دیہاتی لڑکی ۔ دوسری قسط

 



دیہاتی لڑکی

دوسری قسط

تحریر: ماہر جی


زینت چلتے ہوئے اپنے قدم ایک لائن میں رکھتی تھی اس لئے پینٹ میں چلتے ہوئے بہت سکسی لگ رہی تھی میں نے پرفیوم لگا کر زینت کی طرف بڑھا دیا اور خود الماری کی طرف بڑھ گیا زینت کی آئی ی ی ی ی کی آواز پر میں نے مڑ کر دیکھا تو اس نے زینت نے اپنا بازو آنکھوں پر رکھا تھا اور وائی وائی کر رہی تھی میں زینت کے پاس آیا اور اس کا بازو ہٹا کر پوچھا کہ کیا ہوا اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا اس نے پرفیوم میری طرف بڑھایا میں سمجھ گیا تھا کہ زینت کی آنکھوں میں پرفیوم چلا گے ہے میں زینت کو باتھ روم لیکر گیا اور بیس پر اس کا سر جگا کر ٹھنڈے پانی سے دھونے لگا بہت دیر بعد بھی اس کی آنکھوں کی جلن کم نہیں ہوئی وہ آنکھیں بند کئے ہوئے تھی اور اور میں ٹشو سے اس کا پانی صاف کر رہا تھا میں نے زینت کو ایک بڑی چادر میں لپیٹا اور گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا دیا میں اسے لیکر آئی سپیشلسٹ کے پاس پہنچا ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد اس کی آنکھوں میں ڈراپس ڈال دئیے اور کچھ دیر آنکھیں بند کرنے کو کہا ڈاکٹر اس کے جسم کو گھورے جا رہا تھا اور کبھی کبھی مجھے دیکھتا زینت ایک ماڈل بن چکی تھی اور دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی ڈاکٹر نے کچھ دیر بعد ایک بار پھر چیک اپ کیا اب زینت آنکھیں کھول رہی تھی لیکن تیز روشنی سے اسے چبھن محسوس ہو رہی تھی ڈاکٹر نے اطمنان کا اظہار کیا میں نے نظر چیک کرنے کو کہا ڈاکٹر نے نظر چیک کرنے کے بعد بولا کہ کوئی خاص مسئلہ نہیں معمولی نظر پہلے سے کم لگتی میں نے گلاسز کا بولا تو اس نے گلاسز کا نمبر لکھتے ہوئے بولا کہ اگر نہ بھی لگائے تو کوئی مسئلہ نہیں میں نے کلینک سے نکلتے ہوئے سامنے عینک محل کا بورڈ دیکھا مجھے گلاسز گرلز بہت اچھی لگتیں ہیں اور میں نے چاہا کہ زینت کو حلاسز گرل بنا دون میں نے ایک موٹے بلیک فریم پسند کیا جو زینت کے چہرے پر فٹ آیا اور کچھ دیر پہلے گھر میں زینت کو پینٹ میں دیکھنے کے بعد جس ماڈل کا خیال ذہن میں اٹک گیا تھا وہ پورا پورا ہو چکا تھا ۔۔۔۔ زینت ایک دم میاں خلیفہ لگ رہی تھی عینک محل کے سارے لڑکے زینت کو پیاسی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے وہ باقی گاہکوں کو چھوڑ کر ہمارے پاس کتوں کی طرح ہونٹوں پر زبانیں پھر کر زینت کو سر سے پاؤں تک دیکھ رہے تھے جیسے وہ صدیوں سے بھوکے ہوں اور تازہ گوشت ان کے سامنے آ گیا ہو میں نے ان سے جلدی گلاسز تیار کرنے کا کہا اور پے منٹ دیکر زینت کے ساتھ گاڑی میں آ گیا میں گاڑی میں بیٹھ کر عینک محل کا دیا گیا ایک گھنٹے کا وقت گزارنا چاہتا تھا زینت کی آنکھیں اب بہتر تھی میں نے زینت کو پچسیٹ پر لٹا دیا اور اس کی آنکھوں میں ڈاکٹر کا دیا ڈراپس ڈال دیا میں زینت سے باتیں کرنے لگا تھا اور بار بار موبائل پر ٹائم دیکھ رہا تھا مجھے یہ جلدی تھی کہ میں گلاسز لگا کر زینت کو میاں خلیفہ بنانا چاہتا تھا زینت کی کلائیاں دیکھ کر گاڑی سے باہر جاتے ہوئے زینت کو جلدی واپس آنے کا بولا میں نے شام کو زینت کی چوڑیاں اتار دی تھی عینک محل کی بیک سائیڈبپر شاپنگ پلازہ تھا میں نے وہاں سے ایک گھڑی اور چار گولڈن چوریوں کا سیٹ اور ایک سٹائلش پرس لیا واپس آ کر میں نے اسغکی دونوں کلائیوں میں گھڑی اور چوڑیاں پہنا دی اور پرس میں کچھ پیسے ڈال کر کاغکے کندھے پر لٹکا دیا ایک گھنٹے کا وقت پورا ہو چکا تھا میں سامنے عینک محل سے جا کر گلاسز اٹھا سکتا تھا لیکن میں میں زینت کی نمائش کرنا چاہتا تھا خاص کر عینک محل کے ان لڑکوں کی بھوکی نظریں مجھے زینت کے جسم کے گرد گھومتی اچھی لگتی تھی کچھ دن قبل اگر سفید ٹوپی والے برقعہ میں لپٹی عینک محل میں آنا چاہتی تو یہ لوگ شاید زینت کو دکان میں بھی نہیں آنے دیتے ساتھ چلتی زینت کے کندھے پر لٹکا بڑا پرس اس کی پینٹ پر اس کے ہپس پر تھپکی دے رہا تھا ہم عینک محل میں داخل ہوئے تو کام کرنے والے سارے لڑکے ہماری طرف آ گئے ہمارا کام کرنا وہ سعادت سمجھ رہے تھے میں نے گلاسز اپنے ہاتھوں سے زینت کو پہنا لئے اب زینت مکمل طور پر میا خلیفہ بن گئی تھی اور میرا لن ایک بار پھر انگڑائیاں لینے لگا میں زینت کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کی طرف چل پڑا راہگیر رک کر ہمیں دیکھ رہے تھے خصوصاً سب کی نظر زینت کی پینٹ میں جکڑے ہپس پر تھی زینت کی آنکھیں اب ٹھیک ہو چکی تھی لیکن وہ بار بار گلاسز پر ہاتھ لگا رہی تھی میں نے اسے بولا کہ یہ آپ نے اب ہروقت پہنے رکھنے ہیں ہم پیزا شاپ چلے گئے اور وہاں کا عملہ بھی ہمیں عینک محل والے عملے جیسا رسپانس دے رہے تھے میں نے پیزے کا آرڈر دیا کیبن میں پیزا شاپ کے کیبن میں اپنے ساتھ بیٹھی زینت کے گرد میں نے بازو لپیٹ کر پہلی بار کچھ سلفیاں لے لیں اس وقت اگر نعمت بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر پیزا کھاتا اور زینت نہ بولتی تو وہ اس کو کسی طور پہچان نہیں سکتا تھا 11:00 بج چکے تھے شام کے وقت تیاری کے وقت میرا ارادہ دوسرے شہر کے ایک بڑے پبلک پارک میں جانے کا ارادہ تھا لیکن زینت کی آنکھ میں پرفیوم جانے کے بعد سارا پروگرام درھم برہم ہوگیا تھا پیزا شاپ سے نکلنے کے بعد میں نے ایک پارک کا رخ کر لیا پارک میں وقت لوگوں کی تعداد کم ہو رہی تھی میں نے پارک کے ایک اندھیرے کونے کا رخ کیا اور کولڈرنکس منگوا لی پینٹ شرٹ میں جکڑی زینت کولڈرنک پینے کے بعد میری گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی خالی بوتلیں اور پےمنٹ لینے آنے والے لڑکا مجھے گلاسز گرل زینت کے گالوں سے کھیلتا دیکھ کر بہت حیران ہو رہا تھا اور پیسے لیتے وقت اس کے ہاتھ سے دوبار بوتل گر گئی میں نے اسے آئسکریم کا آرڈر بھی دے دیا وہ آئسکریم لے کر آیا تو میں زینت کو بچوں کی طرح گود میں لیکر کسنگ کر رہا تھا ہم جس جگہ بیٹھے تھے وہاں اوپر کوئی لائٹ نہیں لگی تھی تیز روشنیوں میں بیٹھا شخص ہمیں نہیں دیکھ رہا تھا لیکن قریب آنے والا شخص ہمیں بخوبی دیکھ سکتا تھا آئسکریم لانے والا لڑکا جب قریب آنے لگا تو زینت اٹھنے لگی لیکن میں نے اسے ادھر ہی پکڑے رکھا اور کسنگ کرتے ہوئے اس بولا کہ رکھ دو مجھے لگا کے آنے والے لڑکے کی قمیض آگے سے تھوڑی اوپر اٹھ گئی تھی آئسکریم کھانے کے ساتھ میں زینت کے گال بھی جوس لیتا تھا اب پارک میں لوگوں کی تعداد بہت کم ہو گئی تھی میں نے موبائل پر ٹائم دیکھا 12:45 بج چکے تھے پےمنٹ کے لئے آنے والے لڑکے کو میں نے دو چوکبار لانے کا بولا تو زینت نے مذید کچھ کھانے سے انکار کر دیا میں نے اسے ایک چوکبار لانے کا بول دیا زینت خو نئے شور تھوڑے تنگ کر رہے تھے جب لڑکا چوکبار لیکر آیا تو زینت اپنے شوز پر جھکی ہوئی تھی اور اس کی پیٹھ اس لڑکے کی طرف تھی مجھے دیتے وقت لڑکے کی نظر پینٹ میں جکڑے زینت کے ہپس پر تھی مجھے چوکبار دیتے وقت اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اگر اس نے موویز دیکھی ہوئی تھی تو یقیناً زینت اسے بھی پہلی سے آخری نظر تک میاں خلیفہ ہے لگی ہو گی میں نے لڑکے سے پےمنٹ معلوم کی اور اپنے بٹوے سے نکالنے لگا پےمنٹ دیتے وقت میں نے دیکھا کہ لڑکے کی قمیض کے آگے تمبو بنا ہوا تھا اور والے تیز تیز اوپر کو اٹھ رہا تھا لڑکا چکا گیا تو میں نے اپنی پینٹ کی زپ کھول کر لن کو باہر نکال لیا جو پوری طرح تن چکا تھا میں نے زینت کو اپنے گھٹنے پر لٹا لیا اور پھر اس کے سر کو پکڑ کر اس کے ہونٹ لن کی ٹوپی پر لے آیا زینت نے منہ ہٹا لیا اور ادھر ادھر دیکھ کر لن کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا وہ اب چمن پر الٹی لیٹی میرے لن کو پکڑ کر سہلا رہی تھی میں نے چوکبار کو اس کے ہونٹوں سے لگایا تو اس نے عام قلفی کی طرح آدھی منہ میں لیکر باہر نکال لی تو میں نے لن اس کے منہ میں ڈال لیا ٹوپی تک اندر جانے کے بعد اس نے الٹی آنے جیسا منہ بنا اور لن باہر نکال لیا میں نے جلدی سے چوکبار اس کے۔منہ میں دی اس نے ایک بار پھر چوکبار کو چوس کر باہر نکال لیا اور میں نے ٹھنڈے ہونٹوں پر اپنا گرم لن رکھ دیا تھوڑا منہ کے اندر لینے کے بعد زینت نے چوکبار کی طرح چوسنے کے بعد باہر نکالا اور میں نے پھر سے چوکبار اس کے۔منہ میں دے دی اس نے دو بار منہ کو اوپر نیچے کرکے چوکبار کو چوسا اور پھر میرے ہاتھ کو ہٹاتے ہوئے ہنسنے لگی اور منہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا میں نے اس کے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹائے اور لن کو اس کے لبوں کے پاس کر دیا وہ ہنستے ہوئے ایک ہاتھ میں لن کو پکڑ کر دوسرے ہاتھ کی انگلی چوکبار کی طرف کرتے ہوئے بولی دونوں کالی قلفیاں ہیں ایک میٹھی ایک نمکین میں نے اس کی پینٹ کے بیلٹ کو پکڑا اور پچھلے حصے کو اپنی طرف کھینچ لیا میں نے زینت کی پینٹ سے اسکی شرٹ نکال لی اور بہت دیر تک اس کی باڈی کو کسنگ کرتا رہا پارک میں ماسوائے عملے کے چند افراد کے اور کوئی نہیں تھا میں نے میں نے پینٹ کا بلٹ کھول کر لن کو انڈر وئیر کے نیچے قید کر لیا اور لباس درست کرکے زینت کو اپنی بازو کے حصار میں لیکر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا رات کے دوبج چکے تھے جب میں نے گاڑی مین روڈ سے اپنے گھر کی جانب موڑی تو موبائل کی سکرین ویبریشن کے ساتھ روشن ہو گئی یہ نعمت کی کال تھی میں نے کال فوراً اٹینڈ کر لی نعمت نے روہانسی آواز میں والدہ کی وفات کی اطلاع دی میں نے نعمت سے پانچ منٹ میں دوبارہ کال کرنے کا کہا اور گھر کے مین گیٹ کا لاک کھول دیا گاڑی گیراج میں کھڑی کرنے کے بعد میں روم میں آ گیا اور نعمت کو کال کر لی اور اس سے ملتان سے واپسی کا شیڈول پوچھا اسے ایمبولینس نہیں مل رہی تھی ملتان سے جہاں تک کا سفر تقریباً پانچ گھنٹے کا ہے میں نے نعمت کو تسلی دی اور اسے کہا کہ وہ سیدھا اپنے گھر کی طرف آ جائے ہم زینت کو وقت پر پہنچا دیں گے کال کے بعد میں نے زینت کو بتایا تو وہ رونے لگی تھی میں اسے بیٹھ پر لایا اور اپنے گھٹنے پر سلا کر اسے پیار اور تسلی دینے لگا آج وہ ویسے بھی بہت تھکی ہوئی تھی بہت دیر بعد زینت روتے روتے سو گئی تھی نعمت نے پانچ بجے سے کچھ دیر پہلے کال کرکے اطلاع دی کہ ایمبولینس مل گئی ہے اور وہ نکلنے لگے ہیں میں نے اسے اوکے کہہ دیا گھر کی چابی نعمت کے پاس تھی نعمت کے سسرال اور دور کے کچھ رشتے دور بھی اطلاع پاتے ہی نعمت کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے تھے زینت سو رہی تھی میں نے 7:30 منٹ پر اسے جگا دیا اور تیار ہونے کا کہہ دیا وہ گھر سے لائی اپنا ایک سوٹ لیکر باتھ روم چلی گئی اور میں بائی اٹھا کر بازار چلا گیا لاری اڈے کے پاس کچھ دکانیں کھلی ہوئی تھی میں نے وہاں سے ایک بڑا بیکگ لیا اور راستے سے ناشتہ لیکر بیس منٹ میں گھر آ گیا میں نے ایک ریڈی میٹ سوٹ جو اس نے کل پہنا تھا اس کو اور دو بغیر سلے ہوئے سوٹ جو میں نے پہلے دن زینت کو اپنی بیگم کے ہاتھوں دلوائے تھے باہر رکھ دئیے اور زینت کے باقی دو سوٹ اور دیگر سامان بیگ میں ڈال لیا رات کو نیا پرس لیکر تین ہزار روپے اس کے پرس میں ڈالے تھے میں نے اس کا پرس کھول کے دوہزار مذید ڈال دئیے اور پرس کو بھی بیگ میں رکھ دیا زینت باتھ روم سے باہر آ چکی تھی میں باتھ روم سے اس کی پینٹ شرٹ۔لایا اور اسے بیگ میں سارے سامان کی نیچے رکھ دیا اور بیگ کو چھوٹا تالا لگا کر چابی زینت کو دے دی جو بہت افسردہ سر جھکائے بیٹھی تھی زینت نے ایک نظر بیگ پر ڈالی اور چابی کو اپنے دوپٹے کے پلو سے بانڈھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں باتھ روم چلا گیا اور دس منٹ میں شاور لیکر باےر آگیا میں نے ناشتہ کھول دیا زینت کا موڈ نہیں بن رہا تھا سو میں نے اسے اپنے ہاتھ سے کچھ ناشتہ کرایا اور چلنے کو کہہ دیا زینت پہلے دن والے چپل اور سفید ٹوپی والا برقعہ پہن کر میرے ساتھ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی وہ گھبرا رہی تھی کہ نعمت اسے میرے ساتھ دیکھ کر اچھا نہیں سمجھے گا اور اس کے لئے مسائل پیدا ہو سکتے میں نے زینت کو تسلی دی کہ کچھ نہیں ہو گا سارے راستے زینت خاموش بیٹھی رہی میں اسے تسلی دیتا رہا اور وقفے وقفے سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے چوم لیتا تھا 8:45 بجے ہم ان کے گھر پہنچ گئے رات کو آنکھوں کے چیک اپ والی پرچیاں اور ڈراپس بیگ کے جیب میں ڈال دئیے میں نے زینت کے گلاسز سے لیکر باقی تمام چیزوں کے بارے میں زینت کو سمجھا دیا تھا کہ کس طرح سب چیزوں کو بیگم صاحبہ سے منسوب کرنا ہے میں گاڑی سے اتر گیا زینت گاڑی میں بیٹھی رہی میں نے گاڑی سے ایک راڈ لیکر گھر کی دروازے اور اس کے روم کا تالا توڑ دیا جبکہ چھوٹی کوٹھی جو نعمت کی امی کا روم تھا اس کی صرف کنڈی لگی ہوئی تھی میں نے سب اوکے کر کے گاڑی کے پاس چلا گیا دور کھیتوں میں کچھ۔مزدور کام کر رہے تھے اور کچھ میری گاڑی دیکھ کر ادھر کا رخ کرنے لگے میں نے اس کا بیگ اٹھایا اور زینت کو آنے کا بولا میں نے اس کا بیگ کچی کوٹھی میں پڑی چارپائی کے نیچے رکھ کر اس پر خالی بوریا رکھ دی زینت کو میں نے زمین پر کچھ بچھانے کا بول دیا وہ سیمنٹ کے خالی بوریوں سے بنی ایک بڑی چٹائی بچھا دی زینت بچی تھی اور ایسے موقعوں کا اسے تجربہ نہیں تھا میں علاقے کے کچھ دوست زمینداروں کو پہلے ہی اطلاع دے چکا تھا کہ میرے ایک مزارع کے اس غم میں شریک ہو جائیں میں اس گھر سے باہر نکل کر درخت کے پاس کھڑا ہو گیا اتنے میں میرا ایک اور مزارع شامیانے اور دریاں لے آیا تھا اور ایک زمیندار بھی اپنی کچھ خواتین کے ساتھ آگیا چند مزدوروں نے ملکر شامیانے لگاغکر دریاں بچھا دیں اور اسبکے بعد نعمت کے سسرال والے اور دیگر لوگ بھی آ گئے یہاں سے قریبی میرے آبائی گاؤں کی کچھ خواتین اور دیگر افراد بھی آ گئے نعمت لوگوں کے آنے تک کافی لوگ جمع ہو گئے تھے میں شام کے بعد گھر لوٹ آیا تھا اور اگلے دو روز بھی نعمت کے پاس جاتا رہا اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گیااس دوران نعمت سے زمینوں کے معاملات اور دیگر معاملات پر گفتگو ہوتی تھی اور اکثر میں فون کرکے اس سے خیریت معلوم کر لیتا تھا دو ماہ بعد نعمت کی کال آئی زینت کی طبیعت کچھ خراب تھی اور وہ ڈاکٹر کے پاس آنا چاہتے تھے میں نے ایک لیڈی ڈاکٹر کا نمبر لیا اور ان کو بلا لیا ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ زینت کو دو ماہ کا حمل ہے اور مشورہ دیا کہ زینت چونکہ ابھی کم عمر ہے لہذا اسے وقفہ دیا جائے میں نے بہت مشکل سے نعمت کو راضی کر لیا اور ڈاکٹر کی لکھی میڈیسن بھی خرید کے دے دی زمینوں سے چاول کی کٹائی کے بعد نعمت میرے گھر حساب کتاب کے لئے آیا میں نے اسغکی والدہ کی بیماری کے دنوں میں لیا گیا قرض معاف کر دیا وہ بہت خوش ہوا اور باتوں باتوں میں میری بیگم کی تعریف کرتے ہوئے کہنے لگا کہ بیگم صاحبہ نے میری بیگم کو بہت پیار اور اتنا سامان دیکر میرا مان بڑھا دیا اس کی باتوں سے مجھے یاد آیا کہ۔میں نے اس کے دو سوٹ بمع ناپ والے سوٹ کے سلائی کے۔لئے درزی کو دئیے تھے نعمت نے کہا کہ بیگم جو صابن اور شیمپو استعمال کرتی ہے وہ مجھے لکھ دو میں جاتے ہوئے لیتا جاؤں گا اب میری بیگم آپ کے گھر میں رہنے کے بعد کافی بدل چکی ہے اور ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ آپ لوگوں نے میری سادہ سی بیوی کو بگاڑ دیا ہے میں نے نعمت کو بتایا کہ اس کے دو سوٹ سلائی کے لئے میری بیگم نے درزی کو دئیے تھے میں وہ اور آپکو شیمپو صابن بھی لیکر دیتا ہوں پھر بولا صاحب کوئی پرانا موبائل تو آپ کے پاس ہے میں گھر رکھنا چاہتا اب زینت اکیلی ہوتی ہے اور میں چاہتا کہ وہ میرے ساتھ موبائل پر رابطے میں رہے جب میں گھر سے باہر ہوں میں مہمان خانے سے اٹھ کر گھر چلا گیا اور الماری سے ایک پرانا فون اٹھا کر اس میں ایک سم بھی ڈال دی نعمت زینت کے سلے ہوئے سوٹ اور دیگر سامان میرے سے لیکر چلا گیا تھا دو دن بعد نعمت کی کال آئی اور وہ گاؤں میں کھاد اٹھانے آیا ہوا تھا میں نے دکاندار کو بتا دیا کہ اسے کھاد کی بوریاں دے دو نعمت کی کال کو اینڈ کرکے وہ نمبر ملا لیا کال جا رہی تھی اور آخری لمحوں میں میری کال اٹینڈ ہو گی دوسری طرف سے کوئی بول نہیں رہا تھا میں نے کہا زینت میں ہوں ۔۔۔۔یاررررر ۔۔۔ زینت نے میری آواز سن کر قہقہہ لگایا اور پھر ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے نعمت کو معلوم نہیں ہوا تھا کہ میں اکیلے اس کو وہاں تک لایا تھا زینت اب گھر میں بھی بہت اہتمام سے رہتی تھی اور نعمت اس کے بن سنور کر رہنے پر بہت خوش ہوتا تھا کچھ دنوں بعد زینت نے بتایا کہ میں نے امی کو آپ کے گھر کا بتایا سامان دیکھایا تو بہت خوش ہوئی اور امی نے بولا کہ اگر آپ انکے گھر آئیں تو وہ میرے بھائی کی شادی پر بلائیں گے میں نے کہا کہ میں ضرور آؤں گا اب زینت جب بھی گھر میں اکیلی ہوتی تو مس کال دیتی اور بہت دیر تک باتیں کرتی رہتی اب اسے نعمت کے ساتھ سیکس کرنے میں مزہ نہیں آتا تھا بولتی کہ نعمت سے اس کا من ادھورا رہتا ہے وہ کبھی کبھی اسرار کرتی کہ میں اس کے پاس آ جاؤں لیکن میں ایسا نہیں چاہتا تھا پھر کچھ دنوں بعد نعمت اور زینت کا بھائی میرے پاس آئے اور زینت کے بھائی کی شادی کی دعوت دی ایک ہفتے بعد میں نے نعمت کو کال کی کہ مین روڈ پر آ کر مجھے کھاد کے بل دے جائے میں نے آگے کسی شہر جانا ہے نعمت نے اوکے کہہ دیا زینت مجھے ایک روز پہلے بتا چکی تھی کہ کل نعمت اسے امی کے گھر پہنچانے جائے گا میں نے مارکیٹ سے دو اور ریڈی میٹ سوٹ خریدے اور پچھلی سیٹ پر رکھ دئیے میں اپنے گاؤں کے قریب اس کچے راستے پر رکا تو نعمت اپنی بیوی زینت کے ساتھ موجود تھا میں نے پچھلی سیٹ پر پڑا شاپر اٹھا لیا اور نعمت کے قریب آنے پر میں نے اسے شاپر تھماتے ہوئے کہا کہ یہ امانت سنبھال لو میری بیگم نے زینت کے لئے بھیجے ہیں شادی کا گفٹ اس نے مجھے بل تھماتے ھوئے بتایا کہ وہ زینت کو شادی کے سلسلے میں میکے پہنچانے جا رہا ہے میں نے اسے بتایا کہ میں آپکے سسرال کے گاؤں سے آگے شہر میں جا رہا آپ میرے ساتھ چلو وہ خوش ہو گیا اور زینت کو بلا لیا زینت آج سفید برقعے کے بجائے سیاہ چادر میں لپٹی ہوئی تھی وہ آہستہ آہستہ چلتی گاڑی کے پاس آ رہی تھی زینت کی آنکھوں میں مسکراہٹ کے ساتھ بہت سی محبت بھری ہوئی تھی وہ مجھ سے نگاہیں ملا کر چلتی آ رہی تھی میں بھی چند سیکنڈ کے لئے بھول گیا تھا نعمت ساتھ ہے پھر میں نے پیچھے مڑ کر پچ،کھڑکی کھول دی وہ بیٹھ گئی نعمت نے بیگ بھی پچھلی سیٹ پر زینت کے ساتھ رکھ کر کھڑکی بند کر دی زینت نے مجھے سلام کیا اور اس دوران نعمت میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر آن بیٹھا اور میرا دیا ہوا شاپر مسکراتے ہوئے میری طرف بڑھایا کہ بھابھی کو خود ہی امانت دے دو میں نے شاپر زینت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ تمھاری باجی نے یہ امانت دی تھی اسے لے لو زینت بولنے لگی کہ بھابھی نے پہلے بھی مجھے اتنے سوٹ اتنا سامان دیا اب اس کی کیا ضرورت تھی اور ان سب سے بڑھ کر مجھے جو پیار ملا میں وہ کبھی نہیں بھول سکتی بس بھابھی سے کہنا مجھے صرف تمھارا پیار چاہیے ۔۔۔۔۔زینت کافی ہوشیار بھی ہو گئی تھی گاڑی چلتے ہی زینت نے اپنا نقاب اتار دیا تھا اس نے لپ اسٹک بھی بڑے اہتمام سے لگائی تھی وہ کھسک کر نعمت کے باکل پیچھے آن بیٹھی تھی میں نے آئینے کو اس کی طرف موڑ دیا تھا میری نظر جب بھی اس سے ملتی وہ آنکھ مارتی اور اپنے بوبز کو زور سے مسلتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی پینٹ میں جکڑا میرا لن انگڑائیاں لینے لگا تھا وہ مجھ سے کھل کر باتیں بھی کر رہی تھی موسم خاصا سرد ہو چکا تھا اور آج زینت کو تقریباً چار ماہ بعد دیکھا تھا جہاں سے زینت کی امی کا گاؤں تقریباً اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر تھا گزشتہ روز کال پر زینت کو کسنگ کرتے میں کہہ چکا تھا کہ تمھیں اپنی گاڑی میں میکے پہنچاؤں گا لیکن اسے یقین نہیں تھا کہ نعمت کو کیا بولو گے وہ ایسا نہیں کرے گا ایک چھوٹے شہر سے گزرتے ہوئے میں نے نعمت کو پیسے نکال کے۔بولا کہ کچھ فروٹس لے لیتے ہیں پیچھے بیٹھی زینت نے کہا کہ میں کالی قلفی کھاؤں گی نعمت نے اسے ٹوکا کہ کالی قلفی کونسی ہوتی اور اس سردی میں قلفی کھا کر تمھیں مرنا تو نہیں ہے میں نے بھی نعمت کا ساتھ دیکر اسے منع کیا تو وہ چلائی کچھ نہیں ہوتا ۔یا۔۔۔۔۔ صاحب ۔۔۔ زینت مجھے یار کہتے کہتے نعمت کا احساس پا کر چونکی اور یا کے بعد صاحب کہہ دیا نعمت ہنستے ہوئے بولا تو تو آج عربی بولنے لگی ہے یا صاحب زینت بولی میں نے بیگم صاحبہ کے ساتھ کالی قلفی کھائی تھی پارک میں اور اس دن والا مزہ آج بھی میرے منہ میں پانی بھر لاتا ہے میں نے ایک بیکری کے سامنے گاڑی روک کر نعمت کو پیسے دئیے اور کاغذ پر چوکبار لکھ کر دی ساتھ میں فروٹس لانے کا بولا میری گاڑی کے شیشے بلیک تھے سو نعمت کے کھڑکی بند کرنے کے ساتھ زینت نے کسی چڑیل کی طرح پینٹ کے اوپر سے لن پر حملہ کر دیا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس پر کسنگ کی اس نے ایک بار پھر مجھ سے اپنا ہاتھ چڑا کر لن کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن پینٹ میں اس کا ہاتھ صرف لن کہ اوپری حصے کو دباؤ دے سکا اس نے میری شرٹ پینٹ سے نکال لی اور میری سائڈ پر کسنگ کرنے لگی پینٹ کے بلٹ سے اوپر میری سائیڈ مو زینت ایسے منہ بھر بھر کے چوس رہی تھی جیسے میں اس کے بوبز کو چوستا تھا میرا ہاتھ دوبار پینٹ کی طرف بےاختیار اٹھ گیا اور میں لن کے تنگ کرنے پر اسے اتار دیتا نعمت شاپر اٹھائے گاڑی کی طرف آ رہا تھا میں نے زینت کو سیدھا کر دیا وہ وشششش وشششش کرتی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی نعمت گاڑی میں بیٹھا اور بڑھا دی زینت میرے سر کے اوپر لگے آئینے میں مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی نعمت نے چوکبار زینت کی طرف بڑھائی تھی لیکن زینت مسلسل مجھے دیکھے جا رہی تھی نعمت نے پیچھے مڑ کر زینت کو آواز دی تو اس نے چوکبار کا پیکٹ لے لیا نعمت نے بھلے لہجے میں کہا کہ کھاؤ اور مرو۔۔۔ زینت نے آئینے مجھے مجھے دیکھتے ہوئے کہا کہ آج دل تو چاہتا ہے کہ مر جاؤں زینت نے چوکبار اپنے ہونٹوں سے لگائی اور مجھے دیکھتے ہوئے آرام سے ہونٹوں کو بند کئے آگے بڑھانی شروع کر دی وہ چوکبار کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنے سر کو آگے پیچھے کر کے چوس رہی تھی اور پینٹ میں جکڑے میرے لن پر زینت کے ہونٹوں کا لمس محسوس ہو رہا تھا اس نے چار پانچ بار ایسے چوسنے کے بعد چپ کی آواز سے چوکبار کو باہر نکالا اور بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو اسی طرح اپنا منہ ہلا کے چوسنے لگی وہ بار بار انگوٹھے اور چوکبار کے ساتھ ایسا کر رہی تھی اس دوران چوکبار کی چاکلیٹ ٹکڑوں کی شکل میں اس کے کپڑوں پر گرنے لگی تھی وہ نعمت کے بالکل پیچھے بیٹھی تھی اور وہ اسے نہیں دیکھ پا رہا تھا کیلا کھاتے ہوئے باتیں کر رہا تھا اور میں زینت کی طرف متوجہ تھا اور نعمت کو صرف ہاں ہوں میں جواب دے رہا تھا پھر زینت نے اپنے ہاتھ اور کپڑوں پر پھیلتی چوکبار شیشے کو نیچے کر کے پھینک دی اور اپنی انگلیوں کو چوستی اور دوسرے ہاتھ سے اپنے بوبز کو مسلتی مجھے تکتی جا رہی تھی میں اس وقت گاڑی کی سپیڈ آہستہ کر چکا تھا اور زینت کو سکس کرنے والے مزے میں تھا پھر میں نے نعمت کے کسی سوال پر سر کو جھٹک کر خود ہوش میں لانے کی کوشش کی اور سر کے اوپر لگے گاڑی کے آئینے کو زینت کے چہرے سے ہٹا کر تھوڑا ترچھا کر دیا کچھ دیر بعد ہم زینت کی امی کے گاؤں میں پہنچ چکے تھے گاڑی میں نے نعمت کے بتائی ہوئی گلیوں میں گھوماتا ایک لکڑی کے بنے بڑے دروازے کے آگے روک چکا تھا نعمت چائے کا اسرار کر رہا تھا لیکن مجھ میں زینت کے سین دیکھنے کی مذید ہمت نہیں تھی زینت کے بھائی نے بھی اسرار کیا لیکن میں گاڑی سے ایسی حالت میں اتر سکتا تھا جب میری پینٹ میں واضح ابھار آ چکا تھا میں نے شادی پر آنے کا وعدہ کیا اور گاڑی موڑ لی گاؤں کی خواتین اور لڑککے ساتھ مرد بھی کالی چادر میں لپٹی زینت کو رشک سے دیکھ رہے تھے اور وہ مڑ مڑ کر مجھے دیکھتی جا رہی تھی میں نے گاڑی کو گاؤں کی اس کچی گلی میں اس سپیڈ سے نکالا کہ گرد کے بادل میں پچھلے سین غائب ہو گئے زینت کی مست اداؤں میں جو سفر میں نے تین گھنٹے میں کیا واپسی وہی سفر میں ایک گھنٹہ 35 منٹ میں کاٹ لیا تھا میں نے زینت سے کیا کل کا وعدہ پورا کر لیا تھا اور شام سے بہت پہلے گھر آ گیا تھا نعمت گھر میں رکھا ہوا زینت کا موبائل فون گھر میں ہی چھوڑ گیا تھا ایک روز بعد دن ایک بجے خب میں کسی اور اراضی پر کسی مزارع سے رجسٹر اٹھائے حساب کر رہا تھا ایک نئے نمبر سے کال آ گئی میں نے ہلو کہا تو آواز آئی یاررررر چائے پیئے بغیر کیوں بھاگ گئے تھے ۔۔۔۔ یہ زینت کی آواز تھی اس کی آواز میں ابھی تک ایک روز پہلے والا جوش تھا میں رجسٹر چارپائی پر رکھ کر سائیڈ پر چلا گیا تھا میں نے زینت سے پیار بھری باتیں کرکے اسے ریلکیس کیا اور اسے بولا کے وہ ان جذبات پر قابو رکھا کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی ان حرکتوں سے نعمت کو شک ہو جائے اور آوے کا آوا ہی خراب ہو جائے اس نے بتایا کہ یہ۔موبائل نمبر اس کی دوست کا ہے اور وہ موقع دیکھ۔کر بات کرتی رہے گی جب تک وہ جہاں ہے شام پانچ بجاس نمبر سے مس کال آ گئی میں اس وقت دوست کے ساتھ اپک ہوٹل میں چائے پی رہا تھا میں نے سائیڈ پر جا کر کال کی زینت نے تھوڑی دیر باتیں کیں کہ پھر صبح ملیں گے میری دوست اپنے گھر جا رہی یہ کل ایک بجے کے بعد آئے گی تو میں کال کر لوں گی میں نے اوکے کہہ دیا میں کمپیوٹر پر کوئی ضروری کام کر رہا تھا رات کے گیارہ بجنے والے تھے کہ اس نمبر سے ایک بار پھر مس کال آ گئی میں نے کال لر لی اس بار کوئی کسی نئی آواز نے کال ریسیو کرتے ہی میرا استقبال کیا وہ بہت مدھم آواز میں خود ہی بولنے لگی کہ زینت تو ابھی نہیں ہے میں پڑھ رہی ہوں میں کہا خیر کوئی بات نہیں آپ زینت کی دوست ہیں تو کچھ دیر آپ سے بات ہو جائے گی اس کا نام سائقہ تھا وہ کلاس 10 کی طالبہ تھی گاؤں کی دیگر دو لڑکیوں کے ساتھ دوسرے گاؤں کے سکول میں پڑھنے جاتی تھی اس کا گھر زینت کی امی کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا سائقہ کے ابو قطر میں ہوتے تھے اور ایک۔بھائی تھا جو کراچی میں کام کرتا تھا سائقہ کی عمر سترہ بڑس تھی اور وہ زینت کی پچپن کی دوست تھی اور زینت نے اسے بتا دیا تھا کہ صاحب میرے یار بن چکے ہیں سائقہ نے کہا کہ زینت ک،بسوٹ بہت اچھے ہیں اور اسے پسند میں نے کہا کہ آپ سائقہ کی دوست ہیں تو میری بھی دوست ہیں میں آپ لے لئے لیتا آؤں گا بولی نہیں میں امی کو کیا کہوں گی اور زینت بھی خفا ہو جائے گی میں نے اس سے کہا کہ میں کوئی ترتیب بنا لوں گا اس سے سائز پوچھا تو بولی زینت والا لائٹ بلیو چمک والا سوٹ اس کی باڈی پر تھوڑا کھلا کھلا آ رہا تھا اور لمبائی میں بھی تین انچ زیادہ تھا سائقہ ن، بتایا کہ اس نے مجھے گاڑی میں بیٹھا دیکھا تھا اور زینت کی میرے لئے بےتابی کو بھی محسوس کیا تھا جبھی اس نے زینت سے پوچھ لیا جس پر زینت نے اسے بتایا تھا کہ وہ میرا دوست ہے اور بہت اچھا ہے زینت نے میری طرف سے دی گئی ساری چیزیں بھی اسے دیکھائی تھی سائقہ نے بتایا کہ اس کی امی دوسرے کمرے سے آواز دے کر بلا رہی ہے اور سونے کا کہہ رہی سائقہ نے کال اینڈ کرنے سے پہلے بولا کہ میرے سے بات کرنے کا زینت کو نہیں بتانا میں نے اوکے۔کہہ دیا اگلے روز دن ایک بجے مس کال آ گئی میں نے فوراً کال ملا دی یہ سائقہ تھی جو ابھی سکول سے واپس آئی تھی وہ بہت دیر تک مجھ سے باتیں کرتی رہی میں نے زینت سے بات کرنے کا بولا تو اس نے پانچ منٹ بعد کال کرنے کا کہا اور ایک بار پھر کہہ دیا کہ زینت کو ہماری باتوں کا علم نہیں ہونا چاہیے میں نے اسے تسلی دی کہ ایسی کوئی بات نہیں زینت سے کافی دیر تک باتیں ہوئیں میں نے پوچھا کہ آپ جو اتنی بدل گئی ہو کس نی پوچھا یا کسی کو ہماری دوستی کا علم تو نہیں ہوا زینت نی بتایا کہ اس کی دوست کو علم ہے جس کے نمبر پر میں بات کر رہی ہوں میں نے اسے ایسا کرنے پر ٹوکا تو بولی یہ میری بچپن کی سہیلی ہے اور یہ مر جائے گی پر کسی کو نہیں بتائے گی میں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بولا کہ آپ لو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور کسی کے سامنے ہماری کہانی شئیر کر سکتی ہے میری باتوں سے زینت کچھ پریشان ہو گئی تو میں نے اسے بولا کہ سائقہ کو کوئی گفٹ دیکر اسے اپنا بنا لیتے ہیں زینت بولی کہ اسے میرے ریڈی میٹ سوٹ بہت پسند آئے ہیں لیکن میں آپ کے پیسے نہیں لگوانا چاہتی سوٹ بہت مہنگے ہیں میرے سارے سوٹ پوری بستی کی لڑکیوں کو پسند آئے ہیں تو آپ اس پوری بستی کی لڑکیوں کو دں گے ؟؟؟ میں نے کہا کہ آپ کے لئے پوری بستی کو سب دے دونگا جو ان کو چاہیے ہونگی پھر میں نے اس سمجھایا کہ آپ اس کی امی کے سامنے بول دینا کہ۔میں بیگم صاحبہ کو فون کرکے آپ کے لئے سوٹ منگوا دیتی ہوں میں اسے بعد میں پیسے دے دونگی اور سائقہ کو بتا دینا کہ صاحب آپ کے لئے سوٹ لیکر آئے گا زینت نے بولا کہ وہ امی کے ساتھ شام کو آئے گی تو ایسا کرونگی کال اینڈ ہونے کے دس منٹ بعد پھر مس کال آئی میں سمجھ چکا تھا کہ یہ سائقہ سے میں نے سائقہ کو سارا پلان بتا دیا کہ زینت آپکی امی کے سامنے ایسا کہہ کر نعمت سے کہے گی کہ۔مجھے کال کر کے سوٹ لانے کا بول دے سائقہ سے میری دوستی ہو چکی تھی جس کا علم زینت کو نہیں تھا اور وہ زینت سے زیادہ مجھے کالیں کر رہی تھی اگلے روز میں نے زینت کے بھائی کی شادی پر جانا تھا کیونکہ زینت کا اسرار تھا کہ میں ایک روز پہلے آ جاؤں نعمت مجھے کال کر کے سوٹ۔لانے کا کہہ چکا تھا سو میں نے زینت سے ایک نمبر کم والے دو سوٹ اور ایک بریسلٹ لے۔لیا تھا اور شاپر کو میں نے ڈگری میں رکھ دیا تھا اگلے روز میں بیگم کو اس کی امی کے گھر پہنچا دیا کہ۔میں دوست کی شادی پر جا رہا ہوں میں نے نعمت کو۔کال کر لی تھی کہ کسی کام سے آگے آیا ہوا ہوں اور آج گھر واپسی کر کے کل شادی کے لئے نکلنے میں ڈبل سفر ہو جائے لہذا میں جہاں سے سیدھا ایک دن پہلے آ رہا ہوں نعمت نے اس پر خوشی کا اظہار کر دیا تھا میں دن بارہ بجے ان کے ہاں پہنچ گیا تھا اور نعمت نے مجھے ریسیو کیا لکڑی کے بنے ایک بڑے گیٹ۔کو کھول کر گاڑی اس میں لانے لا کہہ دیا یہ بڑی حویل کا کھلا گھر تھا اور اس بڑی حویلی کے۔مغربی حصے میں تین کچے اور اس سے آگے دو پکے کمرے بنے ہوئے تھے میں نے ڈگی سے اپنا سوٹ کیس اور سائقہ کے لائے گئے کپڑوں کا شاپر نکالا نعمت نے۔میرا سامان اٹھایا اور کچی دیوپر چونے سے بنے ڈیزائن والی دیوار کے ساتھ سے ہوتا ہوا اس گھر میں داخل ہو گیا جہاں اس دن زینت کو میں پہنچا کر گیا تھا نعمت گھر میں میرے آگے داخل ہوتے ہوئے بولا کہ صاحب آ جاؤ کونے کے ایک کمرے کے علاوہ گھر کے باقی کمرے کچے تھے نعمت اسی پکے۔کمرے میں مجھے لے گیا گھر میں زینت کے باپ کے علاوہ خواتین کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی سب مجھے تعجب سے دیکھ رہی تھی کمرے میں دو سنگل بیڈ پر کچھ الجھی سے کلیوں کپ مدد سے سیج بنانے کی کوشش کی گئی تھی مجھے انہی بیڈ پر بٹھا دیا گیا تھا زینت روم میں سب سے پہلے داخل ہوئی اور مسکرا کر سلام کیا وہ لائٹ پنک کلر کے سوٹ میں ملبوس تھی جو سلوا کر میں نے نعمت کے ہاتھ بھجوا دئیے تھے زینت کی امی نے روم میں داخل ہو کر مسکراتے ہوئے بیگم جی کے نہ آنے کا پوچھا میں نے کہا کہ صبح نعمت کو بتا دیا تھا کہ میں آگے کسی شہر میں آیا ہوا تھا جہاں سے میں سیدھا ادھر آیا اور اس مقصد کے لئے کل گھر سے تیاری کرکے نکلا تھا اور بیگم ویسے بھی کسی دوردراز کے فنگشن میں کم ہی جاتی ہے زینت کی امی کے آنے کے بعد کمرے کے دروازے کے سامنے خواتین اور لڑکیوں کا رش لگ گیا جو دیہات کے سادہ لباس میں ملبوس اپنے ناک تک اپنا دوپٹہ پکڑ کر مجھے دیکھے جا رہی تھی پھر زینت کی امی چلی گئی تو زینت نے کمرے کے دروازے کو بند کر دیا اب روم میں نعمت میں اور زینت موجود تھے کچھ دیر بعد زینت کی امی ایک بڑے ٹرے۔میں کھانا سجا کے لائی تھی اس دوران میں جب بھی زینت کی طرف دیکھتا تو وہ اپنی نظروں کو سب سے بچا کر مجھے آنکھ مار دیتی کھانا کھانے کے بعد میں تکیے کی ٹیک لگنے کو پیچھے ہوا تو پینٹ کی جیب میں موجود موبائل نے وبریشن کرکے مس کال کی اطلاع دی میں نے موبائل نکال کے دیکھا تو یہ سائقہ کی مس کال تھی میں نے بجائے کال کرنے کے اسے مسیج۔کیا کے ۔۔۔دولہے کے روم میں اگلے تین۔منٹ میں کمرے کا دروازہ کھلا اور نیلی قمیض سفید شلوار اور سفید دوپٹے سے ہونٹوں تک منہ چھپائے ایک لڑکی داخل ہوئی یہ سائقہ تھی جس کا قد قدرے پست رنگ گورا جسم بھرا بھرا اور آنکھیں موٹی تھی بالوں کی ایک لٹ روشن پیشانی پر گشت کر رہی تھی اس نے آتے ہی مجھے سر ہلا کر مدھم آواز میں سلام کیا اور کچھ فاصلے پر پڑی چارپائی پر زینت کے ساتھ بیٹھ گئی یہ دونوں ایک دوسرے کو کندھے مار کر مستی کر رہی تھی نعمت کے فون لی گھنٹی بجی اور وہ اس طرف متوجہ ہوا تو میں نے اس دونوں کو دیکھا زینت نے سائقہ کی طرف آنکھوں کا اشارہ کر کے آنکھیں قدرے بند کیں اور مجھے بتایا کہ یہ سائقہ ہے پھر زینت بولی میں نے بیگم کو سوٹ لانے کا بولا تھا میں نے شاپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ہاں بیگم نے یہ شاپر دیا تھا مجھے زینت شاپر لی طرف لپکی تو نعمت فون بند کرتے ہوئے کہا کہ صاحب آپ بیٹھیں میں شعیب کے ساتھ شہر جا رہا کچھ سامان لانا ہے میں نے جیب سے تین ہزار نکال کر نعمت کو دیتے ہوئے کہا کہسیج کا کچھ سامان لیتے آنا اس کو دوبارہ بنائیں گے زینت شاپر اٹھا کر چارپائی کے پاس پہنچی اور نعمت جیسے روم سے باہر نکلا اس کی امی اندر آنے لگی اور دروازے پر کھڑی دیگر لڑکیاں بھی زینت کے ہاتھ میں شاپر دیکھ کر اندر آنے لگیں زینت کی امی نے پیچھے مڑتے ہوئے دیگر لڑکیوں کو پیچھے کیا اور زینت کو بولا کہ کسی کو اندر نہ آنے دو اور کنڈی لگا دو میں چائے بناتی ہوں زینت نے شاپر پھینکا اور بھاگ کر کنڈی لگا دی دروازے سے واپس آتی زینت نے اپنی باہوں کو پھیلا لیا اور نگاہیں ملا کر میرے قریب آتی گئی چارپائی کے پاس کھڑی سائقہ نے اپنے دوپٹے کا پلو دانتوں تلے دبا لیا زینت میرے گلے لگ گئی اور باہوں کو میرے گرد لپیٹ لیا سائقہ اپنی کمر کو بل دیکر اپنے اپنے ہپس مڑوڑنے لگی اور اپنا ایک ہاتھ اپنی ببلی پر رکھ دیا جس کو وہ پہلے ہی اپنی رانوں کا دباؤ دے چکی تھی زینت کے مجھ سے چمٹتے ہی اس کی ببلی شاید بٹک بٹک کرتی خود بخود اندر باہر ہونے لگی تھی زینت مجھے اپنے سینے کے اندر لے۔جانا چاہتی تھی میں جھک کر زینت کی گردن پر کسنگ کرتے ہوئے سائقہ سے نگاہیں ملا کر اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہنے لگا کہ تم بھی میری جان ہو زینت میرے پاس آنے کے بعد نکھر گئی تھی لیکن سائقہ زینت سے کہیں زیادہ پیاری تھی زینت کے بوبز کی گولائی اس کی نیلی قیمض پر بھی واضح ہو رہی تھی سائقہ کا رنگ اوریجنل سفید تھا موٹی آنکھیں اور جسم کی طرح بھرے بھرے گال سائقہ کے ہپس بھی زینت سے بھاری تھے اور قد زینت سے چھ انچ کم تھا زینت پانچ فٹ کی تھی اور اس طرح سائقہ کا قد 4فٹ چھ انچ تھا میں اپنی پچھلی کہانی میں بتا چکا ہوں کہ میرا قد ساڑھے چھ فٹ سے بھی کچھ زیادہ ہے میں نے زینت کو اپنی باہوں میں زور سے دبایا تو وہ وشششش وشششش کرتی مجھے اور دبانے لگی میں نے زینت کی پیٹھ سائقہ کی خانب پھیر رکھی تھی اور اب میں زینت کے ہپس کو پکڑ کر اسے اوپر کو کھینچ رہا تھا اور یہ سٹائل زینت سے زیادہ سائقہ کو پاگل کر گیا تھا وہ چارپائی پر بیٹھ گئی تھی اور اپنے گھنٹوں کو اپنے بازوؤں میں لپیٹ کر خود کو گٹھڑی بنا لیا تھا زینت اپنے ہپس کو اٹھا اٹھا کر جھٹکے مارنے لگی میں نے ہپس سے پکڑتے ہوئے اوپر اٹھا لیا تھا اس نے اپنی ٹانگیں میرے گرد لپیٹ لیں تھی اور مجھے بےتحاشہ کسنگ کرنے لگی میں نے چار قدم دور پڑی چارپائی کا رخ کر لیا جہاں سائقہ گٹھڑی بنی بیٹھی تیز سانسوں کانپتے بدن اور گلابی چہرے کے ساتھ رحم طلب نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی وہ اپنے ہپس کو کو اس سٹائل میں گول بنا کر اس پر آگے پیچھے ہو رہی تھی میں نے زینت کو اس کر پاؤں پر رکھا پر رکھ کر سائقہ کو پیچھے گراتا اس پر زینت کو رکھ دیا سائقہ وشش کرتی اپنی ٹانگیں چارپائی سے نیچے لٹکا چکی تھی زینت کا چہرہ سائقہ کے چہرے کے ساتھ چارپائی کے بان پر تھا اور اس کا باقی جسم سائقہ پر تھا میں نے سائقہ کی ران کو پکڑ کر اس کی ٹانگوں کو کھلا کرنا چاہا تو افففففففف اتنا نرم جسم میں نے آج تک نہیں چھوا تھا میرا لن پینٹ کے اندر ٹوٹنے لگا تھا ۔۔۔۔ دروازے پر دستک ہوئی اور زینت میرے نیچے اور سائقہ کے اوپر سے پھسل گئی میرا سینہ سائقہ کے بوبز کی ٹھنڈک محسوس کر کے اٹھنے لگا اور میں دو سیکنڈ میں اس کے ہونٹوں کو چوسنے کے انداز میں کس کرتا اٹھ گیا زینت دروازے کے پاس رک کر میرے بیڈ پر آنے سائقہ کے اٹھنے کا انتظار کرتی اپنا حلیہ درست کرنے لگی سائقہ نے شاپر کھول دیا اور زینت نے کنڈی کھولی تو زینت کی امی کا ہاتھ ڈش لئے اندر آیا اور ساتھ زینت سے بولی کنڈی بند کر لو زینت بہت بےتاب تھی اور میں نے اس سے کسی طور پیچھے نہیں تھا کیونکہ اتنی میٹھی لڑکی کے ساتھ میں نے یادگار لمحے گزارے تھے لیکن میں زینت کی چدائی پہلے کی طرح اہتمام سے کرنا چاہتا تھا اور ان دنوں نہ تو ایسی مناسب جگہ دستیاب ہو رہی تھی اور نہ وقت زینت نے بیڈ پر چائے کی ڈش رکھی اور ایک بار پھر میری طرف بڑھی میں نے اسے کسنگ کرتے ہوئے سمجھایا کہ خود کو کنٹرول کرو اور مناسب وقت کا انتظار کرو میں اپنے ساتھ تیری پیاس بھی جی بھر کے بجھاؤں گا میں نے سائقہ کو چارپائی سے اٹھایا اور اسے اپنی باہوں میں لے۔لیا اس کا جسم بہت نازک تھا اور میرے جسم میں اترتا جا رہا تھا اس کے بوبز ہاتھوں میں بھرے تے ایسا لگتا تھا جیسے میرے ہاتھ خالی ہوں میں بیڈ پر بیٹھ گیا اور اور سائقہ کو اپنی گود میں بٹہا لیا میری گود اس کے نازک پانی کی طرح لہرتے ہپس سے بھر گئی زینت مجھے اپنے ہاتھوں سے انڈہ کھلا رہی تھی اور میں اس کے ہاتھ سے منہ میں انڈہ لینے کے بعد سائقہ کے روئی جیسے گالوں کو منہ بھر کے کسنگ کے ساتھ حلق میں اتار رہا تھا سائقہ کا جسم لرز رہا تھا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی ببلی پر رکھ۔کر ببلی کی بٹک بٹک کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی میں نے ایک انڈہ ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے کھلانے لگا تھا چائے کے بعد میں نے سوٹ اٹھا کر سائقہ کو دے دئیے زینت بولی میں کہتی تھی ناں میرا یار لاکھوں میں ایک ہے سوٹ سائقہ نے بہت پیار بھری نظروں سے میری طرف دیکھ کر شکریہ ادا کیا زینت بی آپ صرف اس کا زبانی شکریہ ادا کرو اس کا یہ احسان بھی میں اتاروں گی سائقہ۔نے سر جھکا لیا اور میں نے کہا آپ اپنے احسان اتارنا سائقہ میرا احسان اتارتی یا نہیں یہ اس پر چھوڑ دو سوٹ سائقہ۔کو بہت پسند آئے تھے میں نے ایک قمیض اتھا کر سائقہ کہ گلے پر رکھا تو بولی قمیض کی لمبائی لم لگتی ہے زینت بولی او نہیں پاگل آجکل شارٹ قمیض کا رواج ہے اس کلر میں میں وہ اور غذب لگنے لگی تھی باہر سے زینت کی امی نے آواز دی زینت تیاری کر لو دلہن کو مہندی لگانے جانا ہے اور سائقہ کو بھی امی نے بلوا بھیجا ہے میں نے شاپر سے برسلٹ نکال کے سائقہ کی طرف بڑھایا اور کہا سوٹ زینت کی طرف سے آپ کا تحفہ ہے اور یہ چھوٹا گفٹ میری طرف سے قبول کیجئے میں نے پوچھا کہ سائقہ کا گھر کونسا ہے تو سائقہ بولی جہاں آپ کی گاڑی کھڑی ہے وہ میرا گھر ہے پھر زینت کی طرف منہ۔کرکے پوچھا اس گاڑی میں پارک جاتے تھے زینت نے میری طرف پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ہاں لیکن گاڑی سے یہ ظالم بہت قیمتی ہے سائقہ شاپر۔لیکر چلی گئی اور زینت بھی میرے گال پر تھپکی دے کر جا چکی ہیں روم کا دروازہ تھوڑا کھلا ہوا تھا اور لڑکیاں اس کے آگے گھوم کر حسرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی میں نے نعمت کو کال کر کے پوچھا تو اس نے بتایا کہ گھر پہنچنے والے ہیں اس دوران زینت کا ابو میرے پاس آ کر بیٹھا اور میرے آنے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ہم غریب لوگ ہیں اگر ہماری مہمان نوازی میں کوئی کمی آئے تو برا نہ منانا میں اس سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے اتنی پیاری بیٹی پیدا کرکے مجھ پر جو احسان کیا ہے میں وہ زندگی بھر نہیں اتار سکتا نعمت کے آتے ہی زینت کی امی کے ساتھ ایک اور خاتون بھی کمرے میں داخل ہوئی مجھے سلام کیا اور یہ دونوں سامنے چارپائی پر بیٹھ گئے زینت کی امی نے ساتھ آنے والی خاتون کا تعارف کراتے ہوئے بتایا یہ سائقہ کی امی ہے سائقہ۔کی امی نے کہا کہ آپ سے۔مل کر بہت خوشی ہوئی آپ ایک اچھے انسان ہیں لیکن زینت کی ایک کال پر بیگم صاحبہ نے جو اتنے قیمتی سوٹ بھیج دئیے ان کا احسان تو ہم نہیں اتار سکتے میں ان دونوں خواتین کا احسان نہیں اتار سکتا تھا اور کوئی الفاظ ادا نہیں کر سکتا تھا اس لئے کوئی جملہ ادا نہیں کیا میں نے ان دونوں خواتین کو دعوت دی کہ وہ بھی ہمارے گھر آئیں تو بولی آپ دعوت دیں یا نہ دیں ہم ضرور آئیں گی آپ نے ہم غریبوں کے چھوٹے پروگرام میں شرکت کرکے ہمارا مان بڑھا دیا ہے میں نے نعمت کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا کہ نعمت میرا دوست ہے کوئی ملک یا مزدور والی بات نہیں تو میں اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہوں میرا آنا تو معمولی بار ہے نعمت کا سینہ چوڑا ہو گیا سائقہ کی امی کو شوگر کا مرض لاحق تھا اور پاؤں میں درد کی وجہ سے وہ مشکل سے چلتی تھی دلہن والوں کا گھر پانچ کلومیٹر دور دوسرے گاؤں میں تھا میں نے مہندی کےلئے جانے کا پروگرام پوچھا تو زینت کی امی نے بتایا کہ چنگ چیاں آ گئیں ہیں بس تھوڑی دیر میں نکلتے ہیں پندرہ بیس لڑکیاں ہیں اور ساتھ نعمت جائے گا سائقہ کی امی بولی ہم تو گھر بیٹھیں گے چنگ چی پر نہیں جا سکتے سارا کچا رستہ ہے سائقہ جائے گی میں نے کہا اگر نعمت کہتا ہے تو گاڑی لے جاتے ہیں میں نے سائقہ کی امی کی طرف اشارہ کرتے بولا باجی تو تکلیف ہے تو یہ بھی ہمارے ساتھ چلی جائے گی وہ خوش ہوکر نعمت کی طرف دیکھنے لگی دلہن سائقہ کی امی کی بھانجی تھی زینت کی امی نے بولا کہ ہمارا ارادہ تو آپ کی گاڑی پر صرف دلہن لانے کا تھا اگر آپ آج بھی چلتے ہیں تو ہمارا مان اور بڑھ جائے گا اپنی ساس کی بات سن کر نعمت بولا کہ۔خالہ آپ جیسے کہیں گی ہم ویسا کریں گے میں نے کہا کہ بس چلتے ہیں سائقہ کی امی بولی۔پھر میں آج اپنی بھانجی کے پاس رہ جاؤں گی میں نے گاڑی گلی میں نکال لی تھی اور سائقہ کی امی کو اس کے گھر کے اندر سے ہی گاڑی میں بٹھا لیا تھا سائقہ اپنے گھر سے تیار ہو کر زینت کے گھر جا رہی تھی میرا لایا گیا سوٹ اس نے پہن رکھا تھا جو سختی سے اس کے جسم پر چپک گیا تھا سوٹ نارمل تھا اور سائقہ کا جسم بھرا بھتا پاجامے نے اس کی ٹانگوں کو ایسے جکڑا ہوا تھا کہ اس کی پندلیوں اور گھٹنے کی ابھار بھی صاف نظر آ رہے تھے اسے دیکھ کر پچھلی سیٹ پر برجمان سائقہ کی امی بولی آجکل کے فیشن اور رواج بھی ایسے ہو گئے کہ بس میں نے اسے کہا کہ یہ ہر دور میں ایسا لگتا پھر بولا کہ باجی سائقہ کو بھی ادھر بلا لو آپ کے ساتھ زینت کی امی بیٹھ جائے گی اس نے گلی میں کھڑی ایک بچی کو بھیجا کہ سائقہ کو بلا لو سائقہ کے ساتھ زینت کی امی بیٹھی اور فرنٹ پر نعمت کڑ کر بیٹھ گیا زینت آخر میں گھر سے نکل کر گاڑی کی طرف آئی تو گاڑی میں گنجائش نہیں تھی زینت کی امی اتر کر چنگ چی کی طرف بڑھ گئی اور زینت سائقہ کے ساتھ نعمت کے بالکل پیچھے بیٹھ گئی میں نے گاڑی آگے بڑھا دی شادی میں آئیں سب لڑکیاں سائقہ اور زینت کو دیکھ کر منہ میں انگلیاں ڈال رہی تھی اور دونوں ایک سے بڑھ کر اایک لاجواب بنی ہوئی تھیں میرے حواس پر اب سائقہ کے جسم کی نرمی چھائی ہوئی تھی گاڑی میں بیٹھی یہ دونوں بلائیں ایک دوسرے کا ہاتھ میں ہاتھ پکڑے مجھے کھا جانی والی نظروں سے دیکھتے خاموش بیٹھی تھی میں سب چنگ چی کے آگے گاڑی چلا رہا تھا اور ان دونوں کو نظر انداز کرکے سائقہ کی امی اور نعمت سے گفتگو کر رہا تھا شام کے بعد واپسی پر سائقہ کی امی اپنی بھانجی کے پاس رک گئی تھی اور میں نے زینت کی امی کو بلا لیا سائقہ کے گھر گاڑی کھڑی کرنے کے بعد نعمت مجھے ایک چھوٹی بیٹھک میں لایا تھا جس کی چابی نعمت کے سسر نے اس کو دی تھی کہ صاحب کو فلاں بیٹھک میں لے جانا وہاں ایک چارپائی اور ایک ٹیبل پڑی تھی لکڑی کی دروازے کے علاوہ بیٹھک کے ایک کونے میں تقریباً اڑھائی فٹ لمبا اور دو فٹ چورا پھولدار پردہ لگا ہوا تھا شام کے بعد زینت کی امی کے گھر خواتین کا رش لگا ہوا تھا چارپائی پر صاف ستھرا بستر لگا تھا نعمت مجھے وہاں بیٹھا کر پانی لینے چلا گیا میں نے موبائل نکالا تو اس پر چھ کالیں آ چکی تھی یہ سائقہ کا نمبر تھا میرا موبائل اکثر سیلنٹ پر ہوتا اور صرف وبریشن آن ہوتا میں نے ٹائمنگ دیکھی تو آخری مس کال دو منٹ پہلے آ چکی تھی میں نے کال ملا لی اور زینت نے فوراً کال اٹینڈ کرکے پوچھا کہ گھر کیوں نہیں آئے میں نے بتایا کہ تیرا ابو نعمت کو بتا گیا تھا اور وہ اس ںیٹھک میں لایا ہے نعمت پانی لیکر آ گیا تھا اور میں نے کال بند کر دی اور مسیج کر دیا کہ میں کسی بیٹھک میں ہوں کچھ دیر بعد سائقہ نے ریپلائی دیا کہ وہ اپنے گھر میں مہمان خواتین کے۔لئے بستر لگا کے پھر بات کرتی ہوں اس دوران نعمت اور میں نے کھانا کھا لیا اور نعمت برتن اٹھا کر یہ کہتے چلے گئے کہ آپ کل کے گھر سے نکلے ہوئے تھے تھکے ہونگے لہذا کنڈی لگا کر سو جائیں صبح۔ملیں گے سردی کی شدت بڑھ رہی تھی سو میں نے شرٹ اتاری پینٹ کا بلٹ کھول دیا اور بنیان کو پینٹ کے اندر کرکے سینے تک رضائی ڈال کے لیٹ گیا آج میحواس پر زینت کے جسم کی خوشبو سے کہیں زیادہ سائقہ کے بھاری ہپس موٹی آنکھیں اور گورے بدن کی نرمی چھائی ہوئی تھی ۔۔(جاری ہے


Post a Comment

0 Comments