دیہاتی
لڑکی
ساتویں
قسط
تحریر:
ماہر جی
باجی بولی میرے میں اب اتنی
ہمت نہیں رہی ۔۔۔۔ سائقہ نے مسکراتے ہوئے زینت کی طرف دیکھا اور بولی اپنی امی کو
بھی بھی بٹھا دو میری امی بیمار ہے کیوں مارنا چاہتی ہو اسے زینت بولی آپ سے بڑی
ہے جب آپ نہیں مری تو آس کو بھی موت نہیں آنے والی ۔۔۔ باجی بولی اب ہماری عمر بھی
نہیں رہی سائقہ بولی امی جوانی میں کتنے جھولوں پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔ باجی گول گھومنے
والے بڑے جھولے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اتنے بڑا جھولا میں نے پہلی بار دیکھا
ہے ۔۔۔ اس سے تھوڑے چھوٹے پر بیٹھی تھی ؟؟؟ باجی بولی میں نے بیٹھی بستی میں ایک
چھوٹے جھولے والا آیا تھا سائقہ چھوٹی تھی اس وقت نو سال کی اس کو بٹھایا تھا میں
نے سائقہ سر جھکائے ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی زینت نے میرے پیچھے سے ہاتھ
بڑھا کر سائقہ کے ہپس پر مکا مارا اور بولی میں کہتی تھی نہ ایسے بڑے نہیں ہوگئے
۔۔۔ دلہن ان کی باتوں سے بے نیاز جھولوں کو حیرت سے دیکھ رہی تھی سائقہ بولی آج
بھابھی کو بٹھاتے ہیں ۔۔۔ سونیا نے اس کی طرف دیکھا اور تھوڑا مسکراتے ہوئے ہوئے
بولی نہیں مجھے ڈر لگتا ہے ۔۔۔ زینت بولی بھابھی کچھ بھی نہیں ہوتا میں بھی پہلے
دن بہت ڈری تھی ۔۔۔ میری ٹانگیں کانپ رہی تھی اور دل ڈوبنے لگا تھا لیکن اب ہر وقت
دل میں اسی جھولے کا خیال ہوتا ہے ۔۔ سونیا (دلہن ) بولی نہیں نہیں میں نہیں
بیٹھتی ۔۔ باجی بولی آپ بیٹھ جاؤ قسمت سے آئی ہو ۔۔۔ اس نے پھر بھی انکار کر دیا
زینت میری طرف دیکھ کر سائقہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولی فکر نہ کرو اس کو میں
اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر بٹھاؤں گی ۔۔۔ سائقہ بولی امی آپ بیٹھتی نہیں ہو تو دیکھ
تو لو ۔۔۔۔ باجی نے بڑے گول جھولے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھ تو لیا ۔۔۔ سائقہ بولی
امی وہ جہاز والا جھولا بول رہی ہوں ۔۔۔ باجی بولی وہ کہاں ہے زینت نے کہا وہ اس
کونے میں ہوتا ہے ۔۔۔باجی نے میری طرف دیکھتے ہوئے بولی بھائی ان کو لے جاؤ اور
جہاز پر بیٹھاؤ ہم ادھر بیٹھی ہیں ۔۔ان مصیبتوں کو ایسے آرام نہیں آئے گا ۔۔۔
سائقہ اٹھتے ہوئی بولی مجھے تو اس پر بہت سکون مل جاتا ہے زینت بات کاٹتے ہوئی
بولی اچھا خالہ اور سونیا کے لئے کچھ منگوا لیتے ہیں میں نے ایک لڑکے کو بلا کر ان
کے گول گپے کا آڈر دے دیا ساتھ اسے پیسے بھی ایڈوانس دے دیئے سائقہ بولی امی آپ
گول گپے کھاؤ اور ہم جہاز کا مزہ لے لیں ۔۔۔ باجی سائقہ کو دیکھتے ہولی خیال سے
بیٹھنا تم تو ویسے بھی لاپرواہ ہو سائقہ بولی امی کچھ نہیں ہوتا ماموں خیال کرے
گا۔۔۔۔ زینت بولی خالہ بس اب نہیں مرے گی جاتے ہوئے سائقہ امی سے بولی آپ اپنے
بھائی کو کہہ دیں پہلے مجھے بٹھائے باجی بولی بھائی لے جاؤ ان کو میرا تو مغز بھی
کھا گئی ہیں ۔۔۔۔۔ میرے ساتھ چلتے ہوئے وہ دونوں ہنسی کو دبانے کی کوشش کرتی جا
رہی تھیں ۔۔۔ پھر زینت بولی سائقہ تیرے موٹے بستے کو پیچھے سے سب لڑکے حسرت سے
دیکھ رہے ہیں سائقہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی ماموں میری دوست کا بستہ موٹا نہیں
کیا آپ نے ؟۔ میں نے کہا اس کا نعمت موقع بھی نہیں دے رہا ۔۔۔۔ پھر زینت سے بولی
اس بار بھی چار دن آ جاؤ ماموں کے پاس پھر آپ کو بھی سب لڑکے ایسے دیکھیں گے
۔۔۔زینت بولی موٹے بستے کی مارکیٹ اچھی ہے اس لئے یہ دوبارہ آپ کے پاس بھاگ گیا
تھا۔۔ میں نے کہا آپ کو نعمت وقفہ ہی نہیں دے رہا ۔۔۔ بولی اسے بھی اب عشق زیادہ
چڑھ گیا ہے جب مجھے بڑے جہاز والا عاشق مل گیا ہے ۔۔۔ سائقہ بولی کیوں اس کا جہاز
بڑا نہیں ہے کیا زینت نے اپنی درمیانی انگلی سیدھی کر کے قہقہہ لگایا ۔۔۔۔ پھر وہ
ہنستے ہوئے بولی ایک مزے کی بات بتاؤں ۔۔ پھر والے انگلی کو لہراتے ہوئے بولی اتنا
ڈال کے پوچھتا ہے۔۔۔ درد تو نہیں ہو رہا ۔۔ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔میں نے بھی قہقہہ لگا
دیا ہم اس قدرے تاریک کونے میں پہنچ چکے تھے ایک جوڑی پہلے ہی موجود تھی ہم تھوڑے
فاصلے پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے زینت بولی اپنے گھر میں کسی دن ہم دونوں کو ایک
ساتھ لے کر آؤ کم سے کم ہفتے کے لئے سائقہ بولی امی کو کالج داخلے کے لئے راضی کرو
کہ میرے گھر میں رہے گی میں نے کہا گھر میں شاکرہ مستقل رہائش کے خلاف ہو گئی
کیونکہ اس کا سب سے بڑا شوق میکے جانے کا ہے اور آپ کو اکیلا نہیں چھوڑے گی میں
ہاسٹل کا بندبست کر لوں گا ۔۔ پھر زینت نے پینٹ کے بلٹ۔کی طرف ہاتھ بڑھایا اور میں
نے اسے کہا کہ اس دن گاڑی والا کچا کام نہیں کرو انجوائے کرنا ہوتا ہے لیکن ٹینشن
فری جگہ پر ایسی جگہ مجھے اچھا نہیں لگتا بولی اچھا ٹھیک ہے ۔۔پھر سائقہ کے ہپس پر
ہاتھ لگاتے ہوئے بولی ایک بار ان پر بیٹھ کر مجھے سائقہ کی اونہہہہہہ آآآآآآآآ
ہونہہہہہہہ سنا دو ۔۔۔ سائقہ بولی صبر کر لو تمھیں اپنی آواز میں سنا دے گا ماموں
۔۔۔۔۔۔ پھر ہنستے ھوئے بولی ماموں نے بیگم کو ماموں بنایا ہوا ہے ۔۔۔ زینت سنجیدہ
ہوتے ہوئے بولی ایک بات کہوں ۔۔۔میں کہا جی کہوں بولی آپ کا اتنا بڑا گھر ہے بیگم
صاحبہ اکیلی اور اکتائی ہو رہتی ھے آپ بھی لوگوں کے بچوں کو حسرت سے دیکھ رہے ہوتے
ہیں ۔۔۔ پھر وہ تھوڑا رک کر بولی آپ سائقہ سے شادی کرلیں ۔۔۔ جیسے اس نے میرے سینے
پر زور سے مکا مار دیا ہو ۔۔۔۔ میں سر جھکائے رنجیدہ بیٹھا تھا ۔۔۔۔ سائقہ اپنی
بڑی بڑی آنکھوں سے میرے چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے تھوڑی مسکرانے کی
کوشش کرتے ہوئے پوچھا سائقہ مجھے کتنے بچے فے سکتی ہے ۔۔۔ سائقہ جھٹ سے بولی ایک
درجن ۔۔۔۔ زینت بولی اس نے غلط بولا ۔۔۔۔ زینت سائقہ کے آگے اور پیچھے ہاتھ لگا کر
بولی ایک ادھر سے اور دو درجن پیچھے سے ۔۔۔ یہ زیادہ موٹے ہیں ناں ۔۔۔۔ زینت نے اس
کے ہپس پر مٹھی بھر کے کہا ۔۔۔ یہ بستہ زیادہ اچھا رزلٹ دے گا ۔۔۔۔میں نے سنجیدہ
ہوتے ہوئے سائقہ کی طرف دیکھ کر کہا میری کوشش ہو گی اور اگر شاکرہ کبھی اس پر
راضی ہو گئی تو میں آپ سے زیادہ کسی کو ترجیح نہیں دونگا ۔۔۔دور روشنی میں سائقہ
کی امی اور سونیا بینچ سے اٹھ کر ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں ساتھ شاکرہ کی کال بھی
موصول ہو گئی جسے میں نے کہا کہ بس نکلنے لگے ہیں ۔۔۔ ہم گھر آ گئے تھے اور شاکرہ
نے ان کے مارکیٹ سے لائے گئے سوٹ دیکھے اور ایک سوٹ زینت کی امی کو بھی تھما دیا
کھانے کے بعد شاکرہ نے دو رومز میں ان کے بستر لگا دئیے میرے ساتھ روم میں اگئی
زینت اور سائقہ کی باتوں اور حرکتوں سے پیدا ہونے والی گرمی میں نے شاکرہ پر نکال
لی اور ہم سو گئے اگلی صبح ان کے جانے کے وقت سائقہ کی حالت بالکل ویسی تھی جیسے
میرے شادی سے واپسی والے دن تھی ۔۔ وہ چلے گئے تھے اور اب اس کے یہ میسج کے بعد
یہی میسج آتا کہ تم کب آؤ گے سائقہ کے امتحانات کے دن قریب آتے جا رہے تھے میں نے
اس کو پڑھائی پر توجہ دینے کی اپیل کی کہ اگر آپ کے نمبر اچھے آئے تو تبھی کالج
میں داخلہ مل سکے گا میں نے ان کے اپنے گھر سے جانے کے تقریباً پندرہ دن بعد جانے
کا ارادہ کر رکھا تھا کیونکہ اتنا جلدی جلدی وہاں جانا اچھا نہیں تھا سائقہ ہر وقت
اصرار کرتی کہ۔میں اڑ کر اس کے پاس پہنچ جاؤں ان کو ان باتوں کے ابھی سمجھ نہیں
تھی کیونکہ وہ ابھی سترہ سال کی بچی تھی میں نے زنگی کے ان 37 برسوں میں بہت کچھ
سیکھ رکھا تھا ایک دن سکول سے واپسی پر اس نے میسج کیا اور میں نے اسے بتایا کہ
میں کل آ رہا ہوں وہ بہت خوش ہوئی اور بولی لوشن کی بڑی کین ساتھ لے کر آنا
۔۔۔۔۔بہت خشکی ہو گئی ہے پہلے والی لوشن کی خالی بوتل پر میں نے ریشم سے پھول اور
دل بنا کر اسے اپنے کمرے میں سجا رکھا ہے میں نے رات کو شاکرہ سے کہہ دیا تھا کہ
مجھے دوستوں کے ساتھ کل کہیں جانا ہے اس نے صبح اٹھتے ہوئے پوچھا کہ میں تیاری کر
لو میکے کی ۔۔۔اس وقت میں موبائل اٹھا چکا تھا ۔۔۔ میں نے میسج پڑھنے کے بعد اسے
بولا کہ نہیں آج کا پروگرام کینسل ہو گیا ہے سائقہ کا رات ایک بجے کا میسج آیا ہوا
تھا کہ اس کا ابو قطر سے آ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔والے تیار سالوں بعد لوٹا تھا اور اسے کم
سے کم دوماہ جہاں رہنا تھا سائقہ ان دنوں ٹینشن سے پھٹنے لگی تھی دو دن بعد اس کے
ابو سے بھی فون پر بات ہوئی اور وہ میری باتوں سے بہت مطمئن لگا وہ نے سب سے میری
تعریف سن رکھی تھی اور مجھے کھانے کی دعوت دی لیکن میں نے اس کی دعوت کو آگے بڑھا
کر اسے اپنے پاس آنے کی دعوت دے دی وہ دو دن بعد آیا اور ایک رات میرے ساتھ رہنے
کے بعد بہت مطمئن ہو کر بولا میری بیوی نے پہلی بار آپ کو بھائی بنا کر ایک اچھا
فیصلہ کیا ہے ایک ہفتے بعد میں بھی وہاں گیا لیکن اس کے ابو کی موجودگی میں ایسا
کچھ نہیں کر سکتا تھا سائقہ ان بہت پریشان اور خاموش رہتی تھی جس کا ذکر باجی نے
مجھے اس روز کر دیا کہ پتا نہیں یہ کیوں مرجھاتی جا رہی ہے میں اس کی حالت دیکھ کر
خود بھی بہت پریشان تھا اور سائقہ نے مجھے دو روز بعد ایک میسج کر کے تڑپا دیا کہ
کہا تھا ناں گاوٴں کے اس پاگل لڑکی کو برباد نہ کر دینا آ دیکھ میں کیسے برباد ہو
رہی ہوں اسی دن سائقہ کی امی کو اس کا ہسبنڈ ڈاکٹر طاہر کے پاس لے گیا اور سائقہ
کو زینت کی امی کے گھر چھوڑ گئے تھے بہت دنوں بعد سائقہ کی مجھ کو بات ہوئی اور
میں نے اس تفصیل سے سمجھایا چند دن بعد ہی اس کے پیپر شروع ہونے والے تھے لیکن
سائقہ نے شکوہ کیا کہ اس سے پڑھائی نہیں ہوئی تھی میں کہا کہ کوئی موقع جیسے ملتا
میں آپ کو سیٹ کر دونگا بولی ایک موقع ہے میرے پاس ۔۔۔ میں نے کہا بولو ۔۔۔ سائقہ
بولی پھر تم بہانہ نہیں بناؤ گے میں نے کہا یار میں بہانے نہیں بناتا حالات کو
دیکھ کر چلتا ہوں آپ بولو ۔۔۔ سائقہ نے کہا جس دن سکول جاتے ہوئے ہمارے ساتھ
رخسانہ نہیں ہو گی آپ مجھے اور زہرا کو کہیں لے جانا میں نے کہا زہرہ کون ہے بولی
جو سفید برقعے میں تھی اور آپ کے لئے انڈے لیکر آئی تھی میں نے اس سے کہا کہ آپ
اپنا راز کیوں کسی کے سامنے عیاں کرتی ہو بولی۔کچھ نہیں اسے میرا اور زینت کا سب
پتا ہے اور وہ خود بھی بستی کی شاپ والے انکل سے ایسا کرتی تھی بہت پہلے جب پردے
میں بھی نہیں تھی ۔۔ میں حیران ہوا زہرا پندرہ برس کی تھی اور کلاس 9th میں تھی میں سائقہ سے کہا
کہ کوئی مسئلہ نہ بنے یہ دیکھ لو باقی مجھے کوئی اعتراض نہیں میں آپ کی خاطر سب کر
لوں گا ۔۔۔ دو دن بعد رات کو سائقہ نے میسج کیا کل رخسانہ سکول نہیں جائے گی میں
نے اسے تیار ہونے کو کہا میں صبح ساڑھے پانچ بجے گھر سے نکل چکا تھا اور میری گاڑی
فراتے بھرتی مین روڈ پر سائقہ کی بستی کی طرف بڑھ رہی تھی میں نے گاڑی کو مین روڈ
سے اس کچے رستے پر ڈالتے ہوئے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا سائقہ۔کو گھر سے نکلنے
میں ابھی بیس منٹ باقی تھے میں نے گاڑی سائید پر روک دی میں نے اگلی سیٹ پر پڑے
شاپر سے لوشن کی بڑی بوتل اور کنڈومز کی ڈبیہ اپنی سیٹ کے پیچھے لگی جالی میں رکھ
دی اور جوس کا ایک ڈبہ نکال کے پینے لگا ان دنوں موسم کافی خوشگوار ہو چکا تھا پھر
میں نے گاڑی آگے بڑھا دی اور سائقہ کے سکول کو کراس کر کے آگے چلا گیا بستی سے
تقریباً ایک کلومیٹر پہلے میں نے گاڑی کو زمینوں میں اتار کر اس کو موڑتے ہوئے
دوبارہ مین روڈ کی۔طرف منہ کرکے اس کا سوئچ آف کر دیا اور ساتھ والی فرنٹ سیٹ پر
ٹانگیں رکھ کر پیچھے دیکھنے لگا اس جگہ درخت کچھ زیادہ تھے کچھ دیر بعد اس کچھ
رستے پر دور سے سفید اور کالا برقعے قریب آتا جا رہے تھے گاڑی انہوں نے دیکھ لی
تھی اور انکے قدموں کی رفتار تیز ہو چکی تھی ایک ٹریکٹر اس کو کراس کرتا میری گاڑی
سے گزر کر اگے چلا گیا اور ٹریکٹر نظر آنے تک وہ آہستہ چلتی قریب آتی رہی گاڑی کے
قریب آ کر سائقہ نے رک کر ادھر گرد کا جائزہ لیا اور دوسری طرف آ کر گاڑی کا پچلا
گیٹ کھول دیا ساتھ آنے والی سفید برقعے میں ملبوس زہرہ عجلت میں گاڑی کی پچھلی سیٹ
پر آ کر میری سیٹ کے پیچھے گسک گئی سائقہ نے زہرہ کے ساتھ بیٹھتے ہوئے گیٹ بند کر
دیا اور ہانپتے ہو کہا چلو۔۔۔۔۔۔۔ میں گاڑی کو قدرے سپیڈ سے اس کچے رستے پر دوڑاتا
اس کے سکول کے سامنے سے مڑتے ہوئے آگے جانے والے ٹریکٹر کو کراس کر گیا میں نے نے
ہاتھ پیچھے کیا تو سائقہ نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر اپنا نقاب اتارا میرے ہاتھ کو
کسنگ کرتے ہوئے الجھی سانسوں میں بولا آئی لو یو ۔۔۔ پھر میں نے اس کے ہاتھ کو چوم
کر چھوڑ دیا اور اپنا ہاتھ زہرہ کی طرف بڑھا دیا ایک لمحے کے وقفے کے بعد سائقہ نے
زہرہ کا ہاتھ پکڑ کر میری ہاتھ میں دے دیا اس کا رنگ گورا تھا لیکن اس پر گوشت کی
کمی کی وجہ سے اس کا ہاتھ قدرے لمبا لگ رہا تھا میں تھوڑی دیر اس کی نازک پتلی
انگلیوں کو آہستگی سے مسلتا رہا پھر اس کو کسنگ کر کے چھوڑ دیا مخالف سمت سے
لڑکیوں کے گروپس سکول کی طرف آ رہے تھے یہ دونوں آگے والی سیٹوں کے پیچھے چھپ کر
بیٹھی تھیں گاڑی کے بیک اور سائیڈ شیشے سیاہ تھے اور ان سے باہر کی طرف سے اندر
کچھ نظر نہیں آتا تھا سکول کی چھٹی تک میرے پاس تقریباً پانچ گھنٹے کا وقت تھے اور
میرے گھر تک دو اور دو چار گھنٹے لگ جانے تھے اور اس وقت میں گھر تک ان کو نہیں لا
سکتا تھا مین روڈ پر بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد میں نے گاڑی کو لفٹ سائیڈ پر چھوٹی
سڑک پر موڑ لیا اور کچھ دیر بعد اس سڑک سے بھی رائٹ سائیڈ پر اس سڑک سے اتار دیا
گاڑی تھوڑے اونچے ٹیلوں والے اس بڑے میدان نما بنجر زمینوں میں ہچکولے کھاتی آگے
بڑھ رہی تھی چھوٹی خودرو جھاڑیاں وقفے وقفے پر جھنڈ بنائے کھڑی تھی اس چھوٹی سڑک
سے تقریباً دو کلومیٹر ان بنجر زمینوں میں فاصلہ طے کرنے کے بعد میں نے گاڑی ایک ٹیلے
پر روک دی جہاں سے چاروں طرف تقریباً ایک کلومیٹر تک ان جھاڑیوں کے سوا کچھ نظر
نہیں آ رہا تھا سائقہ نے اپنا برقعہ اتار دیا تھا اور مسکراتے ہوئے آگے آنا چاہا
رہی تھی لیکن میں نے اسے روک دیا اور میں خود پچھلی سیٹ پر چلا گیا زھرا ابھی تک
سفید ٹوپی والا برقعہ پہنے بیٹھی تھی میں نے شاہر سے تین بوتل جوس اور چپس کا ایک
بڑا پیکٹ نکالا اور اور سائقہ کے بعد زھرا کو جوس دیتے ہوئے ہنس کے بولا اس کو تو
اب اتار دو اس نے مسکراتے ہو اپنے برقعے کا نقاب والا پلو اٹھا کر اپنے سر پر رکھ
دیا سائقہ نے اس کے برقعے کو پکڑ کر ٹوپی سر سے اتارتے ہوئے کہا اس ٹوپی کو اتارو
ابھی میرا ماموں آپ کو ایک اور ٹوپی پہناتے ہیں ۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی
ماموں میری دوست کو ٹوپی پہناؤ گے ناں ؟؟؟ میں نے کہا پہتو تمھیں پہناتا ہوں اس آپ
کہو گی تو اس کو بھی پہنا دونگا زھرا کا چہرہ تھوڑا کمزور تھا لیکن اس کے لب بہت
خوبصورت تھے اس کی آنکھوں میں کاجل لگا تھا اس کا جسم بھی کمزور تھا لیکن حیرت
انگیز طور پر اس کے بوبز سائقہ سے بھی بہت بڑے تھا اور اس کی نیلی قمیض بوز پر
کافی ٹائٹ ہو رہی تھی سائقہ ہمارے درمیان میں بیٹھی تھی اور چپس کھانے سے زیادہ
توجہ اس کی میرے پینٹ میں بنتے ابھار میں تھا میں زھرا سے باتیں کرکے اسے ریلکس
کرنے کی کوشش کر رہا تھا والے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی مجھے اس جگہ خوف محسوس
ہو رہا ہے میں نے کہا خوف کی کیوں بات ہے جب کچھ ہے نہیں جہاں تو خوف کیسا ہے ؟؟؟
زھرا بولی کوئی آ گیا تو ۔۔۔ سائقہ بولی آنے والے کو تم راضی کر لینا اور کیا
چاہیے ہو گا اسے میں نے کہا یہ راضی کر سکتی ہے کسی کو ابھی تو چھوٹی ہے ۔۔سائقہ
بولی اووووووو یہ اتنی چھوٹی تھی اور دکان والے چاچا کو خود جا کر راضی کرتی تھی
زھرا نہیں اپنی کہنی سائقہ کی سائیڈ میں مار کر اسے چپ رہنا کو کہا سائقہ نے چپس
کا پیکٹ اور جوس کا ڈبہ رکھ دیا تھا اور میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر
تھوڑی اوپر اٹھ گئی اور کسنگ کرنے لگی تھی زہرہ نے بھی جوس کا ڈبہ رکھ دیا اور آس
پاس کا جائزہ لینے لگی تھی اس کے چہرے پر خوف کے اثرات موجود تھے سائقہ میری جھولی
میں بیٹھ گئی تھی میں کے ہپس کو سہلاتا ہوا ادے کسنگ کر رہا تھا اور زھرا کی
بیچینی بڑھتی جا رہی تھی وہ بار بار پہلو بدل کر کبھی باہر دیکھنے لگتی تو کبھی
سائقہ کے ہپس پر پھرتے میں ہاتھوں کو دیکھتی تھی اس کے جسم میں کپکپاہٹ صاف نظر آ
رہی تھی میں سائقہ کی قمیض اتارنے لگا تو زھرا کے چہرے پر ہوائیں اڑنے لگیں تھی
اور وہ کھلے ہونٹوں کے ساتھ بےچینی کی آخری حدوں کو چھونے لگی تھی وہ سائقہ کے
بازو کو پکڑ کر کانپتی آواز میں بولی قمیض تو۔۔۔ نہ اتارووووو سائقہ نے مسکرا کر
اس کو آنکھ ماری اور اپنی قمیض کے ساتھ اپنی بریزر کو بھی اتار کر گئیر لیور کے
پاس پھینک دیا زھرا پاگلوں کی طرح سائقہ کو مڑ کر آگے سے دیکھتی تو کبھی تھوڑا
اوپر اٹھ کر آس پاس کو جائزہ لینے لگی میں سائقہ کو زھرا کی گود میں لٹا کر اس کے
بوبز پر جھک گیا اور اپنوں بائیس ہاتھ کو زھرا کے موٹے بوز پر رکھ کر ان کو دبانے
لگا زھرا کے سسکیاں کے بیچ لمبی سی وائی ی ی ی ی نکلی اور اس نے اپنے ہاتھ میرے
ہاتھوں پر ٹکا دئیے زہرہ کی وائی سن کر سائقہ نے اپنے سر کو تھوڑا اوپر کر کے زہرا
کو دیکھا اور مسکرا دی سائقہ میری شرٹ کے بٹن کھول چکی تھی میں نے اپنے کندھوں سے
شرٹ اتارتے ہوئے نظر دوڑا کر آس پاس کا جائزہ لیا دور کہیں چھوٹے اور دھندکے سے دو
اونٹ جاتے دیکھائی دئیے جا نے آگے ایک سیاہ نقطہ حرکت کرتا دیکھائی دیا میں نے
دوبارہ سے سائقہ کے بوبز کو اپنے ہاتھوں میں بھرا اور اپنی انگلیوں سے اس کے گلابی
نقطے جیسے نپلز کو انگلیوں سے مسلنے لگا سائقہ کی سسکیوں کے ساتھ زہرا کی وششششش
نکل گئی وہ وہ اپنی ایک انگلی کو چوستے ہوئے اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنے بوبز مسلنے
لگی اور اسی لمحے میں نے زہرا کی قمیض کے اندر ہاتھ بڑھا کر اس کے بوبز پر لے گیا
زہرا سسک گئی اور اس نے اپنا ہاتھ قمیض کے اوپر میرے ہاتھ پر جما لئے میں نے اپنا
سینہ سائقہ پر ٹکا دیا اور زہرا کی قمیض اتارنے لگا زہرا ایک بار پھر گھبرا گاڑی
کے باہر کا جائزہ لیتی ہوئی اس کی قمیض اوپر اٹھاتے ہاتھوں کو ہاتھ لگاتی جا رہی
تھی قمیض بوبز کے پاس جا کر رک گئی میں زہرا کو بولا قمیض اتار دو اس نے تےز سانسوں
کے بیچ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے قمیض اتار دی اور بریزر پر ہاتھ رکھ کر مجھے تکنے
لگی میں نے سائقہ کے گول بوبز کو باری باری اپنے منہ میں بھرا اووپا ہ ہ ہ ہ کی
آواز کے ساتھ چھوڑ دیا میں نے زہرا کو سائقہ پر جھکا کر اس کے بریزر۔کی ہک کھول دی
اور میں سائقہ کی سفید شلوار کو اتارنے لگا سائقہ نے ہاتھ میری پینٹ کے بیلٹ کی
طرف بڑھائے لیکن میں نے اسے رکنے کا اشارہ کر دیا براؤن بڑے دائرے کے بیچ نتے ہوئے
چھوٹے نپلز کے ساتھ زہرا اپنے بوبز نکال چکی تھی میں نے سائقہ کے جسم پر ہاتھ
پھیرا اور اس کی ببلی پر تھپکی دے کر اپنے ہاتھ زھرا کی شلوار کے لاسٹک پر ڈال
دئیے میں اس کی شلوار نیچے کھینچنے لگا اور وہ سیٹ سے ہپس کو تھوڑا اٹھا کر میری
مدد کر رہی تھی وہ اب باہر دیکھنے سے زیادہ سائقہ کے فل ننگے جسم کو رشک بھری
نظروں سے دیکھنے کے بعد اپنے کمزور جسم کو سر جھکائے دیکھنے لگی تھی اس کی شلوار
گھٹنوں تک کھینچنے کے بعد میں نے اسے اتارنے کا اشارہ دیا زہرا کا قد سائقہ سے
تھوڑا بڑا تھا زہرا کے شلوار اتارنے کے بعد میں نے اس کے کپڑوں کو ڈرائیونگ سیٹ کی
طرف اچھال دیا اور سائقہ کی ٹانگوں کے بیچ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے بیلٹ کھولنے
کا اشارہ کیا اور میں نے اردگرد نظریں دوڑا لیں بہت سکون اور خاموشی تھی سائقہ نے
میری پینٹ کو تھوڑا نیچے کر لیا تھا میں باری باری پینٹ کو اپنی ٹانگوں سے نکال کر
آگے اچھال دیا اور زہرا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی انڈرویئر کے لاسٹک پر رکھ دیا سائقہ
نے جیسے ہی میری اںڈرویئر کو نیچے کیا ببلو کسی مست سانپ کی طرح اکڑ کر نکلا اور
ادھر ہلتے ہوئے پھنکارنے لگا پھٹی آنکھوں اور کھلے منہ کے ساتھ کبھی مجھے اور کبھی
ببلو کو دیکھے جا رہی تھی شاید اس کا میرے ببلو جیسے کسی ہتھیار سے واسطہ نہیں پڑا
تھا سائقہ کے ہاتھوں میں کھیلتے ببلو کو دیکھ کر وہ بہت گھبرا چکی تھی اور ساتھ اس
کی سانسوں میں تیزی آ گئی تھی سائقہ نے مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں پوچھا لوشن
؟؟؟ میں نے ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے لگی جیب میں ہاتھ ڈالا اور لوشن کی بڑی بوتل
سائقہ کر تھما دی سائقہ نے اس کا ڈھکن کھول کر پھینک دیا اور مجھے دیکھتے ہوئے
اپنی پتلی کمر کو بل دیا میں نے سائقہ کو بغل میں ہاتھ ڈال کر زہرا کی جھولی میں
اس کا سر رکھ دیا اور مسکراتے ہوئے زہرا کے بوبز کو تھوڑا آگے کر کے اس کا نپل
سائقہ کے ہونٹوں پر رکھ دیا سائقہ قہقہہ لگاتے ہوئے منہ دوسری طرف پھیر لیا میں نے
سائقہ کی بھری بھری ٹانگوں کو اپنے رانوں پر سجا لیا ببلو نے زور زور کی انگڑائیاں
لینی شروع کر دیں سائقہ نے لوشن کے بڑی مقدار ببلو پر گرا دی جو موٹی لکیروں کی
شکل میں اس کے پیٹ پر گرنے لگی زہرا کے لئے یہ سین حیران کن تھا اور ببلو اور
سائقہ کے چھوٹے جسم کو دیکھ کر اگلا سین جلدی دیکھنا چاہتی تھی زھرا آنکھیں
جھپکائے بغیر کھلے منہ کے ساتھ لرزتے جسم کے ساتھ لوشن میں لت پت ببلو کو آہستہ
آہستہ سائقہ کی ببلی کے ہونٹوں میں اترتا دیکھ کر جسم کو ایسے اکڑا رہی تھی جیسے
ببلو اس کے پیٹ میں اتر رہا ہو میں ساکت پڑی سائقہ کے معصوم چہرے خو دیکھتا ببلو
کو آگے پھلاتا جا رہا تھا سائقہ نے میری سائیڈوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ببلو کے چھ
انچ سے آگے جانے کے بعد سائقہ کا منہ آہستہ آہستہ کھلتا جا رہا تھا میں نے راستے
میں رکے بغیر ببلو کو اپنی منزل مقصود تک پہنچا دیا تھا میں نے جھک کر اس کے ہونٹ
چوسنے شروع کر دئیے اور اس کی سانسوں کے بحال ہونے کا انتظار کرنے لگا تھوڑی دیر
بعد سائقہ ریلکس ہو گئی اور میں نے اپنی کمر کر اہستہ سے حرکت دینی شروع کر دی میں
نے گاڑی کے پچھلے شیشے کے ساتھ رکھے ا۔ دونوں کے سکول بیگز کو ایک سائیڈ پر کرتے
ہوئے اس طرف بھی بہت دور تک نظام دوڑا لی اور زھرا کو اپنے بوبز آگے لانے کا بولا
میں سائقہ کو جھٹکے لگاتے زہرا کے بوبز چاسنے لگا زہرہ اس وقت بنا پانی کے مچھلی
جیسے تڑپ رہی تھی لیکن سائقہ میں 9۰5′ انچ کا تگڑا ببلو پورا اترتے دیکھ کر اس کا تھوڑی دیر پہلے
ببلو کو دیکھ کر پیدا ہونے والا خوف ختم ہو چکا تھا اور اب وہ خود پورا ببلو اپنے
اندر لینے کو بےتاب ہو رہی تھی زھرا کو پوری طرح تڑپانے کے بعد میں نے اپنے ہونٹ
سائقہ کے ہونٹوں میں جوڑ دئیے سائقہ کی ریشمی ببلی میں لوشن کی نفاست بھرا ببلو
اکیلے مزے لوٹ رہا تھا زہرا انتظار کرتے تھک چکی تھی اور اب پیاس کے ساتھ مایوسی
بھی اس کے چہرے پر عیاں تھی سائقہ کے جسم میں اکڑاہٹ کےساتھ حرکت پیدا ہو چکی تھی
میں نے بھی سائقہ کے بڑھتے مزے کو دیکھ کر اپنے جھٹکوں میں تھوڑی تیزی بھر لی تھی
سائقہ نے اپنے ہاتھ میرے کندھوں پر جوڑ لئے تھے وہ اپنے بھاری ریشمی ہپس کو جھٹکے
کے ساتھ ساکت کرتے اوووووووو وشششششششش وشششششش وشششش کرتی جسم کو ڈھیلا چھوڑنے
لگی میں اس کی آنکھوں کو چومتے ہوئے اپنا ہاتھ زہرا کی ببلی کی طرف بڑھا گیا زہرہ
نے وائی وائی کرتے ہوئے میرے ہاتھ کو ایسی رانوں میں دبا لیا سائقہ اپنے ہاتھوں کی
انگلیوں سے میرے سینے کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی پھر میں نے اسے اٹھنے کا
اشارہ کیا اور ببلو کو آہستہ آہستہ نکالنے لگا سائقہ سیٹ سے اتر کر اپنے ریشمی ہپس
میری باڈی سثٹچ کرتے ادھر ادھر دینے لگی تھی اور میں نے زھرا کی ٹانگوں کو پکڑ کر
اسے سیٹ پر گھسیٹ لیا میں نے جھکے کر سائقہ کے ریشمی ہپس پر کس کیا اور اسے زھرا
کے سر کی طرف آنے کا اشارہ کیا سائقہ زہرا کے سر کو گود میں لیکر بیٹھ گئی اور
بولی ماموں یہ میری بہت پیاری دوست ہے اسے بھی میری طرح پورا مزہ دینا اور کنجوسی
نہ کرنا میں نے زہرا کی ٹانگیں تھوڑی اوپر اٹھائیں تو اس نے اپنی تین انگلیوں پر
اپنا تھوک لگایا اور اسے اپنی ببلی کے ہونٹوں پر مل دیا سائقہ ہنستے ہوئے بولی
رواج کے مطابق چلا کرو آج کل لوشن کا رواج ہے میں نے ہنستے ہوئے سائقہ کے گال پر
تھپکی دی اور لوشن کی بوتل نیچے سے اٹھا کر کچھ لوشن زہرا کی ببلی پر گرا دیا اور
اپنے ببلو کو ببلی کے ہونٹوں میں برش کرتا اندر اتارنے لگا ببلو کی موٹی ٹوپی
کمزور سی زہرا کے اندر اتری تو اس کی ٹانگیں اکڑا لیں میں نے ادھر رک کر اس کی
ٹانگوں کو ڈھیلا کیا مسکراتی سائقہ نے اپنے ہاتھ کی مٹھی بند کرکے مجھے جھٹکا
مارنے کا اشارہ کیا میں نے زہرا کے چھوٹے ہپس پر ہاتھ پھیرے اور غباروں جیسے بھولے
بوبز کو تھوڑا چوس کر اس کی ٹانگوں کو پکڑ کر ایک لمحے کا وقفہ دیا اور جھٹکے کے
ساتھ آدھے سے زیادہ ببلو کو تنگ گلی میں اتار دیا زہرا کے حلق سے ہلکی چیخ نکلی
اور وہ میرے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر زور سے دھکیلنے لگی ۔۔۔وائی وائی وائی ۔ماموں
۔۔۔وششش ماآآآ ماموں اشششششش ۔۔۔۔۔ سائقہ اس۔کی۔کندھوں کو زور سے پکڑے ہوئے ہونٹوں
کو دانتوں تلے دبا کر ہنس رہی تھی زہرا میرے نیچے سے پھسل جانا چاہتی تھی لیکن یہ
اس کے بس کی بات نہیں تھی ببلو کسی بہت ہی ٹائٹ جگہ میں پھنسا ہلنا بھول گیا تھا
سائقہ بولی نہ۔ماموں نہ ایسے تو نہیں کرو اتنی چھوٹی سی سہیلی ہے میری ۔۔۔۔۔ (
ایک لمحے کے وقفے کے بعد سائقہ
نے زہرہ کا ہاتھ پکڑ کر میری ہاتھ میں دے دیا اس کا رنگ گورا تھا لیکن اس پر گوشت
کی کمی کی وجہ سے اس کا ہاتھ قدرے لمبا لگ رہا تھا میں تھوڑی دیر اس کی نازک پتلی
انگلیوں کو آہستگی سے مسلتا رہا پھر اس کو کسنگ کر کے چھوڑ دیا مخالف سمت سے
لڑکیوں کے گروپس سکول کی طرف آ رہے تھے یہ دونوں آگے والی سیٹوں کے پیچھے چھپ کر
بیٹھی تھیں گاڑی کے بیک اور سائیڈ شیشے سیاہ تھے اور ان سے باہر کی طرف سے اندر
کچھ نظر نہیں آتا تھا سکول کی چھٹی تک میرے پاس تقریباً پانچ گھنٹے کا وقت تھے اور
میرے گھر تک دو اور دو چار گھنٹے لگ جانے تھے اور اس وقت میں گھر تک ان کو نہیں لا
سکتا تھا مین روڈ پر بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد میں نے گاڑی کو لفٹ سائیڈ پر چھوٹی
سڑک پر موڑ لیا اور کچھ دیر بعد اس سڑک سے بھی رائٹ سائیڈ پر اس سڑک سے اتار دیا
گاڑی تھوڑے اونچے ٹیلوں والے اس بڑے میدان نما بنجر زمینوں میں ہچکولے کھاتی آگے
بڑھ رہی تھی چھوٹی خودرو جھاڑیاں وقفے وقفے پر جھنڈ بنائے کھڑی تھی اس چھوٹی سڑک
سے تقریباً دو کلومیٹر ان بنجر زمینوں میں فاصلہ طے کرنے کے بعد میں نے گاڑی ایک
ٹیلے پر روک دی جہاں سے چاروں طرف تقریباً ایک کلومیٹر تک ان جھاڑیوں کے سوا کچھ
نظر نہیں آ رہا تھا سائقہ نے اپنا برقعہ اتار دیا تھا اور مسکراتے ہوئے آگے آنا
چاہا رہی تھی لیکن میں نے اسے روک دیا اور میں خود پچھلی سیٹ پر چلا گیا زھرا ابھی
تک سفید ٹوپی والا برقعہ پہنے بیٹھی تھی میں نے شاہر سے تین بوتل جوس اور چپس کا
ایک بڑا پیکٹ نکالا اور اور سائقہ کے بعد زھرا کو جوس دیتے ہوئے ہنس کے بولا اس کو
تو اب اتار دو اس نے مسکراتے ہو اپنے برقعے کا نقاب والا پلو اٹھا کر اپنے سر پر
رکھ دیا سائقہ نے اس کے برقعے کو پکڑ کر ٹوپی سر سے اتارتے ہوئے کہا اس ٹوپی کو
اتارو ابھی میرا ماموں آپ کو ایک اور ٹوپی پہناتے ہیں ۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے
بولی ماموں میری دوست کو ٹوپی پہناؤ گے ناں ؟؟؟ میں نے کہا پہتو تمھیں پہناتا ہوں
اس آپ کہو گی تو اس کو بھی پہنا دونگا زھرا کا چہرہ تھوڑا کمزور تھا لیکن اس کے لب
بہت خوبصورت تھے اس کی آنکھوں میں کاجل لگا تھا اس کا جسم بھی کمزور تھا لیکن حیرت
انگیز طور پر اس کے بوبز سائقہ سے بھی بہت بڑے تھا اور اس کی نیلی قمیض بوز پر
کافی ٹائٹ ہو رہی تھی سائقہ ہمارے درمیان میں بیٹھی تھی اور چپس کھانے سے زیادہ
توجہ اس کی میرے پینٹ میں بنتے ابھار میں تھا میں زھرا سے باتیں کرکے اسے ریلکس
کرنے کی کوشش کر رہا تھا والے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی مجھے اس جگہ خوف محسوس
ہو رہا ہے میں نے کہا خوف کی کیوں بات ہے جب کچھ ہے نہیں جہاں تو خوف کیسا ہے ؟؟؟
زھرا بولی کوئی آ گیا تو ۔۔۔ سائقہ بولی آنے والے کو تم راضی کر لینا اور کیا
چاہیے ہو گا اسے میں نے کہا یہ راضی کر سکتی ہے کسی کو ابھی تو چھوٹی ہے ۔۔سائقہ
بولی اووووووو یہ اتنی چھوٹی تھی اور دکان والے چاچا کو خود جا کر راضی کرتی تھی
زھرا نہیں اپنی کہنی سائقہ کی سائیڈ میں مار کر اسے چپ رہنا کو کہا سائقہ نے چپس
کا پیکٹ اور جوس کا ڈبہ رکھ دیا تھا اور میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر
تھوڑی اوپر اٹھ گئی اور کسنگ کرنے لگی تھی زہرہ نے بھی جوس کا ڈبہ رکھ دیا اور آس
پاس کا جائزہ لینے لگی تھی اس کے چہرے پر خوف کے اثرات موجود تھے سائقہ میری جھولی
میں بیٹھ گئی تھی میں کے ہپس کو سہلاتا ہوا ادے کسنگ کر رہا تھا اور زھرا کی
بیچینی بڑھتی جا رہی تھی وہ بار بار پہلو بدل کر کبھی باہر دیکھنے لگتی تو کبھی
سائقہ کے ہپس پر پھرتے میں ہاتھوں کو دیکھتی تھی اس کے جسم میں کپکپاہٹ صاف نظر آ
رہی تھی میں سائقہ کی قمیض اتارنے لگا تو زھرا کے چہرے پر ہوائیں اڑنے لگیں تھی
اور وہ کھلے ہونٹوں کے ساتھ بےچینی کی آخری حدوں کو چھونے لگی تھی وہ سائقہ کے
بازو کو پکڑ کر کانپتی آواز میں بولی قمیض تو۔۔۔ نہ اتارووووو سائقہ نے مسکرا کر
اس کو آنکھ ماری اور اپنی قمیض کے ساتھ اپنی بریزر کو بھی اتار کر گئیر لیور کے
پاس پھینک دیا زھرا پاگلوں کی طرح سائقہ کو مڑ کر آگے سے دیکھتی تو کبھی تھوڑا
اوپر اٹھ کر آس پاس کو جائزہ لینے لگی میں سائقہ کو زھرا کی گود میں لٹا کر اس کے
بوبز پر جھک گیا اور اپنوں بائیس ہاتھ کو زھرا کے موٹے بوز پر رکھ کر ان کو دبانے
لگا زھرا کے سسکیاں کے بیچ لمبی سی وائی ی ی ی ی نکلی اور اس نے اپنے ہاتھ میرے
ہاتھوں پر ٹکا دئیے زہرہ کی وائی سن کر سائقہ نے اپنے سر کو تھوڑا اوپر کر کے زہرا
کو دیکھا اور مسکرا دی سائقہ میری شرٹ کے بٹن کھول چکی تھی میں نے اپنے کندھوں سے
شرٹ اتارتے ہوئے نظر دوڑا کر آس پاس کا جائزہ لیا دور کہیں چھوٹے اور دھندکے سے دو
اونٹ جاتے دیکھائی دئیے جا نے آگے ایک سیاہ نقطہ حرکت کرتا دیکھائی دیا میں نے
دوبارہ سے سائقہ کے بوبز کو اپنے ہاتھوں میں بھرا اور اپنی انگلیوں سے اس کے گلابی
نقطے جیسے نپلز کو انگلیوں سے مسلنے لگا سائقہ کی سسکیوں کے ساتھ زہرا کی وششششش
نکل گئی وہ وہ اپنی ایک انگلی کو چوستے ہوئے اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنے بوبز مسلنے
لگی اور اسی لمحے میں نے زہرا کی قمیض کے اندر ہاتھ بڑھا کر اس کے بوبز پر لے گیا
زہرا سسک گئی اور اس نے اپنا ہاتھ قمیض کے اوپر میرے ہاتھ پر جما لئے میں نے اپنا
سینہ سائقہ پر ٹکا دیا اور زہرا کی قمیض اتارنے لگا زہرا ایک بار پھر گھبرا گاڑی
کے باہر کا جائزہ لیتی ہوئی اس کی قمیض اوپر اٹھاتے ہاتھوں کو ہاتھ لگاتی جا رہی
تھی قمیض بوبز کے پاس جا کر رک گئی میں زہرا کو بولا قمیض اتار دو اس نے تےز
سانسوں کے بیچ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے قمیض اتار دی اور بریزر پر ہاتھ رکھ کر مجھے
تکنے لگی میں نے سائقہ کے گول بوبز کو باری باری اپنے منہ میں بھرا اووپا ہ ہ ہ ہ
کی آواز کے ساتھ چھوڑ دیا میں نے زہرا کو سائقہ پر جھکا کر اس کے بریزر۔کی ہک کھول
دی اور میں سائقہ کی سفید شلوار کو اتارنے لگا سائقہ نے ہاتھ میری پینٹ کے بیلٹ کی
طرف بڑھائے لیکن میں نے اسے رکنے کا اشارہ کر دیا براؤن بڑے دائرے کے بیچ نتے ہوئے
چھوٹے نپلز کے ساتھ زہرا اپنے بوبز نکال چکی تھی میں نے سائقہ کے جسم پر ہاتھ
پھیرا اور اس کی ببلی پر تھپکی دے کر اپنے ہاتھ زھرا کی شلوار کے لاسٹک پر ڈال
دئیے میں اس کی شلوار نیچے کھینچنے لگا اور وہ سیٹ سے ہپس کو تھوڑا اٹھا کر میری مدد
کر رہی تھی وہ اب باہر دیکھنے سے زیادہ سائقہ کے فل ننگے جسم کو رشک بھری نظروں سے
دیکھنے کے بعد اپنے کمزور جسم کو سر جھکائے دیکھنے لگی تھی اس کی شلوار گھٹنوں تک
کھینچنے کے بعد میں نے اسے اتارنے کا اشارہ دیا زہرا کا قد سائقہ سے تھوڑا بڑا تھا
زہرا کے شلوار اتارنے کے بعد میں نے اس کے کپڑوں کو ڈرائیونگ سیٹ کی طرف اچھال دیا
اور سائقہ کی ٹانگوں کے بیچ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے بیلٹ کھولنے کا اشارہ کیا
اور میں نے اردگرد نظریں دوڑا لیں بہت سکون اور خاموشی تھی سائقہ نے میری پینٹ کو
تھوڑا نیچے کر لیا تھا میں باری باری پینٹ کو اپنی ٹانگوں سے نکال کر آگے اچھال
دیا اور زہرا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی انڈرویئر کے لاسٹک پر رکھ دیا سائقہ نے جیسے ہی
میری اںڈرویئر کو نیچے کیا ببلو کسی مست سانپ کی طرح اکڑ کر نکلا اور ادھر ہلتے
ہوئے پھنکارنے لگا پھٹی آنکھوں اور کھلے منہ کے ساتھ کبھی مجھے اور کبھی ببلو کو
دیکھے جا رہی تھی شاید اس کا میرے ببلو جیسے کسی ہتھیار سے واسطہ نہیں پڑا تھا
سائقہ کے ہاتھوں میں کھیلتے ببلو کو دیکھ کر وہ بہت گھبرا چکی تھی اور ساتھ اس کی
سانسوں میں تیزی آ گئی تھی سائقہ نے مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں پوچھا لوشن ؟؟؟ میں
نے ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے لگی جیب میں ہاتھ ڈالا اور لوشن کی بڑی بوتل سائقہ کر
تھما دی سائقہ نے اس کا ڈھکن کھول کر پھینک دیا اور مجھے دیکھتے ہوئے اپنی پتلی
کمر کو بل دیا میں نے سائقہ کو بغل میں ہاتھ ڈال کر زہرا کی جھولی میں اس کا سر
رکھ دیا اور مسکراتے ہوئے زہرا کے بوبز کو تھوڑا آگے کر کے اس کا نپل سائقہ کے
ہونٹوں پر رکھ دیا سائقہ قہقہہ لگاتے ہوئے منہ دوسری طرف پھیر لیا میں نے سائقہ کی
بھری بھری ٹانگوں کو اپنے رانوں پر سجا لیا ببلو نے زور زور کی انگڑائیاں لینی
شروع کر دیں سائقہ نے لوشن کے بڑی مقدار ببلو پر گرا دی جو موٹی لکیروں کی شکل میں
اس کے پیٹ پر گرنے لگی زہرا کے لئے یہ سین حیران کن تھا اور ببلو اور سائقہ کے
چھوٹے جسم کو دیکھ کر اگلا سین جلدی دیکھنا چاہتی تھی زھرا آنکھیں جھپکائے بغیر
کھلے منہ کے ساتھ لرزتے جسم کے ساتھ لوشن میں لت پت ببلو کو آہستہ آہستہ سائقہ کی
ببلی کے ہونٹوں میں اترتا دیکھ کر جسم کو ایسے اکڑا رہی تھی جیسے ببلو اس کے پیٹ
میں اتر رہا ہو میں ساکت پڑی سائقہ کے معصوم چہرے خو دیکھتا ببلو کو آگے پھلاتا جا
رہا تھا سائقہ نے میری سائیڈوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ببلو کے چھ انچ سے آگے جانے
کے بعد سائقہ کا منہ آہستہ آہستہ کھلتا جا رہا تھا میں نے راستے میں رکے بغیر ببلو
کو اپنی منزل مقصود تک پہنچا دیا تھا میں نے جھک کر اس کے ہونٹ چوسنے شروع کر دئیے
اور اس کی سانسوں کے بحال ہونے کا انتظار کرنے لگا تھوڑی دیر بعد سائقہ ریلکس ہو
گئی اور میں نے اپنی کمر کر اہستہ سے حرکت دینی شروع کر دی میں نے گاڑی کے پچھلے
شیشے کے ساتھ رکھے ا۔ دونوں کے سکول بیگز کو ایک سائیڈ پر کرتے ہوئے اس طرف بھی
بہت دور تک نظام دوڑا لی اور زھرا کو اپنے بوبز آگے لانے کا بولا میں سائقہ کو
جھٹکے لگاتے زہرا کے بوبز چاسنے لگا زہرہ اس وقت بنا پانی کے مچھلی جیسے تڑپ رہی
تھی لیکن سائقہ میں 9۰5′ انچ کا تگڑا ببلو پورا اترتے دیکھ کر اس کا تھوڑی دیر پہلے
ببلو کو دیکھ کر پیدا ہونے والا خوف ختم ہو چکا تھا اور اب وہ خود پورا ببلو اپنے
اندر لینے کو بےتاب ہو رہی تھی زھرا کو پوری طرح تڑپانے کے بعد میں نے اپنے ہونٹ
سائقہ کے ہونٹوں میں جوڑ دئیے سائقہ کی ریشمی ببلی میں لوشن کی نفاست بھرا ببلو
اکیلے مزے لوٹ رہا تھا زہرا انتظار کرتے تھک چکی تھی اور اب پیاس کے ساتھ مایوسی
بھی اس کے چہرے پر عیاں تھی سائقہ کے جسم میں اکڑاہٹ کےساتھ حرکت پیدا ہو چکی تھی
میں نے بھی سائقہ کے بڑھتے مزے کو دیکھ کر اپنے جھٹکوں میں تھوڑی تیزی بھر لی تھی
سائقہ نے اپنے ہاتھ میرے کندھوں پر جوڑ لئے تھے وہ اپنے بھاری ریشمی ہپس کو جھٹکے
کے ساتھ ساکت کرتے اوووووووو وشششششششش وشششششش وشششش کرتی جسم کو ڈھیلا چھوڑنے
لگی میں اس کی آنکھوں کو چومتے ہوئے اپنا ہاتھ زہرا کی ببلی کی طرف بڑھا گیا زہرہ
نے وائی وائی کرتے ہوئے میرے ہاتھ کو ایسی رانوں میں دبا لیا سائقہ اپنے ہاتھوں کی
انگلیوں سے میرے سینے کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی پھر میں نے اسے اٹھنے کا
اشارہ کیا اور ببلو کو آہستہ آہستہ نکالنے لگا سائقہ سیٹ سے اتر کر اپنے ریشمی ہپس
میری باڈی سثٹچ کرتے ادھر ادھر دینے لگی تھی اور میں نے زھرا کی ٹانگوں کو پکڑ کر
اسے سیٹ پر گھسیٹ لیا میں نے جھکے کر سائقہ کے ریشمی ہپس پر کس کیا اور اسے زھرا
کے سر کی طرف آنے کا اشارہ کیا سائقہ زہرا کے سر کو گود میں لیکر بیٹھ گئی اور بولی
ماموں یہ میری بہت پیاری دوست ہے اسے بھی میری طرح پورا مزہ دینا اور کنجوسی نہ
کرنا میں نے زہرا کی ٹانگیں تھوڑی اوپر اٹھائیں تو اس نے اپنی تین انگلیوں پر اپنا
تھوک لگایا اور اسے اپنی ببلی کے ہونٹوں پر مل دیا سائقہ ہنستے ہوئے بولی رواج کے
مطابق چلا کرو آج کل لوشن کا رواج ہے میں نے ہنستے ہوئے سائقہ کے گال پر تھپکی دی
اور لوشن کی بوتل نیچے سے اٹھا کر کچھ لوشن زہرا کی ببلی پر گرا دیا اور اپنے ببلو
کو ببلی کے ہونٹوں میں برش کرتا اندر اتارنے لگا ببلو کی موٹی ٹوپی کمزور سی زہرا
کے اندر اتری تو اس کی ٹانگیں اکڑا لیں میں نے ادھر رک کر اس کی ٹانگوں کو ڈھیلا
کیا مسکراتی سائقہ نے اپنے ہاتھ کی مٹھی بند کرکے مجھے جھٹکا مارنے کا اشارہ کیا
میں نے زہرا کے چھوٹے ہپس پر ہاتھ پھیرے اور غباروں جیسے بھولے بوبز کو تھوڑا چوس
کر اس کی ٹانگوں کو پکڑ کر ایک لمحے کا وقفہ دیا اور جھٹکے کے ساتھ آدھے سے زیادہ
ببلو کو تنگ گلی میں اتار دیا زہرا کے حلق سے ہلکی چیخ نکلی اور وہ میرے پیٹ پر
ہاتھ رکھ کر زور سے دھکیلنے لگی اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا ۔۔۔اششششششش
اووووووو ماموں ۔۔۔ آآآآآآآ ۔۔۔ ما۔۔۔۔ اووو سائقہ اپنے لبوں کو دانتوں تلے دبا کر
زہرا کے چہرے پر جھکی مسکرا رہی تھی
میں زھرا کی اکڑی اور کانپتی
ٹانگوں کو پکڑ کر اس کے نارمل ہونے کا انتظار کر رہا تھا زھرا اپنے جسم کو اکڑا کر
اپنے ہپس سیٹ سے تھوڑے اوپر اٹھا چکی تھی وہ اس طرح زور لگا کے آس کے پیٹ میں
پیوست خنجر کو نکال دینا چاہتی تھی میں ببلو کو آرام سے ببلی میں چھوڑے بیٹھا تھا
کہ زھراء جسم کو اور زیادہ اکڑا لیا اور اپنے بوبز مسلتے ہوئے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔
زھرا پہلے ہی کمزور تھی اور اپنی گود میں پڑی سائقہ کی مست چدائی دیکھ کر بہت
بےچین ہو چکی تھی زھرا آنسوؤں سے بھری بند آنکھوں کے ساتھ جسم کو ڈھیلا چھوڑتے
ہوئے اپنا ہپس کو سیٹ پر رکھ دیا وہ اب اشششششش وائی وائی کے بجائے افففففففف آآآ
کہہ رہی تھی میں نے سائقہ کی پتلی کمر کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہو اس کے گول
مکھن کے پیڑوں جیسے بوبز پر اپنے ہونٹ جوڑ لئے میں آہستہ آہستہ آخری لذت بھرے
لمحات کی طرف بڑھ رہا تھا اور مجھے بھرپور جھٹکوں کی طلب ہو رہی تھی لیکن زھرا کی
کپیسٹی کم تھی اور وہ میرا پورا ساتھ نہیں دے پا رہی تھی میں نے زھرا کی ٹانگوں کو
پاؤں کے قریب سے پکڑ کر ٹانگوں کو تھوڑا اوپر اٹھایا اور کمر کو حرکت دے کر کسی
مٹھی سی جگہ میں جکڑے ببلو کو آہستہ سے ہلانا شروع کر دیا زھرا وشش وششش وششش آآآآ
ماااا ۔۔موں ۔۔۔ نی کر۔۔۔۔۔۔اونہہہہہ اس وقت ببلو اپنی سائیڈوں کے آس پاس پہلے سے
قدرے نرمی محسوس کر رہا تھا میں زھرا کی آوازوں کے پرواہ کئے بغیر ببلو کو آہستہ
سے ہلاتا رہا کوئی خیال آتے ہی میں نے زھرا کی ٹانگوں کو تھوڑا اور اوپر اٹھایا
اور اپنا سر تھوڑا سائیڈ سے نیچے کر کے ببلو کے نیچے زھرا کی لکیر کو دیکھا وہاں
بلڈ کے کوئی نشان نہیں تھے ۔۔۔۔۔ ببلو چھ انچ اندر جا کر دو انچ کی حرکت لے رہا
تھا اور لذت کے۔ ان آخری لمحات میں دل بھرنے کے لئے یہ کافی نہیں تھا لیکن میں
زھرا کو دوبارہ مزے کے لمحات میں لاکر چھوڑنا چاہتا سائقہ مسکراتے ہوئے مجھے اشارہ
دے رہی تھی کہ ڈال دو ۔۔۔۔لیکن میں اس کا جواب صرف مسکراہٹ سے دے رہا تھا وہ زھرا
پر جھکتے ہوئے بولی ماموں سے بولو کہ جلدی جلدی کرو۔۔۔۔ زھرا نے اپنا چہرہ سائیڈ
پر پھیر کر اپنے لبوں کو دانتوں تلے دبا کر اب صرف اونہہہہ اونہہہہ کر رہی تھی میں
نے سائقہ کو آگے آنے کا اشارہ دیا اور زہرا کے چھوٹے ہپس کو پکڑ کر اوپر اٹھا دیا
ببلو باہر آ کر اوپر کو تن کر آرام سے کھڑا ہو گیا زھرا نے عین مزہ آنے کے ٹائم
ببلو کے باہر نکل جانے پر افسوس سے اسے دیکھا اور میرے کہنے پر نیچے سے نکل گئی
میں نے ہاتھ بڑھا کر ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے سے کنڈومز کا پیکٹ نکالا اور ایک کنڈوم
سے پنی الگ کر دی میں نے صفائی والا پیلا کپڑا اٹھا کر ببلو کو خشک کر دیا اور
کنڈوم کو ببلو پر پورا کھول دیا سائقہ اپنے ہپس اٹھا کر میری جھولی میں لا رہی تھی
میں نے اس کے موٹے ہپس کے پانی کی لہروں کی طرح ہلتے ہپس کے گوشت کو اپنی مٹھیوں
میں بھرا اور اسے الٹا کرنے لگا سائقہ نے ایک لمحے کے لئے رک کر مجھے کھا جانے
والی نظروں سے دیکھا اور پھر عجلت میں گھوڑی بنتے ہوئے میرے سامنے اپنے ہپس پیش
کرتے ہوئے بولی لو اپنا شوق پورا کرو تممممممم۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے سائقہ کے
سفید ریشمی ہپس پر تھپکی دی لوشن کنڈوم کے اوپر لپیٹی اور سائقہ کی کمر ضرورت سے
زیادہ نیچے کر کے ہپس کو اوپر اٹھا دیا زھرا فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر سفید برقعے میں
اپنا جسم لپیٹ چکی تھی اور آس پاس کا جائزہ لے کر سائقہ کے ساتھ بننے والے میرے
نئے سٹائل کو دیکھ رہی تھی میں نے ببلو کو آپس میں چپکے ہپس کی لکیر میں برش کی
طرح چلا کر ہول پر رکھ کر ایک لمحے کو رکا تو سائقہ نے سیٹ پر پڑے اپنے ہاتھوں کی
مٹھیاں بند کرتے ہوئے سسی ی ی ی ی کی ہلکی آواز نکالی ۔۔۔اور میں نے ہنس کر ببلو
کو تھوڑا اور نیچے لا کر ببلی میں ڈالتا چلا گیا سائقہ ہلکی سی ہنسی کے بعد اپنے
ہپس کو میری طرف دھکیلنے لگی وششششش وشششششش آآآآآآآ آئی۔۔۔۔۔ اونہہہہہہہہہہہہہہ
کے ساتھ اپنے ریشمی ہپس کو میرے جسم سے ٹکرا دیا میں نے سائقہ کے کندھوں کو پکڑ کر
ہلکے جھٹکے مارنے لگا میرے جسم سے ٹکراتے ہپس سے سائقہ کا مزہ دوبالا ہونے لگا اور
وہ میرے سے بھی تیز ہوتی جا رہی تھی میں اس کے کندھوں کو پکڑ کر جھٹکے مار رہا تھا
اور اس سٹائل میں سائقہ کا چھوٹا بھرا بھرا جسم اور بھی دلکش منظر پیش کر رہا تھا
اس کا سینہ اور پیٹھ اوپر اٹھ گئی تھی پتلی کمر کمان بن کر ہپس کو اوپر لہرا رہی
تھی اششششش اشششش کے ساتھ سائقہ نے بولا جلدی ۔۔۔۔۔ اور اس کے اس ایک لفظ نے میرے
جسم میں کرنٹ بھر دیا ۔۔پانچ تالی جیسی آواز پیدا کرنے والے میرے جھٹکے نے سائقہ
کے جسم کو اکڑا اور میری آنکھوں کے آگے قدرے اندھرا پھیلا دیا سائقہ اپنے ہپس کو
تھوڑا پیچھے دھکیل کر رک چکی تھی اور میں نے بند آنکھوں کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے اس
کی پتلی گول کمر کو زور سے پکڑ کر رک چکا تھا گرم لاوے ببلو کے ڈنڈے کی سائیڈوں پر
پھیل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ کے جسم ڈھیلا چھوڑنے کے ساتھ میں نے آنکھیں کھول کر
ہاہر دیکھنے لگا پانچ کوے کچھ فاصلے پر بیٹھے گاڑی کو دیکھ کر پوچھ رہے تھے کہ یہ
جنگل میں منگل کس نے لگایا ہوا ہے ۔۔۔ میں نے سائقہ کے ہپس پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا
آگے کرنا چاہ سائقہ نے اپنی رانوں کو آپس میں ملا کر اپنے جسم کو آگے سرکا دیا اس
مست سٹائل کی مووی دیکھ کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھی زھرا کی آنکھوں میں مستی بھری ہوئی
تھی اور وہ سفید برقعے کا پلو دانتوں تلے دبا کر مجھے رحم طلب نظروں سے دیکھ رہی
تھی ۔۔۔ میں نے کپڑا اٹھایا اور اس کو ببلو پر پکڑ کر کنڈوم اتارا اور گاڑی کا گیٹ
کھول کر اپنا ہاتھ باہر نکال کر کپڑے کو جھٹکا دے دیا کوے کائیں کائیں کرتے اڑ گئے
میں نے پانی کی بوتل اٹھا کر ہاتھ دھوئے اور کھڑکی بند کر دی ۔۔۔ سائقہ بولی آج آپ
نے میری دوست کی جان نکال دی چھوٹی سی ہے بچاری ۔۔۔زھرا فٹ سے بولی اتنا بڑا اور
سخت میں نے آج تک نہیں دیکھا سائقہ اپنا چہرہ اپنے گھٹنوں میں چپا کر کھلکھلا
ہنستے ہوئے بولی ۔۔ ٹوٹل کتنے دیکھے۔۔؟؟ ۔۔ زھرا سر جھکا کے خاموش ہو گئی میں نے
اٹھ کر فرنٹ سیٹ کے آگے پڑے شاپر کو اٹھایا اور زھرا کے جسم پر لپیٹے سفید برقعے
کو کھینچ کر بولا اسے اتارو اور پیچھے آ جاؤ میں اپنے پسندیدہ سٹابری جوس کے بڑے
ڈبے اور ڈسپوزل گلاس نکلالے اور ایک گلاس بھر کر سائقہ کے لبوں سے لگا دیا اور
پیار بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے دو چھوٹے گھونٹ لیکر گلاس میرے ہاتھ سے لیا
اور میرے لبوں پر رکھتے ہوئے بولی تم نے بہت محنت سے کام کیا ہے یہ سارا ڈبہ تم خود
پی کر اس پائپ سے ہمیں پلا دینا (وہ ببلو پر ہاتھ لگا کر بولی) اور قہقہہ لگانے
لگی میں نے اس کے ہاتھ میں پکڑے گلاس سے دو گھونٹ جوس لیا اور دوسرا گلاس بھر کر
اپنے دائیں طرف بیٹھی زھرا کے لبوں پر رکھ دیا زھرا نے مسکرا کر ایک گھونٹ جوس کا
لیا اور گلاس میرے ہاتھ سے لے لیا سائقہ نے چپس کے پیکٹ سے تھوڑے چپس نکالے اور
اپنا ہاتھ میرے ہونٹوں کی طرف بڑھا دیا میں چپس منہ میں لینے کے بجائے اس کے ہاتھ
کو کسنگ کرنے لگا وہ کافی دیر انتظار کرتی رہی پھر زبردستی چپس میرے منہ میں ڈالتی
ہوئی بولی ۔۔۔ بھوکے ہر وقت گوشت اچھا نہیں ہوتا کچھ اور بھی کھا لیا کرو۔۔۔۔۔۔میں
کافی دیر تک سائقہ کی مزیدار باتوں کا لطف اٹھایا کہنے لگی ماموں اس بار میری دوست
کا خیال کرنا ہے جھٹکا نہیں مارنا وہ منع نہیں کرے گی آپ بیشک پورا ڈالو لیکن آرام
سے ۔۔۔زھرا سر جھکا کے بولی میں اب نہیں کرتی بس ۔۔۔ سائقہ بولی نہیں کرتی ۔۔۔۔اصل
مزہ تو اب آگے گا وہ تو تیری ٹریننگ تھی ۔۔۔۔ میں نے کہا کہ کیوں اسے ڈرا رہی ہو
سائقہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے ببلو کو پکڑ کر کھینچا اور بولی آج رس گلے نہیں لائے
۔۔۔۔ میں نے اوہ ہ ہ ہ کہ کر اپنا ہاتھ شاپر میں ڈالا اور شہد کے چھوٹی شیشی نکال
لی سائقہ نے شیشی میرے ہاتھ سے لیکر اس کے لیبل کو پڑھا اور پوچھا اس کو کیا کرو
گے میں نے کہا بتاتا ہوں ۔۔۔۔ پھر میں نے سائقہ کو اپنی گود میں لٹایا اور شہد کی
لکیر کو اس کے مکھن کے پیڑوں جیسے ریشمی بوبز پا گرانے لگا آدھی سے زیادہ شیشی
خالی کرنے کے بعد میں نے شہد کی شیشی زہرا کے ہاتھ میں دے دی اور بوبز پر پھیلت
شہد کو چاٹنے لگا بوبز کے دھلنے تک سائقہ کی وشششش وشششش اور ببلو کے فراٹے شروع
ہو گئے تھے میں نے حیرت سے دیکھتی زھرا کے ہاتھ سے شہد کی شیشی لیکر آس کے بوبز پر
بھی شہد گر دیا اور چاٹنے لگا ساتھ اس کی ٹانگوں کو لمبا کرتے ہوئے پیچھے بیٹھی
سائقہ کو لوشن کی بوتل تھما دی وہ اپنے ننھے ہاتھوں پر لوشن بھر کر پورے ببلو پر
لپیٹنے کے بعد ببلو کے نیچے لگے جھولے پر لوشن لگاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ شاباش ماموں
سب کچھ ڈالنا ہے ۔۔۔۔ میں نے اپنے سینہ زھرا کے بوبز پر ٹکا کر اپنے ببلو کو زھرا
کی ببلی کے منہ پر لانے کے لئے گھما رہا تھا پیچھے بیٹھی سائقہ نے دبی ہنسی کے
ساتھ ببلو کے ڈنڈے کو ببلی کے منہ پر جوڑ دیا میں مسکراتے ہوئے پیچھے دیکھنے کی
کوشش کے ساتھ ببلو کو زھرا کے اندر بھرنے لگا زھرا ۔۔۔ وشششششششششش ماموں ۔۔۔۔۔
نی۔۔۔۔۔۔ کرووووعو۔۔۔۔ بولا تو سائقہ نے میرے ہپس کو پکڑتے ہوئے ہنس کے زھرا سے
بولا ۔۔اچھے بچے ماموں کو نہ نہیں بولتے ۔۔۔ پھر مجھے آگے دھکیلتی ہوئی بولی ڈالو
ڈالو۔۔۔۔۔ میں بغیر رکے سات انچ تک ببلو کو اندر ڈالنے کے بعد رک گیا ۔۔۔۔ زہرا نے
ایک بار پھر پانی چھوڑ دیا تھا اس کی ٹائمنگ بہت کم تھی ۔۔۔ میں اس کے لبوں کو
اپنے ہونٹوں میں لپیٹ کر جھٹکے لگانے لگا زھرا اونہہہہہہہہہہ اونہہہہہہہہ کے ساتھ
مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی سائقہ نے میرے پاؤں کی تلیوں کو چومنا شروع کر دیا تھا
پانچ منٹ میں ہی زھرا نے وشششششش وششششش کے ساتھ اپنی ببلی کو پھر پانی سے بھر دیا
تھا میں چند لمحے ساکت پڑا رہا پھر ببلو کو نکالتے ہوئے اٹھ گیا سائقہ نے زھرا کا
بازو پکڑ کر اسے آگلی سیٹ پر جانے کا بولا سائقہ کے جسم میں تیزی بھر گئی تھی اس
نے کپڑے سے سیٹ کو صاف کرتے ہوئے مجھے لیٹنے کا بولا اور لوشن کی بوتل اٹھا لی
سائقہ کے چہرے پر درد کی لکیریں ظاہر ہونے لگی اور اس کے ہپس نیچے آتے گئے پھر اس
نے اپنے بوبز میرے سینے کے نچلے حصے پر ٹکا دئیے اور اپنی پتلی کمر اٹھا اٹھا کر
ہپس اٹھا اٹھا کے مارنے لگی ساتھ آنکھیں بند کر کے اففففففف آآآآآآآ جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشش۔ اونہہہہہہہ کہتی جا رہی تھی میں دریا کی لہروں کی طرح مچلتے ہپس کو دیکھ کر
دل کے تاروں کو مست کر رہا تھا کچھ دیر بعد وہ جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر میرے اوپر
ساکت ہو گئی تھی میں نے اس دوران کنڈوم کو پنی سے نکال لیا تھا میں نے اپنی ٹانگوں
کو تھوڑا کھڑا کیا اور اٹھنے کی کوشش کی تو سائقہ لمبے سانسوں کے پیچ آہستہ سے
بولی ۔۔۔صبررر۔۔۔۔ میں رک گیا تھوڑی دیر بعد وہ ایک بار پھر اپنے ہپس کو حرکت دینے
لگی میں سائقہ کے ریشم جیسے بدن کا لمس اپنے جسم پر محسوس کرتے لذت کے آخری لمحات
کو بڑھ رہا تھا اور کنڈوم کو ہاتھ میں پکڑے دو بار سائقہ کے گال پر تھپکی دیکر اسے
اٹھنے کا اشارہ دے چکا تھا لیکن وہ بند آنکھوں اور تیز سانسوں کے ساتھ اپنے ہپس
اٹھا اٹھا کر پورے ببلو کا مزہ لے رہی تھی وہ خود بھی آخری لمحات میں داخل ہو چکی
تھی اور ببلو کے اس کے اندر پچکاری مار جانے کے خوف سے میں نے اسے ہپس سے پکڑ کر اپنے
سینے کے اوپر کھینچ لیا ببلو غصہ میں اکڑ کر۔مذید آگے کو اٹھ آیا تھا میں نے سائقہ
کو دوسری طرف لٹاتے ہوئے ببلو کو کپڑے سے خشک کر کے اس کو کنڈوم میں لپیٹنے لگا
اور سائقہ اٹھ کر گھوڑی بنتے ہوئے بولی پہلے جیسے تیز تیز کرو میں نے اس کے آپس
میں چپکے ہپس کو مٹھیوں میں بھرا اور ایک دم ببلو آگے بڑھاتا گیا آواز دار دس بارہ
جھٹکے مارنے کے بعد میں رک گیا سائقہ نے ایک بار اپنے ہپس کو زور سے پیچھے مار کر
اکڑنے لگی میں بند آنکھوں کے ساتھ سائقہ کو اپنی طرف کھینچ کے ساکت بیٹھا تھا اور
ہم دونوں کی لمبی سانسیں آہستہ آہستہ اپنے میعار پر آ رہی تھی کہ زھرا کی آواز آئی
جلدی کرو بہت دیر ہو گئی میں نے آنکھیں کھول کر باہر کا جائزہ لیا اور موبائل اٹھا
کر دیکھا 12:10 بج چکے تھے ہمیں جہاں تک پہنچنے میں 35 منٹ لگے تھے سو میں نے شہد
کی شیشی اٹھائی اور اس میں فنگر ڈبو ڈبو کر سائقہ کے منہ میں دینے لگا اور ایک بار
زھرا کو بھی میٹھا شاید چٹا دیا میں نے ببلو کو سائقہ کی ببلی سے آہستہ سے نکالتے
سوچ رہا تھا کہ اتنے بڑے ببلو کو سائقہ اپنے نازک اور چھوٹے جسم میں کہاں چھپا
لیتی ہے ۔۔۔۔ میں شیڈی میں بچے شہد کو سائقہ کے ہپس پر گرانا شروع کر دیا اور شہد
کی لکیر کو ہپس کے دونوں پٹ پر پھیلا رہا تھا سائقہ مجھے شاید سے زیادہ میٹھی لگ
رہی تھی میں شہد سے زیادہ اس کے نرم ہپس کو منہ میں بھر رہا تھا سائقہ میرے ہاتھ
کو چومے جا رہی تھی زھرا نے آواز لگائی سائقہ پاگل نہیں بنو ۔۔۔۔ بہت لیٹ ہو رہے
ہیں .,. سائقہ بولی بس خیر ہے لیٹ ہونے سے گھر وال مار دیں گے ناں بس مار دیں ناں
۔۔۔۔ زھرا بولی تمھیں کوئی کچھ نہیں کہے گا مجھے سچ میں مار دیں گے ۔۔۔سائقہ مجھے
بولی اپنی خواہش پوری کرو آپ۔۔۔۔ میں نے کہا تم کچھ ۔۔۔۔ سائقہ اٹھتے ہوئے بولی
ہاں وہ سیدھی ہو کر لیٹ گئی اور بولی میرے اوپر لیٹ جاؤ میں سائقہ کے اوپر لیٹ گیا
۔۔۔ سائقہ نے زھرا کو آپ کپڑے پہن لو ۔۔۔بس چلتے ہیں سائقہ پوری طرح مجھے اپنے
بازوں میں پورا بھرنے کی کوشش کر رہی تھی وہ میرے سینے پر بےتحاشہ کسنگ کرتے ہوئے
بولی ۔۔۔ بہت شکریہ میں بہت بےچین تھی پڑھائی بھی نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ بولی سکول
گھر ہر جگہ تیرا عکس سامنے آ جاتا تھا میں نے کہا اب کیا کرو گی ۔۔۔وہ ہنس کے بولی
صرف پڑھائی تاکہ اچھے نمبر لیکر کالج میں داخلہ لے سکوں میں نے اس سے عہد لیا کہ
اب پیپر ختم ہونے تک مجھے تنگ نہیں کرو گی ہنستے ہوئے بولی اگر موقع ہوا تو پھر ضرور
آؤ گے میں نے اوکے کہہ دیا 1:10 بج چکے تھے چھٹی ہونے سے بیس منٹ باقی تھے میں نے
اپنی پینٹ شرٹ۔کے ساتھ بڑا شاپر بھی اٹھا لیا میں نے بٹوے سے ایک ہزار روپے اور
شاپر سے ایک ریڈی میٹ سوٹ نکال کر زھرا کی طرف بڑھایا وہ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹتے
ہوئے بولی میں نہیں لیتی سائقہ نی اصرار کیا تث بولی امی کو کیا کہوں گی ۔۔سا،قہ
بولی یہ بھی کوئی مسئلہ ہے پیسے آپ چھپا لو اور سوٹ کا کہنا کہ رستے سے شاپر گرا
ہوا ملا ہے پھر سائق ہنس کے بولی اوپر سے میں گواہی دے دونگی زھرا قدرے مطمئن ہو
گئی اور شاپر میرے ہاتھ سے لے لیا میں ڈرائیونگ سیٹ پر آ گیا تھا زھرا کپڑے پہن
چکی تھی سائقہ نے اسے پیچھے بلا لیا اور خود آگے آتے ہوئے زھرا سے بولی میرے کپڑے
اور برقعہ بیگ میں ڈال دو میں نے بٹن دبا کر زھرا کے ساتھ والی کھڑکی کا شیشہ اتار
کے زھرا سے کہا کہ اس کے کپڑے باہر پھینک دو ۔۔۔۔ زھرا مسکراتے ہوئے مجھے دیکھنے
لگی سائقہ نے اپنی پونی بھی اتار کے زھرا کو دی کہ اسے بھی پھینک دو میں آج بستی
میں صاف ستھری ہو کر جاؤں گی میں نے زھرا کو اشارہ دیا اور اس نے کپڑے گاڑی سے
باہر پھینک دئیے میں نے بٹن دبا کر شیشہ اوپر چڑھا دیا اور گاڑی آگے بڑھا دی سائقہ
نے مسکراتے ہوئے اپنی دائیں ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر رکھتے ہوئے ہپس میری طرف موڑ
دئیے اور مسکراتے ہوئے باہر دیکھنے لگی تقریباً دوسو فٹ آنے کے بعد وہ قہقہے لگاتے
ہوئے سوری کرنے لگی کہ گاڑی موڑو پیچھے زھرا نے کہا آپ کے مذاق میں بہت لیٹ ہو رہے
اور امی سے مجھے مار پڑواؤ گے کہ پھر میں نہ آ سکوں کبھی سائقہ کے قہقہے گاڑی کو
ہلا رہے تھے وہ ہنستے ہنستے گٹھڑی بن گئی پھر بولی جلدی سے پیچھے مڑو زھرا لیٹ ہو
گئی تو آپ کی ایک دوست کم ہو جائے گی میں نے ہنستے ہوئے گاڑی کو تیزی سے پیچھے موڑ
لیا اور اس جگہ پہنچ کر زھرا کو نیچے اترنے سے روک کر سائقہ کو بولا کہ وہ خود اتر
کر اپنے کپڑے اٹھائے ۔۔۔ وہ منتیں کر رہی تھی مگر میں اپنی شرط پر قائم رہا پھر اس
نے گاڑی کا گیٹ کھولا اور ادھر ادھر محتاط انداز میں دیکھنے لگی اور گھبرا کر جیسے
ہی اترنے لگی میں نے اس کی کمر کو پکڑ کر اپنے قریب کر لیا اور زھرا کو جانے کا
اشارہ دیا وہ بھاگ کر کپڑے اٹھا لائی تھی اور میں سائقہ کو کسنگ کر کے گاڑی کو
تیزی سے آگے بڑھا دیا سائقہ ہنستے ہوئے کپڑے پہنتی جا رہی تھی اور پھر پوچھا اپنی
نئی دوست کے لئے تو سوٹ لائے اور پیسے بھی دئیے میرے لئے کیا لائے ہو ۔۔؟؟ میں نے
سائقہ کے دوسری بار پوچھنے پر۔کہا۔۔۔ تمھارے لئے لن لایا ہوں وہ ہنستے ہنستے اپنے
سر گھٹنوں پر لے گئی گاڑی اس ٹیلوں والے میدان سے اوپر چھوٹی پکی سڑک پر آ چکی تھی
اور میں سپیڈ بڑھا چکا تھا سائقہ بولی پھر بتاؤ تو۔۔ کیا لائے ہو شہر سے میں نے اس
کے اصرار پر ایک بار پھر کہا تمھارے لئے لن لایا ہوں وہ پھر قہقہہ لگاتے ہوئے بولی
وشششششش میرا کلیجہ ٹھنڈا کر دیا گاڑی کی بےتحاشہ سپیڈ اور جمپ لگنے سے وہ ہچکولے
کھا رہی تھی بولی۔اس وقت بھی مجھے ایسے اٹھا ٹھا کے مارا کرو مجھے ایسے بہت مزہ
آئے گا ۔۔۔۔ گاڑی مین روڈ پر گاڑی کو سائقہ کی بستی کی سائیڈ پر۔موڑتے ہوئے میں نے
ٹائم دیکھا 1:29بج چکے تھے یعنی اس کے سکول کی چھٹی ہو چکی تھی اور ہمیں اس سپیڈ
سے بھی کم سے کم سکول تک پہنچنے میں دس منٹ درکار تھے جبکہ آگے کچے راستے پر یہ
سپیڈ ممکن نہیں تھی پچھلی سیٹ پر بیٹھی زھرا بہت پریشان ہو رہی تھی میں نے اسے
تسلی دی سائقہ بولی ماموں میرے لئے جو چیز لے۔کر آئے ہو وہ مجھے دیکر جانا ایسے نہ
بھاگ جانا ۔۔۔میں نے پوچھا کیا کرو گی اس کو بولی۔مجھے اس کی ہر جگہ ضرورت ہوتی ہے
بس آپ دے کے جانا ہے ایسے میں نہیں جانے دوں گی میں نے کہا نہیں تم بہت فضول خرچ ہو
تم اسے ضائع کر دو گی میں تیرے لئے سنبھال کے رکھوں گا بولی نہیں تم سارا زینت کو
کھلا دو گے ۔۔۔ میں نے مسکرا کے اسے دیکھا وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے معصومانہ انداز میں
بولی ماموں پلیز بچوں کا دل تو نہیں دکھاتے ایک چیز دے جاؤ گے تو آپ کے پاس کیا
کمی رہ جائے گی ۔۔مین روڈ سے کچے رستے پر۔مڑتے ہی سائقہ پیچھے چلی گئی تھی اور
برقعہ پہننے لگی تھی تھوڑا آگے سکول سے بہت پہلے لڑکیوں کے گروپ آنے شروع ہو گئے
تھے یہ دونوں آگے والی سیٹوں کے پیچھے چھپی بیٹھی تھی اور اپنے برقعے اور لباس
درست کر رہی تھی سکول کے آگے سے گاڑی ٹرن کی تو سکول کا چوکیدار تالا لگا کر اپنی
سائیکل اٹھا رہا تھا بستی سے کچھ پہلے رستے پر درختوں کے ایک جھنڈ کی اوٹ میں میں
نے گاڑی روکی اور یہ دونوں اتر کر جلدی سے آگے بڑھ گئیں میں نے ٹائم دیکھا تو
مطمئن ہو گیا یہ دونوں اپنے مقرر وقت پر آسانی سے گھر پہنچ سکتی تھیں کیونکہ ابھی
ان کا فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا میں نے گاڑی کو پیچھے موڑ لیا اور میوزک پلیئر
آن کر دیا دل کتھے کھڑایا ای بھولیا۔۔۔ گل روونڑ پا لئی او بھولیا دل کتھے کھڑا
لئی ۔۔۔جگ تھگ باز دا علم تاں ہایا ۔۔۔ناز ادائی تے ڈلنڑا نایا۔۔۔منوکھ لوا لائی
بھولیا دل کتھے کھڑا لئی بھولیا۔۔۔۔ دل کتھے ۔۔۔۔۔ فل والیم کے ساتھ گاڑی اس کچے
رستے پر آہستہ آہستہ بڑھ مین روڈ کی طرف بڑھ رہی تھی میں صبح سویرے ہی اس گاڑی میں
گھسا تھا اور ابھی تک باہر نہیں نکلا تھا اور مجھے اب یہ ہنڈا سوس ایک چھوٹا گھر
لگنے لگی تھی ۔۔۔۔ سائقہ کے پاس سے آئے مجھ بیس دن سے زیادہ ہو گئے تھے اور سائقہ
سے میسج پر بات ہو جاتی تھی جبکہ اس کا ابو ڈیلی کال کر کے حال احوال کر لیتے تھے
ان کی واپسی کے دن قریب آ گئے تھے جبکہ دوسری طرف میں ابھی تک زینت سے نہیں مل سکا
تھا ہاں البتہ جب نعمت گھر سے آؤٹ ہوتا تو ہماری کھل کر باتیں ہوتی تھی زینت
تقریباً تین ماہ کی پریگنٹ ہو چکی تھی اور اس کا کہنا تھا کہ اس کے بھائی کی۔شادی
کے۔موقعہ پر میں نے اس کو پریگنٹ کر دیا تھا ایک روز سائقہ کا ابو پھر میرے پاس آ
گیا۔وہ جہاں کے۔ماحول پڑھائی کالج اور ہاسٹل کا جائزہ لینا چاہتا تھا میں نے اسے
کالج اور پرائیویٹ ہاسٹل دکھا دیا تھا اور بہت بہتر ماحول کی یقین دہانی کرا کر
واپس بھیج دیا والے خاصا مطمئن ہو کر اپنی بیگم کے بھائی پر اعتماد کرتا واپس چلا
گیا تھا اگلے ہفتے اس کی واپسی تھی اور جانے سے پہلے مجھے اپنے ہاں کھانے کی دعوت
دے دی ان دنوں سائقہ کے پیپر ختم ہو چکے تھے میں شاکرہ کو اس کی امی کے گھر پہنچا
کر میں شام سے کچھ دیر پہلے سائقہ کے گھر پہنچ چکا تھا سائقہ کے ابو نے میرا
استقبال کیا میں اس کے ابو اور امی کے ساتھ کمرے میں بیٹھا باتیں کرنے لگا سائقہ
اس بڑی حویلی کے ایک کونے میں بنی دوفٹ اونچائی کی Lکے
ڈیزائن میں بنی دیوار کے پیچھے بیٹھی دھواں ہو رہی تھی کچھ دیر بعد سائقہ آئی اور
سلام کرتے ہوئے پوچھا کیسے ہیں ماموں ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کے اسے سلام کا جواب دیا
وہ بیٹھ کر پوچھنے لگی کہ بیگم صاحبہ ٹھیک ہے پھر اپنے ابو کو بتانے لگی کہ بیگم
صاحبہ بھی ماموں کی طرح بہت اچھی ہیں ہمیں بہت پیار اور عزت دی ماموں ہم سب کو
پارک لے۔گئے تھے میں نے امی کی بہت منتیں کی کہ جہاز والے جھولے پر بیٹھ جاؤ لیکن
امی نہیں بیٹھی ۔۔۔ اس کے ابو نے پوچھا آپ بیٹھی تھی سائقہ بولی ہاں مجھے تو اس پر
بہت مزہ آتا ہے پہلے بار جب بیٹھی تو تھوڑا ڈر لگا اب تو میرا دل چاہتا ہے روزانہ
نہیں تو ایک بار اس کا مزہ ضرور لو زینت بھی بیٹھی تھی ۔۔۔اس کے ابو نے مسکراتے
ہوئے کہا کہ آپ کا رزلٹ اچھا آیا تو کالج داخلہ لیں گے آپ کا پھر جی بھر کے جھولے
پر بیٹھنا اور پڑھائی بھی کرنا وہ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولے بھائی میں کل واپس
قطر جا رہا ہوں اس نے باجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لی بہن کی اور میری
بھی خواہش ہے ، کہ سائقہ کسی اچھے کالج میں پڑھے اور ہم صرف آپ پر اعتماد کرکے اسے
آپ کے سپرد کر رہے یہ سادہ سی لڑکی ہے بستی کی اسے شہر کے حالات کا علم نہیں ہے
اور یہ نہیں سمجھتی آپ نے اس کا خیال رکھنا ہے میں پہلی بار آپ کی بہن سے محبت
دیکھ کر صرف آپ پر اعتماد کر رہا ہوں میں نے باجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ
میں نے اسے بہن بنایا ہے اور اس پر پورا اتروں گا اورآپ کے اعتماد پر پورا اتروں
گا سائقہ کو وہاں کوئی تکلیف نہیں ہو گی ۔۔۔سائقہ بولی ماموں کے ہوتے ہوئے مجھے
کوئی فکر نہیں ہو گی بیگم صاحبہ بھی ہمارا بہت خیال کرتی ہے ماموں کو جب بھی کسی
مسئلے کا ذکر کرتے ہیں یہجب یہاں آ جاتے ہیں تو ادھر تو کے۔قریب ہونگی تو اس سے
بھی زیادہ خیال رکھیں گے ۔۔۔ سائقہ۔کا ابو بولا آپ نے بھی ماموں کا دل نہیں دکھانا
جیسے بہتر سمجھیں گے ویسے آپ کی بہتری کے لئے کریں گے اور آپ نے انکار نہیں کرنا
اور کسی کی باتوں میں نہیں آنا سائقہ بولی۔مجھے اور کسی کی پرواہ بھی نہیں ہے
۔۔۔۔۔ پھر اس کا ابو مجھ سے بولا بھائی میں کل شامِ کو چلا جاؤں گا اپنی بہن کے
پاس جب جی کرے آ جائیں اور ڈاکٹر طاہر سے ان کا باقاعدہ چیک اپ کرا دیا کریں ہمارا
یہاں آپ سے بڑھ کر کوئی اعتماد والا بندہ نہیں ہے میں نے کہا آپ بالکل فکر نہ کریں
میں سنبھال لوں گا ۔۔۔۔ رات کھانے میں دیسی گھی میں بنا دیسی مرغ پلاؤ مکھن فروٹس
کے ساتھ لسی کا اہتمام بھی کیا گیا تھا کھانے کے بعد بھی ہماری گفتگو کا سلسلہ
جاری رہا سائقہ کے ابو بولے بھائی بس سائقہ کی ساری ذمہ داری آپ کی ہے میں صرف آپ
کو پیسے بھیج دیا کرونگا میں نے کہا کہ جب ساری ذمہ داری مجھ پر ہے تو آپ پیسے
کیوں بھیجیں گے بولا۔نہیں یہ ٹھیک نہیں ہو گا میں نے کہا کہ۔نہیں اتنا۔کرنا مجھ پر
لازم ہے سائقہ۔بولی۔ابو ماموں کو کہہ دو یہ ڈیلی اگر ایک گھنٹہ مجھ ٹیوشن پڑھا لیں
تو سب سے بہتر ہو گا یہ بہت اچھے پڑھے لکھے ہیں سائقہ کا ابو۔بولا میرے خیال میں
یہ۔آپ کو ایک کے بجائے دو گھنٹے دے دیں گے میں نے اوکے کردیا ۔گھر کے صحن میں
چارپائیوں پر پر ایک طرف میرا اور سائقہ کے ابو کا بستر لگا دیا سائقہ مجھے اپنی
باتوں اور اداؤں سے بہت ہاٹ کر چکی تھی اس نے بستر لگاتے ہوئے میری ایک دوسرے کے
اوپر رکھی ٹانگوں اور میری بےتابی کو دیکھتے ہوئے کہا ماموں ہمارے ہاں اے سی نہیں
لگے ہوئے آج کی رات ہمارے لئے گرمی برداشت کر لو ۔۔۔۔سوری میرے ابو بھی قطر میں اے
سی کے عادی ہیں اور اب یہاں گرمی میں سوتے ھیں تو رات کو بار بار اٹھتے رہتے ہیں
۔۔۔۔۔شاکرہ کی کال آ گئی تھی میں نے ان سے کہا کہ صبح جلدی نکل آؤں گا پندرہ دن
بعد شاکرہ کی ایک کزن کی شادی تھی بولی باجی کو کہہ دو میں سائقہ اور زینت کو شادی
پر بلواؤ گی اور ان لو شہر کی شادی دکھاؤں گی بچیاں ہیں خوش ہو جائیں گی میں نے
شاکرہ کی باجی سےبات کرا دی۔ ہم رات کو سو گئے تھے سائقہ مست اداؤں سے مجھ پر اپنی
محبت کے پھول نچھاور کرتے اپنے موٹے ریشمی ہپس میری طرف کر کے سو گئی میرا ببلو اس
پکے کمرے کی طرف منہ کرکے مجھ سے کہہ رہا تھا کہ کچھ کرو یار ۔۔۔ لیکن اس وقت
یہ۔ممکن نہیں تھا اور میں ببلو کو تھپکی دے کر سو گیا صبح میں نے تیاری کر لی
سائقہ کے ابو نے شام کو جانا تھا میں ناشتے کے بعد کچھ عجلت سے کام لینے لگا تو
میرے قریب سے گزرتے ہوئے آہستہ سے بولی ۔۔صبرررر ۔۔۔۔۔ میں نے موبائل نکال کر ایک
دوست کو۔کال کرنے لگا اس دوران سائقہ کے گھر میں زھرا آ گئی تھی سائقہ سائیڈ پر اس
کے ساتھ کھڑی ہو کر باتیں کرنے لگی تھی زھرا سفید برقعہ پہنے اس سے ہاتھ ہلا کر کچھ
کہتی چلی گئی اور سائقہ۔مسکراتی نظروں سے میرے سامنے سے گزر کر کچے کمرے میں چلی
گئی دو منٹ بعد سائقہ کا۔میسج آ گیا ۔۔۔ زھرا اکیلی سکول جا رہی ہے راستے سے اسے
اٹھا کر وہیں لے جانا وہ آہستہ چلتی آپ کا انتظار کرے گی اب جاؤ۔۔۔۔۔ میں اٹھ گیا
اور ان سے اجازت لیکر نکل پڑا بستی سے نکلنے کے تھوڑی دیر بعد ہی مجھے سفید ٹوپی
والے برقعے مزھرا اکیلی جاتی دکھائی دی میں نے میوزک پلیئر کے نیچے والے خانے کو
کھول کر اس سے کنڈوم کا پیکٹ نکال کر اپنی سیٹ کے پیچھے پھینک دیا میں آس پاس کا
جائزہ لیتا اس کے قریب سے گزر کر چند قدم آگے گاڑی روک دی اور گاڑی کی پچھلی کھڑکی
کو کھول دیا زھرا نے اندر بیٹھتے ہی کھڑکی بند کر دی اور میں نے سپیڈ بڑھا دی مین
روڈ پر جاتے ہی میں نے زہرا کو فرنٹ سیٹ پر بلا لیا اور وہ سکول بیگ اور سفید
برقعہ اتار کر آگے آ کر دوپٹے سے اپنا آدھا چہرہ چھپا کر مسکرا رہی تھی (جاری ہے
0 Comments
Thanks for feeback