دیہاتی
لڑکی
تیسری
قسط
تحریر:
ماہر جی
میں نے دو دن بعد ڈیٹا آن کر
دیا اور واٹس ایپ چیک رہا تھا کہ سائقہ کا مسیح آیا ۔۔۔سو گئے ؟؟؟
میں نے دو سیکنڈ میں نو کا
ریپلائی دے دیا بولی کہاں ہو میں نے بتایا کہ میں کسی بیٹھک میں ہوں پوچھا اور کون
ہے تو بتایا کوئی نہیں میں اکیلا ہوں تو اس نے۔کال کرنے کا بولا میں نے پوچھا کہ
آپ کہاں ہو بولی آپ کی گاڑی سے ٹیک لگی کھڑی ہوں ساری مہمان خواتین ہمارے گھر
ٹھہری سوری بزی تھی ان سب کو بستر لگا کے دیتے دیر ہو گئی اس وقت 10:50 بج رہے تھے
میں نے زینت کا پوچھا تو بتایا کہ وہ اپنے گھر ہے میں نے کہا کہ میں آ جاؤں بولا
آسکتے ہو تو آ جاؤ پتا نہیں آپ کس کی بیٹھک میں ہو میں نے بتایا کہ ادھر کوئی
نزدیک ہے بولا نزدیک کونسی بیٹھک ہے اس کا گیٹ کا رنگ میں نے بتایا کہ یہ ایک
چھوٹی سے کوٹھری ہے جس میں بس ایک چارپائی اور ایک ٹیبل پڑی ہے والے چونکی ۔۔۔۔
اور کیا ہے اس میں میں نے بتایا کہ دو پردے لگے ایک دروازے پر اور دوسرے چھوٹا
پردہگا ہے پردے کے پیچھے کیا ہے یہ۔میں نے بھی نہیں دیکھا افففف آپ تو ہماری
کوٹھڑی میں ہیں چھوٹا پردہ ہٹا کر دیکھنے کا بولا میں نے بتایا کہ سبز رنگ کی
کھڑکی ہے بولی اس میں مولوی صاحب رہتے تھے اب نہیں رہتے اور مجھے پتا نہیں کہ اس
کی چابی اب کس کے پاس ہے اور اس کوٹھڑی کی کھڑکی ہمارے گودام میں ہے جہاں گندم کے
گٹو اس کھڑکی کے آگے پڑے ہیں اور پھر سائقہ اس گودام میں آ گئی اور بولا کے کھڑی
پر ہلکی دستک دو میں کھڑکی کی نزدیک پہنچا تو سائقہ کی آواز بھی آنے لگی میں نے
دستک دی تو بولی اوکے یہیں ہو سائقہ نے بتایا کہ اس کے آگے کھڑکی تک پانچ گٹو پڑے
ہیں اور میں اٹھا بھی نہیں سکتی میں نے اسے کہا کہ کوشش کرو ان کو گھسیٹنے کی
کھڑکی کے سوراخ سے میں سائقہ کے موبائل کی لائٹ کسی گھڑی دیکھ لیتا تھا سائقہ۔نے
گودام کے گھر کی طرف کھلنے والے بڑے دروازے کو اندر سے بند کر دیا اور موبائل کی
ٹارچ جلا کر ان تھیلوں کا جائزہ لیا یہ پچاس کلو والے تھیلے تھے اس نے ایک تھیلے
پر روز لگانا شروع کر دیا لیکن چھوٹی نازک سے سائقہ اس میں کامیاب نہیں ہو رہی تھی
دوسری طرف نہ تو میں جا سکتا تھا اور نہ ان تھیلوں کو دیکھ کر سائقہ۔کو کوئی مشورہ
دے سکتا تھا میں نے اس کو سمجھایا کے اوپر رکھے ان تھیلوں کو نیچے گرانے کی کوشش
کرو وہ زور لگا رہی تھی دس منٹ کی محنت کے بعد ایک تھیلا گرانے میں کامیاب ہو گئی
اور اس تھیلے کے زمین پر گرنے کی آواز مجھے امید کی کرن دکھا گئي اور میرے ببلو نے
کروٹ لے۔لی تین تھیلے نیچے کھینچنے کے بعد سائقہ نے کھڑی کی اس طرف سے لگی کنڈی
کھول دی جبکہ اس طرف سے لگی کنڈی میں پہلے ہی کھول چکا تھا ہر طرف خاموشی تھی شادی
اتنی بڑی نہیں تھی اور شام کو مہندی سے واپسی کے۔بعد ڈھولک والی چلی گئی تھی اور
سب نے کھانا کھا کر کمروں میں بند ہو گئے کیونکہ آج شام سے کچھ پہلے سے ٹھنڈی ہوا
چلنے لگی تھی اور سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا تھا سائقہ نے اس طرف سے لگی کنڈی
کھول کر کام آسان کر دیا تھا اب ایک طرف سے وہ تھیلے کو کھینچتی اور ادھر میں
کھڑکی پر زور لگا اسغکے لئے کام آسان بنا رہا تھا اس کی مجھ تک پہچتی تیش سانسوں
کی آواز سے صاف محسوس ہو گیا کہ وہ بہت تھک چکی ہے میں نے کھڑکی کو چار انچ تک
کھول لیا تھا اب ایک تھیلا باقی تھا جو سائقہ کو تنگ کر رہا تھا میں نے اپنا بازوں
کھڑکی سے اندر کر لیا اور تھیلے کو دھکا دینے کی کوشش کرنے لگا اس دوران سائقہ نے
میرا ہاتھ پکڑ کر اس پر تیز گرم سانسیں چھوڑتے ہونٹ دکھ دئیے سائقہ کے نازک اور
دلنشیں لمس نے میری باڈی میں بجلیاں دوڑ گئیں میں نے اس سے ہاتھ چھڑا کر ایک ہی
تھکے میں تھیلے کو دور کر دیا اور ساتھ میں پوری کھڑکی کھل گئی مسکراہٹ بھرے چہرے
اور بند آنکھوں سے لمبی سانسیں لیٹی سائقہ کو میں نے روشنی میں کھینچ لیا اور
کھڑکی کو بند کر دیا میں نے اسے اپنی باہوں میں بھر لیا وہ پیسنے میں بھیگی ایسے
لگ رہی تھی جیسے بہت دور سے دور کر آئی ہو اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا اور
میں اپنا سر جھکا کر اسے کے سر پر کسنگ کرتا اس کا جسم دبا کر اس کی تھکن دور کرنے
کی کوشش کر رہا تھا تھا وہ اس سوٹ میں اور حسین پری بن گئی تھی سوٹ اس پر ایسے فٹ
آیا تھا جیسے گندم کی بوری بھری ہوئی ہو اسغکی قمیض اس کی پتلی کمر کو کس کے کچھ
اور باریک کر دیا تھا 32 کے بوبز اس وقت نمایاں ہو گئے وہ ایک پنک صراحی بنی ہوئی
تھی چمکتے چہرے کے بعد آگے کو نکلے بوبز اس کے نیچے پتلی کمر اور موٹے ہپس نے قمیض
کو ایسے کھولا ہوا تھا کہ پاجامے سے اوپر کمر کی ننگی سفید سائیڈیں نظر آ رہی تھی
قمیض کی لمبائی کم ہونے کی وجہ سے سائقہ کے کچھ اس طرح سیکسی ہو گئے تھے کہ نیچے
سے پاجامے نے اس کے ہپس اور ٹانگوں کو جکڑ کر نمایاں کر دیا تھا میں سائقہ کو بستر
پر لایا اس کے کپڑوں پسینے کی وجہ سے کچھ گیلےہو چکے تھے میں نے سائقہ کو بستر پر
لٹا دیا اور خود ساتھ سو کر اوپر رضائی ڈال دی اور اور سائقہ لو گلے لگا لیا سائقہ
نازک بدن گوری رنگت اور بہترین جسمانی اور نسوانی حسن کی بدولت جتنی حسین تھی اسے
خود بھی اندازہ نہیں تھا شاید پہلے کبھی بن سنور کر وہ اتنی حسین نہیں بنی تھی
کیونکہ وہ خود پوچھ رہی تھی کہ میں آج پیاری بنی ہوں ناں سب لوگ مجھے منہ میں
انگلیاں ڈالے دیکھ رہے تھے میں سائقہ کی خوشامد سے ہٹ کر حقیقی تعریف کرتا اسے
اپنے اندر سمونے کی کوشش کر رہا تھا سائقہ کے بدن کی لذت میں پورے بدن میں محسوس
کر رہا تھا آج میرا لن ضرورت ہے زیادہ سخت اور پاور فل ہو گیا تھا اور اس میں حسن
کا عمل دخل پاور سے زیادہ ھوتا آج اگر سائقہ کسی نوے سال کے بڈھے کے ساتھ ایسے مل
کے سو جاتی تو اس کا عرصے سے مرجھایا ببلو جوانی کے جوش کے ساتھ کھڑا ہو جاتا میں
اس وقت پینٹ اور بنیان میں تھا میرا ببلو بہت ٹائٹ ہو کر پینٹ پھاڑنے کی جستجو میں
تھا اور میں تنگ ہو رہا تھا اور آج پہلی بار اتنی عجلت میں پینٹ کو رضائی میں اتار
کر ٹیبل پر پھینک دیا انڈروئیر اتارنے کے بعد میں نے محسوس کیا آج میرا ببلو عربی
گھوڑا بن چکا ہے گو کہ اس نے۔میرا ہر موقعے پر توقع سے زیادہ ساتھ دیا تھا لیکن آج
اتنا سخت کہ یہ ایک دم فراٹا بھر کر اوپر کو اٹھ گیا تھا اور پیٹ اور ناف پر گویا
چپک گیا تھا میں نے کسنگ کے دورانیے کو بڑھانا چاہا لیکن آج میں بےصبر ہو چکا تھا
سائقہ بھی شدت جذبات میں انگڑائیوں کے ساتھ کمر کو بل دیکر اپنہپس مڑوڑ رہی تھی
میں نے ہپس سے اوپر اس کے پاجامے ک، لاسٹک میں ہاتھ ڈالر اور اس میں گویا کوٹ کوٹ
کر بھر ہپس سے کھنچنے لگا پاجامہ الٹا ہوتا اس کے ہپس اور ٹانگوں کو اپنی قید سے
آزاد ہو رہا تھا جسم ایسا نرم کہ ہاتھ میں بھرنے کے بعد یہ محسوس ہوتا گویا ہاتھ
خالی ہو میں نے سائقہ کا گوشت سے بھرا نرم ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ببلو پر رکھ دیا
سائقہ کا جسم لرز رہا تھا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری طرف منہ کئے میری باڈی کے ساتھ
گڈنڈ ہوئے اپنی کمر کو کمان بنا کر اپنے بوبز میرے سینے کے اندر ڈالنے کی کوشش میں
سرگرداں تھی میں اپنی پینٹ اور انڈروئیر پہلے ہی اتار چکا تھا اور اب سائقہ کا
نچلا حصہ بھی کپڑوں سے آزاد ہو چکا تھا میں نے اس کی قمیض کو اوپر سرکانا شروع کر
دیا قمیض بھی پاجامے کی طرح جسم میں پھنسی ہوئی تھی سائقہ کے بوبز ایسے رگڑ کر
قمیض سے نکلے کہ اس کا سیاہ بریزر میں ساتھ اتر گیا میں نے سائقہ کے بازوں اوپر
سرہانے کی طرف کر کے قمیض اتار دی اور بریزر بھی ٹیبل کی طرف پھینک دیا میں سائقہ
کے اوپر آتے ہوئے اپنی بنیان بھی اتار چکا تھا میرے سے دو فٹ چھوٹی سائقہ اور میرے
سے تقریباً بیس سال چھوٹی سائقہ میرے چوڑے سینے کے نیچے آ چکی تھی میں نے رضائی کو
ایک دم سے دور پھینکا اور سائقہ کے حقیقی حسن کا دیدار کرتا اس کی ٹانگوں کے پیچغآ
گیا میں نے جھک کر اس کی گلابی نپل والے بوبز کو منہ میں بھر کر چوسنے لگا ہونٹوں
کو دانتوں سے کاٹتی سائقہ کی سسکیاں نکلنے لگیں لیکن سائقہ کے مکھن جیسے نرم و
نازک گورے بدن نے آج مجھے کچھ وحشی بنا دیا اس کی بوبز اتنے گول جیسے تازہ مکھن کے
پیڑے سفید لسی پر تیر رہے ہو میرون کلر کے بستر پر پڑی سائقہ ایسے لگ رہی تھی جیسے
گپ اندھیرے سمندر میں کوئی روشنی سے بھرپور کشتی تیری جا رہی ہو ذرا سی حرکتِ سے
اس کا بدن دریا کی لہروں کی طرح مچل سا جاتا تھا میں نے سائقہ کی ٹانگوں کو پاؤں
کے قریب سے پکڑ کر اوپر اٹھا کر ببلی کؤ دیکھا ایک ابھرے ہوئے چونے کے سفید ٹیلے
پر ہلکی سی لکیر ہو جیسے میں نے گیلی انگلی سے لکیر سے آگے کا راستہ چیک کیا سائقہ
کا تن لرز گیا اور اس نے ٹانگوں کو سخت اکڑا دیا میں جھک کر اس کی سنگ مرمر جیسی
شفاف اور مکھن جیسی نازک رانوں پر کسنگ کرنے لگا اس نے اپنا جسم ایک بار پھر ڈھیلا
چھوڑ دیا سائقہ کی یہ پہلی ببلی تھی جس کو میں نے منہ بھر کے چوم لیا وہ ایک بار
پھر اکڑ گئی میں نے اپنے ہاتھوں کے دونوں انگوٹھوں کی مدد سے ببلی کے موٹے مگر نرم
و نازک ہونٹوں کو کھول کر دیکھا بہت آگے لائٹ پنک کلر کا ایک چھوٹا سا بیضوی سوراخ
نظر آیا میں نے آنکھیں بںد کر لی اگر روٹین کے مطابق حوس میرے کنٹرول میں ہوتی تو
میں اس بٹرفلائی خو گھوڑے کے سموں تلے نھ رونڈتا لیکن آج میں اس پھول کی خوشبو
لےکر حوس کے بےقابو بھوت کی طرح مست ہواؤں میں تھا میں نے ببلو کی ٹوپی پر روٹین
سےزیادہ تھوک لگا کر چکنا سا کر لیا اور گیلی انگلی سے لکیر کو جدا کرتا گیا لیکن
وہ اب بھی آپس میں چپکے ہوئے تھے نے ببلو کو سائقہ کے پیٹ پر رکھا تو یوں لگا جیسے
برف پوش سفید پہاڑی پر کسی بڑے درخت کا تنا گرا پڑا ہو سائقہ کی ببلی کی بہت بہت
باریک لکیر ببلو کے دباؤ سے کھلنے کے بجائے اندر دبتی جا رہی تھی سائقہ نے اپنی
ٹانگیں پھر سے اکڑا لیں میں رک ر اس کی ٹانگوں کو سہلانے لگا اور سائقہ کے نارمل
پوزیشن پر آنے کے بعد ٹانگوں کے اندر اپنے بازو لی جا کر آگے کرکے چارپائی پر ٹکا
دئیے اب سائقہ کی ٹانگیں اوپر خو اٹھ گئی تھی ببلو وہیں رکا ایس لگ رہا تھا جیسے
کنٹینر ٹول پلازہ پر ٹیکس ادا کر رہا ہو میں نے اپنی کمر کو حرکت دے کر ببلو پر
دباؤ بڑھا دیا لرزتے جسم کے ساتھ سائقہ کی درد میں ڈوبی مدھم سے آئی کی آواز آئی
ببلو نے اپنی ٹوپی پر حرارت محسوس کرتے ہی بےاختیار کچھ اور آگے جانے کا فیصلہ
کرتے ہوئے سفر جاری رکھا بہت ہی نازک سے لمس ہلخی حرارت کے ساتھ ٹوپی سے تھوڑا آگے
چلا آیا تھا اور ساتھ سائقہ کے آنسوؤں کی لڑی کے ساتھ آئی آئی آئی کی مدھم آوازیں
میرے کانوں میں رس گھول گئی سائقہ آنکھیں بںد کئے ایسے ساکت پڑی تھی جیسے اس کے
ہلنے سے خنجر کی نوک اس کو کاٹ دے گی لسی میں مکھن کے پیڑوں کی طرح تیرتے بوبز
نے۔مجھے کھانے کی دعوت دی اور میں منہ بھر بھر کر ام کو چوسنے لگا ببلو وہیں رکا
ایسا لمس اور مزہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ ہلنا ہی بھول گیا تھا میں نے ببلو
کا۔نظارہ کرتے ہوئے معمولی سے حرکت دی تو ببلی کے نازک موٹے ہونٹ جو اس وقت ببلو
کو اپنی باہوں میں لے چکے تھے کناروں سے آگے تک سرخ ہو گئے سیل ٹوٹ چکی تھی اور
میں نے فل مزے میں آ کر لمبی سانس کھنچی میں نے یہیں پر آہستہ آہستہ ببلو کو ہلا
کر مزہ لینے لگا ببلی کے ہونٹ ببلو کے ساتھ اندر بار ہونے لگے تھے مجھے زینت بھول
چکی تھی گو کہ اس نے۔مجھے جو پیار اور مزہ دیا وہ لاجواب تھا لیکن سائقہ مجھے اب
سے پہلے کے سارے مزے بھلا گئی تھی میں نے اپنا سینہ سائقہ کے چہرے پر ٹکا دیا تھا
ببلو کو آہستہ آہستہ ہلاتا میں جب آگے جانے کی کوشش کرتا تو سائقہ کڑاہنے لگی دور
بھر اوں ہ ہ ہ گویا میرے سینے پر۔مکا۔مارتی ببلو بمشکل چار انچ اندر جا سکا تھا
لیکن ان چار انچ کا مزہ مجھے پورے وجود میں محسوس ہو رہا تھا میں نے بلڈ دیکھنے کے
بعد بھی ببلو کو باہر نہیں نکالا تھا کیونکہ بلڈ دیکھ کر سائقہ ڈر جاتی اور مزے
میں کرکرا پن آ جاتا سائقہ نے آنکھیں کھول لی تھی اور میرے بازوں کو پکڑ کر تھوڑے
تھوڑے ہپس اوپر اٹھا رہی تھی میں نے ہلکی سی رفتار تیز کر لی تھی لیکن جھٹکا مارنے
سے اجتناب کیا اپنی ہرنی جیسی موٹی آنکھوں نیم کھلا کر کے اوں ہ ہ ہ اوں ہ ہ ہ کی
مدھم آواز کے ساتھ سائقہ مجھ بہت پیار سے دیکھ رہی تھی میں اس بار ایسا کرتے ہو
گھبراہٹ کا شکار ہو گیا تھا اس سے پہلے ایسی کبھی کسی ہوا تھا ، میں سر راہ ایسا
کرنے لگو زینت کے چوسنے تک تو میں انجوائے کر رہا تھا لیکن ایک دم سے زینت نے اپنا
پاجامہ نیچے کرتے ہوئے گاڑی کے اسٹیرنگ کو پکڑ کر میری گود میں آ بیٹھی تھی نہ تو
میں ایسا چاہتا تھا اور نہ ہی میں انجوائے کر رہا تھا میں نے کبھی زینت کو یا کسی
کو بھی اس طرح غصے سے نہیں ٹوکا تھا اور زینت نے تو اب تک میری ہر بات دل سے مانی
تھی میں زینت کے ہپس سے کچن اوپر اس کی کمر پر ہاتھ رکھے آئینے میں پیچھے اور آس
پاس کا جائزہ لے رہا تھا کچے راستہ کے ایک طرف درختوں کی قطار تھی جب کہ دوسری طرف
زمین قدرے نیچی اور اس پر دور دور تک ہلکی جھاریاں تھیں دور ایک ٹریکٹر زمین میں
گھوم رہا تھا میں چند ہی لمحوں میں بہت مایوس ہو چکا تھا اور مجھے اس وقت کوئی خاص
لذت محسوس نہیں ہو رہی تھی سائقہ کا سر میرے بائیں کندھے سے جڑا ہوا تھا اس کا
چہرہ گلابی ہو چکا تھا وہ کپکپاہٹ اور حیرانی سے زینت کو ایسا کرتے دیکھ رہی تھی
زینت کے اس وقت کے اچانک بدلے رویے پر میں دل سے بہت مایوس ہو چکا تھا میں نے
سائقہ کے گال پر تھپکی دی اور اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اپنے ہونٹوں کے پاس لا کر کسنگ
کرنے لگا زینت نے جھٹکے تیز کرتے ہوئے دو بار یس یس کی ہلکی آواز نکالی اور ایک دم
تین بار اچھل کر زور دار انداز میں اپنی ہپس کو اٹھا اٹھا کر مارا اور پھر کپکپاتے
ہپس کے ساتھ ٹانگوں کو تھوڑا اکڑا کر نیچے زور لگا کر بیٹھ گئی میں مسلسل آس پاس
نظریں دوڑاتے ہوئے خاموش بیٹھا تھا کچھ ہی دیر میں زینت اسٹیرنگ سے اپنا سر اٹھا
کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے آرام سے اٹھ گئی ببلو اس کے لکیر سے پھسلتا ہوا میرے پیٹ
پر آ لگا تھا زینت اپنی سیٹ پر آ گئی تھی اور اس نے اپنا پاجامہ اوپر کھنچ لیا تھا
میں بے بس خرگوش کی طرح تھوڑا سا سر جھکائے بیٹھا تھا گاڑی میں خاموشی تھی اور
سائقہ کے ساتھ زینت نے بھی میری مایوسی اور بدلے روپے کو محسوس کر لیا تھا زینت
بار بار مجھے اور پھر پیچھے مڑ کر سائقہ کو دیکھ رہی تھی راستے پر سامنے سے دھول
اڑاتا موٹر سائیکل ہماری طرف آ رہا تھا میں نے سیٹ کی سائیڈ میں ہاتھ ڈال کر پیلے
رنگ کا تولیہ ننا بڑا کپڑا نکالا اور اسے اپنی جھولی میں پھیلا دیا زینت بولی آپ
ناراض ہو گئے ؟؟؟؟ میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور ریموٹ اٹھا کر گانا لگا دیا
والیم فل کرکے میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ایک جھٹکے سے آگے بڑھا دی زینت سر پر
ہاتھ رکھے تھوڑی آگے کو جھکی بیٹھی تھی پچھلی سیٹ پر لیٹنے جیسے انداز بیٹھی سائقہ
پریشانی سے کبھی مجھے اور کبھی زینت کو دیکھے جا رہی تھی اونچی آواز میں نصرت فتح
علی خان کا گانا کوئی جانے کوئی نہ جانے دو دیوانے ہوتے ہیں دیوانے دیکھو یہ دو
دیوانے ۔۔۔۔۔بج رہا تھا اور میں قدرے سپیڈ سے ایک ہاتھ اپنی جھولی میں رکھے کپڑے
پر اور دوسرے ہاتھ سے اسٹیرنگ گھوماتا جا رہا تھا پانچ منٹ میں میں نے دلہن کے گھر
کے آگے گاڑی روک دی کچھ دیر تک فرنٹ سیٹ پر برجماں زینت خاموشی سے مجھے گھورتی رہی
اور پھر گاڑی کے پاس بچے جمع ہو جانے پر گیٹ کھول کر نیچے اتر گئی پچھلی سیٹ پر
پڑے دونوں بڑے شاپر اٹھائے اور دونوں دلہن والے گھر کے اندر چلی گئیں میں نے گاڑی
کے گیٹ صحیح سے بند کئے اور گاڑی کو تھوڑا آگے لے جا کر دائیں طرف ایک کھلے میدان
میں موڑ لیا اور گاڑی کو تیزی سے میدان میں گھماتے ایک کونے میں جاکر رک گیا دھول
کے بادل میں پیچھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا کچھ دیر میں دیخھا تو گاڑی دلہن والے
گیٹ کے سامنے تھی اور اس گھر سے نکلنے والا ہر بندہ دور میدان کے کونے میں کھڑی
گاڑی کو دیکھ سکتا تھا گھر کے مین گیٹ کے اگے ٹھہرے بچوں کے ہجوم کی توجہ میری
گاڑی کی طرف تھی میں نے جھولی سے کپڑا ہٹا لیا اور ٹشوز سے ببلو کو صافہ کرنے کی
کوشش کی اور پھر قدرے اٹھ کر میں نے ببلو کو صحیح طرح انڈروئیر میں ڈالا اور پینٹ
کو درست کر کے بلٹ باندھ دیا میں اونچی آواز میں بجنے والے گانوں کو بار بار بدل
رہا تھا اور پھر عارف لوہار کے گانے اے جس تن نوں لگدی اے او تن جانںڑے پر آنکھیں
بند کرکے اپنے ذہن پر چھائے مایوسی کے سائے چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا مجھے احساس
ہوا کہ گاڑی کے پاس کوئی ہے میں نے آنکھیں کھول دیں گیارہ بارہ سال کی دو بچیاں
گاڑی کے ساتھ کھڑی اندر دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی میں نے شیشہ اتار کی بجتے گانے
کی آواز کم کر دی ایک بچی آگے بڑھی اور بولی آپ کو گھر میں بلا رہے ہیں میں نے
پوچھا کہ آپ کو کس کو بھجا بولیں دلہن کی خالہ نے ۔۔۔ میں ایک سیکنڈ خاموشی کے بعد
بولا کہ اوکے آ رہا ہوں دونوں لڑکیاں پیچھے مڑی تو میں نے پھر آواز دی کہ ادھر آؤ
وہ قریب آئیں تو میں نے پچھلا گیٹ کھول کر بولا کے آؤ بیٹھو بس چلتے ہیں دونوں نے
ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو کندھے مارتے ہوئے پیچھے بیٹھ گئیں
میں نے گاڑی کا گیٹ بند کیا اور سلف مار کر گاڑی آگے بڑھا دی ہلکی آواز میں بجتے
میوزک کے ساتھ میں نے گاڑی اس گھر کے قریب روک دی اپنی پینٹ کو چیک کرتے میں اتر
گیا اور گیٹ کھول کر بچیوں کو بھی باہر نکالا بچیاں بھاگ کر گھر میں داخل ہو گئیں
اور ایک منٹ میں ہی سائقہ کی امی نے آواز دی کہ۔بھائی آ جاؤ میں گھر میں داخل ہوا
تو خواتین کا بڑا ہجوم موجود تھا سب نے اپنا آدھا چہرہ دوپٹے سے چھپایا ہوا تھا
باجی آہستہ آہستہ میرے آگے چلتی ایک کچے کمرے میں مجھے لے گئی پھر بولی اتنے دور
کیوں جا ٹھہرے تھے میں نے فوراً بچوں کو بھیجا کہ آپ کو بلا لائیں اور پھر اتنی
دور کوئی بچہ نہیں جا رہا تھا ۔۔۔ وہ چائے کے ساتھ بسکٹ لائی تھی 12:50 بج گئے تھے
سائقہ اور زینت بھی ادھر آ گئیں سائقہ کے چہرے پر قدرے مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی
جبکہ زینت اب تو سر جھکائے دوپٹے کا پلو انگی پر لپیٹی میرے پیروں کی طرف دیکھ رہی
تھی چائے پیتے ہوئے میں باجی سے باتیں کر رہا تھا اور ان دونوں کو بھی دکھ رہا تھا
باجی بولی آپ کو زینت کی امی نے یہاں بھیجا اور میں آپ کو آگے لے جانا چاہا رہی وہ
مسکرا رہی تھی ۔۔میں نے کہا کہ جہاں چاہو لے جاؤ میں ایک دن پہلے آپ کا ہاتھ بٹانے
آیا ہوں بولی مجھے ابھی پیسے ملے ہیں تو میں شہر سے کچھ سامان لینا چاہتی اس کا ۔۔
باجی نے سائقہ کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا اور ایکبدو سوٹ اور لیتی ساتھ اسے ڈاکٹر
خو دکھا دونگی جب آئی تو بخار میں تپ رہی تھی میں نے دل میں کہا بخار رات کو ٹھیک
ہو جائے گا اور پھر باجی سے بولا شاپنگ کو چلتے ہیں پر ڈاکٹر کو دکھانے کی کیا
ضرورت ہے ایسے بنانے بنا رہی تھکاوٹ ہے رات کو ٹھیک ہو جائے گی سائقہ بولی ۔۔۔رات
کو تو میں نے مر جانا ہے باجی نے مڑ کر سائقہ کی طرف غصے سے دیکھ کر بولا کبھی منہ
سے سیدھی بات بھی نکال لیا کرو کیوں مر جاؤ گی بولی بہت بڑے میزائل کا حملہ ہونے
والا ہے میں نے اسے کھا جانے والی نظروں سے سر سے پاؤں تک دیکھا سائقہ زبان باہر
نکال کر منہ چڑانے لگی تھی میں نے سر ہلا کر اشارہ دیا کہ دیکھ لوں گا سر جھکائے
پاس کھڑی زینت بولی میں بھی آپ کے ساتھ مروں گی میں نے کہا کہ تم ابھی مر جاؤ۔۔۔
وہ دونوں آپس میں سر ٹکرا کر ہنسنے لگی تھیں باجی پاگل کہتے ہوئے اٹھ گئی تھی بولی
جلدی نکلیں پھر دیر ہو جائے گی میں نے اوکے کردیا وہ باہر جانے لگی تو میں نے اسے
دوہزار تھما کر بولا یہ آپ میری طرف سے دلہن کو دے دینا باجی بولی آپ بیگم صاحب کو
لے آتے تو پھر وہ دیتی میں نے کہا کہ مجھے بیگم صاحبہ سمجھ لیں بولی یہ زیادہ ہیں
خیر ہے کم دے دو میں نے ہاتھ کے اشارے سے اس کے میری طرف بڑھتے ہاتھ کو روک دیا
باجی کے جانے کے بعد زینت آہستہ سے سائقہ کو بولی میں تو اپنی بھابھی کو اس بندے
سے بچا کر رکھنا ہے یہ بہت ظالم انسان ہے میں نے کہا آپ کو ساتھ بٹھا کے دکھاؤں گا
پھر ۔۔۔ بولی دیکھاؤں گا نہیں میں دیکھ لوں گی پھر چھوٹی سی بھابھی ہے میری میں نے
کہا آج رات بڑی ہو جائے گی وہ دونوں ہنسنے لگیں سائقہ نے کچھ زیادہ قہقہہ لگایا تھا
میں نے اسے کہا آج رات تم بھی بڑی ہو جاؤ گی ۔۔۔بولی میں تو۔میزائل کے آگے لیٹ کے
خود کشی کروں گی زینت نے کہا اور میں ایک بار پھر میزائل پر حملہ کر دونگی ۔۔۔ وہ
ایک دوسرے ٹکرا کر ہنس رہی تھی باجی نے کہا کہ چلتے ہیں میں اٹھا تو یہ دونوں بھی
اپنی بڑی چادریں اوڑھنے لگیں باجی باہر ی گئی میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا تم
یہیں رکو تمھارا وہاں کوئی کام نہیں تم یہیں ٹھہرو زینت بولی ہم جائیں گے سائقہ نے
کہا میری امی کی عزت کو خطرہ ہے ہم اسے اکیلے آپ کے ساتھ نہیں جانے دیں گے میری
امی کو کچھ کر دوگے تم پھر دونوں قہقہے لگاتی باہر نکل گئیں جہاں سے شہر کا سفر
تقریباً تیس منٹ کا تھا میں باجی سے باتیں کرتا جا رہا تھا اور پیچھے بیٹھی زینت
اور سائقہ خطرہ ہے بہت ۔۔۔ حالات خراب ہیں حملہ ہو جائے گا کہہ کر ہنستی جا رہیں
تھیں مین روڈ آتے ہی میں نے سپیڈ بڑھا دی میں نے باجی سے کہا کہ میٹرک کے بعد
سائقہ کو ہمارے شہر کے کالج میں داخلہ دے دینا وہاں پڑھائی بہت اچھی ہے بولی بہت
دور ہے کیسے آئے گی جائے گی میں نے کہا یہ کوئی مسئلہ نہیں گرلز ہاسٹل میں رہ جائے
گی جہاں دوسری سینکڑوں لڑکیاں رہ رہی ہے بولی پہلے میٹرک تو کر لے پھر دیکھیں گے
باجی نے مارکیٹ سے زینت اور سائقہ کے لئے دو سوٹ پسںد کئے جو نارمل تھے اور ان
دونوں کو پسند نہیں تھے جو سوٹ یہ پسند کر چکی تھی وہ مہنگے تھے اور باجی نے انکار
کر دیا تھا کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں میں نے باجی سے کہا کہ آپ سوٹ ان کی
پسند کے لے لیں پیسے میں دے دیتا اس نے انکار کیا پھر میرے اسرار پھر خاموش ہو گئی
میں نے پیسے دینے چاہیے تو سائقہ نے کہا آپ نہیں دیں صبح والے یہ چھ ہزار اور باقی
امی والے پیسے دے کر لے لیتے ہیں صبح جو میں نے سو والے نوٹوں کی گڈی زینت کو
بانٹنے کے ساتھ دی تھی اس میں چھر ہزار کے لگ بھگ سائقہ کے پاس موجود تھے میں نے
خامشی سے سائقہ کو پیسے بوبز میں ڈالنے کا اشارہ کیا ایک سوٹ میں نے باجی کے بھی
خرید لیا جس پر وہ بہت خوش ہو گئی واپسی پر میں نے باجی سے کہا کہ دلہن کو لے جاتے
وقت اگر گاڑی میں جگہ باقثنہ رہی تو آپ ادھر بیٹھ جانا میں پھر آ کے آپ کو لے جاؤں
گا بولی میں کل ولیمے پر آؤں گی آج بہن کے پاس رکوں کی میں نے کہا اوکے پھر ولیمے
کے وقت میں آپ کو لے جاؤں گا پیچھے بیٹھی سائقہ بولی ہم دونوں بھی ساتھ آئیں گی
پھر وہ ہنسنے لگیں باجی کو دلہن کے گھر ک، گیٹ پر اتارا اور گاڑی زینت کے گاؤں کی
طرف موڑی تو چار بج چکے تھے نعمت کی کال آنے لگی میں نے بتایا کہ ہم پہنچنے والے
ہیں وہاں پہنچے تو ایک بس اور ایک ڈاٹسن آئی ہوئی تھی نعمت شہر سے گاڑی سجانے کا
سامان لایا تھا ایک لڑکے نے گاڑی پر ڈیکوریشن کر دی بس ڈاٹسن باراتیوں سے بھری
کھڑی تھی پھر زینت کی امی سائقہ اور زینت تیار ہو کر آ گئی زینت اور سائقہ آج بھی
بہت پیاری لگ رہی تھی فٹ لباس پر چادر اوڑھے وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں
نعمت کہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہی میں نے گاڑی آگے بڑھا دی اور اس کے ساتھ بس اور
ڈاٹسن بھی پیچھے آنے لگیں رات آٹھ بجے واپسی ہوئی نعمت میرا کھانا اس لکی کوٹھڑی
میں لے آیا تھا میں نے ہلکا سا کھانا کھایا اور کچھ دیر نعمت سے باتیں کیں زینت کا
ابو اسے بلانے آیا تھا میں نے پانی کا ایک جگ اس سے منگوایا جب وہ پانی لیکر آیا
تو میں نے شاپر سے مٹھائی کا ایک ڈبہ پہلے نکال لیا اور باقی شاپر میں پڑے تین ڈبے
اسے دے دئیے کہ اپنی ساس کو دے دو میں نے اسے کہا کہ اگر کنڈی بند ہو تو میں سو
جاؤں گا مجھے نہیں جگانا وہ اوکے کہہ کر چلا گیا مٹھائی کے پانچ ڈبے میں نے شہر سے
لے لئے تھے ایک ڈبہ سائقہ کی امی کو دے دیا تھا رات گیارہ بجے گلی میں کافی خامشی
ہو گئی تھی میں موبائل تھامے فیسبک پر گردش کر رہا تھا سائقہ کا میسج آیا کہ ہم
مہمانوں کے ساتھ سو رہی ہیں آپ بھی رضائی میں لپٹ کر مزے کی نیند کرو صبح ہمارا
دیدار کر کے دل بہلا لینا میں نے ریپلائی دیا کہ نیند ہماری قسمت میں کہاں ہے آپ
کی امی کو لے آیا ہوں آج رات اس کی خدمت میں گزر جائے گی سائقہ نے ھاھاھا کا
ریپلائی دیا کچھ دیر بعد گودام کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔(جاری ہے
0 Comments
Thanks for feeback