دیہاتی لڑکی ۔ پانچویں قسط

 


دیہاتی لڑکی

پانچویں قسط

تحریر: ماہر جی


میں نے سائقہ کے چہرے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ دھندلا سا نظر آنے لگا ۔۔۔ میری آنکھیں بھیگ چکی تھی میں نے اپنی انگلیوں سے آنکھوں کے کناروں کو صاف کیا اور مصنوعی مسکراہٹ سے سائقہ کو دیکھنے لگا وہ لمبی سانسیں لیتی ساکت کھڑی تھی اور میری آنکھوں میں نگاہیں ملائے بہت اندر کر دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن میرے لبوں نے میرا ساتھ نہیں دیا سائقہ نے ایک قدم آگے بڑھایا اور بولی اب آپ اگر کچھ کرنا چاہو تو کر سکتے ۔۔۔۔ میں نے اس کی نازک گالوں کو اپنے ہاتھوں میں بھرا اور جھلک کو اس پیشانی پر صرف ایک کس کرتے ہوئے اس سے نگاہیں ملا کر بولا ۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دئیے میرے ہاتھ اس کے کاندھوں اس ہوتے ہوئے اس کے بازوں کا لمس لیتے میرے پاس آ گئے اور میں خامشی سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا سائقہ نگاہیں ملائے اور مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر الٹے قدموں کھڑکی کی طرف چل رہی تھی کھڑکی کے قریب پہنچ کر اس نے اپنی انگلیوں سے آنکھوں کے کنارے صاف کئے اور گھوم کر کھڑکی کے اس پار چلی گئی میں کچھ دیر ساکت کھڑا کھڑکی کے ہلتے پردے کو دیکھتا رہا اور پھر چارپائی پر بیٹھتے ہوں کسی کی کہی بات کو ذہن کے گوشوں میں گھمانے لگا کبھی کو کوئی بات جانے کہاں سنی تھی جس میں کہنے والے نے کہا تھا کہ اگر چھوٹی عمر کی لڑکی کو بڑی عمر کے آدمی سے عشق ہو جائے تو بہت خطرناک ہوتا میں بہت دیر چارپائی سے ٹانگیں لٹکائے اس کوٹھڑی کی ایک ایک یاد ایک ایک لمحے اور ایک ایک بات کو ذہن میں گھما رہا تھا میں نے چارپائی کے نیچے جھک کر سرخ ٹیبل کور کو اٹھایا اس کو غور سے دیکھا جس پر واضح طور پر کوئی نشانت نہیں تھے میں نے اسے جھاڑ کر ٹیبل پر سجا دیا کچھ دیر بعد نعمت نے دروازہ بجا میں تھکے جسم کے ساتھ اٹھا اور دروازہ کھول دیا نعمت مجھے اس جگہ لے گیا جہاں صبح دیگیں تیار ہو رہی تھی مہمان دریوں پر قطاروں میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کچھ نواجوان مہمانوں کو تواضع کے لئے ان قطاروں کے پاس کھڑے تھے نعمت مجھے ایک بڑے کمرے میں لے گیا جس میں پاںچ سات افراد پہلے ہی موجود تھے میں اندر گیا تو سب سے پہلے ملک شہنواز نے میرا استقبال کیا ان کا تعلق اسی علاقے سے تھا اور بہت بڑے زمیندار تھے انغسے اکثر شوگر ملز انتظامیہ اور زمینداروں کے اجلاس میں ملاقات ہوتی رہتی تھی کھانے کے بعد ملک صاحب مجھے اپنی گاڑی میں اپنی رہائش گا لے گئے چائے کے دور کے بعد وہ مجھے دوبارہ اس جگہ چھوڑ گئے مہمانوں کا رش کم ہو گیا تھا میں اس کوٹھڑی میں چلا گیا تھا اور اپنا سامان سوٹ کیس میں سنبھال لیا نعمت نے آ کر اپیل کی کہ صرف ایک گھنٹہ انتظار کرلیں ہم ضروری کام نمٹا کر آپ کے ساتھ چلتے ہیں میں نے اوکے کہہ دیا اور دروازہ بند کر لے بستر پر لیٹ گیا کسی خیال کے آتے ہی میں اٹھ گیا کھڑکی کے پاس پہنچ کر کنڈی کھولی کھڑکی نہیں کھلی میں نے کھڑکی کے ایک سوراخ سے اس پار دیکھنے کی کوشش کی لیکن اس بار کچھ نظر نہیں آیا میں نے اندازہ لگا لیا کہ کھڑکی کے آگے گندم کی بوریا رکھی جا چکی تھیں ۔۔۔۔۔ میں بستر پر لیٹا آج کچھ عجیب کیفیت میں مبتلا تھا سائقہ میرے سے بھی بہت آگے چلی گئی تھی اور کچھ باتوں کا سوچ کر میں الجھن میں مبتلا ہوتا جا رہا تھا سائقہ کے کھڑکی کے جانے کے بعد سے اب تک کوئی میسج یا مس کال نہیں آئی تھی ۔۔۔ کچھ دیر بعد نعمت نے آ کر بتایا کہ وہ تیار ہیں میں نے نعمت کو سوٹ کیس تھمایا اور ہم باہر نکل آئے میں نے نعمت کو گاڑی کی۔چابی دی اور گلی میں ٹھہر کر اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگا پہلی رات جس میں میں سائقہ کے ساتھ تھوڑی دیر سویا تھا جبکہ گزشتہ رات بالکل نہیں سو سکا تھا اور اس وقت جسم میں تھکاوٹ کے ساتھ میری آنکھوں میں ہونے لگی تھی نعمت میرا سوٹ کیس گاڑی میں رکھ کر واپس آ گیا تھا میں نے نعمت سے کہا کہ زینت کی امی وغیرہ سے میں مل لوں وہ مجھے گھر میں لے گیا مجھے اس کچے کمرے میں آنے کا بولا لیکن میں نے ٹائم کو دیکھتے ہوئے ان سے معذرت کر لی زینت کی امی اور سائقہ کی امی میرا شکریہ ادا کر رہی تھی زینت کچھ سامان نعمت کو دے رہی تھی نعمت نے مجھ سے گاڑی کی چابی لی اور سامان اٹھا کر چلا گیا میں مسلسل اپنے ارد گرد نظریں ڈورا رہا تھا لیکن سائقہ نظر نہیں آ رہی تھی زینت بھی کچھ خاموش سی تھی میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے معلوم کیا وہ سمجھ گئی تھی اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک کچے کمرے کی طرف چلی گئی سائقہ کی امی کہنے لگی خہ آج رات آپ ہمارے مہمان بن جاتے تو ہمیں خوشی ہوتی میں نے مسکرا کر کہا کہ آپ ابھی تک ان کے مہمان ہیں میں پھر آ جاؤں گا آپ کی دعوت میں ادھار کر لیتا ہوں اس نے اپیل کی کہ میرے گھر آپ دعوت کھانے ضرور آئیے گا اس کے بعد ہم بھی آئیں گے ایک بڑی چادر میں لپٹی سائقہ آہستہ آہستہ چلتی زینت کے ہماری طرف آ رہی تھی اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اس کے ہرنی جیسی آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑے ہوئے تھے میری پریشانی میں مذید اضافہ ہو گیا میں نے بہت مشکل سے گلے سے نارمل آواز نکال کر اس کی امی سے پوچھا اسے کیا ہوا بولی بخار ہو گیا ہے کھانا بھی نہیں کھا سکی میں نے کہا ڈاکٹر کو دکھایا سائقہ کی امی نے بتایا کہ انجکشن لگا گیا ڈاکٹر میں کچھ دیر خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا وہ آنکھیں جھپکائے بغیر میرے پاؤں کی طرف دیکھے جا رہی تھی بالوں کی ایک باریک سے لٹ اس کی دائیں آنکھ کے اوپر سے ہوتی ہوئی اسبکے گال کو ٹچ کر رہی تھی میں نے سب سے معذرت کرتے ہوئے اجازت چاہی اور بولا آپ کی دی ہوئی محبتوں کو کبھی بھول نہیں پاؤں گا اور کوشش ہو گی کہ ان محبتوں کو آخری سانسوں تک قائم رخھ سکوں سائقہ نے نگاہیں اوپر کرکے نظروں کی زبان میں پھر التجا کی ۔۔۔۔ دیکھو بھول نہ جانا میں الٹے پاؤں چلتا رسمی کلمات ادا کرتا جا رہا تھا اور سائقہ ان لمحوں کو بغیر پلک جھپکائے اپنی آنکھوں میں سمو رہی تھی باہر گلی زینت کے ابو اور دیگر لوگوں سے ملنے کے بعد میں سائقہ کے گھر میں کھڑی اپنی گاڑی کے پاس آیا زینت اور نعمت پہلے ہی سے موجود تھے میں نے گاڑی اسٹارٹ کر دی زینت کے گھر کے آگے سے گزرتے ھوئے ادھ کھلے دروازے سے سائقہ کی قمیض کا پلو نظر آیا میرے پاؤں کا دباؤ ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈال گیا کچی گلی گرد کے بادلوں سے دھک گئی میں اس کچے خراب راستے پر میں آہستہ سے گاڑی چلاتے مین روڈ کی طرف بڑھ رہا تھا ایک موڑ پھرتے وقت زینت قدرے زور سے بولی یہ میری دوست سائقہ کا اسکول ہے میں نے اپنا سر دائیں جانب گھما کر آنکھوں کے کیمرے سے تصویر کھینچ کر میموری میں محفوظ کر لی نعمت باتیں کر رہا تھا اور میں کبھی ہوں ہاں میں اسے اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا نعمت نے اب تک کیا بولا اور وہ اس وقت کیا کہہ رہا تھا مجھے معلوم نہیں تھا کبھی کبھی سر کے۔پاس لگے آئینے میں زینت کو دیکھ لیتا جو مسلسل مجھے تکتی جا رہی تھی میرا انگ انگ تھکن سے چور تھا اور میں جکد گھر پہنچنا چاہتا تھا ادھر نعمت کی بے مقصد باتوں کا سلسلہ مینغروڈ پر چڑھتے ہی میں نے میزک پلئیر آں کر دیا اور گاڑی کی سپیڈ کے ساتھ والیم فل کھول دیا عطاء اللّٰہ عیسیٰ خیلوی کی آواز میں ۔۔۔ ایویں چٹیا عشق دے تیراں ۔۔۔ کپڑے لیڑاں ۔۔۔۔ حال فقیراں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق پوایاں زنجیراں ۔۔۔۔۔ بجنے لگا تھا شام سے تھوڑی دیر قبل میں زینت لوگوں کو آان کے گھر کے سامنے اتار رہا تھا اپنا سامان اتارنے کے بعد نعمت نے بتایا کہ یہ باقی سامان آپ کا ہے جو زینت کی امی اور سائقہ کی امی نے دیا ہے اس میں دیسی گھی کا ایک ڈبہ دیسی انڈوں کی انڈوں کی ٹوکری اور خالص دیسی شہد کی دو بوتلوں کے ساتھ باجرے کے آٹے کا بڑا شاپر موجود تھا شہر میں آنے تک کافی اندھیرا ہو چکا تھا میں سیدھا اپنی سسرال چلا گیا رات کا ہلکا کھانا کھانے کے بعد میں بیگم کو لیکر گھر آ گیا شادی کا مختصر احوال بیگم کو بتانے کے بعد میں لیٹ گیا سائقہ کی آنکھوں میں چھپا پیغام میں دل کے پلو میں باندھتا ہوا سونے لگا تھا میں نے ایک نظر موبائل پر دوڑائی سائقہ کا کوئی پیغام یا مس کال نہیں آئی تھی اس کا موبائل کس کے پاس ہوگا کے پیش نظر میں نے میسج بھیجنے سے اجتناب برتا ۔۔۔ میں جلد نیند کے آغوش میں چلا گیا تھا صبح آنکھ کھلتے ہی میں نے موبائل چیک کیا سائقہ کی طرف سے کچھ موصول نہیں ہوا تھا میں پچھلے کئی روز سے معمول کے کاموں کو ڈسٹرب کر چکا تھا سؤ جلد ہی گھر سے نکل گیا دن دو بجے میں نے بےاختیار ہو کر سائقہ۔کے نمبر پر کال کر ڈالی سائقہ کی امی نے کال ریسیو کی میں نے مختصر حال احوال کے بعد سائقہ کی طبیعت کا پوچھا بولی اب بہت بہتر ہے لیکن ابھی سو رہی ہے اور باقی عام سی باتوں کے بعد میں فون بند کرنے لگا تو سائقہ کی امی بولی میں سائقہ کو بتا دونگی شام کو اس سے بات کر لینا آپ پھر ۔۔۔۔
شام کے بعد ایک بار پھر میں نے کال کر لی سائقہ کی امی نے کال ریسیو کرتے ہی بتایا کہ سائقہ کی طبیعت بہت بہتر ہے میری بیگم کی خیریت دریافت کی اور فون سائقہ کو تھماتے ہوئے کہا ہاں بات کرو۔۔۔۔۔۔سانسوں کی ہلکی آواز کے ساتھ سائقہ کی خوشبو آنے لگی تھی میں نے چںد لمحے اس کے بولنے کا انتظار کرنے کے بعد بولا کیا ہوا تھا چںد لمحے بعد دکھ میں ڈوبی آواز آئی کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔۔۔ میں لمبی سانس لے کر بولا ۔۔۔ ہاں کچھ بھی نہیں ہوا یہ رنگ یہ مستی یہ شوخیاں سلامت رہیں گی اور میں کبھی ٹوٹنے نہیں دونگا ۔۔۔۔آپ ٹھیک ھو اور صبح سکول بھی جاؤ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ گی ناں ؟؟؟؟؟؟ گہرا ساںس لے کر بولی ہاں ضرور جاؤں گی ۔۔۔ میں نے کہا اب تم بچ گئی ہو اور میزائل حملہ گزر چکا اب سکون سے سو جاؤ کل چھٹی کے بعد ملیں گے ۔۔۔۔۔اوکے بول کے مذید انتظار کرنے لگی ۔۔۔ چند لمحے ستانے کے بعد میں نے پھر کہا اوکے کال بند کر دو ۔۔۔ بولی آپ کیوں نہیں بند کر لیتے ؟؟؟ میں نے ایک لمحے کے وقفے کے بعد بولا میں بند نہیں کر پا رہا ۔۔۔۔۔ بولی پھر۔۔۔۔۔ میں کیسے کر دوں ۔۔۔۔ میں نے کہا امی کو دے سکتی ۔۔۔اس نے آواز دی ۔۔۔ امی ی ی ی کچھ دیر بعد سائقہ کی امی نے ہیلو کہا میں نے کہا اوکے باجی کوئی کام ہو تو بتانا میں آپ کے لئے حاضر رہوں گا اور کال بند کر دی ۔۔۔۔۔۔۔ اگلے دن دو بجے میسج آیا کیسے ہو میں نے لکھا۔۔۔۔۔۔ دہشتگرد جیسا ۔۔ ریپلائی آیا دہشتگرد جیسا یا پکا دہشتگرد ؟؟؟ میں نے کہا جو سمجھو ۔۔۔ بولی سمجھو کا کیا مطلب جو ہو وہی سمجھوں گی ۔۔۔ میں نے کہا طبیعت ؟؟؟ جواب دیا سکول سے آ کر لیٹی ہوں ۔۔۔ میں نے کہا کھانا کھاؤ اور آرام کرو ۔۔۔۔ بولی امی سے لائن مارنی ہے تو کال کرو ۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں اس کے بچی کی لائن مارنی ہے ۔۔۔ بولی وہ تو مار دی ۔۔ میں نے کہا ختم تو نہیں ہو گئی ؟؟ بولی اندر سے سب ختم ہو گیا ماڈل باقی ہے ۔۔۔۔ میں نے کہا اندر سے پھر تازہ کر دونگا ۔۔۔ بولی کب ؟؟ میں نے کہا بہت جلد ۔۔۔۔ پوچھا کیسے ۔۔۔ میں نے کہا اوپر بٹھا کے ۔۔۔۔ اوکے کے ساتھ سلسلہ تھم گیا ایک ہفتے بعد میری ساس میرے گھر آئی ہوئی تھی میں بازار چلا گیا اور وہیں سے زینت کو کال کی نعمت اس وقت زمینوں پر تھا اس نے سائقہ سے رابطے کا پوچھا میں نے اسے بتایا کہ رابطہ ہوا تھا طبیعت بہتر ہے زینت سے گپ شپ کے بعد میں نے کال کاٹ دی اسی لمحے میری بیگم کے نمبر سے کال موصول ہوئی میری ساس نے پوچھا کہ شاکرہ ( میری بیگم ) کو اگر بولو تو اپنے ماموں کے گھر لیتی جاؤں صبح آ جائیں گے ہم ۔۔ میں نے اوکے کہہ کر گھر کو لاک کرنے کا بول میں نے ٹائم دیکھا گیارہ بج گئے تھے سائقہ کو ڈیڑھ بجے چھٹی ہوتی تھی میں نے وہیں سے کچھ فروٹس کولڈرنکس کیک اور کچھ اور چیزیں لے کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر پھینکی اور گاڑی کو سپیڈ سے شہر سے باہر نکال لیا گاڑی فراٹے بھرتی سائقہ کے گاؤں کی طرف رواں دواں تھی جیسے پہلے بتایا سٹی سے سائقہ۔کی بستی تک دو گھنٹے کو سفر تھا میں گاڑی کو ضرورت سے زیادہ تیز دوڑا رہا تھا سائقہ کے ہونٹوں کے رس کا میٹھا ذائقہ محسوس ھوتے ہی میں اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا مینغروڈ سے سائقہ کی بستی کو جاتے کچے راستے پر مڑتے ہوئے میں ٹائم دیکھا ابھی 1:05 بج گئے تھے سائقہ کی چھٹی 1:30 بجے ہونی تھی مطلب ابھی 25 منٹ باقی تھے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سائقہ کی بستی سے مین روڈ کی طرف آتے ہوتے اس کچے رستے پر دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا میں گاڑی کو آہستہ سے چلاتا اس سکول کے آگے سے گزر کر بستی کو جانے والے رستے پر گاڑی کو سائیڈ پر روک چکا تھا مدھم آواز میں بجتے میوزک کے ساتھ میں آس پاس کے نظارے دیکھنے کے ساتھ سائیڈ آئینے سے پچھے بھی دیکھ رہا تھا اس وقت دھوپ چمک رہی تھی جس سے سردی کمی آ چکی تھی سیدھے ہاتھ پر دور ایک پگڈنڈی پر دو لڑکے دھوپ سیکتے اپنی بکریوں کو آوازیں دے رہے تھے گاڑی کے فرنٹ کے آگے جھکی ٹالی کی ایک شاخ پر کچھ چڑیاں آن بیٹھی تھی میں سر کے اوپر لگے آئینے میں پیچھے دیکھنے کے ساتھ ان کی مستیاں بھی دیکھ رہا تھا قدرے کالے سر والا چڑا درمیان میں بیٹھا تھا جس کے دائیں اور بائیں دو چڑیاں کے علاوہ باقی اڑ گئی تھی چڑا باری باری دائیں اور بائیں بیٹھی چڑیوں پر بیٹھ کر جھولے لے رہا تھا اور چڑیاں اپنی دم پھیلا کر کم ٹائمنگ پر لعنت بھیج رہی تھیں گاڑی کے قریب سے گزرتے موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھی لڑکی کے سفید برقعے کے نیچے نیلی قمیض اور سفید شلوار دیکھ کر میں نے شیشے میں پیچھے دیکھا کچے رستے کے اس موڑ پر کافی ہلہ گلہ نظر آئی چند ایک چنگ چی کے ساتھ کچھ موٹر سائیکل بھی نظر آ رہے تھے جبکہ پیدل چلتی لڑکیوں کا ذیادہ ہجوم اس راستے پر گامزن ہو چکا تھا جبکہ کچھ لڑکیاں اس طرف بھی آنے لگیں تھی شادی پر ملاقات سے قبل فونز کالز اور میسجز پر سائقہ مجھے بتا چکی تھی کہ اس کے علاوہ دو اور لڑکیاں بھی ان کے ساتھ سکول جاتی تھی میں آج سائقہ کو پہلا سرپرائز دیے رہا تھا صبح تک میرا یہاں آنے کا کوئی پروگرام بھی نہیں تھا اور میں نے سائقہ کو گزشتہ شب مسیجز پر بھی نہیں بتایا تھا گاڑی کے قریب سے گزرتے پانچ لڑکیوں کے گروپ نے ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ گاڑی کو غور اور حسرت بھر نگاہوں سے دیکھا اور چند قدم آگے جانے کے بعد بائیں طرف ایک چھوٹے رستے پر مڑ گئیں کالے عربی برقعے میں مٹکتے جسم کو میں آئینے میں پہچان چکا تھا تھوڑا اور قریب آنے پر وہ ایک دم رک گئی تھی چار لڑکیاں تھوڑا پیچھے دیکھ کر تھوڑے سے قدم روک کو پھر چل پڑیں تھی جبکہ دو لڑکیاں سائقہ کے ساتھ رک گئی تھی وہ دونوں سائقہ کی طرف متوجہ تھیں دیگر چار لڑکیوں کا گروپ بھی میری گاڑی کو دیکھتا ھوا پہلے گزرنے والے گروپ کے رستے پر مڑ گیا تھا سائقہ اب اپنا ہاتھ ہلا کر ان سے کچھ کہہ رہی تھی پھر ایک دم سے ان دونوں لڑکیوں نے میری گاڑی کی طرف دیکھا میں سمجھ چکا تھا کہ سائقہ گاڑی پہچان چکی ہے اور ساتھی لڑکیوں کو شاید کسی بات کے لئے تیار کر رہی ہے پھر وہ آہستہ آہستہ آنے لگی تھی ساتھ والی ایک لڑکی نے سفید برقعہ اور ایک نے میرون کلر کی چادر لپیٹ رکھی تھی میں سیٹ پر سر ٹکائے ان کو غور سے دیکھ رہا تھا گاڑی کے قریب آنے پر دونوں لڑکیاں تھوڑی رک گئیں تھی مسکراتی آنکھوں کے ساتھ کندھوں میں بیگ لٹکائے ہاتھ میں رجسٹر تھامے آہستہ قدموں کے ساتھ گاڑی سے ٹچ ہوتی فرنٹ گیٹ کی طرف آتے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اسے سیاہ شیشوں کے اندر سے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا وہ فرنٹ گیٹ کے پاس آ کر رک گئی تھی لیکن کچھ کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی میں نے آنکھیں بند کر کے بٹن دبا دیا شیشہ نیچی کو سرک گیا ایک لمحے کے وقفے کے بعد گاڑی کی کھڑکی پر چٹخخخخ کی آواز گونجی سائقہ نے ہاتھ میں پکڑا رجسٹر زور سے گاڑی کی کھڑکی پر دے مارا تھا میں نے سائقہ کو آنکھ مار کر اس سرپرائز کا پہلا تحفہ دیا وہ پاگلوں کی طرح زور سے ہنستی جا رہی تھی اس کے ساتھ آئیں دونوں لڑکیاں ایک دوسرے سے جڑ کر اسے دیکھتی جا رہی تھی میرون کلر کی چادر اوڑھے لڑکی کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی میں نے سائقہ کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اس نے گاڑی کا پچھلا گیٹ کھول کر ساتھ کھڑی کھڑی لڑکیوں کو بیٹھنے کا کہا وہ تھوڑی ہچکچانے لگیں تھی سائقہ بولی بیٹھو یار کیا ہے بتایا جو ہے آپ کو ۔۔۔ وہ دونوں لرزتے ہاتھوں کے ساتھ گاڑی کے اندر آنے لگیں میں نے ہاتھ بڑھا کر پچھلی سیٹ پر پڑے سارے شاپر ایک سائیڈ پر کر دئیے سائقہ مٹکتی ہوئی فرنٹ سیٹ پر آ گئی ۔۔ اسے میرے اس طرح آ جانے کی امید بالکل نہیں تھی وہ خوشی سے نہال تھی وہ سیٹ پر بیٹھتے ہی ایک بار پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے ہنسے جاری تھی پچھلی سیٹ پر برجمان آپس میں چپک کو بیٹھی دونوں لڑکیاں کبھی مجھے اور کبھی اسے دیکھ رہی تھی میں نے پوچھا باجی کی طبیعت کیسی ہے بولی اب بات کو بگاڑو نہیں صبح سے آپ اس کے پاس ہوں گے اور پورے کا پورا دیکھ کے آئے ہو تم ۔۔ میں مسکرا دیا اور بتایا کہ نہیں میں ابھی آ رہا ہوں بولی رات آپ کو بتایا تھا ناں اسکی طبیعت کل صبح سے خراب ہے بہت وہ ذرا سنجیدگی سے بولی پوچھا ڈاکٹر کو دکھایا بولی کل شام کو بستی کا ڈاکٹر آیا تھا میں آہستہ سے گاڑی چلاتا بستی کی طرف بڑھ رہا تھا عربی برقعے میں ملبوس سائقہ نے آج گاڑی میں نقاب نہیں اتارا گیا سیاہ برقعے کے اوپر اس کی ٹانگوں پر رکھے ہاتھ کوئلے کی کان سے نکلتے ہیرے کیطرح چمک رہے تھے میں نے پیچھے بیٹھی لڑکیوں کی طرف مڑ کے دیکھتے ہوئے پوچھا اپنی فرینڈز کا تعارف نہیں کرایا وہ سفید برقعے میں چھپی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی یہ زہرا ہے کلاس 9th میں پڑھتی ہے اور یہ رخسانہ میری ساتھ 10th میں ہے سائقہ نے میرون چادر میں لپٹی لڑکی کی طرف طرف اشارہ کیا میں نے ان سے کہا کہ سوری مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ سائقہ مجھے رستے میں مل جائے گی اور آپ بھی ان کے ساتھ ہونگی ورنہ آپ کے لئے کوئی گفٹ ضرور لاتا ۔۔۔ سائقہ بولی زینت کے بھائی کی شادی پر انہوں نے آپ کو دیکھا تھا ادھر ۔۔میں نے کہا کہ پھر آپ نے اس وقت تو تعارف نہیں کرایا تھا بولی بستی والی دیگر لڑکیوں کی طرح یہ بھی پردہ کرتی ہیں سب سے میں نے اچھی بات ہے کہہ کر اپنا بٹوہ نکالا اور ہزار کے دو نوٹ نکال کر سائقہ کو تھما دئیے اور بولا اپنی طرف سے اپنی فرینڈز کو دے دو ۔۔۔ وہ سائقہ کے اصرار پر نوٹ لیکر اپنی مٹھی میں دبا چکی تھی لکڑی کے بنے اس بڑے گیٹ کے آگے میں نے گاڑی روک دی سائقہ نے اتر کر گیٹ کے دونوں پلے کھول دئیے اور دوبارہ مسکراتی ہوئی اپنی سیٹ پر آ گئی میں نے گاڑی آگے بڑھا دی سائقہ کے اس بڑے صحن کے گھر میں کچے کمروں کے آگے دو چارپائیاں دھوپ میں پڑی تھی جس میں ایک پر سائقہ کی امی لیٹی تھی اور دوسری چارپائی پر ایک بزرگ اور شاید انکی اہلیہ بیٹھی تھی وہ دونوں حیرت سے گاڑی کی طرف دیکھ رہے تھے میں نے گاڑی کا رخ ان چارپائیوں کی طرف موڑ لیا سائقہ کی امی گاڑی دیکھ کر مسکراتے ہوئے اٹھنے لگی تھی سائقہ نے گاڑی سے اتر کر ان سب کو خوشی بھرے لہجے میں سلام کیا اور گاڑی کی پچھلی کھڑکی کھول کر اپنی فرینڈز کو اتارا وہ دونوں سائقہ کی امی کو سلام کر کے خیریت پوچھنے کے رسمی کلمات ادا کر کے چلی گئی تھی میں گاڑی کا سوئچ آف کر کے موبائل اٹھاتا باہر نکل آیا بزرگ اور ان کی اہلیہ چارپائی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے میں نے بزرگ سے محبت بھرے انداز میں ہاتھ ملایا اور ساتھ کھڑی بزرگ خاتون کو جھلک کر سلام کیا اور ان کو بیٹھنے کا کہا سائقہ کی امی مسکرا رہی تھی میں انکی چارپائی پر پیروں کی طرف بیٹھ گیا سائقہ نے ایک اور چارپائی باہر نکال کر اس پر چادر اور تکیے لگا دئیے اور ادھر بیٹھنے کو کہا میں وہاں بیٹھتے ہوئے ہوئے سائقہ۔کی امی سے خیریت پوچھنے لگا آج وہ بہت کمزور لگ رہی تھی رنگت پیلی پیلی اور بولنے میں لہجہ دھیما ہو چکا تھا بتایا سمجھ نہیں آ رہی کل سے اب تک دو بار ڈاکٹر دوائی دیکر گیا ہے پھر وہ بزرگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی چاچا ابھی بھی ڈاکٹر سے دوائی لیکر آیا ہے میں نے انہیں تسلی دی کہ اچھا خیر ہو گی کچھ کرتے ہیں ۔۔۔ میں نے بزرگ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا چاچا آپ ٹھیک ہیں وہ والے ہلکا سا کھنگال کر بولے شکر ہے سائقہ کی امی میرا تعارف کراتے ہوئی بولی زینت کا شوہر ان صاحب کی زمینوں پر کام کرتا ہے یہ ان کی شادی پر آئے تھے تو میں نے اسے اپنا بھائی بنا لیا بہت اچھے انسان ہیں اپنی امی کے پیچھے کھڑی سائقہ نے منہ کر ہاتھ رکھتے ھوئے ہنسی کو دبا کر آہستہ بغیر آواز نکالے آنکھوں کو پھیلا کر ہونٹوں سے ہی لمبا سا بھائی ی ی ی بولا اور کمرے کی طرف چلی گئی بزرگ بولے آپ کے علاقے میں ایک ملک رشید ہوا کرتے تھے ۔۔ میں نے جھکا سر اٹھا کر بزرگ کو دیکھا اور ایک لمحے کے وقفے سے بولا ہاں میرے والد محترم تھے وہ اور ۔۔۔۔۔ بزرگ ایک دم اٹھے کانپتی ٹانگوں کے ساتھ میری طرف بڑھنے لگے اور میرے قریب آ کر اپنے کانپتے ہاتھوں اور نم زدہ آنکھوں سے میرا سر پکڑ کر میرا ماتھا چوم لیا میں نے اٹھ کر بزرگ کو گلے لگایا اور پھر اپنے ساتھ چارپائی پر تکیے کے ساتھ بٹھا دیا بزرگ کچھ دیر سر جھکائے بیٹھے رہے پھر سائقہ کی امی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے آپ نے ایک شریف ۔۔ ایک رحم دل انسان اور ایک معزز خاندان کے بیٹے کو اپنا بھائی بنایا ہے اور میرا دل آج باغ باغ ہو گیا ہے ۔۔۔ پھر وہ روتے ہوئے بولے میں ایک سڑک کی تعمیر کے وقت ان کے علاقے میں محنت مزدوری کرتا تھا میں ایک دنچلتے ٹریکٹر کے ماڈیگارڈ سے نیچے گرا اور پیچھے آنے والی جیپ کے ٹائر کی زد میں آ گیا میری پسلیاں ٹوٹ گئی میں زخمی حالت میں بےہوش پڑا تھا کہ اس جگہ سے قریب اپنی زمینوں پر آئے ملک رشید نے مجھے اپنی گاڑی میں ڈالا ہسپتال لے گئے وہ مسلسل بیس دن ہسپتال میں میری نگرانی کرتے رہے اور اپنے دو بندے میرے ساتھ رکھے ہوئے تھے میرا اچھے ڈاکٹروں سے علاج کراتے رہے اس وقت موبائل کا کوئی تصور نہیں تھا اور بستی میں ٹیلیفون بھی نہیں تھے گھر والوں کو کوئی علم نہیں تھا میرا اور وہ یہی سمجھے رہے کہ میں کہیں مزدوری کر رہا ہوں ہسپتال کے بعد ملک صاحب نے مجھے پانچ دن اپنی رہائش گاہ میں رکھا اس کا ایک بیٹا (میرا ہاتھ پکڑ کر ) تھا اور سرخ رنگ کی چھوٹی سائیکل پر ادھر گھومتے ہوئے مجھ سے پوچھتا چاچا طبیعت کیسی ہے ملک صاحب کے بندے مجھے ملک صاحب کی گاڑی میں گھر پہچا گئے تھے اور ملک صاحب نے مجھے اتنے پیسے دئیے تھے کہ مجھے صحتیاب ہونے تک کسی سے مانگنے نہیں پڑے تھے ۔۔۔۔ اس گفتگو کے دوران زینت کی امی بھی آ گئی تھی اور سب چاچا کی باتیں غور سے سن رہے تھے اور چاچا نے۔اس وقت یہ قصہ سنا کر میری شرافت پر مہر ثبت کر دی تھی ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد بزرگ اور انکی اہلیہ چلے گئے تھے اس دوران سائقہ گرم دودھ اور بسکٹ لائی تھی زینت کی امی اپنے گھر کو جانے کے لئے اٹھتی ہوئی بولی آپ کا کھانا میں بنا لیتی ۔۔۔۔۔ سائقہ جھٹ سے بولی تمھاری مہمان نوازی پچھلے ہفتے ختم ہو گئی آج میری امی کی عیادت کے لئے آئے ہیں اور آج ہمارے مہمان ہیں میں نے سائقہ کو گاڑی سے شاپر لانے کو بولا اور زینت کی امی کو بولا کوشش کروں گا کہ آپ کے گھر میں چکر لگا لوں ورنہ ناراض نہ ہونا اگلی بار بیگم کے ساتھ آؤں گا تو پھر آپ کے پاس گاڑی کی پچھلی کھڑکی کے اندر جھکی سائقہ نے آواز لگائی پھر بھی ہمارے پاس آئیں گے اب تمھاری چھٹی سائقہ شاپر اٹھا کر چارپائی پر لا رہی تھی میں نے خریداری کے وقت ہر چیز کے دو دو شاپر بنا لئے تھے کچھ شوگر فری چیزوں کا شاپر الگ تھا جو میں نے سائقہ کی امی کی بڑھا دیا تھا باقی فروٹس اور دیگر چیزوں کے شاپر الگ الگ کر کے آدھے شاپر زینت کی امی کو تھما دئیے سائقہ کی امی بولی آپ کے لئے کھانے میں کیا بنائیں میں نے سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا برائیلر مرغی ۔۔۔۔۔ سائقہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور رنگت تھوڑی گلابی ہو گئی سائقہ کی امی بولی برائیلر تو یہاں نہیں ملتی ۔۔موڑ تک جانا پڑے گا سائقہ نے ایک ہی جھپٹا مار کے پاس کھڑے اونچی گردن والے مرغے کو پکڑا اور زینت کی امی کو تھماتے ہوئے بولی چاچا سے اسے ذبح کروا کے بھیج دینا پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی اس پکا کے آپ کو کھلائیں گے اور برائیلر مرغی بھی آ جائے گی اسے کچا کھا لینا زینت کی امی کے جانے کے بعد سائقہ باتیں کرتی اپنی امی کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔اس نے مجھ سے نگاہیں ملاتے ہوئے اپنی قمیض سائڈ سے کافی حد تک اوپر اٹھاتے ہوئے اپنی پتلی کمر کو بل دے کر بولی امی میں کپڑے بدل لوں پینٹ میں سر اٹھاتے ببلو کو میں نے دائیں ٹانگ کو اپنی بائیں ٹانگ پر رکھ کے اس کو اپنی رانوں م دبا لیا سائقہ نے مجھے آنکھ مار کر مسکرانے لگی میں نے اس کی امی سے شہر کے کسی اچھے ڈاکٹر کا پوچھا تو بولی ڈاکٹر طاہر خان ہیں پہلے اس سے علاج کرایا اب کوئی قطر کی کمائی آئے گی تو جاؤں گی دوبارہ ۔۔ بہت اچھے ڈاکٹر ہیں لیکن مہنگے بہت ہیں ۔۔۔۔ میرے ذہن میں ڈاکٹر طاہر خان کا نام دستک دیتے لگا میں نے کہا کہ باجی اچھے ڈاکٹر مہنگے تو ہوتے ہیں میں نے ایک لمحے کے وقفے کے بعد بولا باجی تیاری کرلیں اس کے پاس چلتے ہیں بولی نہیں بھائی بہت شکریہ ۔۔۔بس میں ٹھیک ہو جاؤں گی ۔۔۔ پیچھے کھڑی سائقہ بولی ہاں یہ سکول کے استاد ٹیچر کی پوڈر بنی گولیاں کھا کر پہلوان بن جائے گی میں نے پھر کہا جاتا باجی ضدِ نہ کریں ۔۔بولی لیکن اس کا نمبر دو دن پہلے لینا پڑتا ۔۔۔سائقہ نے ایک بھرپور انگڑائی لےکر اپنے بوبز اور ہپس کو واضح کیا ۔۔میں نے منہ میں آئے پانی کو حلق سے اتارا ایک لمحے کے وقفے کے بعد بولا باجی چلتے ہیں نمبر لینے کا کوئی طریقہ بنا لیں گے وہ خاموش رہی تو پیچھے کھڑی سائقہ بولی یہ جب بہت خراب ہو جائے گی تو چنگ چی پر لیٹ کے جائے گی ۔۔میں نے کہا سائقہ تیاری کرو ۔۔۔۔ سائقہ نے اپنی ببلی پر ہاتھ رکھا اور بولی اس کی ۔۔۔۔ میں نے گہری سانس لی اور باجی کی طرف ہاتھ کر کے بولا ہاں اس کی اور اپنی نگاہیں اس کی ببلی اور ہپس پر پھیر لی ۔۔۔ اس نے ایک بار پھر انگڑائی لی اور اپنے بوبز پر ہاتھ لگاتے ہوئے اپنی آنکھیں تھوڑی بند کر کے بغیر آواز نکالے لمبی سانس کے ساتھ ہائے ۔۔ بولا میں نے کہا تمھارا کوئی کام نہیں تم گھر پر رہو اور کھانا تیار کروں بولی میں جاؤں گی ۔۔۔ کوئی روک کے دکھائے ۔۔۔ اس دوران زینت کی امی ایک بڑی پلیٹ میں مرغ کا گوشت بنا کر لے آئی ۔۔سائقہ کی ماں نے سائقہ کو مڑ کر دیکھا اور بولی تو نے ابھی تک کپڑے نہیں بدلے ۔۔۔ وہ میرے سے نگاہیں ملا کر لٹک مار کر گھومی اور اپنے پاؤں ایک لائن میں رکھتے ہوئے اپنے ہپس مٹکاتی اس کچے کمرے میں چلی گئی سائقہ کی امی نے زینت کی امی سے بولا بہن ایک احسان اور کر دو۔۔۔ اس کا اچھا سا سالن بنا لو ۔۔۔ بھائی قسمت سے آئے ہیں تو ہم شہر میں ڈاکٹر طاہر کے پاس چلتے ہیں میری طبیعت خراب ہوتی جا رہی اسے دکھا لیتے ہیں ۔۔زینت کی امی نے کہا کوئی بات نہیں میں سونیا سے سالن بنوا لیتی ۔۔ ظاہر ہے ابھی جا رہے تو واپسی لیٹ ہو جاؤ گے ۔۔۔ وہ گوشت واپس لے کر چلی گئی سائقہ شادی پر پہنے ڈارک بلیو کلر کے سوٹ میں جکڑی کمرے سے باہر آنے لگی وہ نخرے سے چلتی قریب آ رہی تھی ۔۔۔ میرے منہ میں پانی بھر آیا سائقہ میرا لایا یہ سوٹ زینت کے بھائی کی رسم مہندی پر پہن چکی تھی اور اسی رات اس۔لکی کوٹھڑی میں ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔۔وہ اپنی امی کے پیچھے رک کر اپنے جسم پر ہاتھ پھیرتی مجھ سے نگاہوں میں ہی پوچھا رہی تھی کہ ٹھیک ہوں یا۔۔۔ میں نے دونوں انگوٹھوں کو ملا کر اسے لائک کیا سائقہ اپنی امی کے کہنے پر اس کے نئے چپل اور کچھ دوسری چیزوں کے ساتھ کچھ پیسے بھی اٹھا لائی تھی اپنی امی کو پیسے دیتے ہوئے بولی آج میں شہر سے لوشن کی بڑی ڈبیہ بھی لوں گی ۔۔۔ اس کی امی بولی بڑی بوتل کو کیا کرو گی بولی اپنے پاس رکھوں گی چھوٹی ایک بار میں ہی ختم ہو جاتی ۔۔ اور پھر چہرے پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی وہ انگلیوں کے بیچ سے مجھے دیکھ رہی تھی پھر بولی آج۔میں اوپر بیٹھوں گی ۔۔ اس کی امی بولی ہاں گاڑی کی چھت پر بیٹھ جاؤ تم پھر گاڑی کو دیکھتے ہوئے بولی پیچھے جمپ زیادہ لگتے ہا آگے ۔۔۔میں نے اس کے ہپس پر نظر جما کے بولا پیچھے بولی پھر سارا سفر پیچھے ہی کروں گی میں نے کہا نہیں پیچھے باجی لیٹ جائے گی آپ آگے ٹھیک ہیں وہ مسکراہٹ بھرے چہرے کو ہاتھوں میں چھپا کر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ بولی امی میں بھی آج کوئی بڑا انجیکشن لگواؤں گی ایک ہفتے سے جسم کے انگ انگ سے درد اٹھ رہے بار بار جسم بخار سے تپنے لگتا ۔۔۔۔۔ میں اٹھ گیا تھا باجی کے پاؤں میں شدید درد تھا اور اسے سائقہ پکڑ کر گاڑی کے پاس لائی تھی سائقہ اسے پچھلی سیٹ پر بٹھا چکی تھی میں نے چارپائی سے تکیہ اٹھایا اور باجی کو دے دیا سائقہ نے ماں سے اجازت لیکر صرف بڑی سی چادر اوڑھ لی اور گیٹ کی طرف چل دی میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور مین گیٹ کی طرف بڑھا دی سائقہ گیٹ کھول اس کے ایک پلے کے پیچھے کھڑی تھی میں نے گاڑی گلی میں سیدھی کر کے کھڑی کر دی سائقہ مین گیٹ کو تالہ لگا کر آئی اور فرنٹ سیٹ پر برجمان ہو گئی بستی سے نکلنے کے بعد باجی تکیہ کو سائقہ کی سیٹ کے پیچھے گاڑی کی کھڑکی کے پاس لگا کر لیٹ گئی اور اسی لمحے سائقہ نے اپنی قمیض کو توڑا اوپر سرکایا اور اپنی دائیں ٹانگ کو اپنی دوسری ٹانگ پر رکھ دی اس پاجامے میں جکڑے ہپس کو میری طرف پھیر کر بیٹھ گئی اور بغیر کچھ بولے شیشے سے اس پار دیکھتے ہوئے مسکرائے جا رہی تھی وہ کبھی کبھی ان بڑے ہپس پر ہلکی تھپکی دینے لگتی ببلو کروٹ لیتے انڈروئیر سے راستہ بنا کر پینٹ میں میری ٹانگ کے ساتھ لگ چکا تھا سائقہ مجھے اپنی قاتل اداؤں سے مسلسل گھائل کرتی جا رہی تھی گاڑی مین روڈ پر فراٹے بھرتی شہر کو بڑھ رہی تھی اس وقت اندھیرا اپنے سائے گہرا کرتا جا رہا تھا میں سائقہ سے خیال ہٹا کر کچھ سال قبل میڈیکل کالج کے دوستوں کی یادوں کو دھرا رہا تھا میرے ہونٹوں سے ایک بار آہستہ سے نکلا ڈاکٹر طاہر ۔۔۔۔۔۔ گاڑی ایک پرائیویٹ کلینک کی پارکنگ میں پارک کرنے کے بعد ہم کلینک کی عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے سائقہ اپنی امی کو بازو سے پکڑے پیچھے آ رہی تھی اور میں اپنے قدموں کو قدرے تیز چلاتا ہوا ایک جگہ سے ویل چئیر لے آیا سائقہ کی امی نے محبت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے مجھے دعائیں دیں میں سائقہ کے نازک ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے ویل چیئر کو آگے بڑھا رہا تھا استقبالیہ کونٹر پر پہنچے تو ایک نرس نے آگے بڑھ کر نمبر کا پوچھا سائقہ۔نے بتایا کہ نمبر ابھی لینا ہے نرس معذرت کرتے ہوئے جانے لگی کہ نمبر دو دن پہلے لینا پڑتا ۔۔۔ سائقہ اور اس کی امی پریشان ہو گئی پیچھے کو مڑتی نرس کو میں نے سنیئے ۔۔۔۔ کہہ کر روک دیا ۔۔۔میں نے کہا ڈاکٹر صاحب کو بولئیے زاہد ملک آیا ہے ۔۔۔۔ بولی سوری سر نمبر پھر بھی نہیں ملے گا ۔۔۔ میں بولا میں نے آپ سے نمبر تو نہیں مانگا ۔۔۔ ڈاکٹر کو پیغام پہچا سکتی ؟؟؟۔ وہ میرے سر سے پاؤں تک نظریں دوڑاتی اوکے کہہ کر چلی گئی اور دو روم چھوڑ کر ایک روم میں داخل ہو گئی باہر لان سے اس گیلری تک مریض کا خاصا رش تھا اور دو دن بعد نمبر دینے کی بات کسی طور غلط نہیں تھی اسی تیسرے روم کے ڈور کے آگے ڈاکٹر طاھر خان میڈیکل سپیشلسٹ کی تختی لٹک رہی تھی نرس کے اندر جانے کے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں سفید کوٹ پہنے جینز شرٹ میں ملبوس ڈاکٹر طاہر تقریباً بھاگتے ہوئے باہر نکلے تھے اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے مجھ پر نظر پڑتے ہی بازوں کو پھیلایا اور قہقہہ لگاتے میرے طرف بڑھے ڈاکٹر طاہر میرے شہر کے میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ تھے اور دوستوں کا ایک اچھا گروپ بن گیا تھا باجی کا مکمل چیک اپ کے ساتھ میڈیسن دیں اور کچھ انجکشن وہیں لگا دئیے میڈیسن اور فیس کی پیسے نہ لینے کے ساتھ سائقہ کو پانچ ہزار کا نوٹ تھما دیا میرے ٹوکنے پر بولا نہیں میری بھی تو بھانجی ہے ۔۔ واپس گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میں پیچھے مڑ کر باجی سے پوچھا اور کچھ لینا ہے ؟؟؟ سائقہ فٹ سے بولی بس اب صرف لوشن ۔۔۔۔ میں نے ساتھ والے جنرل سٹور سے بےبی لوشن کی بڑی بوتل لے لی اور گاڑی میں آ کر سائقہ کی ٹانگوں کے بیچ دبا دی ۔۔۔ باجی پیچھے لیٹی ہوئی تھی سائقہ نے لوشن کی بوتل ہاتھ میں اٹھا کر بولی اس سے بڑی نہیں تھی کیا ؟؟؟ میں نے کہا اس سے بڑی نہیں ہوتی ۔۔ منہ بنا کے بولی یہ تو میری آج رات کی بھی پوری نہیں ہو گی باجی بولی آپ نے پینا ہے کیا آہستہ سے بولی لگا کے پینا ہے ۔۔۔رات نو بجے ہم ہم گھر پہنچ کر کھانا کھا رہے تھے کھانے کے بعد سائقہ کی امی نے بولا مجھے دوائی کا سمجھا دو میں دو راتوں سے نہیں سوئی بہت تھکی ہوں میں نے پینٹ کی جیب میں پڑے نیند کی گولیوں کے پتے سے صرف آدھی گولی نکال لی تھی اور باقی ٹیبلیٹس کے ساتھ باجی کو کھلا دی کیونکہ اسے سکون کی ضرورت تھی باجی نے سائقہ سے بولا بھائی کا بستر چھوٹے کمرے میں لگا دو اور تم بھی آج جلدی سو جاؤ ساتھ پڑی چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔ سائقہ بولی آج تو میرا سکول کا اتنا کام ہے کہ پوری رات بیٹھی رہوں پھر بھی ختم نہیں ہو گا۔۔۔ باجی نیم بند ہوتی آنکھوں سے دھیمے لہجے میں بولی بھاس کی کاپیاں کتابیں دیکھ لو کچھ پڑھتی بھی ہے یا نہیں میں سائقہ کے ساتھ اٹھ گیا ساتھ والے کچے کمرے میں سائقہ نے ایک ٹیبل پر کتابوں کو سلیقے سے رکھا ہوا تھا میں کرسی پر بیٹھنے لگا تھا کہ سائقہ نے میرے ببلو پر زور سے تھپڑ مار کر بولا ہڈ حرام نہ بنو ادھر آؤں اور میرے ساتھ بستر لگواؤ میں آج تیری کلاس لیتی ہوں زیادہ ماموں بننے کی کوشش نہیں کرو ۔۔۔۔ سائقہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہپس کو مٹکاتی گھر کے کونے میں موجود پکے کمرے کی طرف چل پڑی جو اس بڑے گودام کے ساتھ تھا اندر جا کر سائقہ نے لائٹس جلا لیں اور بولی بستر اٹھواؤ میرے ساتھ میں بستر اٹھانے کو آگے بڑھا تو مجھے ہاتھوں سے پکڑ کر ہنسنے لگی اور بولی ادھر ٹھہرو ۔۔۔ پھر بستر کو ایک بہت چھوٹی چارپائی پر بچھا دیا اور ساتھ پڑی بڑے چارپائی کو بازوں کے بل کھڑا کر دیا میں نے کہا یار میں اس پر سوؤں گا اس بڑی چارپائی پر بستر لگا دیتی ۔۔۔ بولی ہم سنگل مہمان کو یہ چارپائی دیتے ہیں بیگم ساتھ ہوتی تو پھر بڑی چارپائی دینی تھی لہذا یہاں شہر والے نکھرے نہیں چلتے اکیلے سونا ہے اور دل سے سارے لالچ ختم کر کے سو جاؤ تاکہ میں آپ کے آگے تالا لگا کر اپنی مصعوم امی کی عزت بچا سکوں ۔۔۔ میں مسکرا کر اسے تکتا جا رہا تھا پھر باہر جاتے ہوئے بولی صبر کا گھونٹ بھرو اور سو جاؤ۔۔۔ اور وہ چلی گئی کچھ لکڑیاں پھینکنے کی آواز آئی اور نلکا چلنے کی آواز کے کچھ دیر بعد وہ آئی اور لوشن بوتل دیکر بولی جہاں گرد بہت اڑتی ہے جلد پر خشکی ہو تو تھوڑی سی لگا لینا ۔۔۔ ساری ختم نہیں کرنی ۔۔۔ وہ گلے میں لٹکے دوپٹے کو ساتھ کھڑی چارپائی پر ڈال کر اپنی پونی کھولی اور بالو کو جھٹکا کر اپنی پیٹھ پہ پھیلا دیا وہ پیچھے کو دیکھتی اپنی ہپس مٹکاتی باہر جاتے ہوئے بولی اب سو جاؤ میں سونے جا رہی ہوں میں نے مسکراتے ہوئے اسے فلائنگ کس کر دی بولی مجھے آپ کی نظروں میں کوئی لالچ نظر آنے لگا ہے بولو کچھ چاہیے میں نے کہا برائیلر مرغی بولی وہ تو ابھی نہیں مل سکتی صبح بات کریں گے ۔۔۔ وہ چلی گئی دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا پندرہ منٹ بعد آ کر آنکھوں کو ملتی ہوئی بولی ۔۔۔آپ نے امی پر کوئی جادو کر دیا ہے اب وہ سونے بھی نہیں دیتی بولتی ہے میرا بھائی تھکا ھوا ہے اسے جا کر ٹانگیں دبا دو پھر منہ بناتے ہو کنڈی اندر سے بند کر کے میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی اور میری ٹانگوں پر ہاتھ ہلکے ہلکے دبانے کی ساتھ ہاتھوں کو اوپر کی طرف لانے لگی پینٹ میں ایک جگہ ابھار آنے پر بولی یہ کیا ہے میری امی کے بھائی ؟؟؟؟ پھر ہنسنے لگی میں نے کہا پتا نہیں دیکھ لو ؟؟ اس نے پینٹ کا بیلٹ کھول دیا وہ اب سنجیدہ ہوتی جا رہی تھی اور سانسیں تیز ہو چکی تھی پینٹ کو ٹانگوں سے نیچے کھینچ کر انڈروئیر کے اوپر ببلو پر گال رکھ کر آنکھیں بند کئے کچھ دیر پڑی رہی پھر وہ اٹھ کر میرے سینے پر لیٹتے ہوئے میرے چہرے پر کسنگ کرتے ہوئے بولی۔بہت شکریہ آج آپ نے میری محبت کو پختہ کر دیا آنے سے پہلے بتا دیا کرو ورنہ تمھیں اچانک دیکھ کر میں کسی لمحے پاگل ہو جاؤں گی میں نے اس کو باہوں میں بھرتے ہوئے کہا آج آپ نے مجھے بھی بہت پاگل کر دیا ہے اب خود ہی بھگتو گی بولی مجھے اپنے ساتھ کیوں نہیں لے جاتے میں نے کہا میٹرک اچھے نمبروں سے کرو گی تو تجھے پکا اپنے ساتھ رکھوں گا ہاتھ بڑھا کر بولی وعدہ میں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا وعدہ ہ ہ میں اٹھ گیا اورسائقہ کو کھڑا کر کے اس کی قمیض بریزر اور شمیض اتار دی اور پیچھے بیٹھ کر پاجامے سے اس کی ہپس چھڑاتے ہوئے کسنگ کرنے لگا۔ پینٹ میں سر اٹھاتے ببلو کو میں نے دائیں ٹانگ کو اپنی بائیں ٹانگ پر رکھ کے اس کو اپنی رانوں م دبا لیا سائقہ نے مجھے آنکھ مار کر مسکرانے لگی میں نے اس کی امی سے شہر کے کسی اچھے ڈاکٹر کا پوچھا تو بولی ڈاکٹر طاہر خان ہیں پہلے اس سے علاج کرایا اب کوئی قطر کی کمائی آئے گی تو جاؤں گی دوبارہ ۔۔ بہت اچھے ڈاکٹر ہیں لیکن مہنگے بہت ہیں ۔۔۔۔ میرے ذہن میں ڈاکٹر طاہر خان کا نام دستک دیتے لگا میں نے کہا کہ باجی اچھے ڈاکٹر مہنگے تو ہوتے ہیں میں نے ایک لمحے کے وقفے کے بعد بولا باجی تیاری کرلیں اس کے پاس چلتے ہیں بولی نہیں بھائی بہت شکریہ ۔۔۔بس میں ٹھیک ہو جاؤں گی ۔۔۔ پیچھے کھڑی سائقہ بولی ہاں یہ سکول کے استاد ٹیچر کی پوڈر بنی گولیاں کھا کر پہلوان بن جائے گی میں نے پھر کہا جاتا باجی ضدِ نہ کریں ۔۔بولی لیکن اس کا نمبر دو دن پہلے لینا پڑتا ۔۔۔سائقہ نے ایک بھرپور انگڑائی لےکر اپنے بوبز اور ہپس کو واضح کیا ۔۔میں نے منہ میں آئے پانی کو حلق سے اتارا ایک لمحے کے وقفے کے بعد بولا باجی چلتے ہیں نمبر لینے کا کوئی طریقہ بنا لیں گے وہ خاموش رہی تو پیچھے کھڑی سائقہ بولی یہ جب بہت خراب ہو جائے گی تو چنگ چی پر لیٹ کے جائے گی ۔۔میں نے کہا سائقہ تیاری کرو ۔۔۔۔ سائقہ نے اپنی ببلی پر ہاتھ رکھا اور بولی اس کی ۔۔۔۔ میں نے گہری سانس لی اور باجی کی طرف ہاتھ کر کے بولا ہاں اس کی اور اپنی نگاہیں اس کی ببلی اور ہپس پر پھیر لی ۔۔۔ اس نے ایک بار پھر انگڑائی لی اور اپنے بوبز پر ہاتھ لگاتے ہوئے اپنی آنکھیں تھوڑی بند کر کے بغیر آواز نکالے لمبی سانس کے ساتھ ہائے ۔۔ بولا میں نے کہا تمھارا کوئی کام نہیں تم گھر پر رہو اور کھانا تیار کروں بولی میں جاؤں گی ۔۔۔ کوئی روک کے دکھائے ۔۔۔ اس دوران زینت کی امی ایک بڑی پلیٹ میں مرغ کا گوشت بنا کر لے آئی ۔۔سائقہ کی ماں نے سائقہ کو مڑ کر دیکھا اور بولی تو نے ابھی تک کپڑے نہیں بدلے ۔۔۔ وہ میرے سے نگاہیں ملا کر لٹک مار کر گھومی اور اپنے پاؤں ایک لائن میں رکھتے ہوئے اپنے ہپس مٹکاتی اس کچے کمرے میں چلی گئی سائقہ کی امی نے زینت کی امی سے بولا بہن ایک احسان اور کر دو۔۔۔ اس کا اچھا سا سالن بنا لو ۔۔۔ بھائی قسمت سے آئے ہیں تو ہم شہر میں ڈاکٹر طاہر کے پاس چلتے ہیں میری طبیعت خراب ہوتی جا رہی اسے دکھا لیتے ہیں ۔۔زینت کی امی نے کہا کوئی بات نہیں میں سونیا سے سالن بنوا لیتی ۔۔ ظاہر ہے ابھی جا رہے تو واپسی لیٹ ہو جاؤ گے ۔۔۔ وہ گوشت واپس لے کر چلی گئی سائقہ شادی پر پہنے ڈارک بلیو کلر کے سوٹ میں جکڑی کمرے سے باہر آنے لگی وہ نخرے سے چلتی قریب آ رہی تھی ۔۔۔ میرے منہ میں پانی بھر آیا سائقہ میرا لایا یہ سوٹ زینت کے بھائی کی رسم مہندی پر پہن چکی تھی اور اسی رات اس۔لکی کوٹھڑی میں ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔۔وہ اپنی امی کے پیچھے رک کر اپنے جسم پر ہاتھ پھیرتی مجھ سے نگاہوں میں ہی پوچھا رہی تھی کہ ٹھیک ہوں یا۔۔۔ میں نے دونوں انگوٹھوں کو ملا کر اسے لائک کیا سائقہ اپنی امی کے کہنے پر اس کے نئے چپل اور کچھ دوسری چیزوں کے ساتھ کچھ پیسے بھی اٹھا لائی تھی اپنی امی کو پیسے دیتے ہوئے بولی آج میں شہر سے لوشن کی بڑی ڈبیہ بھی لوں گی ۔۔۔ اس کی امی بولی بڑی بوتل کو کیا کرو گی بولی اپنے پاس رکھوں گی چھوٹی ایک بار میں ہی ختم ہو جاتی ۔۔ اور پھر چہرے پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی وہ انگلیوں کے بیچ سے مجھے دیکھ رہی تھی پھر بولی آج۔میں اوپر بیٹھوں گی ۔۔ اس کی امی بولی ہاں گاڑی کی چھت پر بیٹھ جاؤ تم پھر گاڑی کو دیکھتے ہوئے بولی پیچھے جمپ زیادہ لگتے ہا آگے ۔۔۔میں نے اس کے ہپس پر نظر جما کے بولا پیچھے بولی پھر سارا سفر پیچھے ہی کروں گی میں نے کہا نہیں پیچھے باجی لیٹ جائے گی آپ آگے ٹھیک ہیں وہ مسکراہٹ بھرے چہرے کو ہاتھوں میں چھپا کر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ بولی امی میں بھی آج کوئی بڑا انجیکشن لگواؤں گی ایک ہفتے سے جسم کے انگ انگ سے درد اٹھ رہے بار بار جسم بخار سے تپنے لگتا ۔۔۔۔۔ میں اٹھ گیا تھا باجی کے پاؤں میں شدید درد تھا اور اسے سائقہ پکڑ کر گاڑی کے پاس لائی تھی سائقہ اسے پچھلی سیٹ پر بٹھا چکی تھی میں نے چارپائی سے تکیہ اٹھایا اور باجی کو دے دیا سائقہ نے ماں سے اجازت لیکر صرف بڑی سی چادر اوڑھ لی اور گیٹ کی طرف چل دی میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور مین گیٹ کی طرف بڑھا دی سائقہ گیٹ کھول اس کے ایک پلے کے پیچھے کھڑی تھی میں نے گاڑی گلی میں سیدھی کر کے کھڑی کر دی سائقہ مین گیٹ کو تالہ لگا کر آئی اور فرنٹ سیٹ پر برجمان ہو گئی بستی سے نکلنے کے بعد باجی تکیہ کو سائقہ کی سیٹ کے پیچھے گاڑی کی کھڑکی کے پاس لگا کر لیٹ گئی اور اسی لمحے سائقہ نے اپنی قمیض کو توڑا اوپر سرکایا اور اپنی دائیں ٹانگ کو اپنی دوسری ٹانگ پر رکھ دی اس پاجامے میں جکڑے ہپس کو میری طرف پھیر کر بیٹھ گئی اور بغیر کچھ بولے شیشے سے اس پار دیکھتے ہوئے مسکرائے جا رہی تھی وہ کبھی کبھی ان بڑے ہپس پر ہلکی تھپکی دینے لگتی ببلو کروٹ لیتے انڈروئیر سے راستہ بنا کر پینٹ میں میری ٹانگ کے ساتھ لگ چکا تھا سائقہ مجھے اپنی قاتل اداؤں سے مسلسل گھائل کرتی جا رہی تھی گاڑی مین روڈ پر فراٹے بھرتی شہر کو بڑھ رہی تھی اس وقت اندھیرا اپنے سائے گہرا کرتا جا رہا تھا میں سائقہ سے خیال ہٹا کر کچھ سال قبل میڈیکل کالج کے دوستوں کی یادوں کو دھرا رہا تھا میرے ہونٹوں سے ایک بار آہستہ سے نکلا ڈاکٹر طاہر ۔۔۔۔۔۔ گاڑی ایک پرائیویٹ کلینک کی پارکنگ میں پارک کرنے کے بعد ہم کلینک کی عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے سائقہ اپنی امی کو بازو سے پکڑے پیچھے آ رہی تھی اور میں اپنے قدموں کو قدرے تیز چلاتا ہوا ایک جگہ سے ویل چئیر لے آیا سائقہ کی امی نے محبت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے مجھے دعائیں دیں میں سائقہ کے نازک ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے ویل چیئر کو آگے بڑھا رہا تھا استقبالیہ کونٹر پر پہنچے تو ایک نرس نے آگے بڑھ کر نمبر کا پوچھا سائقہ۔نے بتایا کہ نمبر ابھی لینا ہے نرس معذرت کرتے ہوئے جانے لگی کہ نمبر دو دن پہلے لینا پڑتا ۔۔۔ سائقہ اور اس کی امی پریشان ہو گئی پیچھے کو مڑتی نرس کو میں نے سنیئے ۔۔۔۔ کہہ کر روک دیا ۔۔۔میں نے کہا ڈاکٹر صاحب کو بولئیے زاہد ملک آیا ہے ۔۔۔۔ بولی سوری سر نمبر پھر بھی نہیں ملے گا ۔۔۔ میں بولا میں نے آپ سے نمبر تو نہیں مانگا ۔۔۔ ڈاکٹر کو پیغام پہچا سکتی ؟؟؟۔ وہ میرے سر سے پاؤں تک نظریں دوڑاتی اوکے کہہ کر چلی گئی اور دو روم چھوڑ کر ایک روم میں داخل ہو گئی باہر لان سے اس گیلری تک مریض کا خاصا رش تھا اور دو دن بعد نمبر دینے کی بات کسی طور غلط نہیں تھی اسی تیسرے روم کے ڈور کے آگے ڈاکٹر طاھر خان میڈیکل سپیشلسٹ کی تختی لٹک رہی تھی نرس کے اندر جانے کے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں سفید کوٹ پہنے جینز شرٹ میں ملبوس ڈاکٹر طاہر تقریباً بھاگتے ہوئے باہر نکلے تھے اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے مجھ پر نظر پڑتے ہی بازوں کو پھیلایا اور قہقہہ لگاتے میرے طرف بڑھے ڈاکٹر طاہر میرے شہر کے میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ تھے اور دوستوں کا ایک اچھا گروپ بن گیا تھا باجی کا مکمل چیک اپ کے ساتھ میڈیسن دیں اور کچھ انجکشن وہیں لگا دئیے میڈیسن اور فیس کی پیسے نہ لینے کے ساتھ سائقہ کو پانچ ہزار کا نوٹ تھما دیا میرے ٹوکنے پر بولا نہیں میری بھی تو بھانجی ہے ۔۔ واپس گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میں پیچھے مڑ کر باجی سے پوچھا اور کچھ لینا ہے ؟؟؟ سائقہ فٹ سے بولی بس اب صرف لوشن ۔۔۔۔ میں نے ساتھ والے جنرل سٹور سے بےبی لوشن کی بڑی بوتل لے لی اور گاڑی میں آ کر سائقہ کی ٹانگوں کے بیچ دبا دی ۔۔۔ باجی پیچھے لیٹی ہوئی تھی سائقہ نے لوشن کی بوتل ہاتھ میں اٹھا کر بولی اس سے بڑی نہیں تھی کیا ؟؟؟ میں نے کہا اس سے بڑی نہیں ہوتی ۔۔ منہ بنا کے بولی یہ تو میری آج رات کی بھی پوری نہیں ہو گی باجی بولی آپ نے پینا ہے کیا آہستہ سے بولی لگا کے پینا ہے ۔۔۔رات نو بجے ہم ہم گھر پہنچ کر کھانا کھا رہے تھے کھانے کے بعد سائقہ کی امی نے بولا مجھے دوائی کا سمجھا دو میں دو راتوں سے نہیں سوئی بہت تھکی ہوں میں نے پینٹ کی جیب میں پڑے نیند کی گولیوں کے پتے سے صرف آدھی گولی نکال لی تھی اور باقی ٹیبلیٹس کے ساتھ باجی کو کھلا دی کیونکہ اسے سکون کی ضرورت تھی باجی نے سائقہ سے بولا بھائی کا بستر چھوٹے کمرے میں لگا دو اور تم بھی آج جلدی سو جاؤ ساتھ پڑی چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔ سائقہ بولی آج تو میرا سکول کا اتنا کام ہے کہ پوری رات بیٹھی رہوں پھر بھی ختم نہیں ہو گا۔۔۔ باجی نیم بند ہوتی آنکھوں سے دھیمے لہجے میں بولی بھاس کی کاپیاں کتابیں دیکھ لو کچھ پڑھتی بھی ہے یا نہیں میں سائقہ کے ساتھ اٹھ گیا ساتھ والے کچے کمرے میں سائقہ نے ایک ٹیبل پر کتابوں کو سلیقے سے رکھا ہوا تھا میں کرسی پر بیٹھنے لگا تھا کہ سائقہ نے میرے ببلو پر زور سے تھپڑ مار کر بولا ہڈ حرام نہ بنو ادھر آؤں اور میرے ساتھ بستر لگواؤ میں آج تیری کلاس لیتی ہوں زیادہ ماموں بننے کی کوشش نہیں کرو ۔۔۔۔ سائقہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہپس کو مٹکاتی گھر کے کونے میں موجود پکے کمرے کی طرف چل پڑی جو اس بڑے گودام کے ساتھ تھا اندر جا کر سائقہ نے لائٹس جلا لیں اور بولی بستر اٹھواؤ میرے ساتھ میں بستر اٹھانے کو آگے بڑھا تو مجھے ہاتھوں سے پکڑ کر ہنسنے لگی اور بولی ادھر ٹھہرو ۔۔۔ پھر بستر کو ایک بہت چھوٹی چارپائی پر بچھا دیا اور ساتھ پڑی بڑے چارپائی کو بازوں کے بل کھڑا کر دیا میں نے کہا یار میں اس پر سوؤں گا اس بڑی چارپائی پر بستر لگا دیتی ۔۔۔ بولی ہم سنگل مہمان کو یہ چارپائی دیتے ہیں بیگم ساتھ ہوتی تو پھر بڑی چارپائی دینی تھی لہذا یہاں شہر والے نکھرے نہیں چلتے اکیلے سونا ہے اور دل سے سارے لالچ ختم کر کے سو جاؤ تاکہ میں آپ کے آگے تالا لگا کر اپنی مصعوم امی کی عزت بچا سکوں ۔۔۔ میں مسکرا کر اسے تکتا جا رہا تھا پھر باہر جاتے ہوئے بولی صبر کا گھونٹ بھرو اور سو جاؤ۔۔۔ اور وہ چلی گئی کچھ لکڑیاں پھینکنے کی آواز آئی اور نلکا چلنے کی آواز کے کچھ دیر بعد وہ آئی اور لوشن بوتل دیکر بولی جہاں گرد بہت اڑتی ہے جلد پر خشکی ہو تو تھوڑی سی لگا لینا ۔۔۔ ساری ختم نہیں کرنی ۔۔۔ وہ گلے میں لٹکے دوپٹے کو ساتھ کھڑی چارپائی پر ڈال کر اپنی پونی کھولی اور بالو کو جھٹکا کر اپنی پیٹھ پہ پھیلا دیا وہ پیچھے کو دیکھتی اپنی ہپس مٹکاتی باہر جاتے ہوئے بولی اب سو جاؤ میں سونے جا رہی ہوں میں نے مسکراتے ہوئے اسے فلائنگ کس کر دی بولی مجھے آپ کی نظروں میں کوئی لالچ نظر آنے لگا ہے بولو کچھ چاہیے میں نے کہا برائیلر مرغی بولی وہ تو ابھی نہیں مل سکتی صبح بات کریں گے ۔۔۔ وہ چلی گئی دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا پندرہ منٹ بعد آ کر آنکھوں کو ملتی ہوئی بولی ۔۔۔آپ نے امی پر کوئی جادو کر دیا ہے اب وہ سونے بھی نہیں دیتی بولتی ہے میرا بھائی تھکا ھوا ہے اسے جا کر ٹانگیں دبا دو پھر منہ بناتے ہو کنڈی اندر سے بند کر کے میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی اور میری ٹانگوں پر ہاتھ ہلکے ہلکے دبانے کی ساتھ ہاتھوں کو اوپر کی طرف لانے لگی پینٹ میں ایک جگہ ابھار آنے پر بولی یہ کیا ہے میری امی کے بھائی ؟؟؟؟ پھر ہنسنے لگی میں نے کہا پتا نہیں دیکھ لو ؟؟ اس نے پینٹ کا بیلٹ کھول دیا وہ اب سنجیدہ ہوتی جا رہی تھی اور سانسیں تیز ہو چکی تھی پینٹ کو ٹانگوں سے نیچے کھینچ کر انڈروئیر کے اوپر ببلو پر گال رکھ کر آنکھیں بند کئے کچھ دیر پڑی رہی پھر وہ اٹھ کر میرے سینے پر لیٹتے ہوئے میرے چہرے پر کسنگ کرتے ہوئے بولی۔بہت شکریہ آج آپ نے میری محبت کو پختہ کر دیا آنے سے پہلے بتا دیا کرو ورنہ تمھیں اچانک دیکھ کر میں کسی لمحے پاگل ہو جاؤں گی میں نے اس کو باہوں میں بھرتے ہوئے کہا آج آپ نے مجھے بھی بہت پاگل کر دیا ہے اب خود ہی بھگتو گی بولی مجھے اپنے ساتھ کیوں نہیں لے جاتے میں نے کہا میٹرک اچھے نمبروں سے کرو گی تو تجھے پکا اپنے ساتھ رکھوں گا ہاتھ بڑھا کر بولی وعدہ میں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا وعدہ ہ ہ میں اٹھ گیا اورسائقہ کو کھڑا کر کے اس کی قمیض بریزر اور شمیض اتار دی اور پیچھے بیٹھ کر پاجامے سے اس کی ہپس چھڑاتے ہوئے کسنگ کرنے لگے میں نے سفید ریشم کی کی گٹھری کی طرف بچوں کے طرح اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور اس کے مکھن کے پیڑے جیسے گول بوبز پر لگے ہلکے چھوٹے گلابی نپلز کو چوسنے لگا وہ اتنے نرم تھے کہ دانت لگانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ کہیں کٹ نہ جائیں ۔۔۔۔ بولی آج مجھے قتل کرو گے ناں ؟؟؟؟ میں نے اپنے ہونٹوں سے اس کے بوبز دبا دئیے وہ میرے گلے میں باہیں ڈالے تیز سانسوں سے منہ میں آئے پانی کو بار بار گلے سے اتار کر مجھے ہرنی جیسی آنکھوں سے دیکھتے خاموش زبان میں کہہ رہی تھی کہ میں کانچ کی گڑیا پیار میں بہت اوپر آ گئی ہوں مجھے یہاں سے چھوڑ کر توڑ نہ دینا میں نے ایک دم اس کے ہپس اور کندھے کو پکڑے اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر اپنے سینے کے اندر ڈالنے کی بھرپور کوشش کی سائقہ نے بھی اپنی باہوں کی گرفت میرے گلے پر سخت کر دی اور ہلکی سی چیخ جیسی آواز نکالی میں اسے بستر لگی اس چھوٹی چارپائی پر اسے آرام سے رکھ دیا جیسے تازہ پھولوں کا گلدستہ باریک ڈور سے بندھا ہو میں نے اپنی شرٹ اتار کر ساتھ کھڑی چارپائی پر ڈال دی ۔۔۔ میں نگاہیں ملائے چارپائی پاس آیا سائقہ نے آنکھوں کو جھپکائے بغیر اپنا ہاتھ میری انڈروئیر میں ڈال کر اسے گھٹنوں تک نیچے کر دیا بےلگام گھوڑے کی طرح بپھرتے ببلو کو اپنے ہاتھ میں بھرنے کی کوشش کے ساتھ پکڑ کر سائقہ نے اپنے گال پر رکھ کر ببلو کو مست کر دینے والا لمس دیا میں نے انڈروئیر اپنی ٹانگوں سے نکل کر اس چھوٹی چارپائی پر بیٹھ گیا چارپائی نے ہلکی سی چی چی کے ساتھ مجھے ویلکم کہا میں سائقہ کے ہپس کے اوپری کناروں کو پکڑ کر اس کی ٹانگوں کی بیچ بیٹھ کراس کی پتلی کمر اور بل کھاتے پیٹ کو دیکھ کر اوپر کو نظر اٹھاتا اس کی برف سے ڈھکی سفید پہاڑوں کا نظارہ کرنے لگا میری باڈی سے تقریباً آدھے جسم کی مالک سائقہ پیار اور حسن کی لازوال مثال تھی میں نے جھک کر سائقہ کی ران پر اس جگہ اپنے ہونٹ رکھ دیئے جو ذرا زیادہ کانپ رہی تھی آنکھیں بند کر کے کسنگ کرنے کے بعد میں نے اپنا سر اوپر اٹھا کر سائقہ کی گول مکھن جیسی رانوں کو ہاتھ بھر کر پکڑا تو سائقہ التجا بھرے لہجے میں بولی میرے ساتھ کچھ دیں سو جاؤ گے میں اس کی محبت بھری آنکھوں پر بوسہ دیتے چھوٹی چارپائی پر اس کے ساتھ سو کر اپنی ٹانگیں لمبی کر لی میری پنڈلیوں کے درمیانی حصے پر چارپائی ختم ہو چکی تھی میری پیٹھ کی نیچے چارپائی کا بازو چبھ رہا تھا اور میرے سینے سے چپک جانے والی سائقہ کے اس پار بھی چارپائی پر کوئی گنجائش باقی نہیں تھی میں سائیڈ پر سو کے سائقہ کو اپنے سینے کے اندر ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا اور سائقہ اپنے ننھے جسم کو میرے سینے کے اندر پرونکی کوشش میں سرگرداں تھی وہ رونے والے انداز میں لمبی آئی ی ی کرتی میرے بائیں بغل میں ہاتھ ڈال کر مذید اپنی طرف کھینچ رہی تھی اس کی ٹانگیں گھٹنوں سے اوپر ایک۔دم گول او موٹی ہوتی ہوئی تھوڑے سے فاصلے پر ہی پیچھے کو نکلنے ہوئے ہپس کی شکل اختیار کر کر گئی تھی اور ہپس سے اوپر الگ دھڑ معلوم ہونے لگا تھا موٹے گول ہپس سے آگے پہاڑی جیسی اترائی تھے اور اس میں کم سے 6 نچ کا فرق تھا ہپس سے نیچے ایک دم اترائی کے بعد اس کا جسم گول کمر اور گول باڈی کے ساتھ ابھرے ہوئے گلابی نپلز کے ساتھ تنے ہوئے تھے اور اس سے توڑا اوپر نرم سفید ریشم جیسے گال اور سلکی درمیانے بال۔۔۔ میرے پاؤں سے ایک فٹ اوپر سے شروع ہونے والی سائقہ میرے سر سے ایک فٹ نیچے ختم ہو رہی تھی میرے سینے پر چمکی سائیڈ پر سوئی سائقہ کے ہپس کا اس وقت سب سے بلند حصے میرے دائیں ٹانگ سے تھوڑا اوپر تھا اور میں بائیں ٹانگ اس کے ہپس پر رکھ کر قطعاً یہ۔محسوس نہیں کر رہا تھا کہ میں نے اپنی ٹانگ کسی اونچی جگہ رخھ لی ہے میں اس کے نرم ہپس کو اپنے ہاتھوں میں بھر رہا تھا اور پھر میرا ہاتھ اپنے ببلو کی ٹوپی پر جا لگا میرا ببلو سائقہ۔کی ٹانگوں کے درمیان سے ہوتا ہوا اس کے ہپس کے نچلے حصے سے معمولی فاصلے پر تقریباً تین انچ باہر نکلا ہوا تھا اور سائقہ نے اسے اپنی نرم رانوں میں جکڑ رکھا تھا میں نے سائقہ کو بغلوں کے۔نیچے ہاتھ ڈال کر اوپر کھےنچ لیا تھا اور اس کے بوبز کر اپنی آنکھوں پر رکھ دیا میری آنکھیں گرم ٹکور سے پر سکون ہونے لگی تھی سائقہ نے اپنی ننھی نرم بھری بھری انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے لرزتے جسم اور اکھڑی سانسوں کے ساتھ بولا بسسسسس ۔۔۔۔ اب ۔۔۔ کروووو۔۔ میں نے اٹھتے ہوئے سائقہ کو چارپائی کے درمیان کر دیا سرہانہ اس کےبسر کے نیچے سے نکال کر آس کی دونوں ٹانگوں کو پاؤں کے قریب سے ایک ہی ہاتھ میں پکڑ کر اوپر کو اٹھائیں اور اس کے ہپس کے نیچے سرہانہ رکھ دیا سائقہ اپنی تھوڑی اپنے سینے سے ٹکائے نیم کھلی آنکھوں اور اوپری ہونٹ قدرے اوپر اٹھائے لمبے سانس لیتے مجھے دیکھ رہی تھی میں نے ببلو کو پکڑ کر اس کے پیٹ کے اوپر لے آیا ببلو کی نیچے لگی گولیاں ببلی کے ہوںٹوں سے جڑ کر کچھ باتیں کرنے لگی تھی ببلو ناف سے کافی آگے جا کر اس شفاف چھوٹے میدان پر اوپن ائیر کا مزہ لے رہا تھا میں نے اپنی پنڈلی کے پاس پڑی لوشن کی بوتل سائقہ کو تھما دی اس نے بوتل کا کلپ کھولنے کے بجائے پورا ڈھکن کھول کر ڈھکن کو چارپائی سے نیچے پھینک دیا اور اپنا سر تھوڑا اوپر اٹھا کر بوتل ببلو کے ڈنڈے پر آگے پیچھے کرتی آدھا لوشن گرا دیا تھا اور بوتل چارپائی کر اپنے ساتھ رکھ لی ۔۔لوشن ببلو کے ڈنڈے سے مختلف مقامات پر لکیر بناتی سائقہ کے سنگ مرمر جیسے سفید پیٹ پر گرنے لگی تھی میں ببلو کی ٹوپی اور باقی حصوں کو سائقہ کے پیٹ پر گھما کر اسے تر کر رہا تھا ببلو پوری طرح لوشن میں لپٹ گیا تھا اور لوشن کی کی کافی بڑی مقدار سائقہ کے پیٹ سے اس کی کمر پر لکیریں بنا کر گرنے لگی تھی میں نے سائقہ کی ٹانگیں اپنے سینے پر سجا رکھی تھی اس کی دونوں پاؤں میرے کندھوں سے نیچے میرے چہرے کے دونوں طرف آ گئے تھے میں نے سائقہ کی پاؤں کی دونوں تلیوں کو باری باری چوما اور لوشن میں لت پت ببلو کو ببلی کی لکیر پر آزاد چھوڑ دیا تھا سائقہ کا اوپری ہونٹ مذید اوپر اٹھنے لگا اور اس کی۔نیم کھلی آنکھیں پوری طرح کھلتی چلی گئیں ببلو لوشن کے مکمل ساتھ دینے سے پھسلتا کسی نرم سی دلدل میں نیچے جا رہا تھا سائقہ کے ہپس کپکپا کر اوپر اٹھانے لگے تھا میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اس کی کمر پر پھیر کر لوشن سے لت پت کیا اور اس کے ہپس پر مساج کرنے لگا ببلو کے چھ انچ سے آگے جانے پر سائقہ کی آنکھوں سے دونوں طرف آنسو گرنے لگے اور وائی وائی وائی کی دردِ بھری آواز کے ساتھ سائقہ کا پورا جسم لرزنے لگا میں نے ببلو کو روکے بغیر اسی ہلکی رفتار سے بڑھانے کے ساتھ سائقہ کے کانپتے پیر چومنے لگا۔۔۔ میرا آگے کو سرکنے والا جسم سائقہ کی باڈی سے ٹکڑا کر رک چکا تھا سائقہ کا منہ پوری طرح کھل چکا تھا اور اس کی وائی وائی وائی کی مدھم آواز اس کے حلق میں پھنس گئی تھی سائقہ کے موتیوں جیسے دانت بہت بھلے لگ رہے تھے میں اس کے پاؤں چومتا اپنے ہاتھوں کو اس کی کمر سے گرنے والی لوشن سے تر کر کے اس کے بوبز کو ہاتھ بھر بر کے مساج کرنے لگا اس کے گلابی نپلز کو نرمی سے انگلیوں میں بھر کر مسلنے لگا تو سائقہ نے سسکیاں کے ساتھ کافی دیر سے ساکت پڑے ہپس کو تھوڑا اوپر ہلایا اور آنکھیں کھول کر درد بھری محبت سے مجھے دیکھنے لگی میں نے اس سے نگاہیں ملا کر ببلو کو تھوڑی حرکت دینی شروع کر دی سائقہ آنکھوں کو جھپکائے بغیر میں آنکھوں کا ساتھ دیتے ہوئے اونہہ اونہہ کر رہی تھی میں جسم کو حرکت اتنی دے رہا تھا کہ سائقہ کے جسم سے الگ نہیں ہو رہا تھا سائقہ میرے سینے پر اپنی بھرے بھرے گول سفید ریشم جیسے ہاتھ ٹکا کر اونہہ اونہہ کر رہی تھی سائقہ کے جسم پر پسینے کی ننھی بوندیں نمودار ہو گئی تھیں جیسے اس نے بہت زیادہ وزن اٹھا رکھا ہو پھر اس نے اپنے ہونٹوں کو دو بار گول کر کہ مجھے بولے بغیر آنکھوں سے چہرہ قریب لانے کا کہا میں نے اس کی اپنے سینے پر سجی ٹانگوں کو اپنی سائیڈوں پر رکھا اور اس پر جھک گیا اس نے میرے ہونٹوں کو چوستے ہوئے زبان باہر لانے کا اشارہ دیا اور میری زبان کو اپنے منہ میں بھر لیا میں نے اس پرجوش لمحات میں اپنے جھٹکوں میں ذرا سی تیزی بھر لی وہ میری زبان کو چوس کر اندر لینے کی کوشش کے ساتھ اونہہہہہہہہہ اونہہہہہہہہ اونہہہہہہہہہ کی گہری آوازوں کے ساتھ اپنے ہپس ذرا اوپر اٹھانے شروع کر دئیے اور پھر جسم کو اکڑاتے ہوئے میری زبان کو چھوڑا اور ذرا سائیڈ پر چہرہ پھیر کر وششششششششش کی لمبی سیٹی نما آواز کے ساتھ کمر کو بل دے کر ہپس کوتھوڑا کپکپایا اور پسینے بھرے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا میں رک چکا تھا اور اس کے ان لذت کے لمحات کو محسوس کرنے لگا کچھ دیر بعد اس نے۔آنکھیں کھودیں اور میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر۔مجھے پیار بھری نظروں سے تکے جا رہی تھی پھر ۔۔۔۔پہلے سے ذرا اونچی آواز میں بولا ذرا اٹھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آہستہ سے ببلو کو باہر نکالتا اٹھنے لگا ابھی ببلو تقریباً دو انچ اندر تھا کہ اس نے اپنی بائیں ٹانگ کوتھوڑا سکیڑ کر دائیں طرف گھوم گئی ببلو اس کے ہپس کو چومتا اوپر کو اٹھ گیا سائقہ نے چارپائی کے سر والی سائیڈ سے پکڑا اور اپنے پانی کی لہروں کی طرح مچلتے ہپس میرے سینے برابر اٹھائے اور الٹا لیتے ہوئے میرے سامنے سجا دئیے۔۔۔۔۔۔۔ اور بائیں ہاتھ سے لوشن کی بوتل مجھے تھماتے ہوئے ہوں ں ں ں کہ کر میرے دل پر گہرے پیار کا مکا مارا ۔۔۔۔۔ میں نے چارپائی سے اٹھتے ہوئے اس کے ہپس پر تھپکی دی اس نے سر اٹھا کر مسکرا کر پوچھا کیا اااا ہے ؟؟؟ میں سائقہ کو اٹھنے کا اشارہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اففففففف اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر قیامت لگ رہی تھی شیشے جیسے شفاف گورے برابر گول باڈی پر مکھن کے پیڑوں پر لگے ننھے شہد سے میٹھے گلابی نپلز پتلی کمر اور موٹے پیچھے کو نکلے سفید ریشم جیسے ہپس کو گھماتے میرے جذبات کو مذید بھڑکا گئی میں نے چارپائی کے بازوں پر رضائی کو تہہ کر کے رکھ دیا اور سائقہ کی پتلی کمر کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر اسے پیچھے لانے لگا میں نے سائقہ کو گھوڑی بنا کر اس کی کمر پر تھپکی دے کر اسے مذید جھکا دیا اب اس کے گورے ریشمی ہپس پتلی کمر کے اس بل کھا کے کھڑے ہونے سے مذید دلکش ہو گئے تھے میں تےز سانس لیٹے لوشن کی بوتل اٹھائی ببلو کے نیچے لگے جھمکوں کو نرم ہپس سے ٹکرایا اور ببلو کو سائقہ کی پیٹھ پر سجاکے اس پر لوشن انڈیلنے لگا لوشن ببلو پر لکیریں بناتی سائقہ کے بھرے بھر ہپس پر گرنے لگی میں ببلو کو گھما گھما کو اسے لوشن میں لپیٹا پھر لوشن کی بوتل سے کچھ لوشن ہپس کی درمیانی لکیر میں گرایا لوشن کی دھار لکیر میں غائب ہونے لگی میں نے بوتل کو چارپائی کی کنارے رکھا اور دونوں ہاتھوں سے ہپس کے پٹ کھول کر دیکھا لوشن ہول تک آ گئی تھی پچھلے گلابی ہول کے لمس کو محسوس کرتے ہوئے ببلو نے فراٹے بھر ہوٹ ادھر ادھر ادھر کہنا شروع کر دیا میں نے ببلو کی ٹوپی کو ہول کے منہ پر سجایا اور ہپس کے پٹ بند کر دئیے میں نے سائقہ کے ہپس اور کمر کے درمیانی خم میں ہاتھ جما کر سائقہ کو آہستہ آہستہ پیچھے کھینچنے لگا ہول پر دباؤ بڑھاتے ببلو نے پھسل کر انٹری۔مار دی اور آگے بڑھنے لگا سائقہ نہ اونہہہہہ اونہہہہہ کی گہری آواز سے اپنی کمر کو کمان کی طرح ٹیڑھا کرتے ہوئے اپنے ہپس گرانے شروع کر دئیے جیسے اس پر بہت زیادہ وزن رکھ دیا ہو ببلو کے تین انچ اندر جانے کے بعد میں رک گیا اور اےک بار پھر سائقہ کی کمر جھکا کر پوزیشن درست کی لوشن کی بوتل اٹھا کر ہپس کے درمیانی لکیر میں بہت سا لوشن گرایا اور سائقہ کے ہپس پر پہلے سے موجود لوشن سے ہاتھ تر کر کے ببلو کو تازہ کیا سائقہ میرے رکے۔ہونے کے باوجود اونہہہ اونہہہ اونہہہہہہ کر رہی تھی میں نے اپنی کمر کے زور سے سائقہ کو کمر سے پکڑ کر ببلو کو آگے دھکیلنے لگا ہپس کی درمیانی لکیر سے نیچے آنے والی لوشن نے ببلو کو جلا بخشی اور وہ سلپ ہوتاٹپک مار کر چھ انچ تک اندر چلا گیا سائقہ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ ایک بار پھر اونہہہہہہہہہ اونہہہہہہہہہ اونہہہہہہہہہ کی لمبی آوازوں کے ساتھ اپنے ہپس گرانے لگی میں نے ادھر رک کر کچھ دیر ستایا سائقہ کی پوزیشن درست کرتے ہوئے بولا جان ۔ ۔۔۔۔۔۔ بولی جی ۔۔۔ جان ن ن
جاری ہے

Post a Comment

0 Comments