دیہاتی لڑکی ۔ آٹھویں قسط

 


دیہاتی لڑکی

آٹھویں قسط

تحریر: ماہر جی


زھرا کے ساتھ باتیں کرتا میں گاڑی کو تیز بھگا رہا تھا آح جمعہ کا دن تھا اور زھرا کے سکول کی 11:30 بجے چھٹی ہونی تھی میں نے ایک پٹرول پمپ سے گاڑی کا فیول لیا اور ساتھ ہی ایک شاپ سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں اور پانی کی بوتل لے لی مین روڈ سے اس چھوٹی سڑک پر آنے کے ساتھ ہی میں نے زھرا کا دوپٹہ اتار لیا اور ساتھ میں اپنی پینٹ کا بلٹ بھی کھول دیا اور پینٹ اور انڈرویئر کو گھٹنوں کی طرف سرکا کر زھرا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ببلو پر رکھ دیا زھرا کا جسم کانپ رہا تھا اور وہ آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے ہولی صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ ایک بات کہوں ۔۔۔۔میں نے کہا جی بولو کہنے لگی بہت بڑا ہے اور سخت بھی ۔۔۔۔ آپ کا ۔۔۔۔ میں نے کہا کہ اسی لئے تو اچھا ہے ۔۔۔ بولی نہیں بہت درد ہوتا ہے ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ درد میں ہی مزہ ہے ۔۔۔ بولی مجھے اس دن جو درد ہوا میں ایک ہفتے بعد ٹھیک ہوئی ہوں ۔۔اٹھتے بیٹھتے میری اشششش نکلتی تو امی مجھے دیکھ کر پوچھتی کہ زھرا کیا ہوا ہے آپ کو ۔۔۔ میں نے اس چھوٹی سڑک سے گاڑی کو ان ٹیلے بھرے میدان میں اتارتے ہوئے کہا کہ بس آج نہیں ہو گا ۔۔۔۔ ببلو زھرا کے کمزور سے چھوٹے ہاتھ پوری طرح تن چکا تھا میں نے اسے قمیض اتارنے کو بولا تو کہنے لگی ۔۔آج بھی صرف شلوار اتار کے ایک بسر کر۔لو چھٹی جلدی ہو گی اور میں اکیلی ہوں تو مجھے ڈر لگ رہا آج زیادہ میں نے کہا کہ زھرا کچھ نہیں ہوتا ٹینشن کے بغیر پورا انجوائے کرو گی تو مزہ آئے گا اور میں تمھیں صحیح وقت پر پہنچا دوں گا پھر وہ چند لمحے کے وقفے کے بعد ادھر ادھر دیکھتے ہوئے قمیض اتارنے لگی تھی غبارے جیسے پھولے بوبز کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ان کو پوری بستی نے جی بھر کے انجوائے کیا تھا لیکن اس کی ببلی انجوائے کرنے کا زیادہ موقع کسی کو نہیں ملا تھا ۔۔۔ میں گاڑی اسی جگہ روک چکا تھا جہاں پچھلی بار کھڑی کی تھی میں نے زھرا کو پچھلی سیٹ پر جانے کا بولا وہ اپنے کپڑے فرنٹ سیٹ پر چھوڑ کر پیچھے چلی گئی میں نے پینٹ کو اوپر کر کے زپ بند کی اور گاڑی سے اتر کر آس پاس کا جائزہ لیتے گاڑی کے پیچھے سے گھوم کر دوسری طرف کی پچھلے گیٹ کو کھول کر اندر آ گیا اور اپنی پینٹ کو ٹانگوں سے الگ کر دیا میں شرٹ وغیرہ اتار رہا تھا کہ زھرا میری طرف ٹانگیں کر کے سو گئی میں اس کے اوپر سوتے ہوئے اس کے فیس کو کسنگ کرتا اس کے بڑے بوبز پر آ گیا اور ان کو اپنے دونوں ہاتھوں میں بھر کے ان کے براؤن نپل کو منہ میں بھر بھر کر چوسنے لگا سسکیاں لیتی زھرا میرے نیچے دبے اپنے چھوٹے کمزور جسم کو بل دیتے ہوئے بولی بس جلدی کرووووو میں نے اسے تھوڑی دیر مذید ترسایا اور پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس سے ببلو پر تھوک لگانے کو بولا وہ ببلو کی ٹوپی پر اپنی انگلیوں سے تھوک لگا کر پھر سونے لگی وہ بری طرح کانپ رہی تھی میں نے اسے پورے ببلو پر تھوک لگانے کو بولا اس نے تھوڑا اور تھوک لگایا اور سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولی پورا ڈالو گے کیا ؟؟؟ میں نے کہا ہاں ں ں ں آج سائقہ نہیں ہے تو یہ سارا آپ کا ہے ناں ۔۔ وہ۔لرز گئی اور پھر سو گئی میں نے ببلو کی ٹوپی کو اس کی ٹانگوں کے بیچ ببلی کے منہ پر چھوڑا اور زھرا کے اوپر لیتا چلا گیا میں نے جھک کر اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا وہ بری طرح لرز کر وشش وشش کر رہی تھی میں نے ببلو کو اس تنگ گلی میں اتارنا شروع کر اونہہہہہہ اونہہہہہ کے ساتھ زھرا اپنی کمر کو بل دے رہی تھی اور میری سائیڈ کو زور سے پکڑتی جا رہی تھی ببلو کے سات انچ تک جانے کے ساتھ زھرا کی درد بھری اونہہہہہ اونہہہہہہہ کے ساتھ اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا تھا اس کے چہرے پر درد کے گہرے اثرات موجود تھے ببلو کی ٹوپی نے اطلاعی میسج دیا کہ آگے رستہ اب بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے میں نے ببلو کو ادھر روک دیا اور چند لمحوں کے بعد اسے ہلانے لگا زھرا چند ہی جھٹکوں بعد جسم کو فل اکڑا کر پھر ڈھیلا چھوڑتے ہوئے اپنی ببلی کو اندر سے پانی سے بھر دیا میں نے ایک بار پھر رک کر اس کے تنے ہوئے بوبز چوسنے لگا اور پھر اپنی کمر کو حرکت دینے لگا زھرا بولی بسسسسس کر ۔۔۔ و ۔۔۔۔ اونہہہہہہہ اونہہہہہہ م مم ما۔۔۔۔۔ میں نے کمر کی حرکت کو قدرے تیز کرتے ہوئے زہرا کو پہلی بار اپنے جھٹکوں سے روشناس کرایا اففففف آآآآآآ صا ۔۔۔۔۔ صاحب ۔ب ب ب نا اونہہہہہہہ آآآآ ما ۔۔۔ مونہہہہھھھھھ اہا اونہہہہہہ ۔۔۔بسسسسسسس انہہہہہہہہ میں مسلسل چلتا رہا اور کچھ دیر بعد زھرا قدرے نارمل ہو گئی اور پھر سے اووووہ اونہہ کرتی اپنی کمر کو کمان کی طرح پیچھے کو موڑتے ہو اپنے ہپس کو گاڑی کی سیٹ اور اپنے تنے ہوئے بوبز کو اوپر لانے لگی تھی میں نے قدرے جھک کر اس کے بوبز کے ایک نپل کو اپنے دانتوں میں لے کر ہلکا ہلکا دبایا اور اسی لمحے زھرا نے ہلکی سی چیخ کے ساتھ اپنی ببلی کو ایک بار پھر پانی سے بھر دیا وائی وائی وائی ۔۔۔ امی ۔۔۔۔۔ آآآآآآ آئی آئی آئی چھوٹی سے زہرا بے حال ہو چکی تھی میں رک کر اس کے چہرے کو دیکھتا اس کے نارمل ہونے کا انتظار کر رہا تھا زھرا نے آنکھیں کھول کر رحم طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے روہانسی آواز میں کہا اب بس کر ل۔۔۔۔۔ بات اس کے گلے میں اٹک گئی تھی ۔۔ میں نے ببلو کو آہستگی سے باہر نکالا تو وہ اپنا سر اوپر اٹھا کر ببلی کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگی اور وائی وائی کرتی جا رہی تھی پھر زھرا نے اپنا سر سیٹ سے ٹکا دیا اور اپنی دونوں ٹانگوں کو اپس میں لپیٹ کر ببلی پر دباؤ بڑھا دیا اور چھوٹی سی گٹھڑی بن گئی تھی میں اس کے جسم پر ہاتھ پھیر کر اسے نارمل کر رہا تھا اس کی آنکھوں سے مسلسل پانی بہہ رہا تھا میرا ببلو آخری لذت کے لمحات کو ترستا بہت سخت ہو کر اوپر اٹھ آیا تھا اور مجھ سے شکوہ کر رہا تھا زھرا کی درد بھری صدائیں کچھ کم ہوئیں تو میں نے کپڑے سے ببلو کو تھوڑا صاف کر کے اس پر کنڈوم کو پورا کھول دیا اور گٹھڑی بنے زھرا کے جسم کو آہستہ سے کھولتے ہوئے اس کو کسنگ کرنے لگا بولی اب تو بس کر لو ۔۔۔ میں نے اس کی آنکھوں پر کسنگ کر کے کہا بس صرف دو منٹ میرا پانی نکلنے لگا ہے وہ آنکھیں بند کر کے کچھ لمحے ساکت پڑی رہی پھر بولی نہیں کرو ناں اور ساتھ اس کے آنسو پھر نکلنے لگے میں نے کہا زھرا میری دوست ہو ناں پلیز میرا کام پورا کر دو مجھے آدھے رستے میں تو نہ چھوڑو ناں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی آہستہ سے اپنی ٹانگوں کو کھولنے لگی تھی میں نے اسے اٹھا کر گھوڑی بنا دیا اور اس کی کمر پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھا کر کنڈوم میں جکڑے ببلو کو اس کی ببلی میں اتار دیا اس کی اششش اششش پھر شروع ہو گئی کچھ جھٹکوں کے بعد زھرا ایک دوم آگے کو لیٹ گئی اور بولی اسبکو اتار دو ۔۔۔۔ اندر سے چھڑ رہا یہ اس نے کنڈوم کا بولا تھا میں تیز سانسوں کے ساتھ لذت کے ان آخری لمحات میں عجلت سے کام لے رہا تھا میں نے کپڑا اٹھایا اور کنڈوم کو اپنے دانت رگڑتے ہوئے اسے کھینچ کر کپڑے کو سیٹ سے نیچے رکھ دیا میں نے زھرا کے ہپس کو پکڑ کر پیچھے کرتے ہوئے پھر سے گھوڑی بنایا اور ببلو کو اس کی گیلی ببلی میں اتار کے پوچھا اب ٹھیک ہے ؟؟؟ بولی ہاں میں نے ایک دمبتیز جھٹکوں کے ساتھ پھر شروع ہو گیا کچھ ہی دیر میں میری آنکھیں بند ہونے لگی زھرا جسم کو اکڑاتی جا رہی تھی ببلو کا سات انچ حصہ اس تنگ گلی کو انجوائے کر رہا تھا جبکہ باقی دو انچ ترستا باہر ہی سے گرمی محسوس کر رہا تھا میرا جسم زھرا کے جسم سے نہیں ٹکرا رہا تھا میرے جھٹکے رک چکے تھے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ زھرا نے اکڑ کر اپنے ہپس کو تھوڑا پیچھے دھکیلا اور اونہہہہہہ اونہہہہہہ کے بعد وشششششششششششش کے ساتھ اپنی ببلی کو تیسری بار پانی سے بھر دیا میں نے زھراء کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور ببلو کو تھوڑا مذید آگے کر کے ببلو کا پانی زھرا کے پانی میں شامل کر دیا میرے پانی کے اندر جانے سے شاہد اسے کوئی مزہ آیا تھا کہ زھرا نے اپنے ہاتھ سے میرے گھٹنے پر پیار سے ہاتھ پھیر دیا میں بہت دیر بعد ببلو کو باہر لا رہا تھا میں نے احتیاطاً گاڑی سے باہر چاروں طرف نظر دوڑا لی اس کھڑکی سے ٹیک لگ کے زھراء کو دیکھتا رہا والے اب بھی اپنی ببلی پر ہاتھ رکھ کر کچھ عجیب سی شکلیں بنا رہی تھی میں نے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا 10:35 بج گئے تھے ساتھ سائقہ کے دو مسیج آئے ہوئے تھے ایک میں لکھا تھا رات والی گرمی پوری طرح نکال لینا ۔۔۔ اور دوسرے میسج میں لکھا تھا کہ اوکے انجوائے کرو رات کو کال پر بات کرونگی ابو چار بجے چلا جائے گا ۔۔میں نے موبائل کو رکھ دیا اور زھرا کو جھولی میں لا کر اس کے بڑے بوبز کو چوسنے لگا بولی نہیں کرو۔۔ناں میں نے کہا کہ وہ نہیں کرتا بس ان کو چوسنے دو۔۔۔ وہ خاموش ہو گئی اور پھر ٹائم پوچھا اور بولی بس چلیں آہستہ آہستہ اس دن بھی آپ نے گاڑی کو جس سپیڈ میں بھگایا مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا میں نے پوچھا پھر کب ملو گی بولی آج تو آپ نے مجھے نچوڑ دیا اور اندر سے پورا کاٹ کے رکھ دیا ہے۔۔۔۔۔۔ایک مہینہ لگے گا مجھے سیٹ ہونے میں ۔۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں آپ سیٹ ہو جاؤ گی اور میں پھر آ جاؤں گا کسی دن بولی اب اکیلی نہیں ملوں گی سائقہ ہو۔گی تو پھر دیکھوں گی ۔۔۔۔ میں آہستہ سے گاڑی چلاتا جیسے مین روڈ پر آیا زھرا پچھلی سیٹ۔پر چلی گئی میں نے ایک جگہ میڈیکل سٹور کا بورڈ دیکھ کر گاڑی تھوڑی آگے لی جا کر کھڑی کر دی میں نے وقفے والی دو ٹیبلیٹس اور کغھ پین کلر ٹیبلیٹس لیں اور گاڑی میں آکر سائقہ کی بستی کا رخ کر لیا کچھ فاصلے پر میں نے پھر گاڑی روک لی اور زھرا کو ٹیبلیٹس اور دو ہزار روپے تھما دئیے اور ساتھ اس ٹیبلیٹس کھانے کی ترکیب بھی بتا دی میں زھرا کو بستی سے کچھ پہلے ایک جگہ اتار کے واپس آ گیا تھا رات کو سائقہ سے کال پر بہت سی باتیں ہوئیں سائقہ نے کہا کہ آج آپ نے زھرا کا بہت برا حال کیا ہے وہ مشکل سے چل رہی تھی پھر بولی کہ اس نے میرے گھر میں بیٹھ کر آپ کی دی ہوئی ٹیبلیٹس کھا لیں تھی اور چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔اس روز کے کوئی دس دن بعد شاکرہ اپنی کزن کی شادی پر چلی گئی تھی پانچ روز بعد شادی کے فنگشن شروع ہو رہے تھے اور جاتے ہوئے مجھے رستے میں بولا کہ فنگشن والے دن صبح صبحِ سائقہ اور زینت کو بلوا لینا اور ان کو ادھر پہنچا دینا شہر کی شادی کے فنگشن انجوائے کریں گی بچیاں ہیں خوش ہو جائیں گی میں نے کہا کہ ضرور میں ان کو ایک روز پہلے ہی کال کر لوں گا شاکر کو اپنی کزن کے گھر چھوڑنے کے بعد میں مارکیٹ سے چار ریڈی میٹ سوٹ اور ایک جینز کے ساتھ کچھ شرثس بھی لے لیں اور تین بڑی بوتلیں لوشن کو بھی باری باری چوم کو بڑے شاپر میں ڈال کر گھر آ گیا تھا میں نے سارے شاپر بیڈ پر رکھے اور سائقہ کو کال کر لی اس نے کال ریسیو کرتے ہی بولا جی ماموں ۔۔۔۔۔ میں نے کہا جیتی رہو ۔۔۔۔۔ آہستہ سے بولی کس کے لئے ۔۔۔ میں نے آہ بھری اور بولا میرے لئے پھر زرا اونچی آواز میں بولی۔ہاں امی سے بات کراتی ہوں کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ چند لمحے کے وقفے کے بعد باجی نے ہیلو کہا کچھ رسمی کلمات کے۔بعد میں نے کہا کہ شاکرہ نے بولا ہے سائقہ اور زینت کو لے کر آؤ آج رات سے ہی شادی کے فنگشن شروع ہو جائیں گے باجی بولی ہاں وہ تو ٹھیک ہے سائقہ نے تیاری بھی کر رکھی ہے لیکن آج تو ہمارے مہمان آئے ہوئے ہیں میں تو کام کر نہیں سکتی پھر بولی آپ صبح سویرے آ جائیں یا آج شام کو آ جائیں تو بھی کوئی بات نہیں مہمان چار پانچ بجے چلے جائیں گے میں نے کہا کہ باجی پھر شام کو ٹھیک ہے کل مجھے کہیں جانا ھے بولی ٹھیک ہے بھائی مہمانوں کے جانے کے بعد یہ بس آپ کی ہو گی جب چاہیں لے جائیں میں نے اس کا لفظوں سے زیادہ دل سے شکریہ ادا کیا اور پانچ بجے کی بعد کا ڈن کر دیا باجی کے بعد میں نے نعمت کو کال کی اور اسے بیگم صاحبہ کا پیغام دیا بولا صاحب اگر ایک احسان کر دیں تو میں نے کہا کہ بولو نعمت آپ کا اور میرا کوئی فرق نہیں ہے بولے میرے گردے میں پھر سے درد ہے آج کل اور چنگ چی اور بس پر اتنا سفر نہیں کر سکتا اگر آپ زینت کو گاڑی پر لے جائیں تو مہربانی ہو گی میں بس گھر میں ہی رہ جاؤں گا ۔۔۔۔میں نے کہا نعمت آج میں بزی تو بہت ہوں پھر بھی دیکھتا ہوں کوئی ترتیب بناتے ہیں اس نے شکریہ ادا کیا میں نے یہ کہہ کر کال بند کر دی کہ زینت سے بولو اپنی مکمل تیاری کر کے رکھے مجھے جیسے موقع ملتا ہے میں آ۔جاؤں گا اور رکوں گا نہیں ۔۔۔ نعمت بولا آپ کو انتظار نہیں کرنا پڑے گا وہ تیار ہو گی ۔۔۔ میں موبائل کو چارجنگ پر لگا کر کچن میں چلا اور سامان چیک کرنے لگا۔آج گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا تھا میں دن بارہ بجے نکل بڑا تھے بیکری سے کچھ سامان لیکر گاڑی میں رکھ لیا مین روڈ پر گاڑی آگے بڑھ رہی تھی اور میں نے نعمت کو کال کر کے کہا کہ میں بیس منٹ میں پہنچنے لگا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔نعمت نے اچھا کہہ کر کال بند کر دی ۔۔میں نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی مجھے زینت کے گھر تک 30 منٹ کا وقت درکار تھا میں نے میوزک پلیئر آن کر کے والیم فل کر دیا اور ذہن پروگرام کو ترتیب دینے لگا۔۔۔۔۔ گاڑی کا ہارن بجتے ہی نعمت آہستہ سے چلتا میری طرف آنے لگا سفید برقعے میں ملبوس زینت نے نعمت کے پیچھے دروازے پر کھڑے ہو کر برقعے کو سائیڈوں پر کر کے اپنی ببلی پر خارش کی اور آہستہ سے آگے آنے لگی نعمت نے شادی کا پوچھا تو بتایا کہ شادی بڑی ہے اپک ہفتہ آرام سے سو جاؤ زینت پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی نعمت نے اس کا سامان زینت کے ساتھ رکھ لیا اور میں نے گاڑی آگے بڑھا دی گاڑی ابھی سو فٹ ہی چلی تھی کہ زینت نے برقعہ اتار دیا اور پوچھا کیسے ہو یارررررر ۔۔ اور ساتھ آنکھ مار دی میں نے پیچھے ہاتھ بڑھا کر اسے ویلکم کہا بولی آج تو میں اس گاڑی میں تیرا سارا رس نکالتی ہوں آج تیرا غصہ نہیں چلے گا ۔۔۔ میں نے کہا بہت ٹائم دوں گا اس بار آپ کو بولی وہ کیسے؟؟ میں نے بتایا کہ شادی پر پانچ روز بعد جاؤ گی وہاں صرف دون دن کی فنگشن ہیں ۔۔۔۔ زینت نے لمبی سی اوووووو کہہ کو بولا پھر تو میری خیر نہیں بولی جلدی سے مین روڈ تک چلو پھر میں آگے آتی ہوں ۔۔۔ پھر بولی یاررر مجھے ناں گاڑی میں آپ کے ساتھ سونے کا بہت شوق ہے میں نے کہا یہ یہ شوق بھی کبھی پورا ہو جائے گا ۔۔۔بولی آج کر دو ناں ۔۔۔مین روڈ پر آتے ہی میں نے جیسے ہی گاڑی سائقہ کی بستی کی طرف موڑی تو زینت نے پوچھا یہ کہاں ۔۔۔ میں نے کہا میں اپنی جان کو لینے جا رہا زینت نے ایک بار پھر مستی میں ہوووووو کا نعرہ لگایا اور پوچھا اس کی امی تو نہیں آئے گی میں نے کہا نہیں صرف بچیوں کو لانے کا بولا ہے بیگم نے ۔۔۔ زینت بولی دیکھو آپ کی بیگم بہت اچھی اور اب تو نعمت بھی اچھا ہو گیا خود بولا زینت کو لے جا کر احسان کر دو۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے پوچھنے لگی نعمت پر کتنا احسان کرو گے ۔۔۔ وہ فرنٹ سیٹ پر آنے لگی تھی ۔۔۔ میں نے اس کے قدرے ابھرے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر۔کہا کہ ایک احسان تو کر دیا ہے اور کوشش ہو گی نعمت پر ہر سال ایک احسان کر دوں ۔۔۔ زینت چہکتی جا رہی تھی اور میں نارمل سپیڈ سے گاڑی ڈرائیو کرتا آگے بڑھ رہا تھا 2:30بجے کے قریب میں نے گاڑی کو اس چھوٹی سڑک پر۔موڑ لیا جہاں میں سائقہ اور زہرا کے ساتھ دو بار پہلے آ چکا تھا زینت نے پھر پوچھا اوووو پارررر اب کہاں ؟؟؟ میں نے کہا تمہیں چوکبار کھلانے بولی سچ میں ؟؟؟؟ میں نے مسکرا کے زینت کو آنکھ مار دی بولی ایک شرط پر چوکبار کھاؤں گی ؟؟؟ میں نے گاڑی روک لی ۔۔۔۔ اور پیچھے دیکھنے لگا زینت نے سنجیدہ ہوئے پوچھا کیا ہوا میں نے کہا تمھیں نعمت کے پاس واپس چھوڑنا ہے میں نے گاڑی کو ریورس گیئر میں ڈال لیا بولی کیا ہوا بتاؤ تو ۔۔۔۔ میں نے کہا میں نے آپ پر کبھی کوئی شرط رکھی ہے ۔۔۔وہ ہاتھ جوڑ کر مجھے دیکھتے ہوئے بولی نا بابا نہ میں اپنے یار کو ناراض کر دونگی تو مر نہ جاؤں گی ۔۔میں نے گاڑی آگے بڑھا لی۔۔۔۔ ٹیلوں بھرے اس چھوٹی جھاڑیوں والے میدان میں میں پہلی والی جگہ سے تھوڑا آگے ایک چھوٹے درخت کے سائے میں میں گاڑی روک چکا تھا میں گاڑی کا سوئچ آف نہیں کیا اے سی کی ہلکی ٹھنڈک سے باہر نکلا تو گرم ہوا کے جھونکے نے میرا استقبال کیا میں چہل قدمی کے انداز میں آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے میں بیک سیٹ پر آ گیا تھا زینت بولی پہلے تو گاڑی میں آپ کو ڈر لگتا تھا میں نے کہا ڈر تو رہتا ہے کوئی آ جائے تو اچھا نہیں ہو گا زینت بولی۔میرے ساتھ ہوتے ہوئے کوئی فکر نہ کیا کرو آنے والے تو میں راضی کر لو گی ۔۔۔ اور پھر قہقہہ لگاتے پیچھے آنے لگی وہ شادی کے دنوں میں پہنے گئے ایک جسم پر فٹ آنے والے سوٹ میں ملبوس پیٹ کا ابھار صاف نظر آ رہا تھا ۔۔۔ میں نے اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا اس کا کیا ھو گا بولی بڑھاپے میں جوانی نہ دکھانا تو کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ھوئے جواب دیا ۔۔۔ میں نے کہا زینت آپ کی گاڑی میں یہ خواہش اس لئے پوری کر رہا کہ پوری رات سائقہ اور میرے بیچ میں نہیں آؤں گی ۔۔۔ بولی جیسے آپ کہو گے ۔۔۔ وہ میرے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی اچھا ایک بات سچ بتاؤ گے ۔۔۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا بولی آپ بھی سائقہ سے پیار کرنے لگے ہو نا ۔۔۔۔میں نے گہری سانس لے کر بولا پیار نہیں اس سے عشق کرنے لگا ہوں میں ۔۔۔ زینت نے معصوم سا چہرہ بنا کر کہا سائقہ آپ کی پیچھے پاگل ہو گئی ہے سچ میں ۔۔۔ میں ایک بار پہر کہہ رہی ہوث ابھی نہیں لیکن کچھ عرصے بعد اس سے جیسے بھی ہو ۔۔۔شادی ضرور کرنا میں نے سر جھکاتے ہوئے سر ہلا دیا زینت تھوڑی اوپر کو اٹھتے ہوئے مجھے کس کرنے لگی میں نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کو اپنے جسم کے ساتھ لگا لیا بولی سائقہ کو لے کر جہاں پھر آ جاتے تو مزہ آتا ۔۔۔۔ میں خامشی سے اس کے لب چوسنے لگا اور زینت اپنی قمیض اوپر اٹھانے لگی اور بولی میں اپنی پینٹ شرٹ بھی اٹھا لائی ہوں میں نے کہا کہ اچھا کیا ہے میں نے سائقہ کے لئے بھی لے۔لی ہے اس نے اپنے اپنے کپڑے اتار لئے تھے اور میری پینٹ اتارنے لگی تھی میں نے اپنی شرٹ اتار کر ڈرائیونگ سیٹ پر لٹکا دی میری انڈرویئر اتارتے ہوئے بولی اس کی مستی تو خوابوں میں بھی آنے لگتی ہے ۔۔۔ زینت میری ٹانگوں کے درمیان سیٹ سے نیچے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئی اس نے ببلو کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور میری رانوں کو۔کسنگ کرتے ہوئے ببلو کی ٹوپی کو کسنگ کرنے لگی اس کی آنکھوں میں پیاس کے اثرات تھے اور وہ گہری نظروں سے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ببلو کو دیکھتے ہوئے اس کی ٹوپی کو اپنے لبوں میں بھرتی اور پچک کی آواز سے باہر نکال لیتی ۔ببلو اس کے ہونٹوں اور شیریں زبان کا لمس پا لر پھولے۔نہیں سما رہا تھا زینت ببلو کو قلفی کی طرح چوس کر۔مزے لیتے ہوئی بولی سائقہ سے چسوایا تھا اس دن ۔۔۔ میں نے کہا نہیں وہ نہیں چوستی میں زینت کے بوبز کو دونوں ہاتھوں میں بھر کر ان کی مستی دیکھ رہا تھا کچھ دیر بعد زینت آس پاس دیکھتے ھوئے اٹھنے لگی تھی پھر اس نے ببلی پر اپنا تھوک لگایا اور میری دونوں ٹانگوں کے گرد سیٹ پر پاؤں رکھ کر تھوڑی اوپر اٹھی اور پھر ببلو کی ٹوپی پر اپنی ببلی کے منہ کو رکھ کر آہستہ آہستہ بیٹھنے لگی زینت کی بدن سے ایک خاص مہک آتی تھی جو حوس کو اور بڑھا دیتی تھی میں نے اپنے ہاتھ کے پیچھے پھیر کر اس کے ہپس پر رکھ دیئے زینت آہستہ آہستہ اپنے ہپس اٹھارہ لگی تھی اس نے دو چار بار اٹھک بیٹھک کر کے پورا ببلو اپنے اندر چھپا لیا تھا اور میرے سر کے پاس سے سیٹ کو پکڑ کر تھوڑی آگے جھک گئی اور ہلکے جھٹکے لگانے لگی اس کے بوبز میں چہرے کے قریب جھولنے لگے تھے جو ایک دلکش نظارہ پیش کر رہے تھے میں اپنا چہرہ آگے کر کے ان کو وقفے وقفے سے کسنگ کر رہا تھا پھر زینت میرے سے نگاہیں ملا کر پورا ببلو اندر باہر کرنے لگی زینت کبھی کبھی اپنے چہرے پر آنے والے بالو کو جھٹک کر آس پاس بھی دیکھ لیتی تھی آج زینت پہلے سے زیادہ ٹائم لے رہی تھی اس سے پہلے وہ اتنی دیر میں ڈسچارج ہو جاتی تھی زینت نے کچھ دیر بعد اپنے جھٹکے محتاط انداز میں تیز کر دئیے اب اس کے سانسیں بھی کچھ تیز ہو گئیں تھی اور بار بار اپنا سر پیچھے کو جھکا کر آنکھیں بند کر رہی تھی میں نے زینت کے ہپس پر تھپکی دی تو اس نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا اور میرے اشارے پر اوپر سے اتر آئی تھی میں نے اس کے بوبز کو منہ بھر بھر کے چوسنا شروع کر دیا تھا زینت ببلو کو سہلا رہی تھی میں نے زینت کو آرام سے سیٹ پر لٹا دیا اور اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر ببلو کو آہستہ سے پورا زینت کے اندر اتار دیا زینت نے گاڑی کی چھت سے نظریں میری طرف پھیر کر کہا آہستہ کرنا ۔۔۔۔میں زینت کی ٹانگوں کو گھٹنوں سے پکڑ کر ہلکے جھٹکے مارنے لگا ہم دونوں آخری لمحات کی طرف بڑھ رہے تھے زینت نے نیچے سے اپنے ہپس اٹھا کر اپنا مزہ دوبالا کرنے لگی تھی اور پھر تھوڑی اکڑ کر وششششش وششش کرنے لگی میں جسم الارم بجانا شروع کر دیا اور جھٹکے رک گئے میں زینت سے اپنا جسم ٹکرا کر رک گیا زینت نے میری سائیڈوں کو زور سے پکڑا اور پھر اس کے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے افففف افففف کے ساتھ میں نے بھی زینت کے پیٹ کو سیراب کر دیا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد میں نے آنکھیں کھول لی اور اس کی نرم رانوں کو اپنے ہاتھوں میں بھرنے لگا میں نے شاپر سے نیا کپڑا نکال اور ببلو باہر نکال کر کپڑے سے صاف کر لیا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد زینت بھی اٹھ کر میرے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہنے لگی ایک بات بولوں ۔۔۔ میں نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے اونہہہ کہا آپ کے اس میں بہت خاص مزہ پتا ہے کونسا ۔۔۔۔ میں نے کہاں بولو ۔۔۔کہنے لگی لمبا اور موٹا تو اپنی جگہ لیکن جو اس میں ہڈی جیسی سختی آ جاتی ناں ۔۔۔ وہ اپنے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ بس نہ پوچھو ۔۔۔۔ میں نے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا 3:40 بج گئے تھے میں نے زینت کو کپڑے پہننے کو کہا تو بولی لگتا ہے اپنی جان کے لیئے کچھ بچانآ چاہتے ہو ۔۔۔ میں نے کہا میں تو سب کچھ اس کے۔لئے بچانا چاہتا زینت فرنٹ سیٹ پر۔میرے ساتھ بیٹھی بہت خوش لگ رہی تھی میں اس چھوٹی سڑک سے گاڑی کو آہستہ سے چلاتا مین روڈ کی طرف بڑھ رہا تھا ماسوائے ایک سائیکل سوار کے اور کوئی نہیں تھا جس نے میرے ساتھ بغیر پردے کے بیٹھی زینت کو بہت حیرت سے دیکھا تھا راستے میں میں نے زینت سے پوچھا سونیا کیسی ہے ۔۔۔ بولی۔بہت پیاری ہے ۔۔۔ میں نے کہا پیاری ہے اس۔لئے پوچھا کہ ٹھیک تو ہے ناں ۔۔۔ بولی فی الحال تو ٹھیک ہے کیونکہ آپ سے نہیں ملی ابھی ۔۔۔ورنہ اپنی نند کی طرح بہت بےحیا بن جائے گی ۔۔۔ پھر سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی کوئی موڈ بن گیا ہے اس کے لئے ۔۔۔ میں نے کہا مل جائے تو موڈ ہی موڈ ہے ۔۔۔۔ بولی اوکے ۔۔ کچھ کر لوں گی اپنے یارر کے لئے ۔۔۔ ہم 4:15بجے سائقہ کے گھر پہنچ گئے تھے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی اور تیار ہو چکی تھی اس کا گلاب سا کھلتا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ آج بہت خوش ہے پہلے سے بھی کچھ زیادہ ۔۔۔ ان کے گھر خاتون کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی جس کے دلکش نین میرے دل پر تیر چلانے لگے تھے وہ نارمل بوبز اور ہپس کے ساتھ قدرے انگڑائی لیتی اٹھ گئی تھی اور یہ سائقہ کی ہم عمر لگ رہی تھی میرے اس طرح اسے غور سے دیکھنے پر سائقہ بولی لگتا ہے ماموں کو بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔ میں اسے دیکھ کر مسکرا دیا پھر وہ زینت کی طرف دیکھ کے بولی کے پاس کس وقت آئے ماموں ۔۔۔زینت بولی پتا نہیں نہیٹائم ں نہیں دیکھا ۔۔۔ سائقہ بولی آپ نے کچھ کھلایا تھا ادھر ماموں کو ؟؟؟ ادھر کچھ نہیں کھایا رستے میں رس گلے اور برفی کھائی تھی ۔۔۔ زینت ان کے باتھ روم کی طرف دیکھتے ہوئے بولی مجھے لگتا آج گرمی کچھ بڑھی اس لئے سائقہ بولی ماموں اگر نہاتے ھیں تو میں اتنے تک دودھ گرم کر۔لوں باجی بولی ہاں بھائی نہا لو اور پھر۔کچھ کھا پی لینا میں نے ان کی خیریت دریافت کی تو بتایا کہ کل سائقہ کے ساتھ ڈاکٹر طاہر کے پاس گئی تھی ۔۔وہ مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی آپ کو۔نہیں بتایا کہ بس مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا وہاں اس کا نمبر نہیں مل رہا تھا تو ہم نے آپ کا پیغام بھیجا اسے ۔دوائی لے آئے تھے ویسے بھی طبیعت اب اس سے بہت بہتر جا رہی ہے سائقہ بولی طاہر ماموں نے کہا کہ بس تم پکی ماموں کے پاس رہو اور اچھا پڑھ کر ڈاکٹر بن جاؤ ۔۔ اور اس بستی میں آؤ بھی نہیں جب تک پوری ڈاکٹر نہ بن جاؤ ۔۔ سائقہ۔مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی اور باجی کو اس پر پیار آ رہا تھا ۔۔۔۔ سائقہ بولی اس دن میں نے خواب دیکھا کہ بہت بڑا میدان ہوتا ہے اس میں چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں ہوتی ہیں پھر میں نے دیکھا کہ میں وہاں گاڑی میں بیٹھی ہوتی ہوں اور پھر وہ میدان مجھے ہسپتال دیکھائی دیتا ہے اور میں ڈاکٹر بنی بیٹھی ہوتی ہوں ۔۔۔ زینت جھٹ سے بولی اس دن کے بجائے آج یہ خواب دیکھتی تو میں بھی آپ کے ساتھ نرس بن کے بیٹھی ہوتی ۔۔۔ سب ہسنے لگ گئے سائقہ بولی میں آپ کو نرس نہیں اپنی ٹیچر سمجھتی ہوں ۔۔۔ زینت بولی میں ان پڑھ ہوں اب تم میری استانی بن گئی سمجھو ۔۔۔ اب تھوڑا مجھے بھی ساتھ پڑھا کرو۔۔۔۔۔ باجی کے ساتھ بیٹھی خاتون کو میں نے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا آب ٹھیک ہیں باجی اس مسکراہٹ سے میرا سوال کا جواب دیا اور کہنے لگی بھائی آپ کا پورا تعارف کرا دیا میری بہن نے۔۔۔ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی میں نے اس دلکش نینوں والی لڑکی پر ایک نگا ڈال کے بولا کہ مجھے بھی بہت اچھا لگ رہا ہے سائقہ کی امی نے بتایا کہ یہ میری پھپھو کی بیٹی ہے اور مین روڈ پر آپ آپ کے راستے میں روڈ سے تھوڑا ہٹ کے ان کی بستی ہے ۔۔۔ ابھی میں نے سائقہ کے کالج میں داخلے کا بتایا تو کہہ رہی تھی کہ وہ مہوش کے ابو سے پوچھیں گے اگر انہوں نے اجازت دے تو تو اس بھی داخلہ اگر آپ کرا دیں تو ؟۔؟؟ میں نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں یہ بھی میرے لئے سائقہ سے کم نہیں ہے اس کا بھی داخلہ کر لیں گے سائقہ اور زینت ایک ساتھ چارپائی پر بیٹھی اپنی ہنسی دبا رہی تھیں ۔۔۔ سائقہ بولی میرے ماموں کا دل بہت بڑا ہے تین اور بھی داخلہ لینا چاہیں تو یہ میری خاطر کر دیں گے ۔۔۔ زینت مجھے دیکھتے ہوئے بولی مجھے بھی داخل کر دیں میں باتھ روم کی طرف اٹھ گیا تھا ۔۔(جاری ہے)
[11/23, 18:56] +92 303 2069966: دیہاتی لڑکی قسط نمبر 10

زینت بھی اپنی امی کے گھر جانے لگی میں غسل کر کے واپس اس کمرے میں آ گیا تھا سائقہ نے اپنے ساتھ کھڑی نو سال کی بچی سے بولا بس ٹھیک ہے آپ لے آؤ۔۔۔۔ بچی جانے لگی تو باجی نے اسے روک کر کہا کہ ٹھہرو اپنی امی سے بولو 1500 روپے ٹھیک ہیں دوہزار میں بہت مہنگی ہے بچی چلی گئی تو سائقہ اپنی امی سے کہنے لگی نہیں دیں گے اور یہ واپس بھی نہیں آئے گی ۔۔۔ پھر سائقہ احتجاج کرتے ہوئے بولی میں لے کر جاؤں گی چاہیے 5000 بھی لگ جائیں آپ کے ۔۔۔ باجی بولی اتنا مہنگا بھی لازمی نہیں ہے کوئی اور چیز لیتی جاؤ اس میں کیا ہے ۔۔۔اور چیز بھی لے جاؤں گی ۔۔۔۔میں نے مسکرا کے سائقہ کی طرف دیکھا اور باجی سے مسئلہ پوچھ لیا باجی بولی دیسی شہد کی بوتل لینا چاہتی ہے آپ لوگوں کے لئے پہلے وہ لوگ ایک ہزار میں دے دیتے تھے اب وہ دوہزار مانگ رہے اور اس کی ضد پر وہ ڈٹ گئے باجی کے پیچھے کھڑی نے مDسکرا کر۔مجھے دیکھا اور منہ میں بھر جانے والے پانی کو حلق سے اتارا اور اپنے لبوں پر زبان پھیر کر کچھ کہتے کہتے خاموش ہو کر صحن میں کھڑی گاڑی مو تکنے لگی میں نے اس سراپا حسن کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور بولا باجی آپ لوگوں کی محبت اس شہد سے کہیں زیادہ میٹھی ہے ایک بوتل شہد میں کیا رکھا ہے ۔۔۔۔ یہ ضروری نہیں سائقہ جھٹ سے بولی نہیں بہت ضروری ہے آپ لوگ جب ہمیں کوئی کمی نہیں دیتے تو ہم بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچی بوتل لے کر آ گئی باجی نے اسے پندرہ سو روپے تھما دئیے اور مسکراتے ہوئے بوتل سائقہ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی لو دے دو ماموں کو۔۔۔ سائقہ نے بوتل کو اپنے بازوں میں لپٹ کر اپنے پیٹ کر دبا لیا اور بولی ادھر دینا تو کیا میں ماموں کو سارا شہد ادھر ہی چٹا دوں گی پھر آپ خفا نہ ہونا ۔۔۔۔ باجی بولی میں خفا نہیں ہوتی پیالہ بھر دو ماموں کو ۔۔۔ سائقہ مسکراتے ہوئے بولی ایک تو کیا دو پیالے بھی بھریں گے اور ساتھ میں ڈش بھی بھر جائے گی ۔۔ (سائقہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے چھوٹے پیٹ پر ہاتھ پھیر لیا ۔۔۔۔۔ سائقہ باہر چلی گئی تھی میں باجی اور اس کی کزن سے باتیں کرتا ہوا اپنی امی کے پیچھے خاموش ٹھہری مہوش کے جسم پر نظریں گھما کر اس کے داخلے کو پکا کر چکا تھا ۔۔۔ باجی بولی ۔بھائی اگر آپ برا نہ مانیں تو ان لوگوں کو مین روڈ تک ساتھ لیتے جانا اس وقت بستی کی طرف سے کوئی چنگ چی نہیں ملتی ۔۔۔ میں نے فوراً کہا اس میں ایسی کیا بات ہیں جب ادھر جا رہے تو لے جانے کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔۔ سائقہ دودھ اور بسکٹ لے کر آئی تھی زینت نے آتے ہی مجھے مہوش کی طرف متوجہ پا کر کہا مجھے تو آج موسم میں پھر تبدیلی لگ رہی ہے ۔۔۔۔ سائقہ سر۔ہلاتے ہوئے بولی اتنی زیادہ ۔۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے بٹوے سے ہزار کا نوٹ نکالا اور مہوش کی۔طرف ہاتھ بڑھا دیا زینت اور سائقہ اپنے کندھے ٹکرا کر ہنسی دبانے لگیں مہوش کی امی نے کہا خیر ہے بھائی اسکی ضرورت نہیں ہے میرے اصرار پر سائقہ کی امی بولی لے لو بیٹا سائقہ کی طرح تیرے بھی ماموں ہیں میں نے سر جھکا لیا مہوش نے نوٹ کو اپنے ہاتھ میں بل دینے لگے سائقہ نے مسکراتے ہوئے باہر کی طرف دیکھا اور بولی اب موسم کچھ بہتر ہونے لگا ہے زینت بولی ٹھیک ہو جائے گا ۔۔ میں نے سائقہ کو دیکھتے ہوئے کہا اگر تیاری مکمل ہو۔گئی ہے تو چلیں شام ہونے لگی ہے اور دو اڑھائی گھنٹے لگ جائیں گے سائقہ کے ساتھ مہوش زینت اور اس کی امی بھی تیاری پکڑتے ہوئے سائقہ تیزی سے اپنے ہپس۔مٹکاتی روم میں ادھر ادھر جا کر کچھ چیزیں سنبھال رہی تھی زینت نے سائقہ کے ہپس کی طرف دیکھا اور پھر آآنکھیں گھماتے ہوئےبولی بو آہستہ لی ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے ۔۔ سائقہ رک کر بولی میں کوئی پہلی بار جا رہی کہ سدر لمبا لگے گا ۔۔۔۔ مہوش کے لئے یہ سفر لمبا ہو گا ۔۔۔۔ یہ۔کبھی گئی نہیں ۔۔۔۔ زینت بولی آپ کو کیسے پتا کہ نہیں گئی اتنے لمبے سفر پر ۔۔۔۔ سائقہ بولی مجھے پتا ہے نہیں گئی لیکن جب داخلہ لے لے گی تو اتنا بھی لمبا سفر نہیں لگے گا زینت بولی موٹو تم نہیں تھکتی ہو ہم جیسے کمزور تو تھک جاتی ۔۔۔۔ سائقہ ہنستے ہوئے کہنے لگی زینت پتا ہے وہ زھرا گئی تھی اپنے کسی رشتے دار کی۔شادی میں واپس آئی تو چل نہیں سکتی تھی بہت تھک گئی تھی ۔۔۔زینت نے بولا وہ تو بچاری اتنی کمزور ہے اس کا کمال اتنا لمبا سفر طے تو کر لیا باجی روم میں واپس آ چکی تھی دیسی گھی کا بڑا ڈبہ اور شہد کی بوتل ایک شاپر میں ڈال کے لائی تھی میں نے پوچھا آج زینت کی امی نہیں آئی ؟؟ باجی بولی اس نے بستی میں کسی گھر میں جانا تھا ابھی ادھر آئے گی اور وہ میرے ساتھ رہے گی باجی سائقہ سے بولی برقعہ تو صحیح سے پہن لو سائقہ بولی بس ٹھیک ہے بیس منٹ کی تو بات ہے ۔۔ باجی قدرے غصے میں بولی بیس منٹ جو تم جہاز پر بیٹھ رہی ہو ۔۔۔ سائقہ بولی ہاں جہاز پر بھی بیٹھوں گی ۔۔لیکن اس پر بھی گھنٹہ لگ جاتا ہے سب باتیں کرتے گاڑی کی طرف آ رہے تھے میں نے پچھلی سیٹ سے شاپر اٹھا کر ڈگی میں رکھ دئیے مہوش کی امی سے بولا باجی آپ آگے آ جائیں سائقہ کی امی نے سائقہ کو گلے لگایا اور بولی اپنا خیال رکھا کرو۔۔ بہت لا پرواہ ہو تم ویسے بھی سائقہ بولی۔امی مجھے شہر کے رواجوں کا اتنا زیادہ پتا نہیں ہے ابھی ماموں سے کہہ دو باجی بولی بھائی اس کا خیال رکھنا میری ایک ہی بیٹی ہے اور آدھی پاگل ہے وہ مسکرا کر۔بول رہی تھی زینت بولی اب تو پوری پا ہو گئی ہے ۔۔۔ سائقہ مین گیٹ کی طرف بڑھ گئی اور میں باجی سے مل کر گاڑی کو گیٹ۔کی طرف موڑ لیا سائقہ گیٹ کے ایک پلے کو پکڑ کر مسکراتی آنکھوں سے گاڑی کو باہر۔نکلتا دیکھ رہی تھی میوش فرنٹ سیٹ کے پیچھے کھڑکی سے لگ کر بیٹھی تھی اور اس کے ساتھ زینت بیٹھی تھی گلی میں رکی گاڑی میں جیسے ہے سائقہ نے بیٹھ کر گیٹ بند کیا میں نے گاڑی جھٹکے سے آگے بڑھا دی ۔۔۔ سائقہ کی آواز آئی آہ ہ۔ہ مجھے اب ایسی سپیڈ سے گاڑی چلتی اچھی لگتی کہ جمپ میں اچھلتی رہوں زینت بولی ہاں پچھلی سکٹ پر جمپ بھی زیادہ لگتے ۔۔۔ سائقہ نے اس کی ران پر چٹکی بھر لی تھی مہوش کی امی نے آہستہ سے بولا زینت کے لئے جمپ اچھے نہیں ہیں ۔۔۔ سائقہ نے بات سن لی تھی اور منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی دبا رہی تھی ۔۔۔۔ مین روڈ پر۔پہنچے تو میں نے باجی سے پوچھا آپ کی بستی کہاں ہے وہ میرے شہر کی طرف جانے والے روڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہولی اس طرف پھر روڈ سے تھوڑا سا کچہ رستہ ہے میں نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور گاڑی سپیڈ سے آگے بڑھا دی جہاں تک پہچنے تک شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے مین روڈ پر بیس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد باجی نے اپنا ہاتھ میرے آگے لہرا کر رائٹ سائیڈ کی طرف اشارہ کیا میں نے گاڑی آہستہ کر کے اس کچے رستے پر ڈال دی اور تھوڑی دیر میں ہم مہوش کے گھر کے آگے رک چکے تھے بستی کے بچے گاڑی کے گرد جمع ہو گئے تھے مہوش کا ابو گھر سے باہر آ گیا تھا وہ اپنی بیگم کو گاڑی سے اترتا دیکھ کر حیرت زدہ تھا میں گاڑی سے اتر کر ان سے محبت سے ملا پیچھے بیٹھی سائقہ بولی خالو کیسے ہیں آپ اس نے اندھرے میں گاڑی کے اندر سائقہ کو غور سے دیکھا اور پھر ہنس کے بولے تو بلا بھی آئی بیٹھی ہے سائقہ بولی یہ میرے ماموں ہیں ہم شادی پر جا رہے زیںت بھی ساتھ ہے۔۔۔۔ وہ ایک لمحہ رک کر بولی امی نے ماموں کو بولا کہ میری بہن کو گھر پہنچا دینا تو ہم پہلے ان کو چھوڑنے آ گئے ۔۔۔ وہ بولا بہت اچھا کیا ہے میں اس وقت ان کے لئے پریشان ہو رہا تھا وہ میری طرف مڑے اور کہنے لگے بھائی گھر آ۔جاؤ دروازے پر کھڑی مہوش کی امی نے کہا بھائی آ جاؤ میں جلدی سے کھانا بنا لیتی پھر چلے جانا میں نے ان سے معذرت کر لی اور تاخیر ہونے کا عذر پیش کر کے دروازے پر اپنی امی کے ساتھ کھڑی مہوش کو دیکھتے ہوئے بولا کہ بہت جلدی پھر آ کے ضرور کھا لوں گا سائقہ کے گھر سے یہاں تک میرے بار بار مہوش کو محبت سے دیکھنے اور کچھ باتوں سے وہ جان چکی تھی کہ انکل کی نظروں میں کچھ خاص بات ہے میں نے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ڈگی سے سارے شاپر نکال کر سائقہ کو دے دئیے اور اس نے زینت کے اس پار سیٹ پر رکھ دئیے میں نے گاڑی گلی کی نکر سے پیچھے موڑ لی اور جیسے ہی ہم بستی سے۔نکلے سائقہ آگے آنے لگی اور میں نے اسے روک لیا اور زینت سے بولا کہ نیلے شاپر میں پینٹ شرٹ ہو گی وہ سائقہ کو پہنا لو اور اپنی پینٹ شرٹ بھی پہن لو وہ شاپر ڈھونڈنے لگی اور سائقہ مسرت بھرے لہجے میں خوش ہوتے ہوئے بولی میرے لئیے لائے ہو ؟ مانوں ۔۔۔۔ زینت نے ہنستے ہوئے کہا مانوں ؟؟؟ سائقہ نے سیٹ کے پیچھے سے میرے گلے میں اپنا بازو لپیٹ لیا اور مجھے کسنگ کرتے ہوئے بولی اففففف یہ تو میرا مانوں ہے صرف لوگوں کے سامنے ماموں ہے ۔۔۔ پھر زینت اور سائقہ نے اپنے برقعے اتار کر اس نیلے شاپر میں ڈال لئے جس سے زینت نے پینٹ شرٹ نکال لی تھی سائقہ نے اپنی قمیض اتار کی اور اگلی سیٹوں کے درمیان سینے تک خود کو میری طرف نکال لیا بولی مانوں آج مجھے بہت مزہ آ رہا ہے ۔۔۔ پیچھے سے زینت اس کی۔شلوار اتارتے ہوئے سائقہ کے سفید ریشمی ہپس پر تھپڑ مار کے بولی ۔۔۔ ابھی ان کو پورے پانچ دن کا مزہ دیں گے ماموں ؟؟؟ سائقہ نے ہلکی سے چیخ مار کے میری طرف دیکھ کی بولا ۔سچی۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے سر کو اس کے مکھن جیسے گال کو منہ میں بھر کر مممھھھھھھ کی آواز سے بولا ہاں سچی وہ خوش ہو کر میرے گلے میں بازوں لپیٹ کے بولی گاڑی روکو پہلے میرے گلے لگ جاؤ۔۔۔۔۔۔ واہ ہ ہ ماںوں مزا آ گیا ۔۔۔۔ میں نے گاڑی کی سپیڈ کم کر دی اور اسے اپنے بازو میں لپیٹ کر کسنگ کرنے لگا زینت پیچھے سے سائقہ کی ٹانگوں کو باری باری پینٹ میں ڈالنے لگی تھی تھوڑی دیر بعد میں نے سائقہ کو سیدھا ہو کر لباس پہننے کا کہہ دیا زینت نے آواز دی یاررر پینٹ تو بہت تنگ ہےاس کے موٹے بستے میں نہیں جا رہی میں نے اندر کی لائٹ جلا کر دیکھا زینت سائقہ ہپس پر جینز کو کھینچ کھینچ کر تھوڑی تھوڑی اوپر لا رہی تھی پھر وہ رک کر سائقہ کے ہپس کے اوپری حصے پر تھپڑ مار کر بولی اتنی پڑھی لکھی نہیں لیکن بستہ اصلی ڈاکٹروں والا اٹھایا ہے ۔۔۔ نہیں جاتی آگے بس ایسے گزارا کروں ۔۔۔ سائقہ بھی اسے اوپر کھینچنے لگی تھی پھر مایوس ہو کر مجھے دیکھنے لگی میں نے پٹرول پمپ سے آگے گاڑی کو روک دیا اور پچھلی سیٹ پر چلا گیا سائقہ آگے والی سیٹوں کے درمیان سر جھکائے کھڑی تھی میں نے آہستہ آہستہ اس کے جینز کو تھوڑا تھوڑا کر کے اوپر کھسکانے لگا اور پھر ہپس پر ہاتھ کا دباؤ بڑھا کر سائقہ کے ریشمی سفید ہپس کو اندر دباتا اور اس جگہ سے جینز کو اوپر کھینچ لیتا میں نے سائقہ کے ہپس کو جینز میں بھر دیا تھا اور اس کے ہپس کے اوپری حصے پر گولائی میں ہاتھ سے دباؤ ڈال کر زپ بند کرنے لگتا تو انڈرویئر زپ میں پھنس جاتی زینت نے ببلی کے اوپر انڈرویئر پر انگلی سے دباؤ بڑھاتی اور میں آہستہ سے زپ بند کر دیتا سائقہ ماڈل بن چکی تھی جو جینز اور بریزر میں کسی بھی معروف ماڈل کو پیچھے چھوڑ رہی تھی پھر میں نے اسے شرث پہننے کا کہہ کر ڈرائیونگ سیٹ پر آ گیا زینت اپنے کپڑے اتار کر پینٹ شرث پہننے لگی تھی سائقہ جینز پر اوپن شرٹ پہن کر غضب لگ رہی تھی ببلو تو پہلے ہی سا،قہ کو پینٹ پہناتے وقت سے کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح پینٹ سے باہر آنے کو بل کھا رہا تھا میں گاڑی کو ہلکی رفتار میں چلاتا سراپا حسن سائقہ کو بھوکی نظروں سے دیکھ رہا تھا میرے مںہ میں پانی بھر آیا تھا سائقہ میرے پیچھے بیٹھ کر زینت کو پینٹ شرٹ پہنتا دیکھ کر اپنی ٹانگوں پر ہاتھ پھیر رہی تھی میں نے سائقہ کو بلایا کہ آ جاؤ تمھیں ڈرائیونگ سکھا دوں سائقہ اپنے پاؤں جماتے آگے آ رہی تھی زینت نے گیئر لیور کو ہاتھ لگا کر بولا گاڑی سیکھنے کے لئے پہلے لڑکی کو اس پر بیٹھنا پڑتا ہے سائقہ کو اٹھا کر میں نے اپنی گود میں بیٹھا لیا گاڑی بہت آہستہ سے چل رہی تھی میری گود جینز میں جکڑے سائقہ کے ہپس سے بھر گئی تھی میں سائقہ کے مکھن جیسے گالوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر کر آہا ہ ہ ہ ہ وششش کر کے چوسنے لگا اور سائقہ نے اسٹیرنگ پکڑ لیا تھا سائقہ نے گیئر لیور کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولا اس کو کدھر ہلانا ہے۔۔۔ میں نے کہا آپ اسٹیرنگ پکڑنا سیکھو یہ بعد کا مسئلہ ہے زینت پیچھے سے بولی گئیر ماموں لگا دے گا اسی کو پکڑ کر رکھو جس کو پکڑا ہوا ہے ۔۔۔ زینت نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولی نیچے سے بھی گیئر لگا کے رکھو گول مال ہے ادھر ادھر پھسل جائے گی ۔۔۔ سائقہ ڈرائیونگ میں بہت دلچسپی لے رہی تھی ۔۔ میں سائقہ کو گود میں بیٹھائے اس کے ریشمی جسم کا پورا پورا مزہ لے رہا تھا زینت بولی تمھارے عشق میں میں سوکھ رہی ہوں پیچھے گھر جا کر سارے شوق پورے کر لینا ۔۔۔ آج مجھے اس کے بستے کی مجھے خیر نہیں لگتی ۔۔۔۔ سائقہ بولی ان پانچ دنوں میں تیرا بستہ بھی ڈبل کراتی ہو صبر کرو میں نے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا 9:35 بج چکے تھے اور ہم ابھی شہر سے بہت دور تھے اس وقت آہستہ چلتی گاڑی کو سائقہ اچھے انداز میں کنٹرول کر رہی تھی میں اسٹیرنگ سے ہاتھ چھوڑ چکا تھا لیکن محتاط تھے میں نے سائقہ کی کمر کر تھپکی دی اور بولا بس ادھر آ جاؤ لیٹ ہو رہے ۔۔سائقہ بولی نہیں بس مجھے بہت مزہ آ رہا ۔۔۔ صبح تک تو پہنچ جائیں گے ناں ۔۔۔ آپ نے جو شوق پورا کرنا کرتے رہو میں گاڑی چلاؤ گی بس۔۔ میں خاموش ہو گیا اور اس کو اپنی باہوں میں بھر کر اس کی پیٹھ پر اپنا چہرہ ٹکا دیا ۔۔۔۔(جاری ہے )


زینت بھی اپنی امی کے گھر جانے لگی میں غسل کر کے واپس اس کمرے میں آ گیا تھا سائقہ نے اپنے ساتھ کھڑی نو سال کی بچی سے بولا بس ٹھیک ہے آپ لے آؤ۔۔۔۔ بچی جانے لگی تو باجی نے اسے روک کر کہا کہ ٹھہرو اپنی امی سے بولو 1500 روپے ٹھیک ہیں دوہزار میں بہت مہنگی ہے بچی چلی گئی تو سائقہ اپنی امی سے کہنے لگی نہیں دیں گے اور یہ واپس بھی نہیں آئے گی ۔۔۔ پھر سائقہ احتجاج کرتے ہوئے بولی میں لے کر جاؤں گی چاہیے 5000 بھی لگ جائیں آپ کے ۔۔۔ باجی بولی اتنا مہنگا بھی لازمی نہیں ہے کوئی اور چیز لیتی جاؤ اس میں کیا ہے ۔۔۔اور چیز بھی لے جاؤں گی ۔۔۔۔میں نے مسکرا کے سائقہ کی طرف دیکھا اور باجی سے مسئلہ پوچھ لیا باجی بولی دیسی شہد کی بوتل لینا چاہتی ہے آپ لوگوں کے لئے پہلے وہ لوگ ایک ہزار میں دے دیتے تھے اب وہ دوہزار مانگ رہے اور اس کی ضد پر وہ ڈٹ گئے باجی کے پیچھے کھڑی نے مسکرا کر۔مجھے دیکھا اور منہ میں بھر جانے والے پانی کو حلق سے اتارا اور اپنے لبوں پر زبان پھیر کر کچھ کہتے کہتے خاموش ہو کر صحن میں کھڑی گاڑی مو تکنے لگی میں نے اس سراپا حسن کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور بولا باجی آپ لوگوں کی محبت اس شہد سے کہیں زیادہ میٹھی ہے ایک بوتل شہد میں کیا رکھا ہے ۔۔۔۔ یہ ضروری نہیں سائقہ جھٹ سے بولی نہیں بہت ضروری ہے آپ لوگ جب ہمیں کوئی کمی نہیں دیتے تو ہم بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچی بوتل لے کر آ گئی باجی نے اسے پندرہ سو روپے تھما دئیے اور مسکراتے ہوئے بوتل سائقہ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی لو دے دو ماموں کو۔۔۔ سائقہ نے بوتل کو اپنے بازوں میں لپٹ کر اپنے پیٹ کر دبا لیا اور بولی ادھر دینا تو کیا میں ماموں کو سارا شہد ادھر ہی چٹا دوں گی پھر آپ خفا نہ ہونا ۔۔۔۔ باجی بولی میں خفا نہیں ہوتی پیالہ بھر دو ماموں کو ۔۔۔ سائقہ مسکراتے ہوئے بولی ایک تو کیا دو پیالے بھی بھریں گے اور ساتھ میں ڈش بھی بھر جائے گی ۔۔ (سائقہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے چھوٹے پیٹ پر ہاتھ پھیر لیا ۔۔۔۔۔ سائقہ باہر چلی گئی تھی میں باجی اور اس کی کزن سے باتیں کرتا ہوا اپنی امی کے پیچھے خاموش ٹھہری مہوش کے جسم پر نظریں گھما کر اس کے داخلے کو پکا کر چکا تھا ۔۔۔ باجی بولی ۔بھائی اگر آپ برا نہ مانیں تو ان لوگوں کو مین روڈ تک ساتھ لیتے جانا اس وقت بستی کی طرف سے کوئی چنگ چی نہیں ملتی ۔۔۔ میں نے فوراً کہا اس میں ایسی کیا بات ہیں جب ادھر جا رہے تو لے جانے کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔۔ سائقہ دودھ اور بسکٹ لے کر آئی تھی زینت نے آتے ہی مجھے مہوش کی طرف متوجہ پا کر کہا مجھے تو آج موسم میں پھر تبدیلی لگ رہی ہے ۔۔۔۔ سائقہ سر۔ہلاتے ہوئے بولی اتنی زیادہ ۔۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے بٹوے سے ہزار کا نوٹ نکالا اور مہوش کی۔طرف ہاتھ بڑھا دیا زینت اور سائقہ اپنے کندھے ٹکرا کر ہنسی دبانے لگیں مہوش کی امی نے کہا خیر ہے بھائی اسکی ضرورت نہیں ہے میرے اصرار پر سائقہ کی امی بولی لے لو بیٹا سائقہ کی طرح تیرے بھی ماموں ہیں میں نے سر جھکا لیا مہوش نے نوٹ کو اپنے ہاتھ میں بل دینے لگے سائقہ نے مسکراتے ہوئے باہر کی طرف دیکھا اور بولی اب موسم کچھ بہتر ہونے لگا ہے زینت بولی ٹھیک ہو جائے گا ۔۔ میں نے سائقہ کو دیکھتے ہوئے کہا اگر تیاری مکمل ہو۔گئی ہے تو چلیں شام ہونے لگی ہے اور دو اڑھائی گھنٹے لگ جائیں گے سائقہ کے ساتھ مہوش زینت اور اس کی امی بھی تیاری پکڑتے ہوئے سائقہ تیزی سے اپنے ہپس۔مٹکاتی روم میں ادھر ادھر جا کر کچھ چیزیں سنبھال رہی تھی زینت نے سائقہ کے ہپس کی طرف دیکھا اور پھر آآنکھیں گھماتے ہوئےبولی بو آہستہ لی ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے ۔۔ سائقہ رک کر بولی میں کوئی پہلی بار جا رہی کہ سدر لمبا لگے گا ۔۔۔۔ مہوش کے لئے یہ سفر لمبا ہو گا ۔۔۔۔ یہ۔کبھی گئی نہیں ۔۔۔۔ زینت بولی آپ کو کیسے پتا کہ نہیں گئی اتنے لمبے سفر پر ۔۔۔۔ سائقہ بولی مجھے پتا ہے نہیں گئی لیکن جب داخلہ لے لے گی تو اتنا بھی لمبا سفر نہیں لگے گا زینت بولی موٹو تم نہیں تھکتی ہو ہم جیسے کمزور تو تھک جاتی ۔۔۔۔ سائقہ ہنستے ہوئے کہنے لگی زینت پتا ہے وہ زھرا گئی تھی اپنے کسی رشتے دار کی۔شادی میں واپس آئی تو چل نہیں سکتی تھی بہت تھک گئی تھی ۔۔۔زینت نے بولا وہ تو بچاری اتنی کمزور ہے اس کا کمال اتنا لمبا سفر طے تو کر لیا باجی روم میں واپس آ چکی تھی دیسی گھی کا بڑا ڈبہ اور شہد کی بوتل ایک شاپر میں ڈال کے لائی تھی میں نے پوچھا آج زینت کی امی نہیں آئی ؟؟ باجی بولی اس نے بستی میں کسی گھر میں جانا تھا ابھی ادھر آئے گی اور وہ میرے ساتھ رہے گی باجی سائقہ سے بولی برقعہ تو صحیح سے پہن لو سائقہ بولی بس ٹھیک ہے بیس منٹ کی تو بات ہے ۔۔ باجی قدرے غصے میں بولی بیس منٹ جو تم جہاز پر بیٹھ رہی ہو ۔۔۔ سائقہ بولی ہاں جہاز پر بھی بیٹھوں گی ۔۔لیکن اس پر بھی گھنٹہ لگ جاتا ہے سب باتیں کرتے گاڑی کی طرف آ رہے تھے میں نے پچھلی سیٹ سے شاپر اٹھا کر ڈگی میں رکھ دئیے مہوش کی امی سے بولا باجی آپ آگے آ جائیں سائقہ کی امی نے سائقہ کو گلے لگایا اور بولی اپنا خیال رکھا کرو۔۔ بہت لا پرواہ ہو تم ویسے بھی سائقہ بولی۔امی مجھے شہر کے رواجوں کا اتنا زیادہ پتا نہیں ہے ابھی ماموں سے کہہ دو باجی بولی بھائی اس کا خیال رکھنا میری ایک ہی بیٹی ہے اور آدھی پاگل ہے وہ مسکرا کر۔بول رہی تھی زینت بولی اب تو پوری پا ہو گئی ہے ۔۔۔ سائقہ مین گیٹ کی طرف بڑھ گئی اور میں باجی سے مل کر گاڑی کو گیٹ۔کی طرف موڑ لیا سائقہ گیٹ کے ایک پلے کو پکڑ کر مسکراتی آنکھوں سے گاڑی کو باہر۔نکلتا دیکھ رہی تھی میوش فرنٹ سیٹ کے پیچھے کھڑکی سے لگ کر بیٹھی تھی اور اس کے ساتھ زینت بیٹھی تھی گلی میں رکی گاڑی میں جیسے ہے سائقہ نے بیٹھ کر گیٹ بند کیا میں نے گاڑی جھٹکے سے آگے بڑھا دی ۔۔۔ سائقہ کی آواز آئی آہ ہ۔ہ مجھے اب ایسی سپیڈ سے گاڑی چلتی اچھی لگتی کہ جمپ میں اچھلتی رہوں زینت بولی ہاں پچھلی سکٹ پر جمپ بھی زیادہ لگتے ۔۔۔ سائقہ نے اس کی ران پر چٹکی بھر لی تھی مہوش کی امی نے آہستہ سے بولا زینت کے لئے جمپ اچھے نہیں ہیں ۔۔۔ سائقہ نے بات سن لی تھی اور منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی دبا رہی تھی ۔۔۔۔ مین روڈ پر۔پہنچے تو میں نے باجی سے پوچھا آپ کی بستی کہاں ہے وہ میرے شہر کی طرف جانے والے روڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہولی اس طرف پھر روڈ سے تھوڑا سا کچہ رستہ ہے میں نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور گاڑی سپیڈ سے آگے بڑھا دی جہاں تک پہچنے تک شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے مین روڈ پر بیس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد باجی نے اپنا ہاتھ میرے آگے لہرا کر رائٹ سائیڈ کی طرف اشارہ کیا میں نے گاڑی آہستہ کر کے اس کچے رستے پر ڈال دی اور تھوڑی دیر میں ہم مہوش کے گھر کے آگے رک چکے تھے بستی کے بچے گاڑی کے گرد جمع ہو گئے تھے مہوش کا ابو گھر سے باہر آ گیا تھا وہ اپنی بیگم کو گاڑی سے اترتا دیکھ کر حیرت زدہ تھا میں گاڑی سے اتر کر ان سے محبت سے ملا پیچھے بیٹھی سائقہ بولی خالو کیسے ہیں آپ اس نے اندھرے میں گاڑی کے اندر سائقہ کو غور سے دیکھا اور پھر ہنس کے بولے تو بلا بھی آئی بیٹھی ہے سائقہ بولی یہ میرے ماموں ہیں ہم شادی پر جا رہے زیںت بھی ساتھ ہے۔۔۔۔ وہ ایک لمحہ رک کر بولی امی نے ماموں کو بولا کہ میری بہن کو گھر پہنچا دینا تو ہم پہلے ان کو چھوڑنے آ گئے ۔۔۔ وہ بولا بہت اچھا کیا ہے میں اس وقت ان کے لئے پریشان ہو رہا تھا وہ میری طرف مڑے اور کہنے لگے بھائی گھر آ۔جاؤ دروازے پر کھڑی مہوش کی امی نے کہا بھائی آ جاؤ میں جلدی سے کھانا بنا لیتی پھر چلے جانا میں نے ان سے معذرت کر لی اور تاخیر ہونے کا عذر پیش کر کے دروازے پر اپنی امی کے ساتھ کھڑی مہوش کو دیکھتے ہوئے بولا کہ بہت جلدی پھر آ کے ضرور کھا لوں گا سائقہ کے گھر سے یہاں تک میرے بار بار مہوش کو محبت سے دیکھنے اور کچھ باتوں سے وہ جان چکی تھی کہ انکل کی نظروں میں کچھ خاص بات ہے میں نے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ڈگی سے سارے شاپر نکال کر سائقہ کو دے دئیے اور اس نے زینت کے اس پار سیٹ پر رکھ دئیے میں نے گاڑی گلی کی نکر سے پیچھے موڑ لی اور جیسے ہی ہم بستی سے۔نکلے سائقہ آگے آنے لگی اور میں نے اسے روک لیا اور زینت سے بولا کہ نیلے شاپر میں پینٹ شرٹ ہو گی وہ سائقہ کو پہنا لو اور اپنی پینٹ شرٹ بھی پہن لو وہ شاپر ڈھونڈنے لگی اور سائقہ مسرت بھرے لہجے میں خوش ہوتے ہوئے بولی میرے لئیے لائے ہو ؟ مانوں ۔۔۔۔ زینت نے ہنستے ہوئے کہا مانوں ؟؟؟ سائقہ نے سیٹ کے پیچھے سے میرے گلے میں اپنا بازو لپیٹ لیا اور مجھے کسنگ کرتے ہوئے بولی اففففف یہ تو میرا مانوں ہے صرف لوگوں کے سامنے ماموں ہے ۔۔۔ پھر زینت اور سائقہ نے اپنے برقعے اتار کر اس نیلے شاپر میں ڈال لئے جس سے زینت نے پینٹ شرٹ نکال لی تھی سائقہ نے اپنی قمیض اتار کی اور اگلی سیٹوں کے درمیان سینے تک خود کو میری طرف نکال لیا بولی مانوں آج مجھے بہت مزہ آ رہا ہے ۔۔۔ پیچھے سے زینت اس کی۔شلوار اتارتے ہوئے سائقہ کے سفید ریشمی ہپس پر تھپڑ مار کے بولی ۔۔۔ ابھی ان کو پورے پانچ دن کا مزہ دیں گے ماموں ؟؟؟ سائقہ نے ہلکی سے چیخ مار کے میری طرف دیکھ کی بولا ۔سچی۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے سر کو اس کے مکھن جیسے گال کو منہ میں بھر کر مممھھھھھھ کی آواز سے بولا ہاں سچی وہ خوش ہو کر میرے گلے میں بازوں لپیٹ کے بولی گاڑی روکو پہلے میرے گلے لگ جاؤ۔۔۔۔۔۔ واہ ہ ہ ماںوں مزا آ گیا ۔۔۔۔ میں نے گاڑی کی سپیڈ کم کر دی اور اسے اپنے بازو میں لپیٹ کر کسنگ کرنے لگا زینت پیچھے سے سائقہ کی ٹانگوں کو باری باری پینٹ میں ڈالنے لگی تھی تھوڑی دیر بعد میں نے سائقہ کو سیدھا ہو کر لباس پہننے کا کہہ دیا زینت نے آواز دی یاررر پینٹ تو بہت تنگ ہےاس کے موٹے بستے میں نہیں جا رہی میں نے اندر کی لائٹ جلا کر دیکھا زینت سائقہ ہپس پر جینز کو کھینچ کھینچ کر تھوڑی تھوڑی اوپر لا رہی تھی پھر وہ رک کر سائقہ کے ہپس کے اوپری حصے پر تھپڑ مار کر بولی اتنی پڑھی لکھی نہیں لیکن بستہ اصلی ڈاکٹروں والا اٹھایا ہے ۔۔۔ نہیں جاتی آگے بس ایسے گزارا کروں ۔۔۔ سائقہ بھی اسے اوپر کھینچنے لگی تھی پھر مایوس ہو کر مجھے دیکھنے لگی میں نے پٹرول پمپ سے آگے گاڑی کو روک دیا اور پچھلی سیٹ پر چلا گیا سائقہ آگے والی سیٹوں کے درمیان سر جھکائے کھڑی تھی میں نے آہستہ آہستہ اس کے جینز کو تھوڑا تھوڑا کر کے اوپر کھسکانے لگا اور پھر ہپس پر ہاتھ کا دباؤ بڑھا کر سائقہ کے ریشمی سفید ہپس کو اندر دباتا اور اس جگہ سے جینز کو اوپر کھینچ لیتا میں نے سائقہ کے ہپس کو جینز میں بھر دیا تھا اور اس کے ہپس کے اوپری حصے پر گولائی میں ہاتھ سے دباؤ ڈال کر زپ بند کرنے لگتا تو انڈرویئر زپ میں پھنس جاتی زینت نے ببلی کے اوپر انڈرویئر پر انگلی سے دباؤ بڑھاتی اور میں آہستہ سے زپ بند کر دیتا سائقہ ماڈل بن چکی تھی جو جینز اور بریزر میں کسی بھی معروف ماڈل کو پیچھے چھوڑ رہی تھی پھر میں نے اسے شرث پہننے کا کہہ کر ڈرائیونگ سیٹ پر آ گیا زینت اپنے کپڑے اتار کر پینٹ شرث پہننے لگی تھی سائقہ جینز پر اوپن شرٹ پہن کر غضب لگ رہی تھی ببلو تو پہلے ہی سا،قہ کو پینٹ پہناتے وقت سے کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح پینٹ سے باہر آنے کو بل کھا رہا تھا میں گاڑی کو ہلکی رفتار میں چلاتا سراپا حسن سائقہ کو بھوکی نظروں سے دیکھ رہا تھا میرے مںہ میں پانی بھر آیا تھا سائقہ میرے پیچھے بیٹھ کر زینت کو پینٹ شرٹ پہنتا دیکھ کر اپنی ٹانگوں پر ہاتھ پھیر رہی تھی میں نے سائقہ کو بلایا کہ آ جاؤ تمھیں ڈرائیونگ سکھا دوں سائقہ اپنے پاؤں جماتے آگے آ رہی تھی زینت نے گیئر لیور کو ہاتھ لگا کر بولا گاڑی سیکھنے کے لئے پہلے لڑکی کو اس پر بیٹھنا پڑتا ہے سائقہ کو اٹھا کر میں نے اپنی گود میں بیٹھا لیا گاڑی بہت آہستہ سے چل رہی تھی میری گود جینز میں جکڑے سائقہ کے ہپس سے بھر گئی تھی میں سائقہ کے مکھن جیسے گالوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر کر آہا ہ ہ ہ ہ وششش کر کے چوسنے لگا اور سائقہ نے اسٹیرنگ پکڑ لیا تھا سائقہ نے گیئر لیور کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولا اس کو کدھر ہلانا ہے۔۔۔ میں نے کہا آپ اسٹیرنگ پکڑنا سیکھو یہ بعد کا مسئلہ ہے زینت پیچھے سے بولی گئیر ماموں لگا دے گا اسی کو پکڑ کر رکھو جس کو پکڑا ہوا ہے ۔۔۔ زینت نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولی نیچے سے بھی گیئر لگا کے رکھو گول مال ہے ادھر ادھر پھسل جائے گی ۔۔۔ سائقہ ڈرائیونگ میں بہت دلچسپی لے رہی تھی ۔۔ میں سائقہ کو گود میں بیٹھائے اس کے ریشمی جسم کا پورا پورا مزہ لے رہا تھا زینت بولی تمھارے عشق میں میں سوکھ رہی ہوں پیچھے گھر جا کر سارے شوق پورے کر لینا ۔۔۔ آج مجھے اس کے بستے کی مجھے خیر نہیں لگتی ۔۔۔۔ سائقہ بولی ان پانچ دنوں میں تیرا بستہ بھی ڈبل کراتی ہو صبر کرو میں نے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا 9:35 بج چکے تھے اور ہم ابھی شہر سے بہت دور تھے اس وقت آہستہ چلتی گاڑی کو سائقہ اچھے انداز میں کنٹرول کر رہی تھی میں اسٹیرنگ سے ہاتھ چھوڑ چکا تھا لیکن محتاط تھے میں نے سائقہ کی کمر کر تھپکی دی اور بولا بس ادھر آ جاؤ لیٹ ہو رہے ۔۔سائقہ بولی نہیں بس مجھے بہت مزہ آ رہا ۔۔۔ صبح تک تو پہنچ جائیں گے ناں ۔۔۔ آپ نے جو شوق پورا کرنا کرتے رہو میں گاڑی چلاؤ گی بس۔۔ میں خاموش ہو گیا اور اس کو اپنی باہوں میں بھر کر اس کی پیٹھ پر اپنا چہرہ ٹکا دیا ۔۔۔۔(جاری ہے

Post a Comment

0 Comments