ساتھ سسکیاں لے رہی تھی مجھے زینت کے منہ بھر بھر کے ببلو کے چوسنے سے زیادہ سائقہ
کے شفاف نازک جسم کو ہاتھ لگانے اور اسے دیکھنے میں مزہ آ رہا تھا قمیض سائقہ کے
بوبز پر آ کر رک گئی تھی میں نے اپنا بایاں ہاتھ سائقہ کی قمیض میں رگڑ کر ڈالا
اور باری باری دونوں اس کے دونوں بوبز کر پکڑ کر قمیض کی جکڑ سے آزاد کیا سیاہ کلر
کا بریزر بھی قمیض سے محبت نبھاتا اس کے ساتھ اوپر کو اٹھ گیا تھا میں نے سائقہ کی
قمیض کو ادھر ہی چھوڑ دیا اور اس کی کمر پر ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف کھنچ لیا میں
نے سائقہ کے گلابی تنے ہوئے نپلز پر ہونٹ ٹکائے تو بھی سستے ہوئے بولی جلدی
کروووووو سائقہ نے اپنی قمیض اپنے کندھوں سے اتار کر بریزر اور شمیض بھی دور پھینک
دی زینت نے اٹھ کر ایک منٹ میں اپنے کپڑے اتار دئیے میں سائقہ کے بوبز کے درمیان
کسنگ کرکے اپنی آنکھوں کو اس کے نرم و نازک ریشمی بوبز پر دبا کر اپنی پوری پیاس
بجھانے کی کوشش کر رہا تھا زینت مجھے پیچھے دھکیل رہی تھی میں سائقہ کو پتلی کمر
سے پکڑے ساتھ لا رہا تھا میرے دونوں ہاتھ سائقہ کی کمر کے گرد لپتہ ہوئے تھے جس سے
انگوٹھے اور میری انگلیاں تقریباً آپس میں ملے ہوئے تھے سائقہ کے پاجامے پر لاسٹک
سے تھوڑا آگے گولائی میں گھومتی نیچے تک لکیر بنی ہوئی تھی میں سوچ رہا تھا کہ آج
بستی کے جس مرد نے بھی سائقہ کو دیکھا ہو گا وہ اسے کسی طریقے ضرور چودے گا میں
چارپائی پر بیٹھتے ہوئے سائقہ کے پاجامے سے ہپس کو آزاد کرنے لگا تھا زینت نے مجھے
لٹاتے ہوئے مجھے پیار سے دیکھ کر بولا صبر اور پھر اپنی انگلیوں پر تھوک لگا کر
اپنی ببلی پر پھیرا اور ببلو کو ڈنڈے سے پکڑ کر اس کی ٹوپی کو ببلی کے منہ پر ٹکا
کر افففف اففف کر کے دو جھٹکوں میں پورا ببلو ببلی میں چھپا لیا میں اپنے سر
اٹھائے گھوڑی بنی سائقہ کے ہپس اس کے ٹائٹ پاجامے سے آزاد کر چکا تھا میں بار بار
اس کی ہپس کو منہ بھر کر چوس رہا تھا اور ساتھ پاجامے کو اس کی ٹانگوں سے کھینچتا
چلا گیا پاجامہ الٹا ہوتے ہوئے اس کی ٹانگوں خو آزاد کر چکا تھا آج زینت ایک بار
پھر سائقہ کے مقابلے میں سانولی نظر آ رہی تھی زینت تالی جیسی آواز کے ساتھ زور کے
جھٹکے مار رہی تھی اور ساتھ سائقہ کے اتنے خوبصورت جسم کو دیکھ کر قدرے حسد زدہ
چہرہ بنا رہی تھی سائقہ اتنی ھاٹ ہو چکی تھی کہ زینت کے جھٹکے کے ساتھ وہ بھی اسی
زور سے ہپس ہلا رہی تھی اور میں زینت کے اندر پورا آتے جاتے ببلو سے بے نیاز اس کے
ہپس کو چوسنے کا مزہ لے رہا تھا زینت آخری لذت بھرے لمحوں کی طرف بڑھ رہی تھی اور
اس کے زور دار جھٹکوں سے چھوٹی چارپائی تین جسموں کا وزن اٹھائے اوپر نیچے ہو کر
ہلکی سی چیں چیں کر رہی تھی زینت آنکھیں بند کرتے اکڑے جسم کے ساتھ کمر کو بل دیتی
جھٹکے روک چکی تھی میں نے سائقہ کی ہپس پر تھپکی دی اور سیدھی بیٹھ کر سوالیہ نظروں
سے مجھے دیکھ کر پوچھ رہی تھی کہ کیا کرنا ہے زینت پورا ببلو اندر لے کے مجھے جکڑے
میرے اوپر پڑی تھی میں نے زینت کے ہپس اوپر اٹھا کر ببلو نکال لیا اور زینت کو
سائقہ کی طرف چارپائی پر سرکا دیا میں بیٹھ کر ٹیبل سے چھوٹی بےبی لوشن اٹھا لی جو
میں ان کے ساتھ شہر سے لایا تھا سائقہ گھٹنوں کے بل بیٹھی لرزتے اور باڈی سے گرم
لہریں چھوڑتی میرے آرڈر کی منتظر تھی میں نے بہت سا لوشن پورے ببلو پر لپیٹ کر اسے
قدرے سفید کر دیا میں تکیے کے اوپر سر ٹکا کے سائقہ کی کمر سے پکڑ کر تھوڑا آگے
کیا سائقہ نے سوالیہ انداز میں مدھم لرزتی آواز میں بولا ۔۔اووپرر میں نے ہس کہہ
دیا سائقہ نے لرزتے جسم اور پل کھاتے پیٹ کے ساتھ اپنی ایک ٹانگ میرے اوپر سے
چارپائی پر دوسری طرف رکھ دی زینت کہنیوں کے سہارے تیز سانسوں کے سر اوپر اٹھا لیا
تھا اور یہ خوبصورت نظارہ دیکھنے لگی بہت سخت ہوتے اور فراٹے بھرتے ببلو کی ٹوپی
تک ببلی کے منہ کو لانے کے لئے سائقہ کو اپنی ٹانگیں تقریباً کھڑی کرنی پڑیں تھیں
میں ایک بار پھر لوشن نکال کے ببلو پر لگایا اور ایک فنگر پر لوشن لگا کر تیزی سے
سائقہ کی لکیر کے بیچ پھیر دیا اس نے سسکی کے ساتھ آئی کی آواز نکالی ببلی کی لکیر
کو ٹوپی تک لانے تک ببلو کپ ٹوپی سائقہ کی آپس میں ملی رانوں کے بیچ رگڑ کر جا رہا
تھا سائقہ تیز کانپنے لگی تھی وہ آہستہ آہستہ بیٹھنے لگی تھی میں ٹوپی کے نیچے
ڈنڈے پر لوشن کی بوتل خالی کر رہا تھا ببلی کے ہونٹوں کے بیچ ٹوپی جانے پر سائقہ
نے ٹھنڈے احساس کے ساتھ پر سکون وشششش کی آواز نکالی اور چہرہ اوپر اٹھا کر آنکھیں
بند کر لیں اس نے اپنے ہاتھ میرے پیٹ پر ٹکائے ہوئے تھے ببلو سائقہ کی رانوں میں
سیاہ کوا دیکھائی دے رہا تھا وہ بہت محتاط انداز میں ببلو کو اندر لیتی جا رہی تھی
ببلی کی منہ میں داخل ہوتے لوشن میں لپٹے ببلو نے سلپ ہو کر تھوڑا آگے کی راہ لی
بند آنکھوں کے ساتھ سائقہ کے چہرے پر درد کے آثار نمایاں ہو رہے تھے سائقہ کے جسم
کا لمس پا کر ببلو کچھ زیادہ پھولنے کے سختی بھی پکڑ چکا تھا ببلو اپنی ٹوپی سمیت
تین انچ تک سائقہ کی ریشم جیسی سلکی نرم اور شہد جیسی میٹھی بلی میں جا چکا تھا
سائقہ نے میرے پیٹ پر رکھے ہاتھوں پر دباؤ بڑھا کر اپنے ہپسبکو آہستگی کے ساتھ
اوپر نیچے حرکت دینی شروع کر دی تھی سائقہ نے گزشتہ شب کی کاروائی سے فائدہ اٹھاتے
ہوئے چار انچ اندر لے چکی تھی وہ چاہتی تھی کہ زینت کی طرح پورا ببلو اپنے اندر
چھپا کر زور سے ہپس کو چلا کر تالی جیسی آواز کے ساتھ جھٹکے مارے لیکن اندر لینے
کے بعد وہ جیسے بے بس ہو چکی تھی اور کبھی کبھی آنکھیں کھول کر زینت کو ان نگاہوں
سے دیکھتی جیسے کہہ رہی ہو کہ زینت اتنا کیسے لے لیتی ہو سائقہ سترہ برس کی تھی
اور زینت سے دس ماہ بڑی تھی لیکن سائقہ لوگ زینت لوگوں سے زیادہ خوشحال تھے سائقہ
کا ابو قطر میں تھا اور بھائی بھی کراچی میں کوئی کام کرتا تھا اور زینت کا بھائی
اور باپ کسی اور کی زمینوں پر محنت مزدوری کرتے تھے اور اسی وجہ سے زینت سکول نہیں
پڑھ سکی تھی اور اس کی سولہ برس کے ہونے سے بھی کچھ پہلے نعمت سے شادی کر دی تھی
گو اب زینت میری دوستی کے بعد کافی ماڈرن اور خوبصورت ہو گئی تھی لیکن سائقہ اپنے
بھائی کی طرح ماں بال کے ہاتھوں نازوں سے پلی تھی اور وہ سائقہ کو سکول کے بعد
کالج اور آگے بھی پڑھانا چاہتے تھے سائقہ اب ذرا آسانی سے اندر باہر کر رہی تھی
میں اس کے خوبصورت مکھن کے پیڑوں جیسبوبز کو ہاتھوں میں پوری طرح بھر کے انجوائے
کر رہا تھا میں نے محسوس کیا کے سائقہ کے جوشِ میں اضافے کے ساتھ اس کی ٹانگیں
قدرے تھک چکی ہیں تو میں نے اس وقت سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی میں نے ایک
بار پھر اپنے ہاتھ پر بہت سا لوشن لگا کر ببلو کے باہر کھڑے ترستے حصے پر لگا دیا
اور سائقہ کے ہپس پر تھپکی دیے کر اسے تیز ہونے کا بولا سائقہ کی ٹانگیں ایسے جھک
کر بھاری ہپس کو اوپر نیچے چلا کر تھک چکی تھیں اور اس وقت ببلی اوپر نیچے ہوتے
وقت اپنے نشانے سے تھوڑی عدم توازن کا شکار ہو رہی تھی میں نے سائقہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افففففففففف۔۔۔ میں نے سائقہ کے ہپس پر تھوڑا زور کا تھپڑ مارا جس سے اس نے سپیڈ
ذرا تیز کر دی اور ایک وقت میں اس کے اٹھتے ہپس کو ٹانگوں نے چھوڑ دیا اس کے ہپس
نیچے آتے ھوئے لوشن سے چکنے ببلو کو اپنی برداشت سے زیادہ ببلی میں اتار دیا آ آ آ
آ آ آ آ کی لمبی آواز کے ساتھ سائقہ کے چہرے پر درد کے گہرے اثراث کے ساتھ اس کے
چہرے پر پسینے کی ننھی بوندیں ظاہر ہو گئی وہ گھٹنوں پر زور لگا کر اپنے ہپس اوپر
اٹھانا چاہتی تھی لیکن اس کی ٹانگیں اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اور ساتھ میں نے
سائقہ کے ہپس کو ادھر ہی پکڑ لیا ببلو اپنی تمام تر موٹائی کے ساتھ سات انچ اندر
جا چکا تھا سائقہ کے بوبز اپنی گلابی بپلز کی بہار کے ساتھ تن گئے تھے سائقہ کا
جسم میری کھڑی ٹانگوں کے ساتھ پھنس کر ببلو کی جڑ کے تقریباً اڑھائی انچ باہر
چھوڑے اٹکا ہوا تھا وہ سر جھکائے بری طرح لڑکھڑا کانپ رہی تھی اس کا منہ کھلا ہوا
تھا اور وہ مکمل خاموش تھی اس حالت کو انجوائے کرتے ہوئے زینت نے لمبی سے
وششششششششششش کی آواز نکالی زینت کبھی سائقہ کی ببلی میں پھنسے ببلی کو دیکھتے تو
کبھی حیرت سے سائقہ کے چہرے کو سائقہ کے آنسوؤں میرے سینے کے نچلے حصے پر گرنے لگے
تھے ستر روپے کی لوشن کی چھوٹی سی ڈبیہ نے آج تھوڑی ہی دیر میں وہ کام کر دیا جس
پر شاید مجھے ہفتہ لگتے آج مجھے صحیح مانوں میں یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اس کو
بےبی لوشن کیوں کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔میں سائقہ کے ہپس کے وائٹ میٹ۔۔۔۔۔۔ کو ہاتھوں میں
بھرا ہوا تھا میں آخری لمحات کی طرف بڑھنے لگا تھا میں نے سائقہ کے فل بھرے ہپس کو
تھوڑا اپنی طرف کھینچا اور اپنی کمر کو بل دیکر ہلکا سا جھٹکا دیا لوشن نے ببلو سے
جیسے رشوت لے رکھی ہو ببلو آگے پھسل گیا تھا ۔۔۔۔ سائقہ کی ساری ہمت جواب دے گئی
تھی اور وہ منہ میرے پیٹ پر رکھے اپنے ہاتھوں کو چارپائی پر پھسلا کر میرے اوپر گر
گئی تھی سائقہ کا سر میری تھوڑی کے نیچے آ گیا تھا اور اس کے بال میرے لبوں پر
لگنے لگے تھے میں اس کو ہپس سے پکڑ کر اپنی طرف کھنچے ساکت پڑا اسغکے براؤن بالوں
کو ہلکی ہلکی کس کر رہا تھا جب سائقہ تھوڑی نارمل لگنے لگنے لگی تو میں اپنی کمر
کو تھوڑا بل دے کر ببلو کو کو تھوڑی حرکت دینے لگا سائقہ کی سسکیاں نکلنے لگی تھی
اور لڑکی کی ایسی سسکیاں میرے دل کو بہت بھلی لگتی ہیں بظاہر بھرے جسم والی سائقہ
میرے اوپر پڑی مجھے ریشم کی گٹھری محسوس ہو رہی تھی اور میں اس کے نازک ملائم جسم
کو ہر انگ سے پکڑ کر اپنا مزہ دوبارہ کر رہا تھا چاہے کہ سائقہ کے لئے یہ اپنے
اندر خنچر بن کے اترا تھا لیکن ببلو اپنے آپ کو نفیس ریشمی دیواروں میں پھنسا
محسوس کر رہا تھا سائقہ نے چارپائی سے قدرے اٹھی میری کمر کے نیچے اپنے ہاتھ لیجا
کر ناخنوں سے نوچتے ہوئے مجھے اوپر کھینچ رہی تھی جان نکال دینے والے درد نے سائقہ
کی ٹائمنگ بڑھا دی تھی ورنہ ببلو کے چار انچ حصے کو اندر لیتے ہوئے وہ کافی دیر
پہلے آخری لمحات کی طرف بڑھ کر تیزی پکڑ رہی تھی لیکن اس کے بعد ایک دم سے ببلو کے
اندر چلے جانے سے اس کے ہوش اڑ گئے تھے میں صرف دو انچ کو آرام سے اندر باہر کر
رہا تھا انہہ انہہ کی سینے سے نکلنے والی درد بھری آواز میں سائقہ درد بھرے مزے
میں آخری لمحات کو بڑھ گئی تھی اس نے آئی آئی آئی کی آواز سے جسم کو اکڑا لیا تھا
وہ بند آنکھوں سے سر کو توڑا اوپر اٹھا کر پانی پینے والے انداز میں اپنے ہونٹوں
کو ہلانے لگی میں اب بھی ہلکے جھٹکے دے رہا تھا مجھے جسم کی رگوں میں اکڑاہٹ محسوس
ہونے لگی میں نے سائقہ۔۔۔۔۔۔ کے ہپس پر تھپکی دے کر کہا کہ تھوڑا اٹھ جاؤ ۔۔۔ اس
کے چہرے پر درد کی لکیریں ظاہر ہو رہی تھی اور وہ آہستہ آہستہ آئی ۔۔۔۔۔۔۔ آئی
۔۔۔۔۔ کرتی اپنے ہپس اوپر اٹھا رہی تھی پھر اس نے آنکھیں کھول کر ببلو کی ٹوپی کو
ببلی کے ہونٹوں سے نکلنے کا دلکش نظارہ دےکھا اور جسم کو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے زینت
کی ٹانگوں پر الٹی لیٹ گئی اوپر کو اٹھے سائقہ کے سفید ریشم کی گٹھری جیسے ہپس
مجھے رات کے دوسرے شاٹ کی یاد تازہ کرتے ہوئے مجھے اپنی طرف بلانے لگے اور ان کا
نظارہ کرتے ہوئے میں اٹھنے لگا تھا میرے ہاتھ خودبخود لوشن کی ڈبیا ڈھونڈ رہے تھے
زینت نے سائقہ کے ہپس پر چٹاخخخخ سے زور کا تھپڑ لگایا اور بولی بہانے نہیں بناؤ
سیدھی لیٹو ابھی آدھا کام باقی ہے سائقہ نے ہپس کو ملتے ہوئے غصے سے زینت کی طرف
دیکھا اور غمزدہ زخمی لہجے میں بولی میں بہانے بنا رہی ہوں ۔۔۔؟؟؟ زینت بولی بہانے
نہیں تو اور کیا ہے خون تو نکلا نہیں ۔۔۔۔ سائقہ بولی خون میں نے روکا ہے پھر کیا
؟؟؟؟ میں تیز سانس لیتے ہوئے فخر سے اکڑے ببلو پر لوشن لگاتا مسکرا رہا تھا زینت
مجھے آنکھ مار کر بولی دیکھو سیل کسی اور سے تڑوائی اور عشق تم پر وار رہی ہے میں
میں سائقہ کی طرف بڑھتے ہوئے بولا آپ نے بھی تو سیل نعمت سے تڑوا کر مجھ پر عشق
جھاڑا ۔۔۔ سائقہ آنکھیں بند کئے الٹی لیٹی ہوئی ساکت ہو گئی زینت نے اس کے بوبز کے
قریب ہاتھ رکھ کر بولی ۔۔۔ابھی زندہ ہے جلدی ڈالو ۔۔۔۔ میں سائقہ کے ہپس کو اپنے
ہاتھوں سے الگ کر کے ببلو کو لکیر کے پاس لانے لگا سائقہ نے التجا بھرے لہجے میں
میں کہا ادھر تو نہیں کرو لیکن میں نے ببلو کو ہول کے منہ پر رکھا تو وہ تڑپ کھا
کر اوپر اٹھ گیا زینت بولی اففففففففف پیچھے ۔۔۔۔۔آئی آئی آئی کی آواز کے ساتھ
سائقہ کی ہپس لرزنے لگے اور اس کی باڈی ہلکے جھٹکے کھانے لگی ببلو اپنی پوری سختی
کے ساتھ ہپس کے بیچ نرمی سے اتر رہا تھا مجھے کے یہ لمحات میں انرجیاں بڑھا رہی
تھی سائقہ نے چہرہ اوپر اٹھا لیا تھا وہ منہ اور آنکھیں کھولی سسک کو بولی بس کرو
میں نے دیکھا جیسے اس کی زبان باھر آنے لگی تھی تقریباً پانچ انچ ببلو گرم وادی
میں اتر چکا تھا میں نے ہپس کو اپنے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کیا تو وہ ایک دم ببلو
کر گرد لپٹ گئے ۔۔۔ زینت نے اپنے ہاتھوں سے سائقہ کے۔کندھے پکڑ کر مجھے کہا کہ میں
پکڑتی ہوں اس کو آپ زور سے پورا ڈال دو سائقہ نے اس کے ہاتھ جھٹک کر دردِ میں ڈوبی
آواز میں کہا تم تو ہٹ جاؤ۔۔۔۔۔۔ زینت نے میرے ہاتھوں کے پاس سائقہ کے ہپس پر
تھپکی دے کر بولا کیسے نئے فینسی سوٹ مواس کو مٹکا مٹکا کے چل رہی تھی ۔۔۔ اب بتا
بچی مفت کے سوٹ پہننا اتنا آسان بھی نہیں میں مسکراتے ہوئے تھڑا آگے سائقہ پر جھک
گیا اور لذت کے آخری لمحات کو مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کرکے انجوائے کرنے لگا میرے
بازو اکڑ کر سائقہ کی کمر توڑنے لگے چلو بھر پانی گرنے سے سائقہ کی اونہہ اونہہ
بند ہو گئی تھی کوٹھڑی میں کچھ دیر کی پرسکون خاموشی کے بعد زینت ہنسنےگ گئی وہ اس
سائقہ کے گالوں کو چٹکی میں بھر کر ہسے جا رہی تھی میں ببلو کو آہستہ سے نکال کر
سائقہ کو گلے لگا کر لیٹ گیا زینت نے ہنستے ہوئے ایک بار پھر سائقہ کے کے ہپس کو
ہلکا تھپڑ مار کے بولی کل اگر تم ولیمے میں مٹکا کے۔چلتی نظر آئی تو میں سب کو بتا
دونگی سائقہ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ کر اپنی سائیڈ بدلی اور اور رضائی اوپر ڈال دی
زینت کی جگہ نہیں بچی تھی وہ ابھی تک چارپائی پر سرہانے والی سائڈ پر بیٹھی مسکرا
رہی تھی زینت نے سائقہ کے چہرے سے رضائی اٹھا کر بولی اچھا بتاؤ تو خون کی قربانی
کہاں دی تھی سائقہ نے کہا آپ نے کہاں دی تھی زینت فوراً بولی نعمت کے نیچے ۔۔۔اب
تم بتاؤ ۔۔ سائقہ نے میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا بس میرا ایک بن گیا
دوسرا کوئی نعمت بھی نہیں بنے گا میرا ۔۔۔ زینت نے سائقہ کو اپنی طرف کھینچ کر پھر
کہا بچی اب اس پر اپنا قبضہ نہیں جماؤ مجھے سونے دو بیچ میں سائقہ نے رضائی کو
پکڑتے ہوئے کہا اپنے گھر جا کر سو ادھر جگہ بھی نہیں ہے ۔۔۔ میں نے زینت سے مٹھائی
کا ڈبہ اٹھانے کا بولا اس نے ڈبہ کھول کر ایک جامن میرے ہونٹوں کے پاس لے آئی میں
نے آدھا کھا لیا باقی آدھا زینت کا ہاتھ پکڑ کر اسی کے ہونٹوں پر لگا دیا اس نے یہ
کھا کر ایک اور اٹھایا اور سائقہ کے لبوں پر رکھتے ہوئے بولی سہاگ رات مبارک ہو
سائقہ ہنس دی پھر اس نے ایک اور رس گلہ اٹھا کر رضائی کے اندر سائقہ کے بوبز پر مل
دیا میں نے رضائی ہٹا کر دیکھا رس گلے کے ٹکڑے شیرے کے ساتھ دونوں بوبز اور ان کے
درمیانی لکیر کے اندر تک لگے ہوئے تھے سائقہ نے غصے سے بولا یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔
زینت ہنسے جا رہی تھی میں نے سائقہ سے کہا غصہ نہیں کرو ےہ ابھی پچتائے گی کہ میں
اپنے بوبز پر رس گلہ رگڑ دیتی میں سائقہ کے بوبز پر جھک کر ان کو چوسنے لگا زینت
کچھ دیر مسکرانے کے بعد سنجیدہ ہوتی ہوئے ڈبے سے ایک اور رس گلہ نکالا اور رضائی
ہٹا کر میرے ببلو پر مل دیا میں نے نہیں روکا اور سائقہ کے شہد سے میٹھے بوبز
چوستا رہا زینت سائقہ کے اوپر لیٹ کر خاموشی سے ببلو کو چوسنے لگی سائقہ میرے سر
کو پکڑ کر اپنے بوبز میں دبا رہی تھی بوبز صاف ستھرے ہو گئے تھے میں نے ببلو کو
زینت کے بھرے منہ سے نکالا اور سائقہ کی ٹانگوں کے درمیان آ کر سائقہ کے ہپس پکڑ
کر اپنی طرف کھینچ لیا تھا کوئی ایک گھنٹے بعد میں زینت کی رانوں سے پکڑ کر رک چکا
تھا زینت لمبی سانسیں لیتے ہوئے اپنے پیٹ میں گرنے والے مادے کو انجوائے کر رہی
تھی اور میں دل میں عہد کر رہا تھا کہ اس بار وقفے کی میڈیسن نہیں لینی سائقہ کچھ
دیر پہلے سو گئی تھی اور اس کا چہرہ رضائی سے باہر تھا میں تھوڑا پیچھے ہٹ کر ببلو
کو سنھبال رہا تھا اور زینت کی آنکھیں مدہوش انداز میں بند ہو رہی تھی میں چارپائی
پر ان دونوں کے پیڑوں کی طرف دیوار سے ٹیک لگ کے بیٹھ گیا میں نے اپنی ٹانگیں لمبی
کر لیں اور ان دونوں کی ٹانگوں کو آہستگی سے اپنی ٹانگوں پر رکھ دیا میں نے موبائل
اٹھا کر ٹائم دیکھا 4:40 بج گئے تھے میں نے فیسبک کھول لی ساڑھے سات بجے سائقہ کی
آنکھ کھل گئی اور مجھے بیٹھا دیکھ کر اٹھ بیٹھی اور پوچھا آپ نہیں سوئے ۔۔۔۔۔۔ میں
نے سائقہ کے ہاتھ کو کس کر لی اور آئی لو یو بول دیا سائقہ نے میری گود میں سر رکھ
دیا میں نے سر کو رضائی کے اندر کرکے اسکا سر اپنی گود میں رخھ دیا اور رضائی کے اوپر
سے تھپکی دینے لگا اس نے ببلو کو دو بار چپپپ کی ہلکی آواز کے ساتھ چوم لیا زینت
اٹھ گئی تھی اور پھر رضائی کو ایک دم سائقہ کے اوپر سے ہٹا کر بولا بچی فیڈر تو
نہیں پی رہی ۔۔۔۔ سائقہ کھلکھلا کر ہنس دی تو اپنی انگلی منہ میں لے کر زینت کے
ببلو چوسنے کا سٹائل بنانے لگی اور زینت سائقہ کے کھلے منہ کا سٹائل بنا کر سائقہ
سے کہنے لگی اچھا بتاؤ سائقہ پیچھے سے گزر کر آپ کے گلے میں آیا ہوا تھا جو توں
یوں منہ بناتی تھی ۔۔۔۔۔پھر سائقہ کے ہپس کو زور سے پکڑا اور داںت پیس کر بولی آج
ان کو متکا مٹکا کے نہ چلنا نہیں تو کوئی اور ان پر چڑھ جائے گا شکر ہے میرے اتنے
موٹے نہیں تھے ۔۔۔وہ فل موڈ میں ہنسی مذاق کرتے کپڑے پہن کر چلے گئے کچھ دیر بعد
سائقہ نے آ کر کہا کہ پانی گرم کرکے باتھ روم میں رکھا ہے ۔۔۔۔ زینت اپنے گھر چلی
گئی تھی میں نے سائقہ کو کچھ دیر گود میں بٹھا کر باہوں میں بھرا اور اسے کسنگ
کرتا رہا آج ولیمہ تھا اور گلی میں اس وقت خوب ہلہ گلہ چل رہا تھا موبائل کی روشن
سکرین نعمت کا نمبر شو کر رہی تھی سائقہ مین گیٹ کو باہر سے تالا لگا کر چلی گئی
تھی میں نے غسل کرنے کے بہت دیر بعد نعمت کو کال کر دی اس نے کہا کہ ناشتہ گھر آ
کر کرنا ہے میں نے اسے کچھ دیر بعد آنے کا کہا آج زینت کے گھر میں خواتین کا میلہ
لگا ہوا تھا زینت مجھے ایک اور کچے کمرے میں لے گئی دونوں شہزادیاں ناشتے کی ٹرے
لے کر آگئیں تھی زینت نے کنڈی لگا لی اور ناشتے کی ٹرے میرے آگے سیٹ کرتی جھکی
سائقہ کے ہپس کو پکڑ کر مجھے دیکھتے ہوئے بولا آپ نے ان کا کوئی پرانا ویر دل میں
پکڑا ہوا تھا جو اتنا برا حال کیا سائقہ بولی تو نے جو گاڑی میں حملہ۔کرکے پورا
میزائل سسٹم تباہ کر دیا تھا کہ میرے یار کے سارے سگنل ہی غائب ہو گئے تھے وہ سر
ٹکڑا کر ہنس رہی تھیں میں نے زینت سے بولا آج تو مکھن نہیں لانا تھا بولی کیوں ۔؟
میں نے کہا کہ میں تو ولیمے کے بعد چلا جاؤں گا تو توں اسے کیسے نکالے گی پھر
سائقہ ایک دم بجھ سی گئی تھی اور اپنا سر جھکا لیا تھا زینت بولی۔آج رہ جاؤ کل
اکٹھے چلیں گے میں نے گزشتہ روز آنے والی بیگم کی کال ریکارڈنگ سنائی جس میں وہ کہہ
رہی تھی کہ تم تو گھر کو بھی بھول گئے ہو۔۔۔۔ زینت بولی اوکے ولیمے کے بعد ہم بھی
آپ کے ساتھ چلتے ہیں سائقہ رونے لگی تھی میں نے اسے باہوں میں لیکر پیار کرنا شروع
کر دیا ہچکی لے کر بولی آج نہیں جاؤ بس
میں نے سائقہ کے گرد اپنا بازو
لپیٹ لیا میں اسے سمجھا رہا تھا سائقہ نے اپنا بازو اپنی آنکھوں پر لپیٹ رکھا تھا
زینت نے اس کر بازو ہٹا کر بولا اووو رنڈی تو تو پکس قبضہ جمانے چلی ہے سائقہ رو
رہی تھی میں نے زینت کث خاموش رہنے کا اشارہ کیا زینت دودھ اٹھانے جا رہی تھی اور
دروازے کے پاس رک کے میرا انتظار کر رہی تھی کہ میں سائقہ کو اپنی سے دور کروں تو
وہ کنڈی کھولے میں نے سائقہ کو نارمل ہونے اور ساتھ والی چارپائی پر چلی گئی زینت
کے جاتے ہی میں نے سائقہ کو سمجھایا کہ آج مہمانوں کے رش ختم ہونے اور تیری امی کے
گھر آنے کے بعد ہمارا ملنی ویسے بھی ممکن نہیں ہو گا میں نے اسے کہا کہ آپ زینت کو
نہیں بتانا فون پر میں آپ سے مسلسل رابطے میں رہوں گا آپ کو جیسے ہی کوئی مناسب
موقع ملے میں فوراً آ جاؤں گا اور میٹرک کے بعد میں کوشش کروں گا کہ اپنے شہر کے
کالج میں داخلہ۔کروا کر اپنی ساتھ رکھوں زینت کے آنے تک سائقہ مطمئن ہو چکی تھی
ناشتے کے دوران زینت میری اور سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ویسے پچھلے بکسے میں
محبت کا کرنٹ کچھ زیادہ لگتا ہے سائقہ نے کہا نہیں گاڑی کا اسٹیرنگ پکڑ کو ٹرک پر
بیٹھنے سے محبت زیادہ ہوتی ہے اور چوکبار چوسنے سے بھی زینت میری طرف دیکھ کے بولی
ویسے رات والے حملے کے بعد آج اس کے پیچھے سے مٹکنے والی گٹھڑی کچھ اور موٹی ہو
گئی ہے ۔۔۔۔ ناشتے کے بعد زینت کی امی آ گئی تھی اور وہ باتیں کرنے لگی تھی میں
اسے کہا کہ آپ اور سائقہ۔کی امی بھی کبھی چکر لگا لیں پیچھے کھڑی سائقہ اور زینت
آپس میں سرگوشیاں کرکے ہنس رہی تھی پھر سائقہ نے اپنی کہنی کو پکڑ کر اور ہاتھ کا
مکا بنا کر بازو تو ببلو کی طرح اوپر نیچے ہلا کر بولا میری امی تو مشکل ہے وہ
دونوں سر ٹکڑا کر قہقہے لگانے لگیں تھی زینت کی امی بولی پاگلوں کی طرح معمولی بات
پر ہنستی جا رہی ہیں کیوں مشکل ہے جائے گی وہ بھی ۔۔۔ سائقہ نے اپنے بازو کو ایک
بار پھر زینت کی امی کے پیٹھ پیچھے لہراتے ہوئے پوچھا خالہ آپ جائیں گی ؟؟؟۔ زینت
کی امی بولی ہاں کیوں نہیں جاؤں گی جو عزت دے اس کو بھی عزت دینی چاہیے زینتِ
سائقہ کے پیچھے ہاتھ لگا کے بولی تو تو عزت کو سمجھی بھی نہیں ہے ابھی تک۔۔۔۔۔ پھر
سائقہ سنجیدہ ہو کر زینت کی امی کے پاس آ بیٹھی اور بولی خالہ میں نے رات کو بہت
ڈرونا خواب دیکھا ہے ۔۔۔ بولی میں نے ایک بہت بڑا دہشتگرد ہمارے گھر میں آ جاتا ہے
سائقہ نے اپنے بازو کو کہنی سے اوپر پکڑ کر بولا اس کے پاس اتنا بڑا خنچر ہوتے ہے
وہ ہماری ایک دیسی مرغی پا حملہ کرتا ہے تو دیسی مرغی خود اڑ کر خنچر پر بیٹھ جاتی
ہے اور ہنسنے لگتی ہے پھر دہشتگرد نے ایک برائیلر مرغی کو اشارہ کیا برائیلر مرغی
خنجر پر بیٹھی ہے تو چلاتی ہوئی نیچے گر جاتی ہے وہ بری طرح زخمی ہوتی ہے برائیلر
مرغی نیچے گری ہوتی ہے تو دہشتگرد اس پر پھر خچر سے حملہ خر دیتا ہے وہ چلانے لگتی
ہے اور پاس کھڑی ہماری دیسی مرغی ہنستی جاتی ہے اور برائیلر مرغی اسے بہت غصے سے
دیکھتی ہے پھر دہشتگرد کہتا ہے کہ میں ان دونوں مرغیوں کو کچا کھا جاؤں گا۔۔۔۔۔
پھر بولی خالہ خواب اچھا ہے برا ؟؟؟ خالہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی خواب میں خون
خرابا دیکھنا اچھا نہیں ۔ مرغیاں زخمی تھی تو خون بھی ہو گا پیچھے کھڑی زینت ایک
دم سے آگے آ کر بولی نہیں نہیں خون نہیں تھا ایک قطرہ بھی نہیں گرا ۔۔۔۔ میں بظاہر
موبائل کی سکرین دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور اور ہنسی کو بہت ضبط سے قابو کیا ہوا
تھا زینت کی امی نے مجھے کہا کہ آ جاؤ آپ کو دلہن دکھاتی ہوں میرے دائیں بائیں
دونوں تتلیاں چلتی جا رہی تھی دلہن دلکش نین کے ساتھ سر جھکائے خواتین کے ہجوم میں
اپنے بیڈ پر تیار ہوئے بیٹھی تھی اس کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں تھی سرخ
لہنگے میں ملبوس کا نام سونیا تھا اس نے بہت ادب سے مجھے سلام کیا باقی خواتین
کمرے سے چلی گئی تھیں زینت کی امی کمرے کے دروازے پر ٹھہری خواتین سے باتیں کر رہی
تھی دلہن بیڈ پر ایک طرف سمٹ کر مجھے بولی بیٹھو چاچا۔۔۔۔ زینت اور سائقہ آپس میں
سر ملا کر منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسے جا رہی تھی دلہن آنے والی کسی بچی سے کوئی بات
کرنے لگی تھی اور یہ دونوں مجھے دیکھ کر اپس میں سرگوشیاں کر رہی تھی زینت نے بولا
بڑاخطرناک چاچا ہے سائقہ آہستہ سے بولی ہاں چاچا چداکو ۔۔۔ میں نے سر جھکا کر اپنی
ہنسی روکی میں نے بٹوے سے پانچ ہزار کا نوٹ نکال کر دلہن کی طرف بڑھایا وہ حیران
ہو کر مجھے تکنے لگی تھی کیونکہ یہ اس کے لئے بہت بڑی رقم تھی اب تک آنے والے اسے
سو دو سو ہی دے پائے تھے سائقہ نے دلہن کی طرف جاتا میرا ہاتھ دیکھ کر نعرے لگایا
خیر ہو شالا ۔۔۔ زینت بولی میں یہ کھیل میں نہیں چلنے دونگی وہ دونوں ہنسے جا رہی
تھیں دلہن پریشان ہو کر زینت کو تکنے لگی تھی میں نے دلہن سے پھر کہا کہ لے لو ان
پاگلوں کی باتیں آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گی زینت نے سنجیدہ ھوتے ہوئے کہا لے لو
بھابھی صرف چاچا سمجھ کر دلہن کانپتے ہاتھوں سے نوٹ لیکر سر جھکا کے بیٹھ گئی زینت
کی امی آئی تو دلہن نے نوٹ اس کیطرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ چاچا نے دیا ہے وہ نوٹ
میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی نہیں بھائی یہ بہت زیادہ ہیں ایسا نہیں کرو ہم غریب لوگ
ہیں آپ کے اتنے احسان ہم کیسے اتاریں گے میں نے کہا نہیں کوئی احسان نہیں ہیں پھر
میں نے سائقہ اور زینت کو دیکھتے ہوئے کہا سمجھو میرے احسان رات آپ کا مکھن کھا کر
اتر گئے ۔۔۔۔ سائقہ نے سینے کو تھوڑا آگے تن کے معمولی سی آنکھیں بند کیں تھیں ۔۔
دلہن بولی کل خالہ کے ہاتھ وہاں بھی انہوں نے دوہزار بھجوائے تھے زینت کی امی
خامشی سے مسکرائے دلہن کو دیکھتی رہی سائقہ کے ہاتھ پکڑے چھوٹے سادہ موبائل نے
گھنٹی بجا دی سائقہ نے موبائل زینت کی امی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا خالہ کوئی نیا
نمبر ہے اور ساتھ کال ریسیو کر دی آنے والی کال سائقہ کی امی کی تھی اس نے زینت کی
امی سے کچھ باتیں کرکے کہا تھا کہ صاحب سے بولو اگر مجھے لینے آتے ہیں تو ۔۔۔ کال
کے بعد میں سائقہ کی امی کو لینے کے لئے اٹھ گیا سائقہ زینت کا بازو پکڑ کر بولی
چلو چلو خطرہ ہے ۔۔۔۔۔ زینت کی امی مڑ کر بولی تم کہاں جاتی ہو سائقہ بولی ۔۔۔ امی
کو بچانے ۔۔۔۔ پھر فوراً بولی اووو نہیں امی کو لانے ۔۔۔ زینت کی امی بولو تم
ہروقت دیمک کی طرح گاڑی سے چپکی ہوئی ہو لوگ کیا کہیں گے ۔۔۔ زینت بولی کہنے دو جو
کہتے ہیں ہمارا اپنا تعلق ہے زینت کی امی چلی گئی تھی میں گھر سے باہر آ گیا اور
نعمت مجھے وہاں لے گیا جہاں دیگیں تیار ہو رہی تھی وہاں پر موجود مہمانوں سے ملتا
میں سائقہ کے گھر گاڑی کے پاس پہنچا تو دونوں بلائیں وہاں پہنچی ہوئی تھی میں نے
گاڑی کو لاک کھولا تو دونوں نے بھاگ کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کی کوشش کی میں نے
دونوں کو پیچھے بیٹھنے کا بولا گلی باراتیوں سے بھری ہوئی تھی اور یہ اچھا نہیں
تھا پچھلی سیٹ پر بیٹھی دونوں باتیں کرتے ہنستی جا رہی تھی سائقہ بولی میں خود ہر
قربانی دونگی لیکن اپنی امی کی عزت نہیں لٹنے دونگی میری بیمار سی امی ہے کہیں
خنجر کے وار سے مر ہوں نہ جائے مجھے اپنی امی کا خیال رکھنا ہو گا زینت بولی یہ اس
سے بھی خطرناک تعلقات بڑھا چکے ہیں آپ کی بات ٹھیک ہے ہمیں اسغکا خیال رکھنا ھو گا
سائقہ کی امی اس وقت45 سال کے لگ بھگ تھیں گو کہ اس وقت وہ شوگر کے ہاتھوں کافی
متاثر ہو چکی تھیں لیکن اس کی خوبصورت آنکھیں اور نین اشارہ دے رہے تھے کہ وہ
جوانی میں سائقہ کی آج کی خوبصورتی سے کسی طور پیچھے نہیں ہو گی بستی سے نکلتے ہی
میں نے گاڑی روک کر سائقہ کو فرنٹ سیٹ پر آنے کا بولا زینت نے تھوڑی سی ضد کی جسے
میں نے یہ کہہ کر راضی کر لیا کہ اس بیٹھنے دو میرے ساتھ آپ تو پہلے بھی بیٹھتی ہو
اور پھر وہاں بھی میں آپ سے دور نہیں ہوتا سائقہ آگے آ کر بیٹھی تھی گھر سے جو
چادریں پردے کے لئے اوڑھ کر نکلی تھی وہ ان وہ گاڑی میں بستی سے نکلتے ہی ان کے
گلے میں جھول گئی تھیں میں نے سائقہ سے چادر سینے سے ہٹانے کا بولا اس نے چادر
اتار کر اپنے نیچے رکھ لی میں اس کے قیمض پر ابھرے بوبز اس کے جسم اور اس کی
ٹانگوں پکڑ کر اس سفید ریشم جیسے جسم کے مزے لیتا آس پاس کا جائژہ لیتے ہوئے آہستہ
آہستہ گاڑی آگے بڑھا رہا تھا کبھی کبھی اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر اس کے نرم
گالوں کو چٹکی بھر کر اپنی انگلیوں میں لیتا باتیں کرتا جا رہا تھا زینت نے اس کے
ہپس پر تھپڑ مار کر کہا میں حیران تھی اس کے اتنے موٹے کیوں ہو گئے ہیں میری گود
میں سر ٹکائے سائقہ نے اوپر دیکھ کر مجھے کہا کہ اگلی بار یہ جہاں آئے تو اس کے
میرے سے بھی موٹے ہونے چاہیں میں نے اوکے کر دیا ہم سائقہ کی امی کو لیکر گھر آ
گئے تھے ولیمہ شروع کر دیا گیا تھا مجھے نعمت نے اس لکی کوٹھڑی میں بٹھا دیا اور
کہا کہ شہر سے آنے والے مہمانوں کے ساتھ آپ کو کھانا کھلائیں گے نعمت چلا گیا اور
میں نے کنڈی لگا دی تھوڑی دیر بعد سائقہ نے مسیج کیا کہ کہاں ہو میں نے ریپلائی
دیا جہاں آپ پر میزائل گرے تھے ۔۔۔۔ پوچھا اور کون ہے میں نے کہا کوئی نہیں دروازہ
بند۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اوکے کہہ دیا بہت ہی پیارے انداز میں کل کا شہر سے لیا سوٹ زیب
تن کئے سائقہ بڑی چادر لپیٹی کھڑکی سے کوٹھڑی کے اندر آئی سائقہ نے بہترین میک اپ
کر رکھا تھا اور چپکے لباس میں سائقہ آج پہلے سے بھی زیادہ دلکش پری لگ رہی تھی
بولی آپ جائیں گے میں نےکہا ہاں لیکن جب بھی تم بلاؤ گی میں فوراً آ جاؤں گا اس کی
آنکھوں میں قدرے نمی آئی لیکن میں نے اسے اپنے گلے لگا کر ایسا کرنے سے روکا اور
پیار کرنے لگا بولی میں آپ سے اپنی دلی خواہش سے بھرپور طریقے سے ملنا چاہتی میں
نے بولا ابھی اس کا موقع نہیں اور نعمت کسی بھی وقت بلانے آ جائے گا اور آپ نے
اتنی بہترین تیاری کی ہے تو یہ صحیح نہیں بولی۔اس طرح میں بھی کم سے کم اس وقت
ایسا نہیں چاہتی ۔۔۔ بولی آپ آرام سے بیٹھے رہیں اور مجھے نہیں ٹوکو گے جو میں
کروں گی میں نے اوکے کہہ دیا وہ آگے بڑھی اور میرے سر کو اپنے سینے پر رکھ دیا اور
میرے بالوں پر کس کرتی آگے بڑھنے لگی میرے چہرے گردن پر کسنگ کے بعد اس نے میری
شرٹ۔کے بٹن کھول دیئے اور سینے پر بےتحاشہ کسنگ کرنے لگی میں نے اس کی کمر پر ہاتھ
رکھا ایک دم سے بولی آپ کچھ نہیں کرو گے ۔۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ پھر چارپائی کے
بازو پر رکھ دئیے وہ پینٹ کے بلٹ تک مجھے کسنگ کرتے ہوئے اٹھ گئی اور میرے پیچھے
چارپائی پر بیٹھ کر شرٹ اوپر اٹھا کر میری پیٹھ پر جی بھر کے کسنگ کی یہ وہ لمحات
تھے جس وقت سائقہ کی محبت میرے دل میں ایک مضبوط قلعہ بنا گئی وہ سامنے آ کر میرے
ساتھ نگاہیں ملاتی نیچے بیٹھ گئی چنچل سی شوق حسینہ اس وقت بہت سنجیدہ تھی اور اس
کی ایسے دیکھتی آنکھوں سے میرے ذہن میں میں تیری دشمن دشمن تو میرا ۔۔۔۔ میں ناگن
تو سپیرا اااا بجنے لگا تھا اس نے میری پینٹ کا بلٹ کھول کر مجھے اٹھنے کا اشارہ
کیا میں ایک فرمابردار خادم کی طرح اس کے اشارے پر اٹھ گیا تھا اس نے۔میری پینٹ
اور انڈرویئر اتار دی اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میری دونوں ٹانگوں کو
بےتحاشہ کسنگ کرتی نیچے جاری تھی پھر اس نے میرے جوتے اتار کر میرے پاؤں کو کچھ
دیر اپنے بوبز پر رکھی ان کو دیکھتی رہی ببلو ٹائث ہو کر اوپر اٹھا گیا تھا سائقہ
نے اوپر دیکھ کر کہا اسے سخت نہیں کرو ۔۔۔ میں نے مسکرا کے کہا یہ آپ نے کیا ہے
۔۔۔۔ اس نے میرے پاؤں آرام سے جوتوں پر رکھ دئیے اور ببلو کو پکڑ کر کچھ دیر اپنے
گال پر لگائے رکھا پھر اس دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر نگاہیں ملاتے ہوئے ببلو کی ٹوپی
پر ہلکی سی کس کر کے مدھم آواز میں پہلی بار بولا ۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔ اس نے پھر کس
کر کے بولا ۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔۔۔ ایک بار پھر سے اس نے یہ عمل دھرایا اور کھڑی ہو کر
بولی کپڑے پہن لو۔۔۔۔ میں نے اپنا لباس درست کر لیا سائقہ مجھے ساکت کھڑی دیکھتی
رہی میں نارمل ہو گیا تو نگاہیں ملاتے ہوئے بولی۔میں نے پیار صرف جواب عرض ڈائجسٹ
میں پڑھا تھا اب تک ۔۔۔۔۔ اب یہ ہے کہ یہ میرے سارے سوٹ جو آپ مجھے پہنے دیکھ چکے
ہو ان سب کو رکھ دونگی اور تب پہنوں گی جب آپ مجھ سے ملنے آؤ گے شہر کی رنگینیوں
میں کھو کر دیہات کی ایک پاگل لڑکی کو بھول کر برباد نہ کر دینا ۔۔
جاری ہے……..
0 Comments
Thanks for feeback