بہت یاد آتے ہو۔ایک نئی کہانی

 

 بہت یاد آتے ہو

اس واقعے کو گزرے پانچ سال ھوئے ھوں گے لیکن آج بھی میں اس کے بارے میں سوچتی ھوں تو میں گیلی ھو جاتی ھوں حالانکہ میں اب دو بچوں کی ماں ھوں۔ میں ایک درمیانے درجے کے گھر میں پیدا ھوئی تھی۔ میرا صرف ایک بھائی تھا جو مجھ سے بڑا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ھے جب میں کالج میں پڑھتی تھی۔ھم لاھور میں رھتے تھے۔ میرے ابو ایک دفتر میں ملازم تھے اور بھائی پنڈی میں کام کرتے تھے۔ میرے دنیا میں ایک ھی دوست تھی جس کا نام نازیہ تھا۔ وہ میرے کزن بھی تھی۔ میرے امی ابو بہت سخت تھے اس لیے نہایت خوبصورت ہونے کے باوجود بھی میں فیشن نہیں کر سکتی تھی اور بڑی چادر لیکر کالج جاتی تھی۔ کالج کی بہت سی لڑکیاں مجھے صرف دیکھنے میری کلاس آتی تھیں۔ چونکہ میری ماں پٹھان تھی اسلیے میرا رنگ گورا اور صاف تھا اور بڑی بڑی کالی آنکھیں لال گلابی ہونٹ اور خوبصورت جسم۔ مجھ میں ایسی کوئ برائی بھی نہ تھی ہاں البتہ کبھی کبھی انٹرنیٹ پے سیکس کی فلم یا ویب سائٹ دیکھ لیتی تھی اور ہاں نازیہ مہینے میں جب ایک یا دو بار میرے گھر سوتی تو ہم دونوں ایک دوسرے کے جسموں سے کھیلتے۔ میرا اپنا کمرہ تھا۔ رات کو دونوں ننگے ہو کر سوتے تھے اور ایک دوسرے کے ممے دباتے اور چوت بھی ملتے تھے جس سے ہمیں بہت مزہ آتا تھا۔ بس یہی ہماری انجوائمنٹ تھی۔ ہم ہر ایک بات ایک دوسرے سے شئر کرتے تھے۔

پھر کیا ہوا کیا ایک لڑکا نازیہ کو پسند کرنے لگا اور نازیہ بھی اسے پسند کرتی تھی۔ نازیہ جب بھی کالج سے چھٹی کر کے علی سے ملنے جاتی تو میں سارا معاملہ سنبھال لیتی۔ چند ہی ملاقاتوں کے بعد انھوں نے سیکس بھی شروع کر دیا۔ اب جب رات کو نازیہ میرے سات سوتے تو مجھے اپنے سیکس کے قصے سناتی اور سناتے ہوئے میری چوت بھی ملتی تھی جس سے مجھے بہت مزہ آتا تھا۔ اس کی باتیں سن کے میرا بھی بہت دل کرتا تھا کہ میں بھی کسی سے چودوایا کروں لیکن ماں باپ کا سوچ کر خاموش ہو جاتی۔

ہمارے پڑوس میں بی بی مکھنی رہتی تھی۔ اس کے چار بچے تھے۔ اس کا خاوند ایک مل میں ملازم تھا اور ۳۸ یعنی اڑتیس سال کا ہو گا لیکن بلوچستان کے پہاڑی علاقے کا ہونے کی وجہ سے بڑے کاٹھ کا اور سخت جسم کا تھا اور کافی سانولا رنگ تھا۔ بس ایسا تھا کہ اگر ایک بار دیکھا تو شاید دوسرے بار آپ دیکھنے کی تکلیف نہ کریں۔ میں نے نوٹ کیا کہ وہ مجھے چھت پہ چڑھ کر تاڑتا رہتا ہے۔میں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ ایک دفعہ امی ابو نے دوسرے شہر جانا تھا اور رات ٹہرنا تھا تو میں نے نازیہ کہ سونے کے لیے بلا لیا۔ اکثر ہم ایسے ہی کرتے تھے۔ شام کو نازیہ نے مجھے منت سماجت کر کے راضی کرلیا کہ وہ علی کو رات کو یہاں بلا لے۔ رات دس بجے علی آیا اور ساتھ ہی ہمارے لیے کھانا بھی لے آیا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں میرے کمرے میں چلے گئے اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا کہ ابھی اندر کیا ہو گا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے کی ہول سے اندر جھانکنا شروع کر دیا۔ کیا دیکھتی ہوں کے علی نے نازیہ کو گلے لگایا ہوا ہے اور ایک ہاتھ سے نازیہ کی گانڈ پہ ہاتھ پھیر رہا ہے۔ چند ہی لمحوں بعد نازیہ جھکی اور علی کی پینٹ کی زپ کھول کے اس کا لنڈ نکال کے ہاتھ میں لیا اور پھر منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ یہ منظر دیکھ کے میرے بدن میں بجلی دوڑنے لگی اور میرا ہاتھ میرے شلوار میں چلا گیا اور میں نے محسوس کیا کہ میرے چوت گیلی ہو رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں علی نے کپڑے اتار دیے اور نازیہ کو بھی ننگا کر دیا اور پھر علی نے اپنا لنڈ نازیہ کی چوت کے ہونٹوں پے ملنا شروع کر دیا۔ میں نے بھی اپنی انگلی سے اپنی چوت کو سہلانا شروع کر دیا۔ پھر علی بیڈ پے لیٹ گیا اور نازیہ اس کے اوپر آ گئی اور اس کے لنڈ پے ایسے بیٹھی کہ علی کا سارہ کا سارہ لنڈ نازیہ کی چوت میں چلا گیا۔ اب اور آگے مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں اپنے کمرے میں آ گئی۔ سامنے دیکھا تو وہی پڑوسی مجھے اشارے کر رہا تھا۔ پتا نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں مسکرا دی۔ اب وہ اس بیڈ روم میں گیا جو میرے بیڈروم کے سامنے تھا اور وہاں سے اشارہ کیا۔ میں پھر مسکرا دی۔ وہ ٹراؤزر پہنے کھڑا تھا۔ اس نے ٹراؤزر میں سے اپنا کالا لنڈ نکال کے مجھے دیکھایا۔ میں نے گھبرا کر لائٹ بجھا دی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ مجھے غُصہ بھی بہت آیا کہ دیکھو چار بچوں کا باپ اور مُجھ اٹھارہ سالہ لڑکی سے عشق لڑاتا ہے۔ خیر میں پھر کی ہول سے علی اور نازیہ کا تماشہ کرنے لگی۔اب دیکھا کہ علی نازیہ پے چڑھا ہوا ہے اور نازیہ کی ٹانگیں

اپنے کاندھے پے رکھ کے زور زور سے گھسے مار رہا ہے۔علی کا لُلا نازیہ کی چُوت میں اندر باہر ہوتے دیکھ کر مجھے بہت بیچینی سی ہوئی۔ میں نیچے آ کر کمپیوٹر پے سیکس فلمیں دیکھنے لگی۔ ایک فلم میں ایک بڑا کالا لنڈ دیکھا۔ یہ بلکل پڑوسی ناصر کے کالے لنڈ کی طرح تھا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے مجھے دیکھایا تھا۔ فلم میں اس کالے لنڈ نے گوری کو اتنا مزہ کروایا کہ گوری پاگل ہو گئی۔

اب میرے ذہن میں بار بار ناصر کے کالے لنڈ کے خیال آنے لگے۔ خیر میں نے پھر جا کر اُن کو دیکھا تو اب نازیہ ڈوگی سٹائل میں چودا رہی تھی۔ میں اپنے کمرے میں آکے لیٹ گئی لیکن بہت دیر تک نیند نہ آئی۔

اگلے دن صبح سویرے علی چلا گیا۔ شام کو امی ابو بھی آگئے۔ اگلے دن میں بی بی کے گھر گئی۔ وہ بہت اچھی عورت تھی۔ مجھ سے کہنے لگی کہ میری بہن کی شادی ہے اور ہم لوگ اگلے جمعرات کو گاوں جا رہے ہیں دو ہفتے کے لیے۔ ناصر یہاں ہوگا اگر چھٹی ملی تو ولیمے کو آ جائے گا۔ آج اتوار ہے کافی تیاری کرنی ہے۔ خیر میں گھر آ گئی۔ رات کو سوتے میں پھر مجھے نہ جانے کیوں ناصر کا کالا لنڈ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ میں سارے رات اُس کے بارے میں سوچتی رہی۔ کالج میں بھی اس خیال سے چُھٹکارا نہ پا سکی۔ شام کو ابو کے کزن نے ملتان سے فون کیا کہ اُن کے ہاں شادی ہے اور سب کو آنا پڑے گا اور آپ لوگ اس بُدھ کو پہنچ جائیں کیونکہ تیاری بھی آپ لوگوں نے کروانی ہے۔ میں نے تو جانے سے صاف انکار کر دیا اور بہانا بنایا کہ میرے ٹیسٹ ہیں۔ اگلے دن جب میں نے نازیہ کو یہ بتایا تو وہ تو خوشی سے پاگل ہو گئی۔ اب تو دو یا تین دن خوب عیاشی کریں گے۔ مجھے کوئی خوشی نہ ہوئی کیونکہ نازیہ تو اپنے یار سے چُوت مروائے گی اور میں ویسے ہی پریشان ہوں گی۔

رات کو پھر مجھے ناصر کا کالا لنڈ انکھوں کے سامنے آ گیا۔ پھر میں نے ایک عجیب فیصلہ کیا کہ میں ناصر سے یاری لگاؤں گی۔ اس میں ایک فائدہ ہے کہ شادی شدہ شخص ہے کم از کم بلیک میل تو نہیں کرے گا۔ اپنے بیوی بچوں کی خاطر احتیاط برتے گا۔ یہ فیصلہ کر کے میں اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کرنے لگی۔اب میں نازیہ کو بتاوں گی کہ اس بار ایک کمرے میں وہ علی سے چودوائے گی تو دوسرے کمرے میں میں بھی مزے کروں گی۔ لیکن یہ سب میں نے نازیہ کو نہیں بتایا۔ دوسے دن میں بی بی مکھنی کے گھر گئ تو ناصر بھی تھا۔ اس نے چُھپ کے مُجھے آنکھ مارے تو میں مُسکرادی۔ وہ بُہت خُوش ہوا اور سمجھا کہ لڑکی پھنس گئی۔ خیر امی ابو نے جمعرات کو مُلتان جانے کا فیصلہ کیا ۔ بُدھ کے دن بی بی مکھنی اپنے گاوں چلی گئی اپنے بچوں سمیت اور میرے امی ابو اگلے صُبح جانے کی تیاری کرنے لگے۔ شام کو میں بُہت بیچین تھی۔ وقت نہیں کٹ رہا تھا۔ اپنے کمرے میں آگئی اور شلوار اُتار کے شیشے کے سامنے اپنی کنواری چُوت دیکھنے لگی۔ اپنی چُوت کے ہونٹوں کو کھول کے اپنا تنگ سا سُوراخ دیکھا اس میں میرے چھوٹی اُنگلی بھی نہیں جاتی تھی لیکن کل اس میں ناصر کا بڑا کالا لنڈ جائے گا اور پھر یہ سُوراخ اتنا تنگ نہیں ہو گا۔ میں اندر باتھ روم گئی اور اپنی چُوت کریم سے شیشے کی طرح صاف کی تاکہ ناصر کو پسند آئے۔ یہ سب کُچھ کرنے کے بعد سوچا کہ یہ سب ہو گا کیسے؟

آخر میرے ذہن میں ایک پلان آیا۔ میں نیچے کچن میں گئی اور کھیر بنانے لگی۔ کھیر تھوڑی ذیادہ رکھی تاکہ میں کل کھیر دینے کے بہانے جب ناصر کے گھر جاؤں گی تو وہ اکیلا ہو گا اور مُجھ پر ضرور ٹرائی مارے گا۔ سو اگلے دن کے سہانے سپنے لیے میں سو گئی۔ دوسرے دن امی ابو صُبح سویرے چلے گئے اور نازیہ نے کالج کے بعد آنے کا کہا تھا۔ اب میں تیار ہونے لگی۔ کُھلے گلے والی قمیص پہنی تاکہ سینے نظر آسکیں۔ شلوار پہنی لیکن پینٹی نہیں پہنی۔ سوچا ناصر کو اس کو اُتارنے میں وقت لگے گا۔ جب امی ابو کو گئے دو گھنٹے ہو گئے اور مُجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ چلے گئے ہوں گے تو میں دھڑکتے دل کے ساتھ کھیر کی پلیٹ لیے ناصر کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ناصر نے دروازہ کھولا۔

میں (جی کھیر لائی ہوں آپ کے لیے )

ناصر ( شُکریہ پلیز فریج میں رکھ دیں)

مُجھے پتہ تھا فریج کہاں ہے۔ میں کچن میں گئی اور کھیر رکھنے لگی۔ اس تمام وقت میرا دل دھک دھک کرتا رہا۔ میں جیسے ہی کچن میں گئی ناصر نے دروازے پے پکا لاک چڑھا دیا۔ میرا دل اُچھل کے حلق میں آ گیا۔ میں نے انجان بن کے پوچھا ( بی بی کہاں ہے ؟) ناصر نے جواب دینے کی مُجھے جکڑ لیا اس کے دونوں ہاتھ

میرے سینے پے اور اپنا لنڈ میرے گانڈ پے رگڑنے لگا۔

میں نے کہا ( پلیز مُجھے جانے دو میں بی بی کو بتاوں گی۔ دیکھو میں ایسی لڑکی نہیں ہوں۔ پلیز مُجھے جانے دو لیکن دل ہی دل میں خُوش تھی کہ ناصر نے سب کُچھ وہی کیا جو میں نے سوچا تھا۔

ناصر ( دیکھو گھر میں کوئی نہیں ہے لہٰذا شور سے کچھ نہیں بنے گا ہاں کوئی آ گیا تو اُلٹی تُمہاری بدنامی ہو گی۔

میں ( پلیز مُجھے جانے دو مُجھے ڈر لگ رہا ہے۔ پلیز کوئی دیکھ لے گا )

ناصر ( یہاں کوئی بھی نہیں ہے گھبراؤ نہیں کوئی نہیں دیکھے گا )

یہ کہہ کر ناصر نے ٹراؤزر سے اپنا کالا لنڈ نکالا اور میری گانڈ پے رگڑنے لگا اور ہاتھوں سے میرے ممے بھی دبانے لگا۔ اُس کے ایسا کرنے سے میں گہری سانسیں لینا شروع کر دیں ۔ میرا یہ حال دیکھ کر ناصر کا اور حوصلہ بڑھا اور اُس نے اپنا ہاتھ میری قمیض میں ڈالا اور میرے ممے پکڑ لیے۔

میں ( پلیز ایسا نا کرو اور مُجھے جانے دو)

اُس نے میرا جواب دینے کی بجائے میرے شلوار نیچے کی اور اپنا لنڈ اب میری ننگی گانڈ پے ملنے لگا۔ اُس کے ایسا کرنے سے میرے جسم میں بجلیاں سے دوڑنے لگیں۔ اب میں نے سوچا کے اب اور نہیں منع کروں۔

میں ( اچھا پلیز وعدہ کرو کسی کو نہیں بتاؤ گے۔ اور پلیز دروازاہ بند کر لو۔ )

ناصر ( وعدہ کے یہ راز اپ کے اور میرے درمیان رہے گا ۔ اچھا اب مان جاؤ اور چلو بیڈ روم میں چلتے ہیں )

اس کی یہ بات سُن کر تھوڑا حوصلہ ہوا اور میں نے بھی اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ ناصر آگے بڑھا اور مُجھے بچوں کی طرح گود میں اُٹھا کر بیڈ پے لٹا دیا اور میری قمیض اُٹھا کر اور میرے نپل چُوسنے لگا۔

میں ( دیکھو ناصر مُجھے بُہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں نے پہلے کبھی ایسا کام نہیں کیا اور سپنا ہے کہ پہلی بار بُہت تکلیف ہوتی ہے)

ناصر ( فکر نہ کرو جانی میں ایسے پیار اور آرام سے کروں گا کہ آپ کو زیادہ تکلیف نہیں ہو گی ) یہ کہتے ہی وہ میرے قمیض اُتارنے لگا اور پھر میری شلوار نیچے کرنے لگا۔ میں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

میں ( نہیں نہیں مُجھے شرم آتی ہے ناصر پلیز یہ نا اُتارو)

ناصر ( شرماؤ نہیں ادھر تو صرف میں اور آپ ہیں اور شلوار نہیں اتارو گی تو مزہ نہیں آئے گا) یہ کہہ کر اس نے میرے شلوار گُھٹنوں تک نیچے کر لی اور پھر میریے ٹانگیں اُوپر کر کے سارے اُتار لی۔ اب میں بلکل ننگی لیٹی تھی۔ اور ناصر کے بڑے کالے لنڈ کو دیکھ رہی تھی اور گھبرا بھی رہی تھی کہ اتنی موٹی بلا میرے چُوت میں کیسے جائے گی اور اگر گئی بھی تو یہ تو سب کُچھ پھاڑ کے رکھ دے گی۔ ناصر نے اب مُجھے سر سے پاوں تک کس کیا۔ پھر میرے پاوں کھولے اور پھر چُوت سہلانے لگا۔ مُجھے بُہت مزہ آیا۔ پھر ناصر نے اپنی چھوٹی اُنگلی میری چُوت میں ڈالنے کی کوشش کی۔ مُجھے بہت درد ہوا۔

میں ( ناصر یہ کیسے ہو گا؟۔ اتنا تنگ سُوراخ ہے کے اُنگلی بھی نہیں جاتی تو یہ آپ کی اتنی بڑے چیز کیسے جائے گی ؟ مُجھے ڈر لگتا ہے بُہت درد ہو گا نا؟ )

ناصر ( ارے نہیں میرے رانی بس تھوڑا سا درد ہو گا پہلے بار پھر مزا آئے گا آپ کو)

میں ( اچھا پلیز آرام سے کرنا )

ناصر گیا اور الماری سے کریم نکال لایا۔ پہلے اُس نے اپنے لُلے پے کریم لگائی پھر میرے چُوت پر اور میری ٹانگوں کے درمیان آ گیا، میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُس نے میری ٹانگیں کھولیں اور اپنا لنڈ ہاتھ میں لے کر آگے آیا اور اپنے لنڈ کی ٹوپی میری چُوت پے ملنے لگا۔ میرے بدن میں بجلیاں سی دوڑ گئیں۔ پھر اُس نے اپنے للے کو میرے چُوت کے سُوراخ پے رکھ کر تھوڑا دبایا تو میرے چیخیں نکل گئی۔

میں ( پلیز ناصر آرام سے بُہت دُکھتی ہے)

ناصر پیچھے ہٹ گیا اور پھر اپنے لنڈ کی ٹوپی میرے چُوت کے ہونٹوں پے ملنے لگا۔ مُجھے پھر بُہت مزا آیا اور فیصلہ کیا کہ اب تھوڑا درد برداشت کر ہی لوں ایک بار۔ ناصر نے پھر کریم لگائی اور اپنے لنڈ کی ٹوپی میری چُوت کے سُوراخ پے رکھی۔ میرے چُوت میں گُدگُدی ہونے لگی اور میں ناصر کا لنڈ اپنی چُوت میں لینے کے لیے بیتاب ہونے لگی۔ اب ناصر نے اپنے لنڈ کو ٹھیک کر کے زور سے جھٹکا لگایا اور اپنے لنڈ کی ٹوپی اندر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ درد سے میرے چیخیں نکل گئی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ مُجھے بُہت درد ہوا اور درد سے میرے آنسو بہنے لگے۔ ناصر یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا اور گھبرا کر اپنا لنڈ باہر نکال لیا۔ ناصر کے لنڈ کی ٹوپی خُون سے بھری تھی اور خُون نیچے چادر پے بھی گرا تھا۔ ناصر میرے اُوپر جُھک گیا اور میرے آنسو بھری آنکھیں چُومنے لگا۔ پھر ناصر نے تولیے سے میرے چُوت صاف کی

ناصر ( صبا مُجھے پتا نہیں تھا کہ اتنا درد ہو گا آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میرا دل کٹاجا رہا ہے۔)

ناصر کی یہ باتیں سُن کے میں اپنے سارے درد کہ بھول گئی اور مُسکرانے لگی اور اُٹھ کے اپنے ہونٹ ناصر کے ہونٹوں پے رکھ دیے۔

میں ( ناصر آپ بُہت اچھے ہیں آپ کی خوشی کے لیے میں ہر درد سہنے کو تیار ہوں۔ یہ کہہ کر میں اپنی ٹانگیں کھول کے لیٹ گئی۔ ناصر نے پھر کریم لگائی اور پوزیشن لی اور اپنی لنڈ کی ٹوپی میری چُوت پے رگڑنے لگا۔ مُجھے درد کے باوجود پھر مزہ آنے لگا اور میرے چُوت گیلی ہونے لگی۔ ناصر نے یہ دیکھ کر اپنا لُلا پھر میری چُوت کے سُوراخ پے رکھا اور میرے اُوپر جُھک کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور پھر اپنے لنڈ کی ٹوپی میرے چُوت کے اندر کی۔ مُجھے پھر درد ہوا لیکن میں برداشت کرتی رہی۔ اب ناصر نے اپنے لنڈ کی ٹوپی کے بعد تھوڑا اور اندر کیا۔ مُجھے بُہت درد ہو رہا تھا لیکن میں چُپ تھی۔ مُجھے خاموش دیکھ کر ناصر نے دو انچ اور اندر کر دیا۔ اب درد میرے برداشت سے باہر ہونے لگا

میں ( ناصر پلیز بس کرو مُجھے بُہت درد ہو رہا ہے۔ )

ناصر ( اچھا اور اندر نہیں کرتا بس اس کو ادھر ہی رہنے دیتے ہیں۔ آپ پلیز ہلو نہیں) یہ کہہ کر ناصر نے میرے بدن سے کھیلنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں درد کم ہوا تو اب مُجھے مزا آنے لگا۔ میرے چہرے پہ مُسکراہٹ دیکھ کے ناصر نے اپنا لنڈ آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ اب مُجھے تھوڑا تھوڑا مزہ آنے لگا۔ میرے چہرے پر اطمینان دیکھ کر ناصر نے اب اپنا لنڈ آزادی سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ ناصر نے چند ہی بار اندر باہر کیا ہو گا کہ میں فارغ ہو گئی اور میری چُوت کا گرم گرم پانی باہر آنے لگا۔ یہ دیکھ کر ناصر نے اپنا لنڈ باہر نکال لیا جو کہ میرے پانی اور خُون سے بھرا ہوا تھا۔ ناصر جلدی سے اُٹھ کر گیا اور تولیا لے کر آیا ، پہلے میری چُوت صاف کی پھر اپنا لنڈ صاف کیا۔ پھر میرا سر اپنی گود میں لے کر بیٹھ گیا اور پیار سے میرے بالوں میں اُنگلیاں پھیرنے لگا اور کبھی کبھی نیچے جُھک کے میرے آنکھیں بھی چُوم لیتا۔

ناصر (میں بُہت خُوش قسمت ہوں کے مُجھ جیسے شخص کو آپ جیسی پیاری دوست ملی ہے۔ میرے عُمر بھی زیادہ ہے اور شکل و صورت بھی کوئ خاص نہیں اور شادی شُدہ بھی ہوں۔ پھر بھی آپ نے مُجھے پسند کیا۔ حالانکہ آپ جیسی نوجوان اور خوبصورت لڑکی کسی اچھے سے اچھے نوجوان کو اشارہ بھی کرتی تو وہ دوڑا چلا آتا۔)

میں ( آپ بُہت اچھے انسان ہیں اور میرے لیے یہی کافی ہے۔ )

ناصر ( یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ ناصر اپنا سر کٹا دے گا لیکن آپ کی عزت پے آنچ نہیں آنے دے گا ۔)

میں ناصر کی گود سے اُٹھی اور ناصر کو گلے لگا لیا اور اپنے گلابی ہونٹ ناصر کے سگریٹ کے جلے ہوئے ہونٹوں پے رکھ دیے۔

میں ( کام پے کب جائیں گے آپ ؟)

ناصر ( آج رات آٹھ بجے ۔ کیوں کیا بات ہے؟ )

میں ( جی امی ابو گھر پے نہیں ہیں اور اگر آپ کی چُھٹی ہوتی تو رات کو بھی ملاقات بھی ہو سکتی تھی۔)

ناصر ( آج رات ڈیوٹی تو تھی لیکن اب نہیں ہے۔ سو آج رات آپ آئیں تو میں کھانا باہر سے لے آؤں گا اور دنوں مل کے کھائیں گے ۔

میں ( پکا )

ناصر ( پکا)

ناصر ’’ میری رانی ایک بات مانو گی ؟

میں ’’ کیوں نہیں آپ کہ کے تو دیکھیں ‘‘

’’ آپ مُجھ سے سیکسی باتیں کیا کریں اور بلکل آزادی کے ساتھ یعنی شرمائیں نہیں۔

میں ’’ ٹھیک ہے کوشش کروں گی ‘‘ میں نے اُٹھ کر کپڑے پہن لیے اور ناصر نے بھی اپنی دھوتی باندھ لی۔ ناصر صوفے پہ بیٹھ گیا اور میں اُس کی گود میں بیٹھ گئی

ناصر ’’ آپ میرے پالتو بلی ہو ‘‘ میں نے پیار سے اُس کی گردن کے گرد اپنی بانہیں ڈال دیں اور بُہت دیر تک باتیں کرتے رہے ۔ میں ابھی تک ناصر کی گود میں بیٹھی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ میری گانڈ کے نیچے ناصر کی گود میں کوئی چیز سخت سی چُبھ رہی ہے۔ دراصل یہ ناصر کا لنڈ تھا جو پھر جُوش میں آ رہا تھا اور میری نرم نرم گانڈ کو گُدگُدا رہا تھا۔ اب میں نے فیصلہ کر لیا تھا کے ناصر سے شرماوٗں گی نہیں۔ سو میں نے اٹھ کر ناصر کی دھوتی میں ڈالا اور اُس کے سخت لنڈ کو باہر نکالا۔

میں ’’ تو جناب کو پھر جُوش آگیا ہے؟ ناصر یہ بتاوٗ یہ آپ نے اتنا بڑا کیسے کیا یہ تو بہُت بڑا ہے۔کیا کھلاتے ہو اس کو ؟

ناصر ’’ ہم دیہاتی لوگ ہیں بس دودھ لسی اور مکھن کا کمال ہے اور یہ آپ کے احترام میں دوبارہ کھڑا ہوا ہے۔ اگر آپ کا مُوڈ ہو تو ایک بار پھر سیکس ہو جاےٗ۔

میں ’’ ایک شرط پر کے اس بار میں سب کچھ کروں گی ۔

ناصر ’’ یہ تو اور بھی اچھا ہے ۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں صوفے سے اُتری اور ناصر کی دھوتی اُتار کے ننگا کر دیا اور اُس کا کھڑا ہوا لُلا اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پہلے اُس کی ٹوپی کو چومتی رہی پھر اُسے مُنہ میں لے لیا۔ پھر اُس کے لُلے کی ٹوپی سے لے کر ٹٹوں تک اپنی زُبان سے چاٹتی رہی۔ پھر میں نے ناصر کے ٹٹے اپنے مُنہ میں لے کر چُوسے۔ مُجھے ایسا کرتے دیکھ کر ناصر کو بُہت مزہ آرہا تھا

میں اُٹھی اور اپنے کپڑے بھی اُتار دیے اور صوفے پے چڑھ کر ناصر کی گود میں ایسے بیٹھی کے میرا مُنہ ناصر کی طرف تھا۔ پھر تھوڑی سی گانڈ اُوپر کی اور ناصر کا موٹا لنڈ ہاتھ اور تھوڑی سی گانڈ ایسے نیچے کی کہ اُسکے لنڈ کی ٹوپی میرے چوت کی اندر چلی گئی۔

میں ’’ آہ اُی ‘'

ناصر ’’ کیا ہوا پھر درد ہو رہا ہے کیا؟

میں ’’ نہیں یار مزہ آ رہا ہے

ناصر ’’ سارا اندر جانے دو نا تو اور بھی مزہ آےٗ گا ‘میں ’’ اچھا نہ اتنے بے صبرے کیوں ہو رہے ہو۔ پہلے مُجھے ٹوپی کا تو پورہ مزہ لُوٹ لینے دو ‘‘ اب میں نے اپنی گانڈ اور نیچے کی اور ناصر کا لنڈ دو انچ اور اندر چلا گیا ۔

میں ’’ اہ اُف میں مر گئی آہ ۔ بُہت مزہ آ رہا ہے یار مجُھ سے براداشت نہیں ہو رہا۔ ‘‘ اب میں نے گانڈ ساری ایسے نیچے کی کہ ناصر کا لنڈ جڑوں تک میرے چوُت میں چلا گیا اور مزے سے چکرا گئی ۔۔

میں ’’ ہمم ای اہ ‘‘ اب میں نے اپنے جسم کو ناصر کے قریب کیا اور دیوانوں کی طرح ناصر کو چوُمنے لگی۔ کبھی ماتھے پہ تو کبھی آنکھوں پہ تو کبھی ہونٹوں پہ تو کبھی گردن پہ۔ ناصر نے بھی اپنی مضبوط بانہوں سے میری کمر کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔

میں ’’ ناصر کاش وقت یہاں رُک جایے،۔ دل کرتا ہے اپ کا لنڈ سارے عمُر میری چوُت میں اسی طرح پڑا رہے اور میں مزے لیتی رہوں ۔ یہ کہہ کر میں نے اپنے ہونٹ پھر ناصر کے ہونٹوں پہ رکھ دیےٗ ۔ اب میں نے اپنی زبان ناصر کے منہ میں ڈالی اور پھر اُسکی زبان چوسی۔ مجُھے بہُت مزہ آ رہا تھا کیوں کہ ناصر کا پورا لنڈ میری چوُت میں تھا، اُس کے ہاتھ میری کمر کے گرد تھے اور وہ میرے ممے چوُس رہا تھا۔ اب میں نے اپنی گانڈ آگے پیچھے ایسے ہلانی شروع کر دی اور پاگلوں کی طرح ناصر کو چومتی رہی۔ اب ناصر بھی گرم ہو گیا اور دونوں ھاتھوں سے میری گانڈ پکڑ لی اور آگے پیچھے کرنے لگا۔ اُس کے ایسا کرنے سے اُس کا کالا لُلا میرے چوُت کے اندر باہر آجا رہا تھا۔میں مزے سے پاگل ہوئی جا رہی تھی۔ اس مزے اور جوش میں، میں نے اسپیڈ پکڑ لی پھر ناصر زور سے چنگھاڑا اور اس کے لُلے نے میری نازک چوت میں منی کی پچکاریاں مارنی شروع کردیں ہم دونوں اپنی گرمی نکال چکے تھے کافی دیر ایسے ہی پڑے رہے پھر میں اپنے گھر واپس آگئی ۔چھپ کر سیکس کرنے کا جو مزہ مجھے اس دن ملا وہ شادی کے بعد نہ ملا۔

ختم شد

 best hot urdu novels

hot and bold urdu novels online

hot and bold urdu novels pdf fb

bold and hot romantic urdu novel

hot and bold urdu novels list

hot urdu novel club

Post a Comment

0 Comments