دیہاتی لڑکی ۔ چھٹی قسط

 


دیہاتی لڑکی

چھٹی قسط

تحریر: ماہر جی


میں نے اپنے ہاتھوں کی تلیاں سائقہ کے ہپس پر ٹکا رکھی تھی اور اپنی انگلیوں سے اس کے ہپس اور کمر کے درمیانی خم کو پکڑ رکھا تھا میں نے کہا جان اپنی پوزیشن قائم رکھنے کی کوشش کرو یہ باہر نکل آئے گا مجھے مزہ نہیں آ رہا ۔۔۔۔سائقہ نے کانپتے ہپس کو تھوڑا اوپر اٹھاتے ہوئے اونہہہہہہہ اونہہہہہہ کی سینے سے نکلتی آوازوں کے ساتھ اپنی کمر کو تھوڑا نیچے لانے کی کوشش کی میں نے پوچھا ۔درد ہو رہا ہے ؟؟؟ ایک لمحے کے وقفے کے بعد اپنا سر معمولی سے ہلا کر ہاں ں ںآآآآآآ بولا ابھی تک ببلو کو وہیں روکے اس کے اوپر اٹھے سنگِ مرمر جیسے ہپس سے لوشن کی ایک موٹی لکیر اس کی جھکی کمر کے جانب بہت آہستہ چل رہی تھی بولی ۔۔۔ کڑاہتے ہوئے بولی آنکھیں اور زبان باہر کو آنے لگتی میں نے لوشن کو اپنے انگوٹھوں کی مدد سے اس کے ہپس سے آگے پھیلاتے ہوئے بولا بس تھوڑا سا جان ۔۔۔۔ پہلے سے قدرے اونچی آواز میں اونہہ کر دیا ۔۔۔ میں نے ببلو کو رحم کی اپیل کرتے ہوئے آہستہ سے اپنی کمر ہلانے لگا سائقہ اپنے بازوؤں کو اکڑاہے اپنے ہاتھوں میں بستر کی چادر کو ڈبوچ رکھا تھا ببلو کے ڈنڈے کے تقریباً ساڑھے تین انچ حصہ باہر ہونے کے باوجود سائقہ کے موٹے پیچھے کو نکلے ہپس سے میرا جسم ٹکڑا رہا تھا ببلو جیسی کسی نرم چکنی مٹی میں ریشم جیسے احساس کے ساتھ کسی تنگ و تاریک وادی میں آہستہ سے آ جا رہا تھا لذت کے ان لمحات کو میں قدرے کھلے منہ کے ساتھ لمبی سانسیں لے کر اس کی ہارڈ مووی کو اپنی میموری میں محفوظ کر رہا تھا سانقہ۔نے جھکے سر کو اوپر اٹھا بالو ں کو اپنے کندھوں پر ڈال دیا تھا اس کی اونہہہہ اونہہہہہ کی آوازوں میں کمی آ گئی تھی اس نے اپنے جسم کو تھوڑا ڈھیلا چھوڑ دیا تھا اور میرے آگے بڑھنے پر اس کے ہپس تھوڑا پیچھے آ جاتے ببلو کے آس پاس میری ٹانگوں کے خم سائقہ کے ریشمی ہپس سے بھرنے لگے تھے سائقہ نے اب مدھم آواز میں وششش وشششششش شروع کر دی تھی اس نے اپنا بائیں ہاتھ پیچھے کر کے اس کے ہپس کو پکڑے میرے بائیں ہاتھ پر پہنچ گیا سائقہ نے میرے ہاتھ کی انگلیوں کو پکڑا اور اسے اپنے پیٹ کا نرم لمس دیتی اپنی ببلی پر آ کے چھوڑ دیا میں نے اپنے ہاتھ کی درمیانی انگلی کو اس کے ہپس پر پڑی لوشن سے لت پت کر کے واپس اس کی ببلی پر لے گیا اور ببلی کی لکیر میں آہستہ سے چلنے لگا سائقہ نے وشششش وشششش کرتے اپنی ببلی کوگھوٹ گھوٹ کر میری انگلی پر رگڑنے لگی میں نے اپنی فنگر کو لکیر کے اندر ببلی کے منہ پر رکھ دیا بٹک بٹک کرتی ببلی نے رفتہ رفتہ میری فنگر کو اندر کھینچنے لگی سائقہ ہونہہہہہہہ ہونہہہہہہہہ کی مدھم لمبی آوازوں کے ساتھ اپنے ہپس کو پیچھے دھکیلنے لگی تھی میرے جسم میں اکڑاہٹ آنے کے ساتھ آنکھیں اس دلکش مزے میں قدرے بند ہونے لگیں تھی آخری پر لذت لمحات میں میں شدت جذبات میں اپنا بائیں پاؤں کا پنچہ چارپائی کے بازو پر ٹکا کر سائقہ کے کندھے کو پکڑ کر ایک جھٹکے میں باقی بچے ببلو کو اندر بھرنے کی کوشش کی سائقہ وائی ی ی ی ی وائی ی ی ی ی کرتی چارپائی پر آگے کو گرتی چلی گئی چارپائی پر ٹکائے میں نے اپنے پاؤں پر دباؤ بڑھاتے ہوئے بستر پر اپنا پیٹ رکھتی سائقہ کے ہپس پر بیٹھ گیا مادہ اندر گرنے لگا تھا سائقہ اپنی پوری آنکھیں اور منہ کھولے اپنے گلے میں پھنسی کسی چیز کو نگلنے کی کوشش کر رہی تھی میں آہستہ سے تھوڑا پیچھے ہو کر اس کی گول بھری بھر رانوں پر بیٹھ گیا میں کچھ دیر ساکت بیٹھے رہنے کے بعد پرسکون انداز میں لوشن کو سائقہ کے جسم پھیلا کر اسے مساج کر رہا تھا سائقہ نے اپنی ٹانگوں میں تھوڑی حرکت پیدا کر دی اور میں ببلو کو آہستہ آہستہ اوپن ائیر میں لانے لگا میری لمبی سانسوں کے ساتھ جسم پر پسینے کے آثار نمایاں تھے میں سائقہ کو اپنی طرف گھماتے ہوئے اس کے ساتھ لیٹ گیا تھا وہ بند آنکھوں کے ساتھ سائقہ نے اپنی ایک ٹانگ میری ٹانگوں کے بیچ رکھ کر میرے جسم سے چپک گئی اس کی کلائی میرے بغل کے نیچے دبا ہوا تھا کچھ دیر۔بعد اس نے آنکھیں کھول لی اور مجھے تکنے لگی پھر ایک دم سے اٹھتے ہوئے بولی میں آپ کی بہن کو دیکھ کے آتی ہوں کہیں اٹھ نہ گئی ہو ۔۔۔ میرے اوپر سے گزرتی سائقہ کے بوبز میرے لبوں سے رگڑ کر اس طرف گزرے تو میں نے ان پر ہلکی کس کر دی وہ چارپائی سے نیچے اترتی ہوئی مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی بھکا کہیں کا۔۔۔۔ دروازے کے اس طرف روم کے کونے میں لگی دیوارگیر پر کچھ کپڑے لٹکے ہوئے تھے وہ اس طرف ہپس مٹکاتی چل دی ہپس کی درمیانی لکیر سانپ کی طرح بل کھاتی جا رہی تھی اس نے ایک سبز کلر کا موٹا سا سوٹ پہنا اور ایک بڑی چادر لپیٹ کر دروازے کی طرف جاتی پھر میری طرف لپکی چارپائی کے بازو سے نیچے لٹکی راضی کو اٹھایا اور اسے کھول کر میرے اوپر ڈالتی بولنے لگی بہت گرمی چڑھی ہے تجھے میں نکالتی ہوں آج صبر کرووو پھر آنکھيں پھیلا کر سر ہلانے لگی اور دروازے کے پاس جا کر پیچھے مڑ کر بولی امی جاگ گئی ہو گی تو میں کچھ دیر سو جاؤں گی ۔۔۔ اس نے باہر جاتے ہی دروازے کے دونوں پلوں کو بند کیا اور چلی گئی میں نے موبائل اٹھا ۔ ٹائم دیکھا 12:50 بج گئے تھے سائقہ تھوڑی ہی دیر میں واپس آ گئی اس روم میں آنے کے بعد کنڈی لگا دی بولی امی نے واپس بھیجا ہے کہ میرے بھائی کی خدمت کرو اس نے ایک بڑا سیب ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا چارپائی کے قریب آئی اور رضائی اٹھا کے دیکھا اور ہنستے ہوئے ببلو پر ہاتھ لگا کر بولی اس کی اکڑ اور بدمعاشی تو ختم ہو گئی اب میں تیری ظالم دل کو بھی مٹھی میں لیکر اس کا سارا خون نچوڑ دیتی ہوں سائقہ نے میرے ہونٹوں پر رکھ دیا اور بولی اس کو ہاتھ بھی نہیں لگانا اور گرنے بھی نہیں دینا پھر وہ ہنستی ہوئی میرے سر کے پیچھے کھڑی ہو کر اپنے کپڑے اتارنے لگی تھی ۔۔ بولی سیب نیچے گرا تو میں جا کے سو جاؤں گی میں خاموش پڑا مسکرا رہا تھا سائقہ نے میرے دائیں طرف سے تکیے کے پاس سے رضائی اوپر اٹھائی اس تیزاب سے رضائی کے اندر اپنی ٹانگوں کو چھپا کر بیٹھ گئی اس نے ریڈ کلر کی بڑے شال سے جسم چھپا رکھا تھا بولی بات کرو ناں ناراض ہو کیا میں نے بولنا چاہا تو جھٹ سے بولی سیب نیچے نہیں گرنے دینا میں نے کھلتے لب کو روک لیا تھا وہ ہنستے ہوئے سیب اٹھا کر میری چہرے پر جھک کر آنکھیں ملا رہی تھی ۔۔۔ اور پھر سے سیب میرے ہونٹوں کے قریب لا کر مسکراتے ہوئے دیکھنے لگی میں نے سیب کو ایک کٹ لگایا اور اٹھ بیٹھا میں نے پاؤں پر رضائی ڈالے بڑی چادر میں گٹھری بنے بیٹھی سائقہ کی چادر کھیچ لی سائقہ کے گول سفید ریشمی بوبز پر رس گلے کا شیرہ اور اسبکے ٹکڑے لگے ہوئے تھے وہ اپنے ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کے ہنس رہی تھی میں نے چادر کو ساتھ کھڑی چارپائی پر پھینکا اور سائقہ کو اپنی گود میں بھر لیا میں رس گلے کا شیرہ او ٹکڑوں کو کو اپنے لبوں سے صاف کرنے لگا سائقہ نے اس کی رانوں میں سے سرکتے آنے والے ببلو کی ٹوپی پر اپنا ھاتھ رکھا اور قہقہہ لگاتے بولی اووووو مردہ زندہ ہو گیا وہ ہنستے ہوئے ایک دم جھڑکی لے کو سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی ایک بات کہوں میں نے کہا ۔۔بولو ۔۔۔۔ اس کے ہونٹ قدرے کپکپانے لگے ۔۔ اور بولی۔ناراض تو نہیں ہوں گے ۔۔۔ میں نے مسکرا کر اس کی آنکھیں میں دیکھتے ہوئے کہا بالکل نہیں بولی پیچھے ۔۔۔۔۔ نہیں کیا کرو۔۔۔۔میں نے کہا اوکے ۔۔۔ ایک لمحے کے وقفے کے بعد بولا کیوں مزہ نہیں آتا ۔۔؟؟ بولی مجھے اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ میں آپ کی خوشی کے لئے ایسا کرتی ہوں میں نے کہاں اوکے نہیں ہو گا ایسے ۔۔۔۔۔ پھر مسکراتے ہوئے بولی پھر کیسے ہو گا ۔۔۔ میں نے اس کی ببلی پر ہاتھ لگا کر کہا سارا بوجھ اس پر ڈالوں گا بولی کتنے بڑے ظالم ہو اس معصوم نے کیا جرم کیا ہے ؟؟ میں نے کہا اس کا جرم یہ ہے کہ یہ خوبصورت ہے بہت ۔۔۔ بولی خوبصورت ہونا جرم ہے کیا ؟؟۔ میں نے گہری سانس لی اور کہا ہاں اس نے بوبز پر ہاتھ لگا کر بولا افففف ان پر تو ابھی تک میٹھا لگا ہوا ہے میں نے اپنے ہونٹ اس کے بوبز کی گلابی ننھے نپلز پر رکھ دئیے بہت دیر بعد میں اسے لیٹا کر اس کی ٹانگوں کے بیچ آنے لگا تو اٹھتی ہوئی بولی ۔۔۔ صبر ۔۔۔۔۔۔پھر وہ میرے لبوں کو اپنے گلاب کی پتیوں جیسے لبوں میں لیا اور مجھ پر سوار ہونے لگی میں نے لیٹے ہوئے لوشن کی بوتل اسے تھما دی ہنستے ہوئے بولی مجھے لگتا اس کو ختم کرکے ہی جاؤگے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ بہت دیر بعد وہ جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر میری ساتھ لیتٹی چلی گئی اور میں نے بٹوے کے اندرونی زپ کھول کر کنڈوم نکال کر اس کی پنی کو سائیڈ سے کٹ کر کے چارپائی پر رکھ دیا میں اس کو سیدھا لیٹا کر اس کی ٹانگوں کو اپنی سائیڈو پر رکھ دیا لوشن کی چھوٹی سی بوند پہلے سے گیلے ببلو کی ٹوپی پر لپیٹی اور سائقہ کی اندر بھر دیا میں اس کے اوپر لیٹ گیا اپنی باہوں کو سائقہ سر کے نیچے رکھ کر اس کے لبوں کو اپنے لبوں میں بھر دیا میں ایک ہی رفتار سے اپنے نچلے دھڑ کو ہلاتا رہا بہت دیر بعد سائقہ میری کمر کو پکڑ کر اپنے ہپس اٹھا کر جوش میں آنے لگی تھی میرے جسم میں بھی تناؤ آنے لگا تھا اور میں اپنی کنر اوپر اٹھاتا گیا بو پچ کی ہلکی آواز کے ساتھ ہواؤں میں جھول گیا سائقہ نے رحم طلب نظروں مجھے دیتے ہوئے اففففففففففف کہہ دیا میں اس کی گال پر تھپکی دیتا اٹھ گیا اور کنڈوم کی پنی پھینک کر کنڈوم کو ببلو کی ٹوپی پر سجایا اس کے آگے آنے والی ہوا کو نکالا اور کنڈوم کو ببلو پر پورا کھول دیا وہ سر اٹھائے دیکھتی ہوئی بولی کیا ہے ؟؟۔ میں نے بغیر کچن بولے اس کے اندر بھر کر کمر میں تیزی بھرتا گیا سسکیاں لینے کے بعد سائقہ نے ایک بار پھر مجھے اپنی باہوں میں بھرنے کی کوشش کرتے ہوئے جسم کو اکڑاتے وششششششش وششششش کرنے لگی تھی میں بھی اپنی کمر کی حرکت کو روک کر ساکت ہوگیا تھا گرم لاوا ببلو کی ٹوپی سے رستہ ڈھونڈتا اس کے ڈنڈے کے اردگرد گھومنے لگا تھا سائقہ نے اسی لمحے بھرپور وششششششش کے ساتھ میرے نیچے دبے چھوٹے سے جسم کو کپکپا کو ڈھیلا چھڑ دیا اور میرے کندھوں پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگی ۔۔۔۔۔ میں تھوڑی دیر بعد بکسے کے اوپر پڑے کپڑے کو اٹھا کر سائقہ کے پاؤں پاس بیٹھا کنڈوم اتار کر ببلو کو خشک کرنے لگا تھا سیدھی لیتی سائقہ لمبی سانسوں کے ساتھ ساکت پڑی نیم کھلی آنکھوں سے کوئی حسین خواب دیخھ رہی تھی میں نے چارپائی پر سائقہ کے ساتھ اپنا جسم جوڑ کر اس کے نرم بوغز پر بازوں رکھتے آنکھیں بند کر رہا تھا بستی سکوت میں ڈوبی ہوئی تھی میں ہلکی مزے بھری نیند کی حالت میں ساکت پڑا کسی رنگین وادی میں خود کو محسوس کر رہا تھا سائقہ کو جیسے کسی نے جھنجھوڑ دیا ہو ۔۔۔۔۔۔ ایک ہلکے جھٹکے کے ساتھ اس نے آنکھیں کھول کر کنویں کے اندر سے جیسی گہری آواز سے پوچھا ۔۔۔۔ ٹائم کیا ہے ۔۔۔۔۔ ؟؟؟۔ میں نے آنکھیں کھول دیں کچھ لمحے کمرے کی چھت کو خالی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد میں نے اپنے ہاتھ موبائل کی جانب اپنا ہاتھ بڑھا دیا ۔۔۔ 4:15 بج گئے تھے میں نے موبائل کے سکرین سائقہ کی طرف کر دی روشنی سے چبھتی آنکھوں کے ساتھ اس نے ٹائم دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی اب تو سردیوں کی راتیں بھی چھوٹی ہو گئیں ہیں میں مسکرا کر موبائل کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے سائقہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا وہ آنکھوں کو ملتے ہوئے بولی آپ کے پاس لونگ لاچی والا گانا ہے ۔۔۔۔۔ میں نے کہا ہاں میرے پاس لونگ اور آپ کے پاس لاچی ہے ۔۔ وہ مسکرا کر کمرے کی چھت کو دیکھنے لگی تھی کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد سائقہ اپنا بلیو سوٹ اٹھا۔ لائی اور میری طرف بڑھاتے ہوئے مسکرا کر بولی پہنا دو گے میں ساری رات سکول ورک کرتے تھک گئی ہوں میں اس کے جسم کو کسنگ کرتا قمیض پاجامے میں بھرتا چلا گیا مرغ نے صبح ہونے کی پہلی اطلاع دی وہ دروازے کو قدم بڑھاتی ہوئی بولی میری امی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی میں اس کے پاس جاتی آپ نے سونا نہیں اب مجھے سکول پہنچانا ہے میں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اور بتایا میں آپ کو سکول چھوڑ کر نکل جاؤں گا ۔۔۔۔ سائقہ کمر پر اپنے ہاتھ رکھ کر دھمکی بھرے لہجے میں بولی پھرررررررر میں اسے سمجھا دیا وہ راضی ہو گئی پھر بولی میں پانی گرم کر کے آپ کو بتا دیتی اور چلی گئی کوئی آدھے گھنٹے بعد وہ گیلے بالوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی اور بولی نہا کر آنا سائقہ سردی سے کانپتی تھوڑا رک کر پھر بولی نہا کر آنا تو مجھ سے مسیح پر بات کرنا میں امی کے روم میں جا رہی ہوں ۔۔۔اب جاؤ اور ٹھنڈے پانی کا مزہ لو میں بھی لے چکی ہوں وہ چلی گئی میں نے پینٹ پہنی اور تھوڑی دیر پہلے سائقہ کی لپیٹی بڑی ریڈ شال لپیٹ کر اس روم سے دور مین گیٹ کے ساتھ باتھ روم میں غلا گیا دیوار گیر صاف ستھرا خشک تولیہ لٹکا تھا پلاسٹک کی نیلے رنگ کی بڑی بالٹی میں پیلے کلر کا مگ تیر رہا تھا اور پانی سے بخارات اٹھ رہے تھے میں نہا کر روم کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ سائقہ نے اس کچے کمرے کے دروازے کا ایک پلہ کھول کر باہر جھانک رکھا تھا میں نے روم میں آ کر چادر کو کھڑی چارپائی پر ڈالا اور بنیان پہن کر بستر پر لیٹ کر سینے تک رضائی اوڑھ لی ۔۔۔ میں نے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا 5:50 بج چکے تھے میں نے ڈیٹا آن کیا لیکن اسی لمحے سائقہ کا۔میسج آ گیا اور ڈیٹا کو میں نے پھر آف کر دیا ۔۔۔سائقہ۔نے لکھا تھا ۔۔۔ٹھنڈے ہو گئے ۔۔۔ میں نے ریپلائی دیا نہیں اندر کوئی آگ ابھی بھی بھڑک رہی ہے ۔۔۔ بولی بکسے پر پانی رکھا ہے پورا جگ پی لو ۔۔۔ میں نے کہا اس پانی سے نہیں بجھے گی ۔۔۔۔۔ بولی میرے سکول کے سامنے سے مڑ کر سیدھا زینت کے پاس چلے جانا ۔۔تھوڑی دیر کی چیٹنگ کے بعد سائقہ نے اطلاعی مسیج دیا کہ ابھی اٹھ گئی ہے اور اس کے ساتھ چیٹنگ کا سلسلہ تھم گیا ساڑھے چھ بجے کے قریب آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگی میں نے پوچھا کیا ہوا بولی کسی کو ڈھونڈ رہی ہوں والے سنجیدہ تھی پھر بولی امی نے بھیجا ہے کہ جا کر۔ماموں کو اٹھا دو لیکن یہاں تو میرا ماموں نہیں ہے پتا نہیں کس کا بولا میں مسکرا رہا تھا ۔۔۔ وہ اپنی پیشانی کی سائیڈ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی حیران ہونے والے انداز میں بولی آپ میری امی کے بھائی بنے ہیں ناں میں نے مسکراتے ہوئے یس میں اپنے سر کو ہلایا تو ہنستے ہوئے بولی پھر میں آپ کی کون لگتی ہوں ۔۔۔۔ میں نے اٹھتے ہوئے بولا میں تمھارا یار ہوں ۔۔۔ والے ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔ اٹھ جاؤ ماموں امی بلا رہی ہے وہ ہنستے ہوئے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے پھر بولی ماموں ں ں ں ں ۔۔۔ اس نے منہ چہرہ اوپر اٹھا کر قہقہہ لگایا میں چارپائی سے نیچے اپنی ٹانگیں لٹکائے بیٹھا تھا میں نے اپنے بازوں گلے ملنے والے اندر میں پھیلائے تو اس نے میری گود میں بیٹھتے ہوئے اپنے ریشمی ہپس سے میری گود کو لبالب بھر دیا میں باتیں کرتا ہوا اس کہ بوبز کو دونوں ہاتھوں میں بھر کر اس کے مکھن جیسے گالوں کو منہ بھر بھر کر چوستا رہا پھر وہ چلی گئی اور میں اس کے جانے کے پندرہ منٹ بعد میں بھی اپنا لباس درست کر کے اس گھر کے بڑے صحن میں سے ہوتا ہوا اس کچے کمرے میں چلا گیا باجی تکیے سے ٹیک لگے مسکرا رہی تھی میں نے انکی خیریت دریافت کی تو بولی آج تو بہت بہتر ہوں پہلی بار ان دواؤں سے بہت سکون کی نیند آئی ہے میں نے کہا کہ میڈیسن وقت پر لیتی رہو آپ باکل ٹھیک ہو جاؤ گی اور غفلت نہیں برتنی دوائیں جب ختم ہونے لگیں تو مجھے بتا دینا میں پھر آ کر آپ کو لے جاؤں گا وہ دعائیں دے رہی تھی ناشتے کے بعد سائقہ نے سکول جانے کی تیاری کر لی تھی باجی نے مجھے مجھے بولا کو رک جاو بعد میں چلے جانا میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ صبح چھ بجے کال آ گئی تھی میں نے کسی دوست کے ساتھ کہیں جانا تھا لیٹ ہو گیا ہوں اس نے کہا کہ طبیعت میری اچھی لگ رہی تھی ایک رات میں ۔۔۔سائقہ بولی میں نے بھی دوبار کیپسول کھایا ہے میری طبیعت بھی دس بعد بہتر ہوئی ہے باجی بولی دو بار کیوں کھائی گولی ایک لینی تھی رات کو ۔۔ سائقہ بولی میں سمجھی تھی ڈاکٹر نے ایک گھنٹے بعد لینے کا بولا ہے ۔۔۔ وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی تھی ۔۔۔ باجی بولی زینت کی امی سے کہوں گی اگلے ہفتے آپ کے گھر آنے کا ۔۔۔ سائقہ نے ڈاکٹر طاہر کا دیا پانچ ہزار کے نوٹ کو کھولتے ہوئے اپنی امی کے سامنے آ کر بولا میں بھی جاؤں گی اپنے خرچے پر ۔۔۔۔ باجی مسکراتے ہوئے سائقہ کو پیار سے دیکھ رہی تھی میں نے اٹھتے ہوئے اپنا موبائل اور پاور بینک سنبھال لیا سائقہ گھڑی کو دیکھتے ہوئے بولی صرف پانچ منٹ بیٹھ جاؤ میری سہیلیاں آ جائیں تو ہمیں بھی سکول تک لیتے جاؤ سائقہ نے مین گیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی آج تو لیٹ نہیں ہو رہیں یہ سائقہ نہیں کہا نہیں ابھی آ جائیں گی اس دوران کل والی دونوں لڑکیاں بھی سائقہ کے گھر آ گئیں انہوں نے سلام کیا اور سفید برقعے میں ملبوس لڑکی نے دیسی انڈوں کا شاپر سائقہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ میری امی نے دئیے ہیں تمھارے ماموں کے لئے سائقہ منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی ہنسی دباتی اس سے شاپر لے چکی تھی میں نے اس لڑکی کا شکریہ ادا کیا اور باجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا بس میں نے قبول کیا لیکن یہ میری باجی کو کھلا دینا اس کا خیال رکھا کرو سائقہ کی امی نے انکار کرتے ہوئے مجھے شاپر لینے کا کہا سائقہ شاپر میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی کھلکھلاتی ہوئی بولی لے لو ماموں لے لو ۔۔۔ پھر وہ مسکراتی ہوئی شاپر لے کر میری گاڑی کی طرف بڑھ گئی ۔۔ سائقہ میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی اس دونوں لڑکیاں آپس میں چپک کر ہماری گفتگو سنتی جا رہی تھی میں گاڑی کو بہت آہستہ چلاتے ھوئے ان کے سکول کی طرف بڑھ رہا تھا میں نے بلوٹوتھ سے موبائل کو میوزک پلئیر سے کنٹریکٹ کیا اور والیم فل کر کے گانا لگا دیا ۔۔وے توں لونگ تے میں لاچی تیرے پچھے آ گنواچی کے بول ابھرتے ہی سائقہ نے اپنا سر گھما کر پیار سے مجھے دیکھا اور گئیر لیور کے اس طرف میری ران پر ہاتھ رکھتے رکھتے رک گئی سکول گیٹ سے تھوڑا پہلے گانے کے اینڈ ہونے کے ساتھ میں نے گاڑی سائیڈ پر روک دی تھی سائقہ نے پیچھے ہاتھ بڑھا کر کر گاڑی کا گیٹ کھول دیا اور ان دونوں لڑکیوں سے بولی آپ جاؤ میں آتی ہوں ان کے گاڑی سے نکلنے کے ساتھ ہی سائقہ نے گاڑی کا گیٹ بند کر دیا اور ان کو جاتا دیکھتے ہوئے ببلو پر ہات لگا کر بولی اسے باہر نکالو ۔۔۔ میں نے کہا سائقہ آپ بھی زینت والے کامو پر اتر رہی ہو بولی نہیں بس صرف ایک کس کرتی ہوں اسے دیکھتے ہوئے خاموش بیٹھا تھا وہ پھر بولی جلدی کرو ورنہ میں گاڑی سے نہیں اتروں گی میں نے آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے پینٹ کا بلٹ کھول اور تھوڑا اوپر اٹھ کر پینٹ اور انڈروئیر کو گھٹنوں کی طرف سرکا لیا ببلو رات بھر کی ڈیوٹی سرانجام دینے کے بعد گہری نیند کے مزے میں تھا سائقہ کے ٹھنڈے ہاتھ کا۔لمس پاتے ہی کروٹ لی اور میرے دل کی رگ کو کھینچ کر ہائے ےےےے کا نعرہ لگاتا اٹھنے لگا سائقہ نے نقاب چہرے سے ہٹا لیا تھا اور ببلی کو اپنے ننھے بھرے بھرے ہاتھوں میں بھرنے کی کوشش کر رہی تھی میں نے ایک ہات سے گاڑی کے اسٹیرنگ کو زور سے پکڑ رکھا تھا اور دوسرا ہاتھ اس کی پیٹھ پر پھیرتا سیٹ سے تھوڑے اوپر اٹھے ہپس کی طرف بڑھا رہا تھا سائقہ کے ہاتھوں کا ریشمی احساس پاتے ہی ببلو فل تناؤ پکڑ چکا تھا گاڑی کے پیچھے سے لڑکیوں کا ایک گروپ سکول کی طرف آتا دیکھ کر میں نے سائقہ کو۔کہا کہ بس ۔۔۔۔۔ اس نے اپنا گال چںد سیکنڈ ببلو پر رکھ کو آنکھیں بند کی اور پھر سر اٹھا کر ببلو کی ٹوپی کو دو بار ہلکی سی کس کی اور اٹھ بیٹھی ۔۔گاڑی کے پیچھے کی طرف اشارہ آنے والی لڑکیاں قریب آ چکی تھے میں نے سیٹ کی سائیڈ سے صفائی والا پیلا کپڑے نکالا اور اسے اپنی جھولی پر پھیلا دیا سائقہ گیٹ کھولتے ہوئے بولی اچھا ماموں زینت کو میرے سلام کہنا اور ان لڑکیوں کے گروپ میں شامل ہو کر باتیں کرتی چلی گئی ۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا لی مین روڈ سے کچھ پہلے میں نے ایک جگہ گاڑی روک دی اور پیلے کپڑے کو ہٹا کر انڈرویئر اور پینٹ کو درست کیا اور پینٹ کی سائیڈ جیب میں پڑے شاپر کو نکال کر زمینوں میں پھیک دیا اس شاپر میں ایک بڑے کاغذ کے اندر استعمال شدہ کنڈوم تھا میں نے آس پاس جھاڑیوں بھری بنجر زمینوں کو دیکھتے ہوئے اس کی زرخیز مٹی کی بھینی خوشبو کو اپنے من میں محسوس کرتے ہوئے مسکرا کر ایک بھرپور انگڑائی لی اور گاڑی کو آگے بڑھا دیا ۔۔۔۔۔ نعمت کی غیر موجودگی میں زینت مس کال دیتی اور ہماری فون پر ملاقات ہو جاتی تھی لیکن اس کے بھائی کی شادی کے بعد زینت سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی سائقہ سے بھی اس کے سکول کے آنے کے بعد مسلسل رابطہ رہتا تھا اور کبھی کبھی کانفرنس کال پر دونوں سے مل کر ان کی باتوں کا مزہ لیتا تھا سائقہ کے ہاں سے واپس آنے کے تقریباً پندرہ دن بعد نعمت نے کال کر کے بتایا کہ ان کے ہاں زینت کے دولہا دلہن کی دعوت پر سب آئے ہوئے ہیں اور کہا کہ دولہا آج رات ہماری دعوت کھا کر صبح چلا جائے گا اور باقی مہمان کل آپ کے گھر آئیں گے دولہا دلہن کے علاوہ زینت کی امی سائقہ اور اس کی امی بھی بھی آئے ہوئے تھے سائقہ نے مجھے گزشتہ روز سے اب تک نہیں بتایا تھا شاید وہ میری طرح سرپرائز دینا چاہتی تھی نعمت کی کال آنے کے بعد میں نے شاکرہ کو بتا جس نے مجھے کچھ ضروری اشیاء کی فہرست تھما دی شاکرہ میری بیگم کا نام ہے وہ ایک ہمدرد اور بہترین خاتون ہیں شاپنگ کی زیادہ دلدادہ نہیں ہے کبھی اپنی بہنوں کے ساتھ کسی اہم موقعے کے لئے کچھ خریداری خود کر لیتی ہے غریب بچی کی شادی کا سن لے تو کچھ نہ کچھ ضرور دے کر آتی ہے اس کا ایک ہی بڑا شوق ناول پڑھنا ہے شاکرہ میرے خاندان سے نہیں ہے یہ میری کزن صباء کی کلاس فیلو ہے صباء کی شادی پر میں اس سے نہیں ملا تھا لیکن اس شادی کے بعد صباء کے ذریعے اس نے خود سے مجھے شادی کا پیغام بھیجا تھا حالانکہ کہ اس وقت اس کے لئے ڈھیروں رشتے در پر کھڑے تھے اور اس نے شادی کے بعد میرے دل میں محبت کا جو پودا لگایا وہ سدابہار نکلا میں نے شاکرہ کا ملک بھر کے اچھے ڈاکٹروں سے علاج کرایا لیکن محرومی اولاد نہ ہونے کی محرومی نے اسے کچھ زیادہ حساس بنا دیا ہے وہ شہر سے دور کے کسی فنگشن میں نہیں جاتی ہے لیکن کسی طور ان کا دل نہیں ٹوٹنے دیتی میں نے جب بھی اولاد کے لئے دوسری شادی کا ذکر کیا تھا شاکرہ سر جھکائے رونے لگتی اور اب بہت لمبے عرصے سے میں نے یہ ذکر چھوڑ دیا ہے شاکرہ نے بازار سے سامان لانے کی لسٹ مجھے تھماتے ہوا پوچھا کہ شادی پر دلہن کو کچھ بھجوایا تھا میں نے اسے بتایا کہ پانچ ہزار دئیے ۔۔۔بولی اب پھر سب کو ایک ایک سوٹ دینے کے ساتھ ان کی دلہن کو دو سوٹ دے دونگی میں نے اوکے کہہ دیا اور شام تک سارا سامان شاکرہ کو لا کر دے دیا صبح سویرے نعمت ان سب کو میرے گھر کے مین گیٹ پر چھوڑ کے چلا گیا تھا میں جاگ چکا تھا لیکن بستر میں ہی رہا اور روم سے باہر نہیں آیا شاکرہ نے محبت سے انکا استقبال کیا اور ہال میں بٹھانے سے پہلے آنے والی سب خواتین کا دل جیت لیا تھا سائقہ نے کچھ دیر بعد میسج کیا ۔۔۔آپ کہاں ہو ۔۔۔میری امی ڈاکٹر کے پاس چلی گئی میں سکول نہیں گئی اور گھر میں اکیلی ہوں جلدی آوووو۔۔۔ میں نے ریپلائی دیا کہ ساتھ والے تین روم چھوڑ کر چوتھے روم میں آ جاؤ ۔۔ میں لوشن کی پوری کین لایا ہوں ۔۔۔۔ پھر اس نے ھاھاھا کا ریپلائی دیا میں کچھ دیر بعد ان سے جا کر ملا زینت اور سائقہ میری بیگم کے ساتھ کام میں مصروف تھیں پھر شاکرہ اور میں اس کے ساتھ بیٹھ کر چائے کے دوران باتیں کرتے رہے سائقہ اور زینت ایک ساتھ صوفے پر بیٹھی وقفے وقفے سے مجھ پر باتوں سے تیر برسا رہی تھی سو میں سائقہ کی کسی ادا پر بےتاب ہو کر وہاں سے اٹھنے میں عافیت سمجھی اور اپنے روم میں چلا آیا شاکرہ روم میں آ کر کہنے لگی یہ دونوں بچیاں تو بہت اچھی ہیں زینت تو ایسے خود سے کام کر رہی ہے جیسے اس کا اپنا گھر ہو اور سائقہ بھی اس سے کسی طور کم نہیں ہے پھر بولی پارک جانے کی خواہش کر رہیں تھی اگر شام کو آپ فری ہوں تو ان سب کو چکر لگوا لینا میں گھر میں آپ کے آنے تک کھانا بنا لوں گی ۔ میں نے کہا دیکھوں گا اگر فری ہوا تو۔ زینت کسی طرح میرے روم میں آ کر مجھ سے گلے مل گئی تھی لیکن سب سے زیادہ بےتاب ہوتی سائقہ ابھی تک میرے جسم سے ٹکرانے کے لئے تڑپ رہی تھی شاکرہ مجھے دودھ دینے کے لئے آنے لگی تو زینت نے اس سے ڈش لیکر سائقہ کو تھمایا کہ جاؤ اس روم میں صاحب کو دیکر آؤ سائقہ نے روم میں داخل ہوتے ہی ڈش کو کارپ،پر رکھا اور اچھل کر ڈور کی چٹکی لگانے کی کوشش کی لیکن چٹکی تک اس کا ہاتھ نہ پہنچ پایا میں نے پیچھے جا کر سائقہ کو اپنی باہوں میں بھر لیا اور اپنے ہاتھوں کو اس کے ریشمی بوبز سے بھر کر اس کے گالوں کو چوسنے لگا میں نے سائقہ کو احتیاط برتنے کا کہا اس نے ایک مجھے اپنی باہوں میں پورا بھر لینے کی کوشش کے ساتھ اپنی ایڑیاں اٹھا کر جپھی لیکر وشششش وشششش کرتی رہی اور میرے سر کو پکڑ کر نیچے جھکایا اور میرے ہونٹوں پر کس کی اور ببلی پر زور سے تھپڑ مار کے بولی اس گھر میں میرا ایک کمرہ پکا کر دو میں اب جہاں سے نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔ وہ کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھت،ہوئی باہر چلی گئی میں کچھ دیر کے لئے شہر چلا گیا واپس آیا تو یہ سائقہ اور زینت میری بیگم کے ساتھ میرے روم میں بیٹھی ہوئی اس سے باتیں کر رہی تھی اور شاکرہ ان کی باتوں کو انجوائے کر رہی تھی میں نے سلام کیا اور شاکرہ کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا شاکرہ نے پوچھا شام کو فری ہو ؟۔۔ میں نے کہا ہاں چلیں گے ۔۔۔ زینت بولی آپ کی بھانجی کو پارک میں چوکبار کھانے کی بول رہی تھی ماموں کو بولوں گی کہ مجھے پارک میں چوکبار بھی کھلانے شاکرہ بولی اس سردی میں آئسکریم کیوں کھاتی ہے بیمار ہونے کو ۔۔۔ سائقہ بولی مجھے مزہ آتا اور سردی میں تو میں آئسکریم کھا کے بیماری کو بھگا دیتی ہوں شاکرہ مسکراتے ہوئے بولی تم تو پاگل لگتی سائقہ بولی باجی آپ کو ماموں کھلاتے چوکبار ؟؟۔ شاکرہ بولی آپ کے ماموں منع نہیں کرتے جب کھاؤں پر اس سردی میں توبہ زینت بولی پھر صاحب سے معائدہ کرتے گرمی میں آپ کث کھلائیں گی اور سردی میں ہمیں شاکرہ بولی میں اس کو خود کہہ دونگی آپ جتنی مرضی چوکبار کھاؤ یہ آپ کو کھلا دیں گے ۔۔۔سائقہ بولی ماموں سن رہے آپ ؟؟؟ اب کنجوسی نہیں چلے گی شاکرہ بولی نہیں یہ کنجوس تو نہیں میں تو اس کو فضول خرچ بھی کہہ دیتی کبھی کبھی ۔۔۔ زینت بولی صاحب آپ کے لئے فضول خرچ بن جاتے ہوں گے ہم نے تو اس کی شاہ خرچیاں نہیں دیکھیں ابھی تک ۔۔۔ شاکرہ نے کہا آج ان بچیوں نے میرے ساتھ ایسمل کے کام کرایا کہ مجھے یہ اپنے گھر کی لگنے لگیں ہیں میں نے کہا کہ یہ ہے بھی ان کا اپنا گھر میں نے ان کو غیر کب سمجھا ہے سائقہ بولی تو پھر ہم کو اپنا ایک کمرہ بھی دے دو ۔۔۔ شاکرہ بولی ہاں بھائی کیوں نہیں ایک نہیں دو روم دیے دیتے آپ کو زینت نے بولا نہیں بیگم صاحبہ بس ایک کمرہ پھر سائقہ کو دیکھتے ہوئے بولی کیوں ایک بہت ہے ناں ایک کا آدھا ہو پھر بھی بہت ہے ۔۔۔۔ شاکرہ اٹھتے ہوئے بولی اوکے اپنا کمرہ پسند کر لو زینت جھٹ سے بولی یہی ٹھیک ہے۔۔۔ سائقہ نے زینت کی بات کاٹتے ہوئے میری طرف معصوم سا منہ بنا کے کہا آپ بہت خوش قسمت ہو اتنے بڑے دل والی بیگم ملی ہے آپ کو ورنہ آجکل ایسے کوئی بیوی نہیں کرتی شاکرہ نے میرے موبائل کو چارجنگ پر لگاتے ہوئے ان سے بولا اگر برا نہ مانو تو میرے ساتھ اوپر کے رومز میں تھوڑا کام کرا لو پھر تن پارک جانے کی تیاری بھی کر لینا وہ دونوں اٹھ گئیں ۔۔۔ زینت بولی بیگم صاحب کا گھر ہمارا اپنا ہے ۔۔۔ وہ سائقہ کی طرف متوجہ تھی پھر بولی آپ مہمان ہو آپ بیٹھو اور اپنے ماموں سے باتیں کرو میں بیگم صاحبہ کے ساتھ کام کراتی ہوں ۔۔۔ شاکرہ بولی ہاں تم بیٹھو بس زینت کرا لے گی بس کچھ بستر نکالنے ہیں اور تھوڑا سا کام ہے بس زینت کافی ہے وہ دونوں دروازے سے باہر نکل رہے تھے اور سائقہ صوفے پر کڑاکے کی انگڑائی لیتے ہوئی بولی ماموں مجھے آپ کا شہر بہت اچھا لگا ہے سائقہ نے اپنے ہائیں ہاتھ کی مٹھی بند کر کے بائیا ہاتھ کہنی پر رکھا اور اور پپلو کی طرح بازو سے فراٹے بھرنے لگی اور پھر منہ پر ہاتھ رخھ کے ہسنے لگی شاکرہ آگے جا رہی تھی اور زینت نے دروازے بند کرتے ہوئے مڑ خر سائقہ کو دیخھا اور اپنے ہپس پر تھپکی دی مجھے دیکھتے ہوئے آنکھ مار کر بولا پیچھے ۔۔۔۔۔ دلہن کے ساتھ سائقہ اور زینت کی امی میرے روم سے تین روم چھوڑ کر چوتھے روم میں ٹی وی دیکھ رہے تھے اور انہیں میری واپسی کا علم نہیں تھا جب کوئی خواتین ہمارے گھر آتی تھی تو شاکرہ کو خوشی ہوتی تھی کیونکہ میرا خاندان میری شاکرہ کے ساتھ شادی سے خوش نہیں تھا اور جادو ٹونے کے ساتھ کئی طرح کے اور مسائل بنانے لگا تھا اور شادی کے ایک سال بعد ہی میں نے تنگ آ کر اس جگہ نیا مکان بنا کر یہاں شفٹ ہو گیا تھا اور اس رشتے کو بچانے کی خاطر میں نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا اور اس کے بعد میرے سسرال کے علاوہ بہت کم خواتین ہمارے گھر آتی تھیں اور جب بھی کوئی خاتون ہمارے گھر آتی تو میری بیگم بہت خوش ہوتی تھی اور جب بھی اس کا دل اکیلے گھر میں اکتا جاتا ہے تو وہ میکے چلی جاتی ۔۔۔ شاکرہ اور زینت کے جانے کے چند ہی لمحوں بعد سائقہ صوفے سے اٹھ کر میرے ساتھ بیڈ پر آ کے بیٹھ گئی بولی کنڈی بند کرو ماموں ۔۔۔ اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔۔۔۔ میں نے اٹھ کر دروازے کا ہینڈل لاک مار دیا میرے واپس بیڈ پر آنے تک سائقہ بیڈ پر لیٹ چکی تھی بولی ماموں بہت تھک گئی ہوں باجی نے بولا ماموں ٹانگیں دبا دے گا میں بہت پیار سے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کے لب چوسنے لگا اس کے اپنے ننھے ہاتھوں کی انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی شروع کر دی اس کی آنکھوں میں پیار کی شدت بھر گئی تھی بولی پچھلے ہفتے کیوں نہیں آئے تھے میں نے کہا سائقہ ہر ہفتے میرا آنا ٹھیک نہیں ہو گا ۔۔۔ بولی مجھ سے پوچھا میں کیسے تڑپ رہی ہوں ۔۔۔تمھیں بولا تھا ناں ۔۔۔ شہر کی روشنیوں میں گاؤں کی اس پاگل کو بھول نہ جانا ۔۔۔۔میں نے اس کی آنکھوں پر کسنگ کی اور بولا پلیز ریلکیس رہو میں تمھیں نہیں بھولوں گا وعدہ رہا ۔۔۔ میں نے سائقہ کی ٹانگیں دبانے کے لئے ہاتھ اس کی رانوں پر رکھے تو بولی نہیں آپ سو جاؤ۔۔ میں اس کے ساتھ لیٹ گیا بولی آپ کا گھر بھی بہت پیارا ہے میں نے اتنا خوبصورت گھر کبھی نہیں دیکھا ۔۔۔ اور آپ کی بیوی بھی بہت پیاری اور اچھی ہے ۔۔۔ میں نے سائقہ کا شکریہ ادا کیا اور بولا میں بہت لکی ہوں کہ آپ جیسی پیاری دوست بھی ہے میری ۔۔۔۔ بولی سچ بتاؤ تو آپ کے گھر آنے کے بعد مجھے کچھ یقین آ گیا ہے کہ آپ بھی مجھ سے پیار کرنے لگے ہو کہ اس گھر اور اتنی پیاری بیوی کو چھوڑ کر اس دن آپ میرے لیئے اتنی دور آ گئے میں نے کہا شادی والے دن آپ نے مجھے عشق کی آگ میں جلا کر واپس بھیجا تھا جب آپ دن کو مجھ سے ملنے آئی تھے اور یہ سچ ہے کہ ہ ہ ہ آئی لو یو۔۔۔ بولی میرے دل پر ہاتھ رکھ کے پھر بولو میں نے بوبز پر ہاتھ رکھ کر بولا آئی لو یو۔۔۔۔۔ بولی قمیض کے اندر میں نے اپنا ہاتھ اس کی ٹائٹ قمیض کے اندر ڈال کر اس کے بوبز کے درمیان اپنا ہاتھ رکھ کے بولا آئی لو یو ۔۔۔۔ بولی ایک جگہ اور بھی ۔۔۔ میں نے پاجامے کے لاسٹک کے اندر ہاتھ ڈال کے اس کی آپس میں چپکی رانوں کے بیچ ببلی کی لکیر پر درمیانی انگلی رکھ کے ایک بار پھر بولا آئی لو یو ۔۔۔ بولی اس کو توڑا اتار کے صرف ایک کس کر دو میں نے پاجامہ تھوڑا اس کے گھٹنوں کی طرف سرکا کے دیکھا تو سرخ مارکر سے ببلی کی لکیر سے تھوڑا اوپر دل بنا ہوا تھا اور ساتھ Z .,i love u لکھا تھا میں نے اس پر کس کر دی اور پاجامے کو دوبارہ بند کر دیا ۔۔۔۔۔ موٹی آنکھوں میں بنتے سرخ ڈوروں کے ساتھ سائقہ نے دروازے کی طرف دیکھا تو پوچھا کتنی دیر میں آ سکتی باجی ۔۔۔۔ میں نے کہا زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ وہ اٹھ بیٹھی اور میری شلوار کا ناڑہ کھولنے لگی بولی آپ پینٹ میں زیادہ خوبصورت لگتے ہیں ۔۔۔میں نے کہا ابھی پہن لوں گا ببلو پہلے ہی سخت ہو چکا تھا وہ کچھ دیر اسے اپنے ننھے ہاتھوں میں بھر کر مزہ لیتی رہی پھر جھک کر اس کی ٹوپی کو ہلکی سی کس کرتے ہوئے میری شلوار کو دوبارہ بند کر دیا ۔۔۔۔۔ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی بات سنو ۔۔۔ میں نے کہا بولو ۔۔۔ سائقہ بولی کان ادھر لاؤ ۔۔۔ میں نے اپنا کان اس کے ہونٹوں کے قریب کر لیا آہستہ سے بولی ماموں ۔۔۔۔ آئی لو یو پھر سر میری گود میں رکھتے ہوئے ہنسنے لگی ۔۔۔۔ اٹھ کر اےک بھرپور جپھی لی اور بولی رات کو مل سکتے ۔۔۔ بولا مشکل ہے بیگم کے ساتھ سوتا ہوں اور اتنے لوگوں کی موجودگی میں اچھا نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔ بولی اس بیڈ کر بہت مزہ آئے گا ناں ۔۔۔۔ میں نے کہا اس کا مزہ جلد دونگا آپ کو ۔۔۔ مسکرا کر ہاتھ آگے بڑھایا اور بوکی سچ میں میں نے کہا ہاں بہت جلد ۔۔۔۔سائقہ نے پوچھا زینت اس بیڈ پر سوئی تھی آپ کے ساتھ میں نے کہا ہاں ادھر ہی ۔۔۔ سائقہ بولی اب کنڈی کھول لیں ناں ۔۔۔۔۔۔میں سر ہلاتے دروازے کی طرف بڑھ گیا اور اسے ان لاک کر دیا لیکن ڈور بند ہی رہا سائقہ نے بتایا گیا اس دن اس کی سکول والی سہیلی رخسانہ کو شک ہو گیا تھا والے پوچھ رہی تھی کہ آپ کا ماموں آپ کو بہت پیار سے دیکھتا تھا اور آپ بھی پاگل ہو رہی تھی ۔۔۔ پھر بولی اس کی بھی کسی لڑکے سے دوستی تھی لیکن اب والے کسی اور لڑکی کا دوست بن گیا ہے اور اس کو چھوڑ دیا ہے ۔۔۔ پھر تنزیہ لہجے میں بولی مرد ہوتے ہی ایسے بےوفا اور ٹھرکی ہیں ایک عورت کو بہن بنا لیتے ہیں اور مامبن کر اس کی معصوم بیٹی سے عشق لڑاتے ہیں اب دیہات کی اس سادہ عورت کو کیا پتا کہ اس کا منہ بولا بھائی اس کی بیٹی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر جمپ لگاتا ہے ۔ ؟؟؟ دیہات کی عورتیں بہت سادہ ہیں اور آج تو میں نے شہر کی ایک عورت کو بھی دیکھا اتنی سادہ تھی بولی ماموں کو میں بولوں گی آپ کو چوکبار کھلا دے گا اب اس بچاری کو کیا پتا دیہاتی لڑکی کونسی چوکبار کھاتی ہے ۔۔۔۔ یہ جو آپ کے ساتھ ادھر ماسی شاکرہ بیٹھی تھی ناں جو تعریفیں کر رہی تھی کہ زینت اپنے گھر کی طرح کام کر رہی ہے اس میڈیم کو بتاتی ہوں دل پھینک ماموں کے قصے کہ تمھیں یہ کیسے ماموں بنا رہا ہے ۔۔۔ ۔۔ سائقہ بولتی جا رہی تھی ۔۔۔۔ پھر شاکرہ اور زینت بھی آ گئے زینت نے آتے ہی اپنے ہپس پر خارش کرتے ہوئے سائقہ سے پوچھا پانی پیا ہے ؟؟؟؟ سائقہ بولی ابھی تو آپ گئی ہو اتنی دیر میں پیاس تو نہیں لگ جاتی ۔۔۔۔ زینت بولی میں تو بیگم صاحبہ سے کہہ رہی تھی کہ جو کام ھیں اوپر کے روم کے سب نمٹا لیتے ہیں ۔۔۔ شاکرہ بولی تیاری کر لو اور پھر جلدی آنا ہے میں باتھ روم چلا گیا اور شاکرہ ان دونوں کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔ باجی میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی جبکہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر سائقہ زینت اور دلہن بیٹھی تھیں زینت کی امی میری بیگم کے ساتھ گھر میں بیٹھ گئی تھی گھر سے نکلتے وقت شاکرہ نے بولا تھا کہ مارکیٹ سے انکی پسند کے سوٹ لے لینا میں پہلے مارکیٹ کی طرف چلا گیا اور راستے میں باجی سے باتیں کر رہا تھا اسے میرا شہر بہت پسند آیا تھا سائقہ اسکی امی اور دلہن پہلی بار اس شہر میں آئے تھے ان سب کے ساتھ زینت کی پسند پر میں نے اس کی امی کا سوٹ بھی لے لیا سائقہ اور زینت نے میری پسند کو اہمیت دی تھی مارکیٹ سے نکل کر میں گاڑی کو شہر کی سڑکوں پر گھماتا ہوا پارک کی طرف بڑھ رہا تھا میں باجی کو اپنے شہر کی خوبیاں بتا رہا تھا تو اسی وقت باجی نے بولا بس ہم سائقہ کو میٹرک کے۔بعد آپ کے حوالے کرتے ہیں کسی اچھے کالج میں داخل کروا دینا زینت پیچھے بولی ماموں کو میٹرک سے پہلے بولو تو یہ ابھی داخل کر دے گا سمجھو داخلہ ہو گیا ۔۔۔ وہ دونوں منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنس رہی تھی ۔۔۔۔ سائقہ بولی میرا تو ابھی بھی بستی جانے کو دل نہیں کر رہا ۔۔۔ دلہن خاموش بیٹھی ہماری باتوں سے بے نیاز سائڈ پر عمارتوں کو دیکھ کر حیران ہو رہی تھی ۔۔۔ باجی بولی بھائی آپ کا گھر اور بیگم بہت خوبصورت ھیں اور بیگم جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی اچھی بھی ہے ہم پارک پہنچ گئے سائقہ اسے آہستہ سے یہاں کے لئے مزے بتاتی پیچھے آ رہی تھی باجی کی صحت ڈاکٹر طاہر کی ٹریٹمنٹ کے بعد بہت اچھی ہو گئی تھی ہم باتیں کرتے آگے چل رہے تھے پھر ایک جگہ آمنے سامنے رکھے دو بنچوں پر بیٹھ گئے میةایک سائیڈ پر سائقہ اور ایک سائیڈ پر زینت بیٹھی تھی پھر میں نے ان سے پوچھا جھولے پر بیٹھو گی سائقہ بولی ماموں میں تو جہاز پر بیٹھوں گی ۔۔۔میں نے کہا جہاں جاز تو نہیں ہے بولی ادھر ہے مجھے پتا ہے اندھیرے والی سائڈ پر ہے ۔زینت بولی ہاں اسی سائیڈ پر ہے میں اس پر بیٹھی تو نہیں تھی لیکن دیکھا تھا اور چوکبار بھی ادھر ہی کھائی تھی اتنا مزے کا جہاز ہے خالہ تم بھی بیٹھوں تو آپ کو بھی سب بھول جائے گا

 

Post a Comment

0 Comments