دیہاتی لڑکی ۔ نویں قسط

 


دیہاتی لڑکی

نویں قسط

تحریر: ماہر جی


میں سائقہ کو اپنے سینے کے اندر چھپانا چاھتا تھا وہ میرے انگ انگ میں رچ بس گئی تھی میں اس سے پیار نہیں عشق کر رہا تھا زینت نے ایک بار پھر اسے ٹوکتے ہوئے کہا او چھوٹی بیگم صاحبہ اب اٹھ جاؤ اور مجھے پہنچا دو۔۔۔ آج کی پوری رات تمھاری ہے تیرے ماموں نے میرے ساتھ ڈن کر رکھی ہے ۔۔۔ سائقہ نے مسکرا کر میری طرف تھوڑا مڑ کر پوچھا سچ ؟؟۔ میں اس کی ران پر تھپکی دی اور ہمممممم کہہ دیا آہستہ سے بولی ٹائم کیا ہوا میں نے موبائل اٹھا کر دیکھا 10:10بج گئے تھے پوچھا اور کتنا ٹائم لگے گا ایسے ۔۔۔ میں نے کہا جیسے تم گاڑی چلا رہی ہو مذید دوگھنٹے ۔۔۔۔۔ مسکراتے ہوئے بولی کیا کہتے ہو ؟؟؟ میں نے کہا کل پھر چلا لینا بولی ٹھیک ہے آپ سنبھالو اسے ۔۔۔ میں نے اسٹیرنگ کو کنٹرول کرلیا میری جھولی سے اپنے ہپس اٹھاتے ہوئے نیچے دیکھ کر بولی ۔۔۔ تیرا ببلو تھک کر سو تو نہیں گیا ؟؟۔ میں نے کہا ببلی اوپر ہو اور ببلو سو جائے ؟؟ یہ۔کیسے ہو سکتا زینت تھک چکی تھی اور خاموش بیٹھی تھی سائقہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر بھرپور انگڑائی لے کر مجھے دیکھا اور مسکرانے لگی ۔۔۔ میں نے زینت سے پوچھا اس کا کیا کریں آج رات ؟؟۔ بولی پچھلی سیٹ کی پٹائی کرنی چاہئے اس کی ۔۔۔ پھر زینت نے سائقہ سے سوال کیا کیوں چھوٹی بیگم ۔۔۔۔ سائقہ بولی میں نے اپنی جان مانوں کے حوالے کر دی ہے اس کی مرضی جو کریں میں بھلا کیسے منع کر سکتی ۔۔۔۔ میں گاڑی انتہائی تیز رفتاری سے بھگا رہا تھا سائقہ بولی مانوں مہوش کا کیا کرنا ہے ۔۔۔ میں ایک لمحے بعد بولا سائقہ تم اسے بہتر جانتی ہو مجھے پتا نہیں کہ وہ کیسی لڑکی ہے جیسے بہتر سمجھو مجھے بتا دینا ۔۔۔ بولی مانوں آپ کو اچھی لگی مہوش ؟؟؟ میں نے مسکرا کر کہاں میرا کام خر دے گی تو اچھی لگے گی لیکن اس کا کوئی فیصلہ میں نہیں کرونگا ۔۔۔وہ آپ کریں گی ۔۔۔ میں نے کہا ایک بات کہوں ؟؟؟ بولی جی ۔وہ معصومیت سے مجھے دیکھنے لگی تھی میں نے کہا کہ آپ کو پتا میں آپ سے کتنا پیار کرتا وہ اپنے چہرے کو قاتل انداز میں دوسری طرف گھما کر بولی۔آپ مجھ سے پیار نہیں کرتے میں کرتی ہوں ۔۔۔ پیار آپ کو ۔۔۔ زینت بولی اس مانوں نے آپ کے عشق میں میرے سے بھی لفٹ کم کر دی ہے ۔۔ سائقہ بولی میرا ایک مانوں ہے اور تو اس کے ساتھ نعمت سے بھی پیار بٹا لیتی ۔۔۔ میں نے ایک مانوں بنایا اور دیکھ لینا بس ایک مانوں ہی رہے گا وہ گیئر لیور پر رکھا میرا ہاتھ چومنے لگی تھی اور پھر اس پر اپنا مکھن جیسا نرم و نازک ہاتھ گال رکھ کر وشش کہہ کر آنکھیں بند کر لیں ایسی لڑکیاں بہت کم ہوتی ہیں جو ہر طرح کے لباس اور بغیر لباس کے بھی خوبصورت ہوتی ہیں سائقہ سنگ مرمر کا ایسا دلکش مجسمہ ہے جس پر سب کچھ سج جاتا اور اس کے جسم پر لباس سمیت ہر چیز سج کر اپنی خوبصورتی بڑھا لیتی اور سائقہ سب کچھ اتار دیتی تو ۔۔۔۔۔۔۔ اففففففففف میں نے گاڑی اپنے گھر کی گلی میں موڑ لی گیٹ کھولنے کے بعد میں اپنی گاڑی کو دو شہزادیوں سے سجا کر واپس لایا تھا زینت کے بعد سائقہ گاڑی سے اتری اور جینز میں جکڑے اپنے ہپس کو مٹکاتی ادھر ادھر ٹہلنے لگی تو میں بےقابو ہو گیا اور اس کو اپنی باہوں میں بچوں کی طرح اٹھا کر اس کے گال چوسنے لگا زینت مسکراتے ہوئے بولی قسم سے آپ کا خطرناک عشق ہے آپ دونوں مر جاؤ گے روم میں آ کر بھی میں اسے اٹھا کر بھرکتے جذبات میں اس کے ایک ایک انگ کو پیار رہا تھا سائقہ کا سفید چہرہ گلابی ہو گیا تھا اور اب وہ میرے گالوں کو اپنے دانتوں سے کاٹ رہی تھی میں نے سائقہ کو بیڈ پر پٹخ دیا اور کپڑوں کے شاپر ایک طرف ہٹاتے ہوئے اس کے ساتھ لیٹ گیا سائقہ کسی تتلی کی طرح اڑ کر میرے سینے پر آ گئی اور آنکھیں بند کر سو گئی وہ بہت دیر تک ساکت پڑی رہی پھر اس نے میری شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دئیے اور میرے سینے پر کسنگ کرنے لگی صوفے پر بیٹھی زینت کو میں نے ادھر آنے کا اشارہ دیا تو وہ بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی ایک بات کہوں ناراض تو نہیں ہونگے زینت سنجیدگی سے بولی تھی ۔۔۔ میں نے کہا بولیئے ۔۔۔کہنے لگی آج مجھے درد بھی ہوا ادھر جب جنگل میں ملے اور ابھی میرے پیٹ کا سارا دباؤ نیچے کی طرف ہے۔۔۔۔ پھر وہ مسکرا کے بولی مجھے آپ کا پیار دیکھ۔کر مزہ آ رہا ہے اور میں صرف دیکھتی رہوں گی ۔۔صبح آپ جو بولو گے کروں گی ۔۔۔۔ میں نے کہا وہ تو ٹھیک ہے آپ بیٹھوں ہمارے ساتھ اور اگر طبیعت میں کچھ مسئلہ لگ رہا تو ہسپتال چلے جائیں گے بولی دیکھتی ہوں ابھی اتنا مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔۔ سائقہ ہماری باتوں سے بےنیاز پاگل پن کا مظاہرہ کر رہی تھی اسے آج پہلی بار اتنی پرسکون جگہ میسر آئی تھی زینت نے اس کے ہپس پر زور کا تھپڑ مارا اور بولی یہ رنڈی تو مر جائے گی پتا نہیں کیا کر دیا اس کو آپ نے سائقہ نے پہلی بار سر اٹھایا اور بازو کو کہنی سے پکڑ کر بولی اتنا بڑا ٹیکہ لگایا اس نے پیار کا ۔۔۔۔پھر بہت میرے سینے پر زور کا مکا مار کر بولی بہت ظالم ہے یہ شخص ۔۔۔۔۔گندہ مانوں سائقہ میری پینٹ کا بیلٹ کھول کر اسے اتارنے لگی اور پھر میری ٹانگوں کے درمیان الٹی لیٹ کر انڈرویئر اتار کے ببلو کو اپنے بھرے بھرے نازک گورے ملائم ہاتھوں میں ببلو کو سہلاتے ہوئے اسے غور سے دیکھ رہی تھی اور اس کی ٹوپی کو کس کرتے ہوئے بولی کتنا مست ہو رہا ہے بچیوں کو دیکھ کر ۔۔۔زینت بولی تجھے دیکھ کر یہ زیادہ مست ہو جاتا ہے میںاٹھ کر سائقہ کی شرٹ اتارنے لگا زینت نے میری شرٹ اتار دی اور سائقہ کے قریب آ کر اس کی پینٹ کے بیلٹ کو کھول کر پینٹ کو سائقہ کے ہپس سے کھیچ کھیچ کر اتارنے لگی سائقہ بدستور ببلو سے کھیل رہی تھی بہت سی محنت کے بعد زینت نے پینٹ سے اس ہپس کو باہر نکال لیا اور پینٹ ٹانگوں سے اتارتے ہوئے بولی اس شہزادی کو پہناؤ بھی اور اتارو بھی ۔۔۔۔ پھر بولی جلدی سے کر لو۔۔۔۔ مجھے بھوک لگی ہے سائقہ بولی جا کر۔کچھ کھا لو میں بس مانوں کو کھاؤں گی آج ۔۔۔۔سائقہ کے ریشمی سفید مچلتے ہپس دیکھ ھ کر ببلو حسبِ روایت بہت سخت ہو کر سائقہ کے ہاتھوں میں لوہے کے موٹے راڈ کی طرح عجلت میں تھا اور ریشم سے بنی اس سفید وادی میں اتر کر گلابی غار میں جانے کو بےتاب ہو رہا تھا سائقہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے زینت سے بولی گاڑی سے شہد کی بوتل تو اٹھا لاؤ ۔۔۔۔۔ زینت باہر چلی گئی اور سائقہ اپنا بریزر کارپٹ پر پھینکتے بیڈ پر سیدھی سو گئی اور بولی مانوں میرے اوپر لیٹ جاؤ۔۔۔ میں سائقہ پر لیٹ گیا اور ساری لڑکی کو اپنے سینے تلے دبا لیا ۔۔۔۔ سائقہ وشششششش وششششششش میری ساری تھکاوٹ آج دور ہو رہی تھی پھر مجھے باہوں میں پورا بھرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو ملانے کی ٹری کرنے لگی زینت نے شہد بوتل سائقہ کے ہاتھ میں تھما دی سائقہ مسکراتے ہوئے بوتل میری طرف بڑھائی اور بولی مانوں تیرا گفٹ۔۔۔۔ میں نے بوتل اس کے۔ہاتھ سے لی اور شکریہ ادا کیا میں نے بوتل کا ڈھکن کھولا اور شہد کو۔لکیر کی صورت میں اس کی بوبز پر گرانے لگا۔۔۔۔۔ زینت نے اس کے ہپس پر چٹکی بھری اور دانت پیس کر بولی تو چھوٹی عمر میں بہت بڑی رندی بن گئی ہے ۔۔۔ تو نہیں مرے گی لیکن میرے صاحب کو مار دے گی ۔۔۔ سائقہ میرے سر کو پکڑ کر اپنی انگلیاں میرے بالوں میں پھیرنے لگی میں اس کے بوبز پر پھیلا شہد چاٹ کر سائقہ کے جسم کا مٹھاس لے رہا تھا سائقہ اپنی ہرنی جیسی موٹی آنکھوں سے روم کی چھت کو دیکھ رہی تھی اس کے لب تھوڑے کھلے ہوئے تھے اور سانسوں میں تیزی آ رہی تھی اس کا چھوٹا پیٹ کبھی کبھی بل کھانے لگتا تھا ۔۔ سائقہ کی قوت برداشت جواب دینے لگی تھی اس بہت سا شہد چاٹنے کے بعد مجھے بھائی گرمی چڑھ گئی تھی سائقہ کا جسم اتنا ملائم اتنا خوبصورت اور اتنا نازک تھا کہ بہترین خدوخال کی مورتی کو آج کا موویز دیکھنے والا بوائے سائقہ کو اس حال میں پڑا دیکھ کر ہی ایک منٹ میں پانی چھوڑ جاتا ۔۔۔۔ میں نے ایک شاپر کی طرف جھک گیا اور سائقہ اٹھ بیٹھی تھی میں نے سائقہ کو لوشن دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ یہ آپ کا گفٹ۔۔۔۔۔۔ سائقہ مسکراتے ہوئے اسغکا ڈھکن کھولنے لگی اور زینت ہنستے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔۔ واہ ہ چکنے چکنے گفٹ۔۔۔ سائقہ لوشن کا ڈھکن کھول کو ببلو کو دیکھ رہی تھی وہ کس انتظار میں تھی میں سمجھ گیا تھا اور لیٹ گیا ۔۔۔ سائقہ تیز سانسوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ کر لوشن اپنے ہاتھ پر انڈیلنے لگی تھی اور ببلو پر لوشن لپیٹنے کے بعد اٹھ گئی تھی اور اپنے پاؤں میرے اردگرد رکھ کر زینت کو دیکھ کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی زینت بھوکی نظروں سے ببلو کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے سائقہ سے کہنے لگی توں بہت بڑی رنڈی ہے ۔۔ بدمعاش کہیں کی ۔۔۔۔۔ سائقہ نے جھک کر اپنے ہاتھ میرے سینے کے نچلے حصے پر رکھ کر اپنے گھٹنوں کو بل دے کر اپنے ہپس کو تھوڑا نیچے لا کر ببلی کے منہ کو ببلو کی ٹوپی پر ٹکا کر وشششششششش کے ساتھ چند سیکنڈ اپنی آنکھیں بند رکھی اور پھر مجھے پیار بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فلائنگ کس کے ساتھ اپنے ہپس کو نیچے لانے لگی ببلو کی ٹوپی کسی گرم وادی میں چلی گئی تھی میں نے بےاختیار افففففففففففف کے ساتھ اس کے گول مکھن کے پیڑوں جیسے بوبز کو اپنے ہاتھوں میں بھر لیا سائقہ کے اٹھے ہپس نیچے آ رہے تھے وہ بند آنکھوں اور کانپتے لبوں کے ساتھ وششششششش مانوں ۔۔۔۔۔ آآآآآآآآآ ۔۔۔۔ میرے مانوں ۔۔۔۔۔۔ کرتی دومنٹ میں پورے ببلو کو اپنے اندر چھپا کر درد بھری مدھم آواز اور بند آنکھوں کے ساتھ آہستہ سے مجھ پر لیٹ گئی زینت عجلت میں اٹھ سائقہ کے پیچھے جا کر بیٹھی اور بولی ۔۔۔ افففففف یار اس چھوٹی رنڈی نے اتنا بڑا کہاں چھپا لیا ۔۔۔۔ پھر زینت اس کے ریشمی ہپس پر اپنی مٹھی بھرتے ہوئے بولے بہت قابل بچی ہو ۔۔۔۔۔ توں خود بھی مرے گی اور میرے یار کو بھی مار دے گی سائقی۔۔۔۔۔۔ سائقہ اس کے باتوں سے بےنیاز میرے سینے پر رکھے اپنے سر کو اٹھا کر میرے سینے کو کسنگ کرتے ہوئے مانوں ں ں ں افففف ما۔۔۔۔۔ کہتے ہوئے تھوڑی بند آنکھوں کے ساتھ آہستہ سے اپنے ہپس کو ہلانے لگی تھی اور میرے ببلو کے ایک انچ جڑ والے حصے کو دس دس سیکنڈ بعد کھلی ہوا میں چھوڑتی اور پھر اندر چھپا لیتی زینت اٹھ کر کہنے لگی میں دوسرے کمرے میں جا رہی ہوں یہ رنڈی اس طرح مجھے مار ڈالے گی میں نے اپنے ہاتھ ٹیبل پر پڑی چابیوں کی طرف لہرا دیا زینت چابیاں اٹھا کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے افففف کہہ کر باہر چلی گئی سائقہ نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور ہنستی ہوئی میرے جسم پر اپنے ہاتھ ٹکاتی پورے ببلو کو چھپا کر اٹھ بیٹھی تھی مجھ سے نگاہیں ملاتی آئی ی ی آئی ی ی کے ساتھ قدرے تیزی سے جھولے لینے لگی اور تیز ہوتی چلی گئی اس کے آواز میں مستی بھرے لہجے میں مانوں ۔۔۔ افففففففف کہتی ان تینوں گرلز میں سائقہ کی ٹائمنگ بہت اچھی تھی زینت بھی قدرے بہتر تھی لیکن زھرا بہت سی کمزور ثابت ہوئی تھی سائقہ اکڑتے جسم کے ساتھ اپنے ریشمی ہپس کو جھلا رہی تھی اس نے اپنے لبوں کو سختی سے ایک دوسرے میں پیوست کر چکی تھی پھر وہ اپنی بند مٹھیوں سے میرے سینے پر زور دے کر ببلو کو پورے سے بھی آگے لیکر ساکت بیٹھ گئی اور اوں اوں کے کے بعد آآآآآآآآآآ کے ساتھ پورا منہ کھول لیا اور جسم کو ڈھیلا چھوڑنے کے ساتھ اپنے منہ سے میرے سینے پر لعل ٹپکانے لگی ۔۔۔ اور میرے اوپر لیٹے ہوئے میرے سینے پر مکے مار کر مانوں ں ں مانوں ں ں ں کہنے لگی میں اسے باہوں میں بھر لیا اور اس کے سر پر کسنگ کرنے لگا سائقہ مجھے پیار سے دیکھتے ہوئے میرے سینے کے اس حصے کو کسنگ کرنے لگی جہاں تھوڑی دیر قبل اس نے جانے کن جذبات میں مکے مارے تھے میں نے اس کے گالوں کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر پوچھا کہ میں آ جاؤں اوپر ۔۔۔ بولی ۔۔صبر۔۔۔۔۔ میں نے اپنا سر دوبارہ تکیے پر ٹکا دیا اور سائقہ اپنے جسم کو آہستہ سے ہلانے لگی تھی میں سائقہ کے مزے اور اس کی خواہش کے احترام میں ساکت پڑا تھا بصورت دیگر میرے جذبات میں شدت آ چکی تھی اور میں سائقہ کو اپنے نیچے دبا کر اس کی شاندار چدائی کرنا چاہتا تھا سائقہ آہستہ آہستہ اپنی رفتار بڑھا رہی تھی ببلو بہت آسانی سے گیلی سرزمین میں اپنے سفر پر گامزن تھا سائقہ کے بھرپور مزے کے لمحات شروع ہو گئے تھے اور اب وہ تالی کی آواز کے ساتھ اپنا جسم مجھے سے ٹکرا رہی تھی میں نے دو بار اس کی کمر کو پکڑ کر دو بار نیچے سے جھٹکا لگانے کی کوشش کی اور افففف اففففف کی آواز نکالی تو سائقہ مسکرا کر دیکھا اور پوچھا اوپر آتے ہو۔۔۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا وہ اٹھنا چاہ رہی تھی لیکن میں نے اس کو پکڑ کر بٹھا دیا اور اس کی کمر کو پکڑ کر آہستہ سے اٹھنے لگا ببلو پوری طرح سائقہ کے اندر تھا میں سائقہ کو اپنے آگے لیٹاتا گیا بولی پیچھے آکر کر لو نا مانوں میں نے اوکے کہہ دیا اور پورے ببلو کو اندر ٹکا کر میں نے اس کی بائیں ٹانگ کو پورا اٹھا کر اپنے سامنے سے گھماتا ہوا سائقہ کو رائٹ سائیڈ پر لیٹا لیا اور پھر اسے اسی طرح آہستہ سے الٹا لیٹا لیا میں سائقہ کی بہت محنت اور محبت سے ڈالے گئے ببلو کو خالی ہاتھ باہر نہیں نکالنا چاہتا تھا میں نے ٹکیہ بیڈ کے کنارے پر رکھ دیا اور سائقہ کے ہپس کو پکڑ کر آھستہ سے اس کو تکیہ کی طرف لے آیا اور اس کے گھٹنے تکیہ پر ٹکا دیئے اس کے پاؤں بیڈ کے کنارے سے آگے لہرا رہے تھے اور سائقہ کمر کو کمان بنائے اپنے بھاری ہپس اوپر اٹھائے گھوڑی بنی کھڑی تھا اور میں بیڈ سے نیچے کارپٹ پر اپنی ٹانگوں خو تھوڑا کھول خر اس کے ہپس اور کمر کے درمیانی خم کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سفر کو پھر سے چالو کرنے لگا تھا سائقہ میرے سے پہلے اپنے ہپس ہلانے لگی تھی میں نے سائقہ کو اس کے آگے بڑا شاپر اٹھانے کو کہا سائقہ نے شاپر کھینچ کر میرے قریب کر دیا میں شاپر کو سائقہ کی کمر پر شاپر رکھ کر اس میں سامان سے کنڈوم کا پیکٹ نکال لیا اور شاپر کو کارپٹ پر پھینک دیا میں کنڈوم کی پنی کو سائپڈ سے کاٹ دیا اور اسے سائقہ کے گھٹنوں کے نیچے پڑے تکیہ پر رکھ دیا اس دوران سائقہ جھٹکے لگاتی رہی میں نے اس کے سفید ریشمی ہپس کو پانی کی لہروں جیسے مچلتے دیکھ کر شدت جذبات سے زوردار تھپڑ مارا سائقہ وششش وششش کے ساتھ بولی اور مارو مانوں وشششش اس کے ہپس کا رائٹ سائیڈ کا پنکھ گلابی ہو گیا تھا میں نے ایک اور تھپڑ لفٹ سائیڈ پر مارا اور پھر سائقہ کی ٹانگوں اور پیٹ کے درمیان بننے والے خم کو پکڑ جھٹکے لگانے شروع کر دئیے دو منٹ بعد جھٹکوں میں تیزی آ گئی تھی سائقہ بھی زور سے ہپس پیچھے مار کر میرا ساتھ اپنا مزہ بھی دوبارہ کر رہی تھی زوردار تالی جیسی آواز روم میں گونجنے لگی تھی تیز روشنی میں چمکتا ریشم جیسا سائقہ کا چھوٹا سفید جسم پورے ببلو کو اپنے اندر باہر کر رہا تھا اور یہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت منظر تھا ۔۔۔ جسے میں افففف اففففف کی مدھم آواز تےز سانسوں کے ساتھ اپنے ہونٹوں سے ادا کرتے ہوئے مزے کے آخری لمحات کی طرف بڑھنے لگا تھا تالی کی اس آواز کہ ساتھ سائقہ کی مستی بھری آواز میں اونہہہہہہ اونہہہہہہہ مجھے کچھ زیادہ پرجوش کر رہی تھی میرے پیچھے سے دروازہ کھلنے کی ہلکی سی آواز آئی اور دو لمحے بعد ہی زینت کی آواز آئی افففففف ابھی تو بس کر جاؤں ۔۔۔۔ مار دو گے بچاری کو میں تھوڑا رک کر زینت کو دیکھنے لگا تو سائقہ اپنا سر اوپر اٹھاتے ہوئے زور سے جھٹکا مار کر مستی بھری آواز میں بولی مانوں ں ں ں ۔۔۔ جلدی کرو میں نے اس کے کندھوں پر ہاتھ جما کر تقریباً پورا ببلو اندر باہر کرتے ہوئے شپپپپپپ شپپپپپ کی آواز سے زور دار جھٹکے مارنے لگا سائقہ کی نکلنے والی بے اختیار آوازوں پر زینت اپنے کانوں کو پکڑتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے اور سائقہ کو دیکھ رہی تھی اور سائقہ سر جھکائے جھٹکوں میں میرا ساتھ دیتے ہوئے اونہہہ آآآآآآ وائی اونہہہہ ما ۔۔۔ اونہہہ ما۔۔نو۔۔۔ں ں ں ں ں میں جسم میں سختی آنے لگی تھی میں رک گیا اور سائقہ کے ہپس پر تھپکی دے۔کر ببلو کو باہر نکال لیا اور اس کو کنڈوم سے ڈھک کر پھر سے ببلی میں اتار دیا سائقہ اؤنہہہہہ اونہہہہہ کرتی اپنے بوبز گڈے پر ٹکا کر ہپس ہلانے لگی میرے جسم میں تناؤ آنا شروع ہو گیا اب مجھے سائقہ کے اپنے ساتھ ٹکرانے میں زیادہ مزہ آنے لگا تھا سائقہ کی آوازوں میں درد کا احساس اور مستی ایک ساتھ اتر آئی تھی وہ جسم کو اکڑا کر اپنے ہپس کو پیچھے دھکیل کر رک چکی تھی میں نے دو شاندار جھٹکوں کے ساتھ رک چکا تھا اور منہ میں آئے پانی کو کنٹرول کر رہا تھا میں سائقہ کو مذید اپنی طرف کھینچ رہا تھا میری رانوں میں کپکپاہٹ پیدا ہوئی اور میں نے آنکھیں بند کر لی سائقہ لمبے سانسوں کے ساتھ جسم کو ایک دم ڈھیلا چھوڑ کر بیڈ پر گر گئی تھی میری وشششش کی آواز اور کھلتی آنکھوں کے ساتھ ببلو کھلے فضاء میں فراٹے بھرتا کنڈوم میں سفید لاوا بھر رہا تھا ۔۔۔۔ زینت نے گہری آواز کے ساتھ افففففففففففف کہہ دیا اور میں ہانبتا ہوا اپنے ہاتھ کے تلیوں کو گدے پر ٹیکنے لگا اور ببلو کی اچھل کود بند ہونے تک میں ایسی پوزیشن میں رہا اور پھر بیڈ پر لمبا ہونے لگا میں سائقہ سے ایک فٹ کے فاصلے پر کچھ دیر آنکھیں بند کر کے پڑا رہا پھر میں نے اپنا سر اٹھا کر سائقہ کو دیکھا وہ نیند جیسی کیفیت میں ساکت پڑی تھی زینت بھی صوفے پر لمبی پڑی بند آنکھوں کے ساتھ اپنے ہاتھ اپنے بوبز پر رکھے ہوئے تھی میں نے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا 2:10 بج رہے تھے میں نے اس خیال سے زینت کو آواز دی کہ ہمارے ساتھ اس نے بھی کچھ نہیں کھایا تھا میری آواز پر زینت کے ساتھ سائقہ نے بھی آنکھیں کھول لی اور ایک لمحے کےلئے چھت کو دیکھ کر میری طرف دیکھتے ہی مسکراتے ہوئے اٹھ کر میرے سینے پر الٹی لیٹ گئی میں نے سائقہ کی پتلی کمر پر اپنے ہاتھ جمائے اور چند لمحے آنکھیں بند کئے رکھی ۔۔زینت بیڈ پر آ کر بولی کچھ سکون ملا شہزادی کو ۔۔۔۔سائقہ مسکراتے ہوئے خاموش رہی اے سی نے کمرے کو یخ کر دیا تھا جس کا احساس میرے ساتھ ان دونوں کو بھی ہوئے لگا تھا زینت نے مسکراتے ہوئے سائقہ کے ہپس پر چٹکی بھری اور رنڈی کہتے ہوئے کمبل ہمارے اوپر ڈال لیا اور مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی میں نے کہا بھوک لگی ہے ۔۔۔ زینت بولی بھوک مجھے لگی ہے آپ نے برائیلر کھا لی اور اس نے کیلا کھا لیا ۔۔۔۔ تم پھر سے شروع ہو جاؤ لیکن مجھے کچھ کھلا دو ۔۔۔ سائقہ بولی تم بھی کیلا کھا لو اور سو جاؤ۔۔۔۔ زینت بولی میں نہیں کھاتی بس اب یہ کیلا پکا تیرا ہو رہا ہے چھوٹی بیگم ۔۔۔ہاں میں نے تو پہلے دن اسے کو اپنا مانوں بنا لیا ۔۔۔ زینت کے کمبل کے اوپر سے سائقہ کے ہپس پر مکا مارا اور بولی یہ سارا کمال اس موٹے بستے کا ہے۔۔۔ پہلے دن ہی میرے یار کو پاگل کر دیا ۔۔ سائقہ نے مجھے پیار سے دیکھا اور مسکرانے لگی ۔۔میں نے زینت کے ساتھ کچن میں چلا گیا زینت نے فریج سے بریانی کا ڈبہ نکالا میں نے اس اوون میں گرم کرنے کا سمجھا دیا اور واپس آ گئے زینت ہمارے انتظار میں صوفے پر لیٹ گئی میں نے سائقہ سے کمبل ہٹایا اور اسے بچوں کی طرح بابوں میں بھر کر باتھ روم چلا گیا ہم باہر آ گئے تو زینت بریانی گرم کر کے لے آئی سائقہ کو بریانی بہت پسند آئی تھی ہم کھانا کھا کر سو گئے اس وقت 3:20 بج چکے تھے صبح میری نو بجے آنکھ کھلی تو سائقہ میرے سینے پر سو رہی تھی وہ میرے سینے پر کس وقت آئی مجھے معلوم نہیں تھا زینت کمبل میں لپٹی بیڈ کے ایک کونے میں گٹھڑی بنے پڑی تھی میں نے ریموٹ اٹھا کر اے سی بند کر دیا میں نے اپنا جسم ساکت کر لیا تھا تاکہ میرے ہلنے سے سائقہ نیند سے نہ جاگ جائے میں تکیے کو ڈبل کر کے اپنوں سر اوپر اٹھا چکا تھا اور سائقہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا وہ کنول کی شہزادی لگ رہی تھی لگتا تھا وہ خود کو پھولوں کی وادی میں محسوس کر رہی لگتا وہ کوئی حسین خواب دیکھ رہی تھی میں اس کو دیکھتے ہوئے جود سے سوال کر رہا تھا کہ گاؤں کی اس حسین شہزادی کے خوابوں کا کتنا تحفظ کر سکو گے کیا یہ کلی میری وجہ سے مرجھا تو نہیں جائے گی میں اس موم کی گڑیا سے اس کے خواب میں جا کر کچھ وعدے کر رہا تھا اور مجھے لگا کہ گہری نیند کی اس حالت میں سائقہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ہے اور پھر وہ چہرے پر درد کی لکیریں سجاتے اونہہہہہ کی لمبی آواز کے ساتھ اس کا جسم کانپنے لگا تھا وہ خواب میں کیا دیکھ کر ڈر رہی تھی میں شاید جان پاؤں گا یا نہیں ۔۔۔پھر میں کمرے کی چھت کو دیکھتا ہوئے زندگی کے گزرے برسوں کی کچھ دلخراش لمحوں میں کھونے لگا سائقہ اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ چکی تھی اور اس نے اپنی باہیں میرے اردگرد لپیٹ لیں تھی زینت کمبل میں سے اپنا چہرہ نکال کر انگڑائی لینے لگی تھی اور آہستہ آہستہ جاگنے لگی تھی کچھ دیر بعد اس نے میری طرف دیکھا اور بولی ٹائم کیا ہوا میں نے موبائل پر ٹائم دیکھ کر اسے بتایا کہ 10:45بج گئے ہیں زینت نے سائقہ کو دیکھ کر تھوڑا کمبل اٹھا کے دیکھا اور کان پکڑ کر بولی یہ لڑکی تو سچ میں بہت پاگل ہو گئی ہے ۔۔۔ پھر پوچھا کب سے لیٹی ہے ۔؟؟ میں نے ہاتھ سے صرف اشارہ کیا کہ پتا نہیں ۔۔۔ زینت بولی یار یہ مر جائے گی ۔۔۔ میں نے مسکرا کر اس کے گال کو ہلکا سا ٹچ کیا اور پھر زینت کو دیکھنے لگا ۔۔۔ بولی بیگم صاحبہ کو احساس نہیں ہوتا کہ آپ لوگوں کی اولاد نہیں ہے تو ۔۔۔۔ میں نے کہا وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے اور مجھے کھونا نہیں چاہتی ۔۔۔ زینت بولی اسے جگا دوں ؟؟ میں نے اس کا ہاتھ روک کر کہا اسے سونے دو ۔۔زینت مسکراتے ہوئے بولی دونوں پکے عاشق ہو ۔۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک ۔۔۔ پھر وہ باتھ روم چلی گئی اور میں نے اسے ناشتے کا سمجھا دیا اتنا وہ پہلی بار جہاں رہنے پر جان بھی چکی تھی آدھے گھنٹے بعد زینت نے آ کر بتایا کہ ناشتہ تیار ہے اور ساتھ کمبل ہٹا کر بولی سچ میں مر تو نہیں گئی ۔۔۔۔ پھر بولی اسے جگانا نہیں ہے تو آہستہ سے اسے اپنے سے اتار کر بیڈ پر سلا دو ۔۔۔ میں نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیر کر مسکرا دیا اور گہری سانس لے۔کر بولا نہیں ۔۔۔ زینت بولی اتنا بھی لاڈلا نہیں بناؤ اسے ۔۔۔میں نے کہا اس پوری کو اٹھا سکتا تو اس کے لاڈ بھی اٹھا لوں گا ۔۔۔ میں نے زینت کو ناشتہ ادھر لانے کا بولا وہ جیسے ہی ناشتے کا ڈش اٹھائے روم میں داخل ہوئی تو بلند آواز سے بولی چھوٹی بیگم اٹھ جاؤ ۔۔۔۔ ناشتہ آ گیا ہے ۔۔۔ سائقہ ہلنے لگی تھی میں نے زینت کو شکوہ بھری نظروں سے دیکھا اور خاموش ھو گیا سائقہ اٹھنے لگی تھی پھر اس نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا اور مسکراتے ہوئے پھر سینے پر اپنا سر رکھ دیا میں نے اس کے ہپس کو پکڑ کر اوپر کھینچ لیا اور اسے کسنگ کرنے لگا میں نے زینت سے بولا تم ناشتہ شروع کرو ہم آتے ہیں سائقہ مجھے کسنگ کرتے ہوئے بولی مانوں ۔۔۔ ایک دن گزر بھی گیا ہے باقی چار بچ گئے ۔۔۔ شادی کی تاریخ آگے کرا دو ناں ۔۔۔ زینت بولی ہاں شادی کی تاریخ آگے کر دو اور اسے پیچھے کر دو۔۔ ۔۔ اتنا بڑا بستہ ہے باقی چار دن میں تو نہیں بھرے گا ۔۔۔ سائقہ بولی تمھیں تو دو لگے ہوئے ہیں پیٹ تو بھر گیا پر آنکھیں اب بھی بھوکی ہیں ۔۔۔ سائقہ میری سائیڈ پر لیٹے ہوئے بولی مانوں میرے اوپر لیٹو اب میں نے اسے باہوں میں بھرا اور اس کو اپنے سینے میں چھپا لیا زینت نے میرا ٹراؤزر کھیچ کر کہا اسے کیلے سے ناشتہ کرا دو اور ساتھ جوس بھی پلا دو ۔۔ تاکہ اس کا پیٹ بھی میری طرح بھر جائے سائقہ مسکراتے ہوئے بولی مجھے اپنے اوپر کیوں سلایا ہوا تھا ۔۔۔ میں نے اس کے گال کو اپنے لبوں میں بھرا اور بولا۔کیونکہ تم میری محبوبہ ہو ناں ۔۔۔ زینت بولی او لیلیٰ مجنوں ۔۔۔۔ ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ۔۔۔۔ سائقہ بولی مانوں سوئے رہو اس کو جلن ہوتی ؤ۔۔۔ہونے دو پھر ۔۔۔ میں اسے کسنگ کر کے اٹھتے ہوئے بولا اٹھ جاؤ دوپہر ڈھلنے لگے ہیں ۔۔۔۔۔ ناشتے کے بعد ہم تینوں بیڈ پر لیٹ گئے کچھ سنجیدہ باتوں کے ساتھ ان دونوں کی دلچسپ نوک جھونک سے میں لطف اندوز ہوتا رہا سائقہ کو ڈرائیونگ کا جنون چڑھ گیا تھا ایک دن پہلے لائے گئے ریڈی میٹ سوٹ میں نے ان کو دیئے وہ دونوں بہت خوش ہو رہی تھی زینت بولی مہندی اور بارات پر یہ سوٹ پہنیں گے سائقہ میں تو مانوں کے لئے شادی سے پہلے پہن لوں گی پھر میں نے ان کو تیار ہونے کا بولا سائقہ نے نیا بلیو اینڈ وائٹ کلر کا سوٹ پہن کر ایک بار پھر میرے دل کی ٹلیاں بجا دیں زینت بھی غضب بن کر سامنے آ گئی سائقہ اور زینت صوفے پر میرے ساتھ بیٹھ گئیں میں فریج سے جوس نکال لایا جوس اور دونوں کو کچھ دیر پیار کرنے کے بعد میں نے انہیں چلنے کا بولا سائقہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بولی میں چلاؤں گی گاڑی زینت بولی کہیں ٹھوک کر گاڑی برباد کر دو گی سائقہ بولی خیر ہے مانوں اور نئی گاڑی لے لے گا ۔۔۔۔ کیوں مانوں ۔؟؟؟ میں نے کہا گاڑیاں دس لے لوں گا اپنی جان کے لئے۔۔۔۔۔ زینت بولی واہ جی واہ موٹے بستے کا تو بڑا ریٹ ہے آجکل سائقہ بولی مانوں آج اس کا بستہ بڑا کرنا ہے میری چھٹی ۔۔۔۔۔وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی اور میں نے اسے گاڑی اسٹارٹ کرنا سکھا دیا پھر اسٹیرنگ کو پکڑ کر آگے دیکھتے ہوئے ہنسنے لگی اوووو آگے تو کچھ نظر نہیں آ رہا ۔۔۔ سائقہ کا قد چھوٹا تھا اور وہ سیٹ میں دب گئی تھی زینت بولی رات کسی اور چیز پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔ سائقہ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھتے ہوئے بول۔۔میرا مانوں کب منع کرتا ہے ۔۔۔ہے نا مانوں ۔۔۔۔پھر وہ پچھلی سیٹ پر چلی گئی اور میں نے گاڑی گھر سے نکال کر گیٹ کو لاک کر دیا ہم اپنے شہر سے نکل چکے تھے اور چالیس کلومیٹر دور دوسرے شہر کے پارک جا رہے تھے شام سے کچھ پہلے کا وقت تھا اور مین روڈ پر سائقہ کو گود میں بھر کر اسے گاڑی سکھانا مناسب نہیں تھا لیکن وہ مسلسل ضد کر رہی تھی ۔۔۔ میں نے مین روڈ سے نیچے ایک بڑے میدان کی طرف گاڑی کو اتار دیا سائقہ بولی مانوں ہر گاڑی کو صحیح طریقے سے چلا لیتا ہے ۔۔۔ زینت نے کہا ہاں پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر زیادہ اچھا چلاتا ہے سائقہ نے پچھلی سیٹ پر بیٹھی زینت کے ابھرے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر کہا ہاں اور ساتھ ٹینکی بھی بھر دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے گاڑی اس میدان میں روک کر سائقہ کو گود میں آنے کا اشارہ دیا وہ مسکراتے ہوئی بولی واہ ڈبل مزہ پھر اس نے میری گود کو لبالب بھر دیا )


سائقہ اس کھلے میدان میں گاڑی چلا رہی تھی اور میں اسے گائیڈ کرتا جارہا تھا ۔۔پیچھے بیٹھی زینت نے مسکرا کر کہاں گاڑی ایک۔بہانہ ہے ۔۔جہاز اصل نشانہ ہے ۔۔۔ سائقہ۔نے کہا مانوں کا سب کچھ میرا ہے ہے ناں مانوں ۔۔۔ جب تم صرف میری ہو تو تو پھر سب کچھ کس کا زینت بولی بیگم صاحبہ کو بتانا لازمی ہو گیا ہے کہ موٹا بستہ سونے میں تول کو خریدا جا رہا ہے سائقہ بہت خوش ہو رہی تھی کل سے پہلے تک اس کا ذکر نہیں ہوا تھا کہ میں اسے گاڑی چلانا سکھا دونگا سائقہ بہت ذہین تھی سٹڈی کے ساتھ اسے جو بات بھی ایک بار کہہ دی جاتی وہ اسے اپنے ذہن کی میموری میں سیو کر لیتی سائقہ گراؤنڈ میں گاڑی کو ہلکی سپیڈ میں گھماتے ہوئے گیئر کے ساتھ اپنے پاؤں کا استعمال عمدگی سے کرتے ہوئے گاڑی کی سپیڈ زیادہ کم لر رہی تھی بلکہ موقع کے مطابق بریک کا استعمال بھی کر رہی تھی شام کے سائے اس گراؤنڈ میں چھانے لگے تھے میں نے گاڑی کا کنٹرول سنبھال لیا اور گاڑی کو مین روڈ پر ڈال کر اس پارک کا رخ کر لیا اب سائقہ کی توجہ ڈرائیونگ پر تھی وہ توجہ سے راستے کے۔مطابق مجھے گاڑی کو کنٹرول کرتا دیکھ رہی تھی یہ پارک نہ صرف اس سٹی میں بلکہ ہمارے شہر تک بھی مقبول ہے جس میں الیکٹرانک جھولوں کے ساتھ کئی دیگر تفریحی ایٹم بھی موجود تھے گاڑی پارک کرنے کے بعد ہم جیسے ہی پارک میں داخل ہوئے سائقہ نے خوشی سے ہووووووو کا نعرہ لگایا زینت بولی اپنی لاڈلی کے لئے تو آج جگہ بھی پیاری ڈھونڈ لی ہے ۔۔۔۔ زینت کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی اور سائقہ کو ہر لمحے کسی نہ کسی بات پر چٹکی مار جاتی ۔۔۔ زینت نے احتیاطاً بڑے جھولوں پر بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا ٹرین پر ہمارے ساتھ بیٹھنے کے بعد زینت نے ہمیں کھلے دل سے اجازت دی کہ چھوٹی بیگم کو خوش رکھو اور اس کے تمام شوق پورے کر لو ۔۔۔بڑے جھولے پر میرا مزہ دوبارہ ہو گیا جب وہ ہمیں تیزی سے نیچے لاتا تو سائقہ چیخ مار کر مجھ سے لپٹ جاتی سائقہ نے بچوں والی چھوٹی گاڑی کو بھی شوق سے چلایا اور اس کے چھ ٹکٹ لے لیئے اور پورا ایک گھنٹہ اس کو چلایا واپسی پر ہمیں کھانے کی طلب بھی نہیں تھی کیونکہ ہم نے گول گپے دہی بلے کے ساتھ دیگر فوڈ ایٹم کا بھی لطف اٹھایا تھا پارک سے واپسی پر زینت کے پسندیدہ آڑو جوس کے دو ڈبے لے لیئے تھے پارکنگ سے گاڑی نکالتے وقت میں نے سائقہ کو پچھلی سیٹ پر جانے کا بولا اور زینت فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی شہر سے باہر آنے پر میں نے ایک بار پھر سائقہ کو اپنی گود میں بھر لیا اور گاڑی کا اسٹیرنگ اس کے حوالے کر دیا وہ بہت محتاط انداز میں گاڑی ڈرائیو کرنے لگی تھی زینت ایک بار پھر مجھے بتانے لگی کہ کچھ دیر پہلے سے اس کے پیٹ کا بوجھ نیچے آتا محسوس ہوتا ہے مجھے احساس ہوا کہ آتے وقت کسی اچھی لیڈی ڈاکٹر سے اس کا چیک اپ کرا لیتے تو بہتر تھا اس وقت رات کے 1:30 بجے چکے تھے میں نے اس سے کہا کہ صبح کسی ڈاکٹر کو چیک اپ کراتے ہیں سائقہ آہستہ سے گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی وہ زینت سے بولی کہ پیچھے لیٹ جاؤ تو بہتر ہے ۔۔۔ زینت کو سائقہ کا۔مشورہ اچھا لگا میں نے سائقہ سے گاڑی سائیڈ پر روکنے کو بولا اور پہلی ہی بار سائقہ نے بہترین انداز گاڑی سائیڈ پر روک لی اور زینت کے پیچھے جانے کے بعد آگے بڑھا لی تھی میں نے سائقہ کے گال کو کسنگ کرتے ہوئے اسے گڈ ڈرائیونگ کی سنڈ تھما دی سائقہ بولی آپ کو اس خوشی میں ابھی میٹھا شہد کھلاتی ہوں پھر وہ ہنستے ھوئے اپنا ماتھا اسٹیرنگ پر ٹکا کر بولی شہد کھاؤں گے یا رس گلہ میں نے اس کا سر پکڑ کر سیدھا کر دیا اور بولا ابھی تم اپنے ساتھ ہمیں بھی رس گلہ کھانے کے قابل چھوڑ کر۔خیریت سے گھر پہنچاؤ پھر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔ پیچھے سے زینت نے آواز دی میں تو آج الگ کمرہ لوں گی اور تالا لگا کر سو جاؤں گی ۔۔۔ سائقہ پھر تو اپنی مارکیٹ خراب کر رہی میں تیرا بستہ موٹا کرنے کی اپیل کر رہی تھی مانوں کو ۔۔۔۔ ہم 2:35 منٹ پر گھر پہنچ گئے تھے زینت بولی شکر ہے لاہور کا سفر نہیں تھا ورنہ جہاز کے اس پائلٹ نے مجھے تو مار دینا تھا ۔ صبح خالہ کو فون کرکے بتاؤں گی تیری بیٹی جہاز کے بعد گاڑی چلانا بھی سیکھ گئی ہے ۔۔۔ سائقہ مسکراتے ہوئے ہمارے آگے چلتی روم کا تالہ کھولنے لگی تھی زینت اس وقت بھی خاصی بےچین لگ رہی تھی میں نے ان سے کھانے کا پوچھا تو دونوں نے انکار کر دیا زینت بولی میں مجھے دوسرے کمرے کا اے سی آن کر دو میں ادھر سوتی ہوں اس رنڈی کے کرتوت دیکھ کر میری طبیعت زیادہ خراب ہوتی ہے زینت دوسرے روم میں چلی گئی اور میں نے اسے ڈور لاک کرنے منع کر دیا اور بولا کہ اگر طبیعت برداشت سے زیادہ خراب ہونے لگے تو مجھے جگا دینا ۔۔۔ سائقہ بولی جگا نہیں بتا دینا ہم ویسے بھی جاگیں گے ۔۔۔ زینت بولی توں پورا سال بھی جہاز پر بیٹھی رہے پھر بھی تیری آگ نہیں بجھے گی ۔۔۔ سائقہ ہنستے ہوئے روم میں چلی گئی اور میں زینت کے ساتھ دوسرے روم میں نے زینت کے۔روم کا اے سی آن کردیا اور اسے جوس کا گلاس بھر کے دے دیا میں زینت کے ساتھ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد روم میں آیا تو میرے روم میں اندھیرا چھایا ہوا تھا میں سائقہ۔کو آواز دے کر پوچھنے لگا کہ لائٹ۔کیوں بند ہے بولی پتا نہیں لائٹس خود ہی آف ہو گئیں میں نے بٹن آن کئے تو سائقہ بیڈ پر سارے کپڑے اتارے ہوئے سیدھی لیٹی تھی اور اس کے بوبز اور پیٹ پر ڈھیر سارا ڈھد گرا ہوا تھا اس نے اپنے چہرہ کو اپنے ہاتھوں میں چھپا رکھا تھا اور مسکراتی نظروں سے انگلیوں کے بیچ مجھے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں نے سوچا مانوں کو کچھ میٹھا کھلا دوں ۔۔۔ ساری مرچوں والی چیزیں کھا کر آئے ہیں ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پیچھے مڑتے ہوئے کہنے لگا یہ اب تم خود چاٹو گی میں جا رہا زینت کے پاس ۔۔۔۔سائقہ نے بھاگ کر میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے بیڈ کی طرف کھیچ لائی ۔۔۔ کون ظالم ہو گا جو خود پر جبر کرتے ہوئے سونے کی ڈش میں پیش کیا جانے والا دیسی شہد کھانے سے انکار کر سکے میں نے سارا شہد چاٹ کر سائقہ۔کا مکھن جیسا بدن دھو ڈالا تھا ۔۔۔۔ میں مسکراتے ہوئے دائقہ سے نگاہیں ملا کر اس سے بولا سقی جلدی سے اٹھو ۔۔۔اور کپڑے پہن ک، میرے پاس آؤ۔۔۔ بولی مانوں کیاہو گیا آپ کو ۔۔۔ تین دن کی بات ہے ۔۔۔ میں نے کہا سقی جلدی کرو سوتے ہیں آج ۔۔۔ ہر وقت ایسا نہیں ھوتا اور تین دن کی نہیں اب زندگی بھر تم میری ہو ۔۔۔۔ سائقہ مجھے پیار سے دیکھتی رہی اور پھر بولی ۔۔۔۔۔۔۔ مانوں ں ں آپ سچ بول رہے ہو ناں ۔۔۔۔ زندگی بھر مجھے ساتھ رکھو گے ؟؟ میں نے اپنا سر جھکا لیا اور گہری سانس لے کر بولا ہاں سائقہ ۔۔ بولی اب ایسا نہ کہو ناں ۔۔۔ میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بولی صرف سقی کہو ناں مانوں ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا سقی سونے کی تیاری کر لو۔۔ نے پینٹ شرٹ اٹھا کر میری طرف بڑھائی اور بولی مجھے خود پہناؤ گے تو پھر ٹھیک ہے ۔۔ میں نے شرٹ پہنانے کے لئے آگے بڑھائی تو بولی ایسے نہیں میری بھی ایک شرط ہے میں نے جلدی بولو سقی ۔۔۔وہ قہقہہ لگاتے ہو میری طرف لپکی اور میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں لے کر میرے گال کو دانتوں سے کاٹا اور کسگ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ اففففف سقی کے مانوں ۔۔۔ پھر سائقہ نے پینٹ اٹھا میری طرف بڑھائی اور اپنے ہپس میں رانوں پر رکھ کر اپنی ٹانگیں کھڑی کر کے پاؤں میرے سینے پر رکھ دئیے اور بولی اب پہناؤ میں نے ایک دم سے مچل جانے والے جذبات پر قابو پایا اور مسکراتے ہوئے اس پاؤں کی تلیوں کو کسنگ کرتے پینٹ کو ٹانگوں میں اتارنے لگا زینت کے بھائی کی شادی کے موقع پر سائقہ سے میری ملاقات کے وقت اس کی ببلی پر ایک باریک سی لکیر نے ببلی کے ہونٹوں کو سختی سے آپس میں جوڑ رکھا تھا ۔۔لیکن پینٹ پہناتے ہوئے میں نے اس مست ببلی کی لکیر کے کچھ آخر میں اس لکیر میں ایک معمولی خم کو غور سے دیکھ کر ایک لمحے کو اپنی آنکھیں بند کرکے دل میں کئے گئے سائقہ کے ساتھ اپنے عہد کو دھرا گیا ۔۔۔ میں اس کی ٹانگوں کو پینٹ میں بھر رہا تھا میرے ہاتھ سائقہ کے ہپس پر ٹچ ہوتے تو وہ مستی بھری ہنسی کے ساتھ اپنے اندر دبے پیٹ کو بل دے جاتی ۔۔۔پھر وہ بیڈ پر ہی میری طرف پیٹھ کر کے کھڑی ہو گئی اور میں اس کے ہپس کے سفید ریشم کو ہاتھ سے اندر دبا کر پینٹ کو اوپر کھینچ رہا تھا سائقہ بولی۔مانوں اتنی محنت نہیں کرو بس ایسے سو جاتے ہیں میں نے دانتوں سے کاٹ لیا ۔۔۔۔ سائقہ لمبی سے وشششششششششش کے ساتھ بولی مجھے ایسے کاٹ کاٹ کے کھایا کرو مجھے بہت مزہ آتا ۔۔۔ میں نے پینٹ کے بعد اس کر بریزر اور شرٹ بھی پہنا دی میں نے کچھ دکر آنکھیں بند کر کے اپنے حواس بحال کئے اور ببلو کو کنٹرول میں کرنے کے بعد اٹھ گیا اور لباس تبدیل کرکے بیڈ پر آیا تو سائقہ نے مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا بولی بس ایسے سو جاؤ ۔۔ وہ مسلسل بولتی جا رہی تھی اس کے لئے یہ دن زندگی کے سب سے خوبصورت دن تھے جو شاید اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے ۔۔۔ میں اس کی سائیڈ پر سو کر سائقہ پر اپنی لفٹ ٹانگ اور اپنا بازو رکھ دیا اور آنکھیں بند کر کے خاموش ہو گیا وہ میرے سینے پر سمٹ آئی تھی میں نیند کی لہروں میں کروٹ لی تو وہ شرابی نیم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے نیند بھرے لہجے میں یہ۔بولتی ہوئی میرے اوپر لیٹ گئی کہ وہی چھوٹی چارپائی بہتر تھی ۔۔۔ سائقہ میرے اوپر الٹی لیٹ کے سو گئی میں نے اسے کے گرد اپنے بازو لپیٹے آنکھیں بند کرگیا ۔۔۔۔۔ میں نے زینت کی آواز پر آنکھیں کھول دیں اور چند لمحے کمرے کی چھت کو گھورنے کے بعد زینت کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے سینے پر ہاتھ پھیرے اور پھر بیڈ پر ادھر ادھر دیکھنے لگا زینت نے کمبل میرے اوپر سے ہٹا کر مجھے کمبل کے اندر دیکھنے کا اشارہ کیا سائقہ ببلو پر سر رکھے میری ایک ٹانگ کو باہوں میں بھر کے سو رہی تھی میں نے مسکراتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور پھر زینت کو دیکھتے ہوئے اس کی خیریت دریافت کی بولی نیند آ گئی تھی لیکن طبیعت بہتر نہیں ہے میں نے ریموٹ اٹھا کر اے سی کو بند کر دیا اور موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا 11:30 بج چکے تھے میں نے زینت سے بولا کہ تیار رہو یہ اٹھ جائے تو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں میں نے سائقہ کے سر پر ہاتھ پھیر لیا زینت بولی آپ اٹھ جاؤ گے تو یہ بھی اٹھ جائے گی ایسے تو اس کا نشہ نہیں ٹوٹے گا زینت نے کمبل ہٹا کر مسکراتے ہوئے سائقہ کے بوبز کو دبانا شروع کر دیا سائقہ تھوڑی انگڑائی لیتے ہوئے زینت کے ہاتھ کو پکڑتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ اچھے مانوں ں ں ں ۔۔ پھر اس نے زینت کے کمزور ہاتھ کو محسوس کرتے ہوئے ایک دم اپنی آنکھیں کھول دیں اور اس کے ہاتھ کو دور پھینکا اور پھر سے میری ٹانگ کو اپنی باہوں میں بھرتے ہوئے ٹراؤزر کے اوپر سے ببلو کو کسنگ کرتے ہوئے اپنا چہرہ اس کر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔زینت قہقہے لگا رہی تھی اور میں بھی سائقہ کو دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا ۔۔۔ سائقہ نشے بھری نیند سے جاگتی آنکھوں کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے بولنے لگی گندے مانوں گندے مانوں ۔۔۔میں نے اس کے بغل میں ہاتھ ڈال کر اوپر کھینچ لیا اور اپنے سینے کے نیچے دبا کر اسے پیار کرنے لگا سائقہ نے اپنی ٹانگیں میری ٹانگ کر گرد لپیٹ لیں اور مجھے کسنگ کرنے لگی ۔۔۔۔۔ زینت بولی اوؤوووو لیلیٰ مجنوں میرے حال پر رحم کرو۔۔۔۔۔ پوری رات آپ کو آزادی چھوڑا ہے سائقہ بولی یہ گندے مانوں ہیں ۔۔۔ پوری رات بے ہوش پڑے خراتے لیتے رہے ۔۔۔۔ زینت بولی یہ تو اچھی بات نہیں ۔ صاحب اس کا پیٹ کیوں خالی رکھا آپ نے ۔۔۔ میں نے کہا کہ آج پورا بھر دوں گا ۔۔۔۔ زینت نے اپنے ابھرے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اس طرح ؟۔ میں نے سائقہ کے جینز میں جکڑے ہپس کو اپنی طرف کھینچ کر اپنے ساتھ دباتے ہوئے کہا اس طرح بھی بھر دونگا۔۔۔ سائقہ بولی میں ایک بار نہیں بار بار بھراؤں گی مانوں سے ۔۔۔۔ زینت تیاری کرنے لگی اور میں نے سائقہ کو بھی تیار ہونے کا بولا سائقہ بولی میں ایسے پینٹ میں جاؤں گی میں نے اوکے کر دیا ۔۔۔وہ باتھ روم چلی گئی اور میں نے ایک دوست کو کال کر کے ڈاکٹر ارم کا نمبر لیا وہ خوش ہوتے ہوئے مبارکباد دیتے ہوئے بولے ۔۔۔ کوئی امید بن گئی میرے خیال میں ۔۔۔۔میں نے کہا نہیں یار وہ گھر میں کچھ مہمان آئے ہوئے تھے وہ چیک اپ کرانا چاہتے ۔۔۔ دوست کا میسج آنے کے بعد میں نے ڈاکٹر ارم لا نمبر ڈائل کر لیامجھے بتایا گیا کہ کل کا نمبر ملے گا آج کی بکنگ ہو۔چکی میں نے کہا کہ ڈاکٹر سے بولیں ایمرجنسی ہے تھوڑی ۔۔۔ کچھ دیر کے ہولڈ کے بعد مجھے 1:30 بجے آنے کا کہا گیا ۔۔۔ زینت بیک سیٹ پر لیٹ گئی اور سائقہ پینٹ شرٹ پر ایک بڑی چادر لپیٹ کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی ۔۔۔( )


ہم ٹھیک 1:30 ڈاکٹر ارم کے کلینک میں پہنچ چکے تھے ڈاکٹر ارم نے کسی پیاسے مرد کی طرح سائقہ کو دیکھا زینت ڈاکٹر کے ساتھ سٹول پر بیٹھ گئے ڈاکٹر ارم نے زینت سے پہلے سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا آپ اسی شہر کی ہؤ ہا کہیں باہر سے آئی ہو ۔۔؟ سائقہ بولی یہ میرے ماموں ہیں میں ان کے رہ رہی ہوں اور اب یہیں پر کالج داخلہ بھی لے رہی ہوں ڈاکٹر بولی داخلہ ہو گیا سائقہ نے بتایا کہ ابھی رزلٹ آنے کے بعد ہو گا ڈاکٹر ارم نے میری طرف دیتے ہوئے بولا اگر کالج ٹائم کے بعد یہ یہاں پر جاب کرنا چاہیے تو میں اچھی پےمنٹ دے سکتی ہوں استقبالیہ پر کوئی خاص کا بھی نہیں ہوتا اور ساتھ میں کچھ سیکھ بھی لے گی ۔۔۔۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ سائقہ کو استقبالیہ پر رکھ کے اپنے کلینک کو چار چاند لگانا چاہتی میں نے ڈاکٹر ارم کو یہ کہتے ہوئے اس کی توجہ زینت کی طرف دلائی کہ داخلہ لینے کے بعد دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ میڈیم ان کو چیک کر لیں ڈاکٹر ارم نے زینت کی طرف دیکھا اور پوچھا یہ کون ہے آپ کی میں نے کہا یہ میری بیوی ہے سائقہ نے دوسری طرف منہ پھیر کے اپنی ہنسی روکی ڈاکٹر زینت اور پھر مجھے دیکھتے ہوئے گہری سانس لے کر بولی یہ تو کافی چھوٹی ہے ۔۔۔ میں نے کہا یہ میری دوسری شادی ہے سائقہ نے ٹیبل کہ نیچے ہاتھ کر۔کے تین انگلیوں کو۔لہرا دیا ڈاکٹر زینت کا چیک اپ کرتے ہوئے اس سے کچھ سوال کرتی جا رہی تھی پھر اس نے ٹیسٹ لکھ دیئے اور ہم ویٹنگ روم میں چلے گئے ڈاکٹر کے روم سے نکلتے ہوئے سائقہ نے ٹاہ ٹاہ ٹاہ کے ساتھ قہقہہ لگا دیا ۔۔۔ ویٹنگ روم میں سائقہ نے زینت بھرپور حملے کرتے ہوئے اسے چھوٹی بیگم سے مخاطب کر رہی تھی ٹیسٹ کا رزلٹ آنے کے بعد ہم ایک بار پھر ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئے ڈاکٹر ارم نے سائقہ کو باہر بھیج دیا اور بولی سر آپ کی بیگم کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے یہ اس وقت خطرے میں ہے میں میڈیسن تب لکھوں گی جب آپ بچہ ہونے تک یہ چار ماہ مکمل چھٹی کریں گے ۔۔۔ اور ساتھ اس نے یہ باقی عرصہ بیڈ پر لیٹ کر یا بیٹھ کر گزرانا ہے اور پانی کے گلاس اٹھانے برابر کام بھی نہیں کرنا ۔۔۔ میں نے اوکے کر دیا ۔۔۔۔ میڈیسن لینے کے بعد میں نے ایک فاسٹ فوڈ پر رک کر کچھ کھانا پیک کرا لیا گھر پہنچ کر میں نے سائقہ کو۔کھانا لگانے کا کہا زینت بہت زیادہ رنجیدہ ہو۔گئی تھی جسے سائقہ نے اپنی میٹھی باتوں سے چند منٹوں میں سیٹ کر دیا شام کے بعد زینت بولی آپ سائقہ کو گھمانے لے جاؤ اور گیٹ باہر سے لاک کر دو سائقہ بولی بس۔خیر ہے آپ بہتر ہو جائیگی تو کل چلے جائیں گے لیکن زینت نے کہا نہیں آپ جاؤ مجھے ویسے بھی مزہ نہیں آ۔رہا اور میں سو جاتی ہوں ۔۔۔ میں نے الماری سے ایک پرانا موبائل فون نکالا اور اس میں ایک سم ڈآل کر زینت کو دے دی اور کہا میں بس اس سے تھوڑی ڈرائیونگ کرا کے واپس آتا آپ موبائل اپنے پاس رکھ۔لو اس پر رابطے میں رہیں گے ۔۔زینت کو ٹی وی آن کر دیا اور اسے میڈیسن بھی کھلا دیں سائقہ کو صرف شرٹ بدلنے کا کہا ۔۔۔۔میں نے شہر کے ایک میدان کا انتخاب کر لیا تھا میں نے میدان میں پہنچنے کے بعد سائقہ کو گود میںٹا کر اسے پیار کیا پھر پچھلی سیٹ سے تکیہ اٹھا لیا جو گھر سے نکلتے ہوئے میں نے گاڑی میں رکھ دیا تھا میں فرنٹ سیٹ پر آ گیا اور سائقہ ہلکی سپیڈ میں اس گراؤنڈ کا ایک چکر لگا کر رک گئی اور بولی ۔۔مالوں ں ۔ مزا نہیں آ رہا ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بولا تم گاڑی چلانا چاہ رہی یا مزہ اٹھانا۔۔ بولی ۔۔ مزے کے ساتھ گاڑی چلانا پھر وہ نگاہیں ملا کر اٹھنے لگی اور تکیہ پچھلی سیٹ پر پھینک کر نیچی اتر گئی میرے ڈرائیونگ سیٹ پر آنے بعد وہ بھی میری گود میں بیٹھ گئی سائقہ نے دو بار اپنے ہپس کو آگے پیچھے کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ اب ٹھیک ہے ۔۔۔ وہ بہت دیر تک گاڑی کو گھمانے کے بعد اس نے گاڑی کو سڑک کی طرف موڑ لیا میں نے پوچھا کہ بس تھک گئی ۔۔ بولی نہیں تھکی جلدی سے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔۔ اور آج تو پوری رات بس جہاز ہی چلانا ہے ۔۔۔ سائقہ۔میرے گھر کی گلی تک بہت خوبصورتی سے گاڑی ڈرائیو کر کے لائی تھی ہم رات دس بجے گھر پہنچ گئے اور زینت کے پاس چلے گئے اس کی طبیعت بہتر تھی ہم دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے میں سائقہ کو ساتھ لے کر کچن چلا گیا اور کچھ کھانے پینے کی چیزوں کو اوون میں گرم کر کے لے آئے زینت نے بہت کم کھایا تھا لیکن سائقہ نے یہ کہتے ہوئے سب چیزوں کا صفایا کر دیا کہ مجھے تو اپنی باڈی بنانی ہے میں مانوں سے کشتی کروں گی ۔۔۔۔۔ سائقہ بار بار انگڑائیاں لے کر شرابی انداز میں مجھے مسکرا کر دیکھ رہی تھی زینت نے پوچھا رات اس نے جہاز چلایا تھا ۔۔۔۔ سائقہ نے جھٹ سے بولی نہیں چلایا تھا ۔۔۔ یہ گندے مانوں بن گئے اب ۔۔۔۔ میں نے بولا سائقہ تم زینت کے ساتھ سو جاؤ اور اس کا خیال رکھو۔۔۔ دوست ہے تمھاری ۔۔۔ سائقہ اٹھتے ہوئے بولی۔گندے مانوں ۔۔۔ گندے مانوں ۔۔۔ ایک سقی بھی نہیں بول رہے اب ۔۔۔ سائقہ پینٹ میں جکڑے ہپس مٹکاتی باہر چلی گئی کچھ دیر بعد زینت لیٹتے ہوئے بولی آپ جاؤ میں بھی سوتی ہو۔۔۔۔ ٹی وی دیکھ کر بھی بور ہو گئی تھی ۔۔۔ ابھی وہ مسئلہ کچھ کم لگ رہا لیکن جسم میں بہت کمزوری محسوس ہو رہی ہے ۔۔۔ میں نے اسے تسلی دی کہ ٹھیک ہو جاؤ گی ۔۔۔ میں اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا تھا سائقہ بیڈ کے کنارے پر الٹی لیٹی ہوئی اس کی شرٹ تھوڑی اوپر کو کھسک گئی تھی جس سے پتلی گول کمر اپنی چمکتی جلد کے ساتھ باہر جھانک رہی تھی اور اس کے اوپر دو نیلے پہاڑوں جیسے جینز میں جکڑے ہپس مجھے دعوت دے رہے تھے کے آؤ اور میری دلنشین وادیوں میں اتر جاؤ۔۔۔۔۔۔ میں نے سائقہ کے ہپس پر تھپڑ مارا اور بولا سقی سائیڈ پر ہو ۔۔۔ بہت تھک گیا ہوں مجھے سونے دو سائقہ نے بازوؤں میں لپٹے اپنے چہرے کو اوپر اٹھایا اور کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولی زینت کے پاس سو جاؤ۔۔۔ وہ بیگم ہے تمھاری اس کا خیال رکھو۔۔۔ اور دوبارہ میرے روم میں نہیں آنا ۔۔۔میں نے اس کی کمر پر کسنگ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ سوری سقی ۔۔۔ تم میری جان ہو یارر پلیز مجھے ادھر سونے دو ۔۔۔ بولی ادھر صوفے پر سو جاؤ۔۔۔ میں نہیں سونے دیتی میں بہت دیر تک بیڈ کے ساتھ کارپٹ پر بیٹھا اس مسکرا کے دیکھتا رہا وہ اپنے بازو کو تھوڑا ہٹا کر مسکراتی نظروں سے دیکھتی اور پھر اپنا چہرہ چھپا لیتی میں اٹھ کر سقی کے نرم ریشمی ہپس پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔ اور کمر پر ہاتھ پھیرتے اس کی شرٹ کو اوپر کرنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔4:35 بج چکے تھے جب میں نے اس کاغذ کے خاکی لفافے میں دوسرا کنڈوم ڈال کر موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا تھا سقی لمبی سانسوں کے ساتھ نیند کے مست جھونکوں کے ساتھ میرے سینے میں سمٹتی ہلکی سی کنگ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ زینت نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی آپ کے موبائل پر بار بار کالز آ رہی ہیں ۔۔۔ میں نے اس کے ہاتھ سے موبائل لیکر سکرین پر آئے پھٹے پھٹے الفاظ کے ساتھ شو ہونے والے نام کو آنکھیں مل کر دیکھنے لگا اور پھر کال ریسیو کر لی ۔۔۔۔ شاکرہ بولی آپ ٹھیک تو ہیں ناں ۔۔۔۔میں نے کہا ہاں رات دانت میں درد تھا صبح سویا تھا بولی اوکے ۔۔۔۔۔ فریش ہو کر مجھے کال کر لینا ۔۔۔۔۔ دوپہر کے 12:30 بج گئے تھے میں نے موبائل کو سائید پر رکھتے ہوئے انگڑائی لی اور زینت کو مسکرا کے دیکھا اس نے شہد کی آدھی سے کم بوتل لہراتے ہوئے کہا لگتا آج شہد کا نشہ زیادہ چڑھا ہوا ۔۔۔ اتنا زیادہ پی لیا میں نے سر اٹھا کر اپنی رائٹ سائیڈ ر چپکی سقی کے گال کو اپنے ہونٹوں میں بھرا اور کچھ دیر چوسنے کے بعد بولا مکھن پر شہد ڈال کر کھا لیا تھا ۔۔۔ زینت بولی یہ زندہ بھی ہے یا گزر گئی میں نے اس کے بوبز کے بیچ ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔ دل تو پوری آب و تاب سے دھڑک رہا ۔۔۔ زینت اس کے ساتھ لیٹتی ہولی بولی مجھے تو لگتا اب یہ بستی کبھی نہیں جائے گی ۔۔۔۔۔میں نے زینت سے اس کی طبیعت کا پوچھا تو بولی بہت بہتر ہوں پھر وہ محبت سے دیکھتے ہوئے بولی بہت شکریہ ۔۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا شکریہ کس بات کا آپ میری دوسری بیگم ہو ۔۔۔ وہ مسکرا کے بولی ۔۔ ہاں کوئی شک نہیں لیکن اب اس تیسری کا سوچو۔۔۔۔ زینت نے اس کے ہپس پر تھپڑ مارا اور بولی اوووو ننگی لیلیٰ اٹھ بھی جاؤ ۔۔۔ میرے صاحب کو نچوڑ لیا تم نے وہ اب اٹھ بھی نہیں سکتا ۔۔۔ سائقہ بھرپور انگڑائی لیتے ہوئے بولی سونے بھی دو کیا ہے ۔۔۔۔۔ زینت بولی نشئی لڑکی ٹائم دیکھو ایک بج چکا ہے۔۔۔ سقی اٹھ کر میرے سینے پر الٹی لیٹی بولی چار بھی بج جائیں ہمیں کرنا کیا ہے یہ بتاؤ۔۔۔زینت اٹھ کر جانے لگی اور بولی اس۔لڑکی کی آگ کبھی نہیں بجھے گی اور مجھے جان سے مار دے گی ۔۔۔میں نے کہا سقی اٹھ جاؤ اب اور نہا لو ۔۔۔ وہ میرے سینے پر کسنگ کرتے ہوئے بولی اکٹھے نہائیں گے نا ۔۔۔۔۔؟؟؟ میں نے ھممم کہہ کر اس کے ریشمی ہپس کو پکڑا اور اٹھ گیا اور اسی طرح اسے اٹھا کر باتھ روم چلا گیا اور شاور کھول کر اس کے گیلے چمکتے ریشمی بدن کو کسنگ کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ جوس کا گلاس تھامے ان دونوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے شاکرہ کا نمبر ڈائل کر لیا ۔۔۔ شاکرہ نے مجھ سے دانت درد کا پوچھا تو میں نے سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ دو بار لی تھی میڈیسن ۔۔ اب بہتر ہوں بولی ڈاکٹر کو بھی دکھا لو اور ان بچیوں کو کال کر دی تھی میں نے کہا کہ ہاں کہہ دیا تھا بولی آپ صبح صبح خود چلے جانا اور ان کو لے آنا جہاں اچھا شغل لگا ہے وہ خوش ہو جائیں گی میرے پوچھنے پر شاکرہ نے بتایا کہ ان دونوں کے لئے اس نے دو دو ریڈی میٹ سوٹ لے لئیے ہیں باقی آئیں گی تو تو انکے ساتھ جا کر ان کے جوتے بھی لے لوں گی میں نے اوکے کہہ کو کال منقطع کر دی ۔۔۔ سائقہ کال کے دوران میرے پاس صوفے پر آ بیٹھی تھی اور اپنا کان موبائل کے پاس لگا کے شاکرہ کی باتیں سن رہی تھی ۔۔ سائقہ نےکال بند ہوتے ہی قہقہہ لگایا اور ہنستے ہوئے کہنے لگی اس بولو یہاں بھی بہت اچھا شغل لگا ہوا ہے اور بچیاں بہت خوش ہیں ۔۔۔ ادھر نہیں آتی ۔۔۔ زینت بولی۔ کل مجھے پہنچا دینا اور اس کو اپنے پاس رکھنا ۔۔۔ سائقہ فٹ سے بولی میں تو نہیں جاؤں گی شادی وادی پر ۔۔میں اپنے مانوں کے ساتھ رہوں گی ۔۔۔۔۔ آج ہم چار بجے ہی نکل پڑے تھے مین روڈ پر آتے ہی میں نے ڈرائیونگ سیٹ پر تکیہ رکھا اور گاڑی سائقہ کے حوالے کر دی اس نے اپنے اوپر لپیٹی بڑی چادر سے نقاب بنا لیا اور گاڑی آگے بڑھا دی شام سے کچھ پہلے ہم دریا کے قریب اس جھیل پر پہنچ گئے جہاں پہلے سے ہجوم لگا تھا دوپٹے سے نقاب اوڑھے ٹائٹ پینٹ شرث میں ملبوس یہ دونوں لڑکیاں لوگوں کے دلوں پر تیر برسانے لگیں لڑکے سائقہ کے مٹکتے ہپس کو دیکھ کر ہائے کی آواز نکالتے کشتی پر جھیل کی سیر کرنے تک کافی اندھیرا چھا چکا تھا کھانے پینے کے بعد ہم وہاں سے نکل پڑے تھے سائقہ کو گاڑی چلاتے دیکھ کر بہت سے منچلے نوجوان ہماری گاڑی کے آس پاس منڈلانے لگے میں نے سائقہ کو پچھلی سیٹ پر بھیج کر گاڑی کو دومنٹ میں ان منچلوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا اور سائقہ کو اپنی گود میں بھر کر اسٹیرنگ اس کے ہاتھوں میں تھما دیا ۔۔۔۔۔۔ شہر میں آنے کے بعد میں نے سائقہ کی۔پسندیدہ بریانی پیک کرا لی گھر پہچنے کے بعد زینت نے میڈیسن کھائیں اور ہم تینوں ایک بیڈ پر لیٹ کر باتیں کرتے رہے زینت کی طبیعت بہت بہتر تھی ہم سونے لگے تھے سائقہ نے نیند کے لئے میرے سینے کا انتخاب کیا تھا ۔۔۔۔۔ہم صبح نو بجے اٹھ گئے تھے ناشتہ کرنے کے بعد شاکرہ کی کال آ گئی تو میں نے اسے کہا کہ میں نکل رہا ہوں ان کو لینے کے لئے شاکرہ بولی ہاں تین بجے تک ان کو جہاں پہنچا دینا میں نے اوکے کر دیا زینت سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میری صحت کی خرابی کا آپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اکیلے مزے لوٹے ۔۔۔ سقی بولی آپ کا دل تو اس وقت جلے گا جب میں کالج میں داخلہ لے کر دن رات مانوں کے مزے لوٹوں گی ۔۔۔ زینت بولی مانوں کے یا ببلو کے ۔۔۔سائقہ بی مانوں کا ببلو تو مجھے جان سے بھی پیارا ہے زینت بولی پھر صرف ببلو بولا کرو تمہیں صرف اسی سے غرض ہے ۔۔۔ سقی بولی نہیں مانوں زیادہ اچھا لگتا ہے سوری ۔۔۔۔ باتوں باتوں میں زینت نے ٹراؤزر کے اوپر سے ببلو کو پکڑ کر مسکراتے ہوئے بولا آج آخری دن ہے جہاں کا ۔۔میںصرف چوکبار کھاؤں گی میں نے اوکے کر دیا زینت ببلو کو باہر نکال کر چوستے ہوئے اسے جگانے لگی تھی اور میں نے سائقہ کو باہوں میں بھر لیا بہت دیر بعد میں نے سائقہ کے ایک پاؤں میں جھولتی پینٹ کو الگ کر کے اسے اپنے نیچے دبا لیا ۔۔۔۔۔ سقی اس وقت میرے اوپر بیٹھی مست سے جھٹکے لگا کر اپنا پانی دوسری بار گرانے کو آگے بڑھ رہی تھی زینت میرے رائٹ سائیڈ پر سوئی تڑپ رہی تھی سائقہ رک گئی تھی اور جسم کو اکڑانے کے کچھ لمحے بعد سائیڈ پر لڑکھڑاتی میری لفٹ سائیڈ کے پاس اوندھے منہ لیٹ گئی میں نے زینت کو دوسری طرف پھیر کر اس کے ہپس اپنی طرف پھیر لئے اور ببلو کو عجلت میں اس کے ہپس کے درمیان ہول پر رکھ کر اسے آگے بڑھانے لگا اور اپنی ایک انگلی اس کی ببلی کے منہ میں ڈال کر ہلکے جھٹکے دینے لگا ادھا ببلو پیچھے لینے کے بعد زینت درد سے کڑاہ رہی تھی سائقہ اپنا سر اوپر اٹھا کر ہنسنے لگی تھی اور زینت کی ببلی کے پانی چھوڑنے کے بعد میرا ببلو بھی زینت کے پیچھے پچکاری مارنے لگا ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں زینت کے ہپس پر ہاتھ رکھ کر سیدھا لیٹ گیا اور سقی کو اپنے سینے پر کھینچ لیا ۔۔۔۔۔۔۔اگلے روز شاکرہ نے مجھے کال کرکے بتایا کہ زینت پھسل خر گری ہے اور اس کی طبیعت ٹھیک نہیں آپ کہو تو میں اسے ڈاکٹر ارم کے پاس لے۔جاؤں میں نے ڈاکٹر ارم کے اناڑی پن کو گالیوں سے نوازا اور اسے ڈاکٹر صباء کے پاس لے جانے کا مشورہ دیا شاکرہ اوکے ب کو کال منقطع کر گئی ۔۔۔ شادی کے اگلے روز میں اور شاکرہ ان کو پہنچانے چلے گئے زینت کو اس کے گھر پہنچایا اور شاکرہ نے نعمت کو بولا کہ اسے۔مکمل آرام دینا ہے کام کے لئے کسی کو بلوا لو ۔۔۔ ہم سائقہ کو لیکر جب اس کی بستی کی طرف بڑھ رہے تھے سائقہ میری بیگم سے باتیں کرتی مجھے الفاظ کی چٹکیاں مارتی جا رہی تھی سائقہ نے اس چھوٹی سڑک کی طرف اشارہ کیا جہاں میں اس ٹیلوں والے میدان کی طرف اس کو اور زھرا کو لیکر گیا تھا ۔۔سائقہ بولی باجی اس طرف بہت مزے کا پارک ہے ماموں کو بولنا کبھی آپ کو لیکر جائے گا شاکرہ بولی۔اس طرف ۔۔۔ ادھر تو سارا جنگل لگ رہا ۔۔۔ سائقہ بولی نہیں تھوڑا آگے جاؤ تو پھر آ جاتا ۔۔۔ شاکرہ نے میری طرف دیکھ کر بولا سچ ہے ۔۔؟؟؟ میں نے اپنا سر اس طرف گھما کر کہا کہ میں تو کبھی نہیں گیا ۔۔۔۔۔ پیچھے بیٹھی سائقہ۔مجھے آئینے میں دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔شاکرہ بولی ابھی تو ٹائم نہیں ہے پھر کبھی دیکھیں گے سائقہ کی بستی سے تھوڑا پہلے جب شام ہونے لگی تھی تو نعمت کی کال آ گئی بولا بستی پہنچ گئے ؟ میں نے کہا کہ ابھی پہنچنے لگے ہیں بولا میں نے زینت کے بھائی کو کال کر دی ہے وہ سونیا کو آپ لوگوں کے ساتھ بھیج دے گا واپسی اس یہاں چھوڑتے جانا ۔۔۔ میں نے شاکرہ کو بتایا بولی اسے کہو بس جلدی سائقہ کے گھر آ جائے ہم فوراً واپس ہونگے شام ہو رہی مجھے اس علاقے میں ڈر لگتا ہے ۔۔۔ میں نے نعمت کو یہ بات کہہ کر کال منقطع کر دی ۔۔۔۔ واپسی پر ہم سونیا کو زینت کے پاس چھوڑ کر رات دس بجے گھر آ گئے تھے ۔۔۔ بیس دن بعد سائقہ کا رزلٹ آنے والا تھا اور میں اس روز سے ایک دن پہلے شاکرہ کو اس کی امی کے گھر چھوڑ کر سائقہ کی بستی کی طرف جا رہا تھا میں نے سائقہ کی فرمائش پر رات اسی کہ پاس گزارنی تھی اور اگلی صبح زرلٹ معلوم کرنے باجی اور سائقہ کے ساتھ شہر جانا تھا ۔۔ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا میں نے گاڑی کے شیشے نیچے گرا دئیے اور تیز میوزک کے ساتھ ٹھنڈی قدرتی ہوا کی مزے لے کر گاڑی ہلکی سپیڈ سے آگے بڑھا رہا تھا کہ سائقہ کی کال آ گئی اور اس نے مایوسی سے بتایا کہ تیز بارش ہو رہی اور آپ اس کچے رستے پر نہیں آ پاؤ گے ۔۔۔۔ میں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا اور گاڑی کو واپس موڑ لیا اور موسم کو انجوائے کرنے کے لئے اپنی زمینوں کا رخ کر لیا نعمت کا گھر میری ان زمینوں سے دو فرلانگ کے فاصلے پر تھا میں اپنے ایک مزارع کو کال کر کے اس کے آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ جہاں بھی بارش شروع ہو گئی میں گاڑی میں بیٹھ گیا مزدور اس بارش میں نہیں آ سکتا تھا میں گاڑی میں بیٹھا پریشانی سے آس پاس کا جائزہ لینے لگا ان کچے راستے پر یر طرف کیچر بن گیا تھا اور گاڑی یہاں سے نکالنا نا ممکن تھا میں نے نعمت کو کال کر کے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ تو زینت کی امی کے گھر پھنس گیا ہے بارش کی وجہ سے میں نے اسے اپنی صورتحال بتائی تو بولا گاڑی کو یہیں رہنے دو اور کسی طریقے میرے گھر تک پہنچ جاؤ۔۔۔ زینت اور سائقہ ویسے بھی اکیلی ڈر رہی ہیں وہاں بارش رک چکی تھی شام سے قبل اندھیرا ہونے لگا تھا درختوں سے ہوا کے جھونکوں سے اب بھی بارش کی طرح پانی ٹپک رہا تھا ہر طرف جل تھل تھی ان علاقوں کی مٹی چکنی تھی جس پر بارش کے بعد چلنا بہت مشکل کام ہے سامنے درختوں کے جھنڈ کے اس پار زینت کا گھر تھا میں کیچڑ بھری زمین کو دیکھتے ہوئے زینت کے گھر تک جانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تھوڑی دیر بعد نعمت نے کال کر کے صورتحال معلوم کی اور بتایا کہ میں نے گھر بتا دیا ہے آپ کا کھانا تیار ہو رہا آپ گاڑی میں رہیں ایک بچہ بیل گاڑی لا رہا ہے وہ آپ کو میرے گھر تک پہنچا دے گا ۔۔۔۔ میری جان میں جان آ گئی میں اٹھ کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر چلا گیا اور سوٹ کیس سے بلیک شلوار قمیض نکال کر پینٹ شرٹ اتار دی اور سوٹ پہن کر بیل گاڑی والے کا انتظار کرنے لگا میں نے صرف ضروری سامان ایک شاپر میں ڈال رکھا تھا کوئی بیس منٹ بعد گاڑی کے پیچھے سے کچھ آوازیں آنے لگیں میں نے دیکھا تو بارہ تیرہ سال کا ایک لڑکا بیل کو ہانکتا ہوا گاڑی لے کر میرے قریب ہو رہا تھا لڑکے نے بیل گاڑی کو میری گاڑی کی لفٹ سائیڈ پر قریب کرتے ہوئے روک دیا میں شاپر اٹھا۔کر گاڑی کو لاک کرتا ہوا بیل گاڑی میں بیٹھ گیا میں لڑکے سے رسمی گفتگو کرتے ہوئے ذہن میں رات کو رنگین بنانے کے بارے میں سوچ رہا تھا دراصل بیس دن بعد سائقہ کے پاس جا کر مکھن پر شہد ڈال کر کھانا چاہتا تھا لیکن بارش کے باعث سارا مزہ کرکرا ہو گیا تھا مجھے سائقہ سے عشق ہو گیا تھا اور ان دنوں میں صرف سائقہ تک محدود ہونا چاہتا تھا ۔۔۔ اس کیچڑ میں بیل کو گاڑی کھینچنے میں کافی مشکل پیش آ رہی تھی لیکن لڑکا اسے ہانکتے اور جھڑی سے کام لیکر بیل کو آگے چلنے پر مجبور کر رہا تھا درختوں کے اس جھنڈ کے پہنچنے سے پہلے بارش پھر سے شروع ہو گئی اور میرے کپڑے گیلے ہو گئے تھے ۔۔۔ میں نے شاپر میں اتاری گئی پینٹ شرٹ بھی ڈال دی تھی جس سے مجھے تسلی رہی دو فرلانگ کا فاصلہ بیل گاڑی پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا تھا تاریک رستے پر بیل گاڑی چلانے پر میں لڑکے کو دل میں داد دے رہا تھا میرے کپڑے بھیگ کر چپک گئے تھے اور بارش کے ساتھ ہوا چلنے سے اب مجھے سردی لگ رہی تھی میں نے اس بڑے شاپر میں ہاتھ ڈال کر پاور بینک والا چھوٹا شاپر خالی کر لیا اور پاور بینک کو اس بڑے شاپر میں کھلا چھوڑ دیا میں نے اسی شاپر میں ہزار روپے کا ایک نوٹ رکھ کر لڑکے کو دے دیا لڑکے بہت خوش ہو گیا اور مجھے اتارتے ہوئے کہنے لگا صاحب میری جس ٹائم ضرورت ہو نعمت کو کال کر دینا وہ میرے ابو کو بتا دے گا تو میں آپ کے پاس آ جاؤ گا ۔۔۔ میں نعمت کے گھر میں داخل ہو گیا اور احتیاط سے قدم اٹھاتا ان کے کچے کمرے میں چلا گیا زینت بستر پر ںیٹھی ہوئی اور سونیا اس کے ساتھ کھڑی اپنے دوپٹے کا پلو اپنی انگلی کے گرد لپیٹ رہی تھی کمرے میں سو واٹ کا ایک بلب جل رہا تھا جس کی روشنی مجھے سورج کے برابر لگ رہی تھی کیونکہ میں گپ اندھیرے سے یہاں آیا تھا زینت نے بہت گرم جوشی سے میرا استقبال کرتے ہوئے کہا آج کی بارش بہت لکی ہے جو آپ کو ہمارے گھر رہنے کےلئے زبردستی لے آئی ہے میں نے اپنا ہاتھ سونیا کی طرف بڑھایا تو اس نے معمولی سی ہچکچاہٹ کے بعد سر نیچے جھکاتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا میں نے اس کے گرم ہاتکو دبا کر پوچھا ۔۔۔ ٹھیک ہیں آپ ۔۔۔ وہ ایک لمحے بعد مدھم آواز میں بولی ۔جی۔۔۔۔۔ زینت بولی بارش نے آج اسے گم سم کر دیا ۔۔۔ میں نے کہا کیوں ؟؟۔ بارش نے تو مجھے ڈسٹرب کرنا تھا ۔۔۔ زینت بولی آج اس کے شوہر نے آںا تھا نعمت کے ساتھ ۔۔۔۔ وہ بھی بارش کی وجہ سے رک گیا تو ۔۔۔ اس پر چپ طاری ہو گئی ۔۔۔۔ زینت مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی میں نے کہا خیر ہے ایسا ہو جاتا لیکن کبھی کبھی اس سے بھی اچھا ہا جاتا زینت نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کو دبایا اور سر جھکا گئی ۔۔۔ زینت نے اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبایا اور اور مزے جیسی آنکھوں خو تھوڑا بند کرتے ہوئے مجھے کچھ اشارہ کیا گیلے کپڑوں کے چپکنے سے ببلو اپنی تگڑی پوزیشن واضح کر رہا تھا میں نے شاپر کھول کر اس سے پینٹ شرٹ کو نکال اور زینت سے بولا کپڑے کہاں بدلوں ؟؟۔ بولی چھوٹی کوٹھڑی میں سامان بھرا ہے اور اندھیرا بھی آپ ادھر ٹھہر کر بدل لیں ہم ادھر کو منہ کر لیتے سونیا چارپائی پر میری طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گئی میں نے اپنی انڈرویئر کو دوبارہ شاپر کی طرف اچھال دیا اور شلوار قمیض اتار دی زینت سونیا سے باتیں کرتی میری طرف توچھی نظروں سے دیکھ رہی تھی میں نے اپنے جسم پر ہاتھ پھیر کر پانی نچوڑا اور پینٹ شرٹ پہن کے سونیا کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گیا سونیا تھوڑی سے کھسک گئی ۔۔۔ زینت نے مسکراتے ہوئے پوچھا صاحب ہم نے تو سبزی بنائی ہوئی ہے مرغی ذبح کرنے والا کوئی نہیں تھا نعمت نے آپ کا پہلے ہی بتا دیا لیکن اس بارش میں ممکن نہیں تھا ۔۔۔ میں نے پوچھا مرغی دیسی ہے یا برائر ؟؟ بولی خالص دیسی ہے لیکن ٹائم نہیں تھا اتنا کچھ فوراً کرنے کو کوشش ہے پھر بھی کوئی طریقہ بن جائے ۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا اگر کوئی طریقہ بن جائے تو احسان ہو گا آپ کا زینت بولی ۔۔نہیں احسان نہیں ہے ہمارا حق بنتا ہے آپ نے ہمارے گھر آ کر احسان کر دیا تو کوئی چیز آپ سے قیمتی نہیں ہے ۔۔۔ بولی میں بیمار نہ ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔۔۔ میں نے کہا اوکے فی الحال کچھ سبزی کھا لیتے ہیں میں نے گیلی قمیض سے اپنا سامان نکالا اور بٹوہ پینٹ کی جیب میں ڈالتے رک گیا اور دوہزار کے دو نوٹ نکال کر سونیا کی طرف بڑھا دیئے ۔۔ وہ ہچکچاتے ہوئے پہلی بار بولی تھی نہیں صاحب آپ کے پہلے بھی شادی والے احسان باقی ہیں آپ نہیں دیں ۔۔۔ میں نے کہا خیر ہے لے لو جس دن دل کرے سارے احسان اتار دینا ۔۔۔ زینت بولی لے لو صاحب سے یہ بھی ہر کسی کو نہیں دیتے جو اچھا لگتا ہے اس پر اپنی عنایت کرتے ہیں سونیا نے مسکراتے ہوئے نوٹ لے کر مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا زینت نے سائقہ کو کہا جا کر گلی کے دروازے کو تالا لگا دو اور کھانا لے آؤ۔۔۔ ارم جھم جاری تھی ایک چارپائی زینت کی چارپائی کے ساتھ ملی ہوئی تھی جس پر میں بیٹھا تھا اور ایک چارپائی اس کچے کمرے میں دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی تھی جس پر صاف ستھرا بستر لگا ہوا تھا ۔۔۔ سونیا باہر نکلی تو زینت بولی ۔۔۔ میں بلب اتار کے سو جاؤں گی آپ اس کے ساتھ کھس جانا ۔۔۔۔ باقی کوئی طریقہ نہیں نظر آتا ۔۔۔۔ سونیا واپس آنے لگی تھی زینت بولی بیگم صاحبہ کیسی ہیں میں نے کہا ٹھیک ہیں آپ کے لئے فکر مند تھیں۔۔۔ بولی دوائیاں ختم ہو جائیں تو پھر نعمت کو بولوں گی ڈاکٹر کے پاس جانے کا ۔۔۔۔ میں نے کہا آپ مجھے کال کر دینا اور چنگ چی بسوں وغیرہ پر۔نہیں آنا ۔۔۔ پہلے سے بھی خراب ہو جاؤ گی ۔۔۔ زینت بولی ہاں پھر نعمت کو بتا دونگی اور آپ آئیں گے تو سونیا اور میں ساتھ آ جائیں گی چلو اسی بہانے ایک رات بیگم صاحبہ کے پاس گزار لیں گے سونیا کھانا لے۔کر آ گئی اور کھانے کے دوران ہماری باتیں ہوتی رہیں اور پھر میں زینت کے ساتھ والی اس چھوٹی چارپائی پر لیٹ کر موبائل نکالا اور ڈیٹا آن کر کے فیسبک پر گردش کرنے لگا زینت سونیا سے قدرے آہستہ آواز میں ہماری تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی رات کے دس بج چکے تھے میں نے موبائل سینے پر رکھا اور آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد زینت بولی صاحب کو تو ادھر ہی نیند آ گئی ہے ۔۔۔ پھر اس نے ایک بار مدھم آواز میں بولا صاحب آپ کا بستر ادھر لگا میں سویا رہا ۔۔۔ پھر وہ سونیا سے بولی۔آپ بلب بند کرکے ادھر ہی سو جاؤ بس اس کو نہیں جگاؤ۔۔۔۔ سونیا بولی۔لائٹ جلتی رہے تو ۔۔۔۔ زینت بولی نہیں یہ اندھیرے میں سوتے ہیں ۔۔۔بس بند کر دو اور سو جاؤ ۔۔۔مجھے بھی نیند آ رہی ۔۔رات صحیح سے نہیں سو سکی تھی ۔۔۔ پھر چند قدموں کی آہٹ کے بعد بٹن بند ہونے کی آواز آئی اور میں نے آنکھوں کھول کر دیکھا کمرے میں اندھیرا تھا باہر سے آسمانی بجلی کی چمک کبھی کبھی کمرے کے دروازے سے اندر جھانک لیتی تقریباً بیس منٹ بعد چارپائیوں سے آنے والی چیں چیں کی ہلکی آوازیں بند ہو گئیں زینت کا ہاتھ میرے چہرے پر آ گیا میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اس پر کسنگ شروع کر دی تھوڑی دیر بعد زینت نے میرے سینے پر تھپکی دی اور میں اٹھ گیا اور پینٹ۔کا بلٹ۔کھول کر اسی چارپائی پر رکھا اور شرٹ اتار کر سونیا کی چارپائی کی طرف بڑھ گیا میں قدموں کو بغیر آہٹ کے آگے بڑھاتا گیا سونیا کی لمبی سانسوں کی آواز آ رہی تھی میں چارپائی کی بازو پر بیٹھتے ہی سونیا کے ساتھ لیٹ کر اس۔پر اپنا بازو رکھ دیا وہ نیند میں تھی میں نے اس پر اپنی دائیں ٹانگ بھی رکھ دی اور اسے اپنے سینے کے قریب کھینچا تو وہ جاگ گئی ۔۔۔۔۔ وہ لرزتے جسم کے ساتھ کانپتی آواز میں بولی کو۔۔کون۔۔۔۔۔ میں نے اآہستہ سے کان میں بولا خاموش رہو زینت جاگ جائے گی اس دوران سونیا میرے چہرے پر ہاتھ پھیر چکی تھی ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ اس کے نیند سے جاگنے پر جو اوسان خطا ھو گئے تھے وہ بحال ہو چکے تھے ۔۔۔۔ میں نے اس کے ہپس کے ایک پنکھ کو پکڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا اور اس کے لب چوسنے لگا سونیا میری گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے آہستہ سے بولی صاحب نہیں کرو ۔۔۔۔ میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا اس موسم میں میں پیار کر ترس رہا تھا میں نے اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا جڑ لیا اور چوسنے لگا سونیا نے ایک بار پھر اپنے سر۔کر پیچھے کرکے بولا نہیں کروو۔۔۔ زینت جاگ جائے گی ۔۔۔ میں نے کہا نہیں جاگے گی تم خاموش رہو ۔۔۔ میں نے اس کے بوبز کو دبانا شروع کر دیا اور کچھ نارمل ہونے کے ساتھ اپنا سر اٹھا۔کر بار بار اٹھا رہی تھی شاید وہ اندھیرے میں زینت کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی باہر رم جھم جاری تھی میں نے اپنا ہاتھ سونیا کی قمیض کے اندر ڈالتے ہو بوبز کی طرف بڑھایا تو اس نے اففففف کے ساتھ کہا یہ نہیں کرو نا بس تھوڑا پیار کر لو میں نے اس کے نپلز کو مسلنے کے ساتھ اس کے لبوں کو چوسنا شروع کر دیا اس کی تیز سانسوں کے بیچ سسکیاں ابھرنے لگیں زینت ساخت پڑی تھی ۔۔۔۔ میں اس کو کسنگ کرتا اس کو سیدھا لٹاتے ہوئے اس کے اوپر آ گیا اور اس کی ٹانگوں کے بیچ جگہ بنانے لگا کسنگ کے دوران میں نے اس کے قمیض کو گلے کی طرف اوپر سرکا دیا اور اپنے ہونٹوں کو بوبز کے نپلز پر جوڑ دیا جس سے سونیا کی نہ صرف سسکیوں میں اضافہ ہو گیا بلکہ اس کی سانسیں بھی تیز ہو گئی میں اپنی پینٹ کو۔گھٹنوں تک سرکا چکا تھا اور اپنے اس ہاتھ کو سونیا کی کمر پر لے آیا میں نے نپلز پر دانتوں کا استعمال کرنے لگا جس سے سونیا مچھلی کی طرح تڑپنے لگی اور میں غیر محسوس انداز میں اس کے لاسٹک میں ہاتھ ڈال کر اس کی شلوار کو گھٹنوں تک سرکا گیا سسکیوں کے بیچ اس نے پھر سرگوشی کی ۔۔۔اففففففف زینت جاگ جائے گی میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا بس دو منٹ ۔۔۔۔۔ بولی جلدی کرووووو۔۔ میں نے اس کی لفٹ ٹانگ کو بازو کے اندر کر کے اس کے بوبز کو منہ میں بھرتے ہوئے ببلو کو اندھیرے رستے میں آگے بڑھا دیا ببلی کے ہونٹوں کے بیچ پھسلتے ببلو کو محسوس کرتے سونیا بری طرح لرزی اور اپنا ہاتھ اپنے ہپس پر پھیرتے ہو قدرے زور سے بولی اوہ ہ ہ ہ نہیں ۔۔۔۔ سونیا کو پہلے علم نہیں تھا کہ میں اس کی شلوار کے ساتھ اپنی پینٹ بھی سرکا چکا ہوں ببلو بہت آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا اور تقریباً چھ انچ کے بعد اس کی ٹوپی تھوڑی ٹائٹ ہو گئی میں نے ادھر رک کر ہلکے جھٹکے دینا شروع کر دئیے وہ ساکت پڑی تھی شاید وہ اس کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی اور صرف پیار کی امید پر تھی کہ میں بوبز چوسنے کے بعد چکا جاؤں گا کچھ دیر بعد اسے مزہ آنے لگا تھا اور تیز سانسوں میں بولی جلدی کرو۔۔۔میں نے اس کے ہپس کی حرکت سے محسوس کیا کہ اب وہ پورے مزے میں آ چکی ہے میں نے بیٹھ کر ببلو کو باہر نکال لیا اور اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر اس کی شلوار اتار کے نیچے پھینک دی ۔۔۔بولی ساری تو نہ اتارو۔۔۔ میں نے ببلو کو کھلا چھوڑ دیا اور اندھیرے میں اپنی ببلی کو ڈھونڈ کر اس میں اترنے لگا مجھے معلوم ہو چکا تھا سونیا کی کپیسٹی بھی چھ انچ ہے سو میں نے اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑا اور ببلو پر دباؤ بڑھا دیا اونہہہ اونہہہ کے ساتھ سونیا تڑپنے لگی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ببلو مسلسل آگے بڑھ رہا تھا وہ میرے نیچے سے نکلے کی ناکام سی جستجو کو رہی تھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے اس لذت کے لمحوں میں دھکیلنے والا ببلو واقعی میں اتنا بڑا ہے یا کچھ اور میرے اندر جا رہا ۔۔۔۔سونیا نے اپنا سر جھٹک کے اپنے لبوں کو میرے ہونٹوں کی گرفت سے آزاد کیا اور ڈوبتے سانسوں کو گہری سانس لے کر بحال کیا اور ۔۔۔ لمبی سی آواز میں بولی۔۔ آآآ امی ی ی ۔۔۔۔ زینت کی مدھم ہنسی کے ساتھ آواز آئی ۔۔۔ سونیا کیا ہوا طبیعت خراب ہے یا ڈڑ رہی ہو ۔؟؟؟؟؟ سونیا خاموش اور ساکت ہو گئی میں نے اپنے ہونٹ اس کے لبوں پر رکھے تو وہ اپنے لب دانتوں تلے دبائے ھوئے تھی میں نے اسی لمحے کا فائدہ اٹھایا اور باہر رہنے والے ایک انچ کو جھٹکے سے ڈال کر ببلو کو ہلانا شروع کر دیا سونیا اپنے ہاتھوں سے پورا زور لگا کر مجھے دھکیلنا چاہ رہی تھی میں نے ایک دم جھٹکوں میں تیزی بھر دی اور سونیا کی ایک بار پھر بے اختیار آواز نکلی ۔۔۔۔۔ وائی وائی وائی۔۔۔۔۔۔ میں نے محسوس کر لیا تھا کہ زینت اٹھی ہوئی ہے ۔۔۔۔ کڑک کے ساتھ کمرہ روشن ہو گیا اور سونیا نے اپنی آنکھوں پر بازو لپیٹ لیا ۔۔۔

Post a Comment

0 Comments